Powered By Blogger

جمعہ, اگست 26, 2022

مولانا جلال الدین انصر عمری کا انتقال علمی اور ملی خسارہ ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

مولانا جلال الدین انصر عمری کا انتقال علمی اور ملی خسارہ ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی
اردو دنیا نیوز٧٢
جماعت اسلامی کے سابق امیر درجنوں علمی دینی اور تحقیقی کتا بوں کے مصنف مولانا جلال الدین انصر عمری کا انتقال بڑا علمی ملی و دینی خسارہ ہے ان خیالات کا اظہار وفاق المدارس اسلامیہ امارت شرعیہ کے ناظم مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے اپنے تعزیتی بیان میں کیا ہے۔مفتی صاحب نے فر مایا کہ مولانا جلال الدین انصر عمری نے اپنی پوری زندگی اقامت دین اور اسلام کی ترویج و اشاعت میں لگا دیا اور آخری دم تک اللہ کی رضا کے لیے کام کرتے رہے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے  پس ماندگان کو صبر جمیل اور جماعت اسلامی کو انکا نعم البدل عطا فرمائے ۔آمین

ابتلاء وآزمائش کا الٰہی نظام ___مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی

ابتلاء وآزمائش کا الٰہی نظام ___
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 انسان کی حالت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی ، وہ خوشی وغمی ، راحت وسکون ، اطمینان وپریشانی  کے حال سے گذرتا ہے ،خوشی ، اطمینان ، راحت سکون سے اس کی زندگی پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں، یہ اثرات کبھی کبھی ذہن ودماغ پر اس قدر حاوی ہوجاتے ہیں کہ غم ، بے اطمینانی اور پریشانی کے احوال اس کے ذہن سے محو ہوجاتے ہے، وہ سب کچھ اپنی محنت کا ثمرہ سمجھتا ہے اور اللّٰہ رب العزت کی ذات اقدس جو ساری نعمتوں کو عطا اور سارے احوال کو طاری کرنے والی ہے ، اس کا خیال جاتا رہتا ہے، ایسے میں اسے آزمایا جاتا ہے تاکہ وہ لوٹ کر اللّٰہ رب العزت کی بار گاہ تک آجائے ، اللّٰہ کو اپنی بار گاہ میں بلانے سے کوئی فائدہ نہیں ، لیکن بندہ بار گاہ خدا وندی تک پہونچ کر ہی کامیابی وکامرانی کے منازل طے کر سکتا ہے، اس لیے اللّٰہ رب العزت بندے کو ابتلاء وآزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، تاکہ بندہ آزمائش کے دور سے گذر کر اللّٰہ سے اور قریب ہوجائے، اس آزمائش سے انبیاء کرام کو بھی گذارا جاتا ہے ، حالاں کہ انبیاء کے دل ودماغ سے اللّٰہ رب العزت کبھی بھی غائب نہیں ہوتے، ہر وقت اللہ کا وجود ان کے سامنے ہوتا ہے اور وہ مرضیات خدا وندی کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتے، لیکن ان کو دوسرے انسانوں کے لیے ماڈل بنایا جاتا ہے، اس لیے انہیں بھی اس دور سے گذرنا پڑتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آزمائش کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف دہ پریشانی اور امراض کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں ملتا ہے، دیگر انبیاء کرام کے احوال بھی جو قرآن کریم کے ذریعہ اللہ رب العزت نے ہم تک پہونچائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہی کوئی نبی ہو جسے ابتلاء آزمائش میں ڈالانہ گیا ہو، ظاہر ہے جو اللہ کے ان پاک  بندوں پر گذری اس سے کسی نہ کسی حد تک امتوں کو بھی گذرنا پڑتا ہے۔ خود اللہ رب العزت نے آزمائش کی چند صورتوں کا قرآن کریم میں ذکر کیا ہے، ان میں خوف ، بھوک، مال وجان اور پیدا وار میں کمی شامل ہے ۔ ایک دوسری آیت میں آزمائش کے بعض دوسرے طریقوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ہے کہ تم ضرور بالضرور آزمائے جاؤگے۔ مال وجان کے مسئلے میں اور ہمتیں ضرور بالضرور نیما پڑیں گی، وہ باتیں جن سے تمہیں سخت تکلیف پہونچے گی ، یہ تکلیف دہ باتیں اہل کتاب او ر مشرکین کی طرف سے آئیں گی ۔(سورۃ آل عمران : ۱۸۶)
قرآن کریم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کو بھی بندوں کی آزمائش کے لیے پید اکیا کہ عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے ،۔ (الملک : ۲) ایک دوسری آیت میں عمومی ابتلاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : روئے زمین پر جو کچھ ہے اسے ہم نے زمین کی زینت بنایا تاکہ ہم ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے بہتر کون ہے ۔ (الکہف)
اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کو ابتلاء وآزمائش سے گذرنا ہی ہوگا، قرآن کریم میں لفظ ابتلاء اور اس کے ملحقات کا سینتیس (۳۷) دفعہ استعمال کیا گیاہے ، اس مقصد کے لیے فتنہ اور امتحان کے الفاظ بھی قرآن کریم میں مذکور ہیں۔
 احادیث میں اس کا ذکر بار بار آیا ہے ، مصعب بن سعد نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ سب سے زیادہ آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے، پھر درجہ بدرجہ انسانوں کی ہوتی ہے۔ بخاری شریف باب الفتن حدیث نمبر ۴۰۲۳ میں ہے کہ بندے کی آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے ہوتی ہے، دین میں پختگی ہوگی تو آزمائش سخت ہوگی اور دینی اعتبار سے سستی ہوگی تو اسی کے مطابق آزمایا جائے گا، یہ آزمائشیں گناہوں کی تلافی کے بھی کام آتی ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بندے کی مسلسل آزمائش ہوتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے ۔
 ان آیات واحادیث کا ماحصل یہی ہے کہ انسانوں کو ہر حال میں آزمائش سے گذرنا ہے، یہ آزمائشیں کبھی خوف طاری کرکے ہوگی ، کبھی جان ومال کے ضیاع کا معاملہ سامنے آئے گا اور کبھی فاقہ کشی کی نوبت آئے گی، مختصر یہ کہ اگر وہ مسلمان ہے اور دین پر سختی سے عامل ہے تو اس کو سخت ابتلاء وآزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا، اس ابتلاء وآزمائش کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین ایسی گفتگو پر اتر آئیں جن کا سننا مؤمن کے لیے سخت تکلیف دہ ہو۔ قرآن کریم میں مال کے ساتھ اولاد کو بھی فتنہ کہا گیا ہے ، ارشاد باری ہے ۔ انما اموالکم واولادکم فتنۃ ،  مال کی کثرت کے بعد انسان جس بد اخلاقی ، بد دینی اسراف اور فضول خرچی میں پڑتا ہے، یہ ابتلا کی مختلف شکلیں ہیں، اسی طرح اولاد اگر تعلیم وتربیت کی کمی کی وجہ سے دین وشریعت سے دور جا پڑے تو وہ والدین کے لیے آزمائش بن جاتا ہے اور اس کے بڑے مہلک نتائج سامنے آتے ہیں۔
 قرآن کریم میں ابتلاء وآزمائش کے لیے مصیبۃ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے وہ مکافات عمل کے طور پر آنے والی آزمائش کے لیے ہے، اللہ رب العزت نے اس کی تفصیل بیان کی کہ جو مصیبتیں تم پر آتی ہیں، وہ تمہارے اعمال ہیں اور وہ بھی سارے اعمال کے بدلے نہیں؛ بلکہ بہت ساری بد عملی اور بے عملی کو اللہ معاف کر دیتا ہے ، تھوڑی بہت پکڑ ہوتی ہے تو بندہ کراہ اٹھتا ہے، اگر سب پر گرفت ہونے لگے تو زندگی اجیرن اور جینا دو بھر ہوجائے ۔ اسی مفہوم کو ایک دوسری آیت میں اس طرح ذکر کیا کہ خشکی وتری میں جو کچھ فساد وبگاڑ ہے وہ انسانوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے یہ تمہارے ہاتھوں کی کمائیاں ہیں۔تاکہ وہ اپنے بعض اعمال کا مزہ چکھ لیں،شاید انہیں لوٹنا نصیب ہوجائے۔
 ابتلاء میں مکافات عمل اور آزمائش دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے، بندہ جب اپنے اعمال کو درست کر لیتا ہے ، انابت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتا ہے تو پھر اللہ کی نصرت اور مد د متوجہ ہوجاتی ہے اور بندہ اس آزمائش سے نجات پاجاتا ہے، ابنیاء جب اس مرحلے سے گذرتے ہیں تو انہیں مقام امامت پر فائز کیا جاتا ہے وہ خلیل اللہ بن جاتے ہیں، عام بندہ جب آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ مقرب الی اللہ ہوجاتا ہے۔
 ابتلاء وآزمائش سے پار گھاٹ لگنے کا جو نسخہ اللہ رب العزت نے ہمیں دیا ہے وہ صبر، تقویٰ اور استعانت بالصلوٰۃ ہے، نماز کا اہتمام کیا جائے، اللہ کے خوف وخشیت سے دل کو آباد کیا جائے او رمصائب پر صبر اختیار کیا جائے، صبر کے معنی بہت وسیع ہیں، ان میں قوت برداشت ، تحمل ، جفاکشی ، ہمت ودلیری ، تکلیف سہنے کا جذبہ یا طاقت سبھی کچھ شامل ہے۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر قسم کی مصیبت ، غم اور پریشانی کے وقت میں اللہ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرنا بھی صبر ہے، پھر اگر دفاع کرنا ہو ہوتو بھی ان امور کا خیال ضرور رکھنا چاہیے، جس کا شریعت نے ہمیں پابند کیا ہے۔
جب صبر کی بات آتی ہے تو بہت سارے لوگ اسے بزدلی قرار دیتے ہیں، خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ نا خوش گوار واقعات پر صبر بزدلی نہیں کام کی حکمت عملی ہے، اور یہ حکمت عملی اللہ رب العزت نے ہمیں بتائی ہے اور اللہ کی تدبیر سے بہتر تدبیر کس کی ہو سکتی ہے ۔ ’’واللہ خیر الماکرین‘‘ اللہ اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔
ہندوستان کے جو حالات اس وقت ہیں اور مسلمانوں پر جس طرح زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہو رہی ہے، روز نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، یہ بھی ابتلاء وآزمائش کی ہی ایک شکل ہے، اور ہم لوگ عام انسانوں کی طرح ہی انسان ہیں، اس لیے عمومی احوال کے اعتبار سے یہ وہ مصیبت ہے جو ہماری بد اعمالیوں کے طفیل ہم پر مسلط کی گئی ہے، ایسے میں ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اسباب کے درجہ میں اپنے اعمال کی اصلاح کریں، ان تمام کاموں سے بچیں جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہوا کرتے ہیں، احکام خدا وندی کی پاسداری اور نبوی طریقہ کی پابندی سے ہم اس ابتلاء وآزمائش سے نکل سکتے ہیں، ہم ساری خرابیوں کی جڑ بھاجپا حکومت ، وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اوردوسرے اہل کاروں کو دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اعمالکم عمالکم‘‘ تمہارے اعمال ہی تم پر حکمراں بن کر مسلط ہو گیے ہیں، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ احوال حکمرانوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے اعمال کے بدلنے سے بدلتے ہیں، اس ملک میں اس سے قبل بھی مسلمانوں کے خلاف طوفان بلا خیز نے اکھاڑ، پچھاڑ مچایا، ان کے جان ومال کا ضیاع ہوا، خوف کی نفسیات نے ان کا جینا دو بھر کر دیا، اس کے باوجود مسلمان اس مصیبت کے دور سے نکلے اور اللہ کی نصرت ومدد ان پر سایہ فگن ہوئی، اور کاروبار حیات میں پھر سے انہوں نے اپنی جگہ بنائی اور سرخرو ہو کر باہر نکلے، ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے، اللہ کی مرضیات پر چلنے کی ہے، بندہ ایک قدم اس کی طرف بڑھتا ہے تو اللہ اس سے قریب ہو جاتے ہیں۔ بندہ اللہ کو مجلس میں یاد کرتا ہے تو اللہ ا س سے اچھی مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہے، بندہ تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ بھی اسے یاد رکھتے ہیں، ابتلاء وآزمائش میں شدت کے با وجود مسلمانوں کا شیوہ نا امیدی کا نہیں رہا ہے، وہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا اور اللہ وہ تو غفور الرحیم بھی ہے ستار العیوب بھی۔

جمعرات, اگست 25, 2022

بلقیس بانو کے مجرمین ___مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بلقیس بانو کے مجرمین ___
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 جس دن ہمارے وزیر اعظم خواتین کے تحفظ اور ان کو با اختیار بنانے کی ضرورت پر یوم آزادی کے موقع سے لال قلعہ کی فصیل سے قوم کو خطاب فرما رہے تھے، اسی دن گجرات سرکار نے ان گیارہ مجرمین کو جیل سے رہا کر دیاجسے عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری معاملہ میں عمر قید کی سزا سنائی تھی،ان مجرمین کی رہائی سے بلقیس بانو کو سخت صدمہ پہونچا اور ان کے شوہر یعقوب رسول حیرت زدہ رہ گیے، برسوں بعد انہیں مجرمین کو سزا ملنے سے اطمینان ہوا تھا، لیکن اب انہیں پھر سے اپنے تحفظ کی فکر ستا رہی ہے کہ کہیں یہ غنڈے پھر سے ان کو ستانے کے لیے نہ آدھمکیں۔
 بات ۳؍ مارچ ۲۰۰۲ء کی ہے جب گجرات فساد کے موقع سے بلقیس بانو پر آفت ٹوٹ پڑی تھی اس کے خاندان کے سات افراد بشمول اس کی تین سالہ بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا تھا، بلقیس بانو اس وقت پانچ ماہ کی ھاملہ تھیں اور ان کی عمر اکیس سال تھی، غنڈوں نے ان کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی، زمانے تک بلقیس بانو ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانے کے چکر لگاتی رہی ، لیکن معاملہ درج نہیں ہوا، بالآخر حقوق خواتین سے متعلق بعض تنظیموں کے ذریعہ معاملہ سپریم کورٹ پہونچا، نامزد ملزم اٹھارہ تھے، لیکن ۲۰۰۸ء میں سی بی آئی عدالت نے چودہ افراد کو مجرم قرار دیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی، تین دنیا سے چل بسے، باقی گیارہ افراد کی سزا کو ممبئی ہائی کورٹ نے بھی بر قرار رکھا، اور مجرمین جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے ۔
آزادی کے پچھہتر سال مکمل ہونے پر مرکزی حکومت نے ایک گائیڈ لائن جاری کیا ، جس کے مطابق طویل مدت سے جیل میں رہ رہے قیدیوں کو آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع سے آزاد کر نے کی تجویز تھی، البتہ مرکزی حکومت نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اس سہولت سے عصمت دری کرنے والے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، اس ہدایت کے خلاف ریاستی حکومت نے ان مجرمین کو رہا کرکے اس ملک کی خواتین کو ذلیل کرنے کا کام کیا ہے، گجرات حکومت کا یہ فیصلہ وزیر اعظم کے اس اعلان کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں انہوں نے خواتین کے تحفظ اور ان کو با اختیار بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا، مجرمین رہا کر دیے گیے، لیکن بلقیس بانو کو سپریم کورٹ کی ہدایت کے با وجود نہ مکان دیا گیا، اور نہ سرکاری ملازمت، اب یہ مجرمین آزاد ہو گیے ہیں ، یہ سب بلقیس بانو کے گاؤں کے ہی ہیں، یہ بات سب کو معلوم کہ گھنونے کام کو کرنے والے بلقیس بانو کے پڑوسی ہی تھے، ایسے میں پھر ایک با ربلقیس بانو کے لیے تحفظ کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے ، طویل قانونی جنگ لڑنے کے بعد بلقیس بانو پھر سے اپنے کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے، اس لیے گجرات حکومت کو ان کے خاندان کے تحفظ کا معقول انتظام کرنا چاہیے کیوں کہ ان مجرمین کے حوصلے بہت بڑھ گیے ہیں اور وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے اوپر حکومت کا ہاتھ ہے، وہ قتل اور عصمت دری جیسے جرائم کے ارتکاب کے با وجود آزادانہ گھوم سکتے ہیں، اور ان کے حامیوں نے جس طرح ان مجرمین کی رہائی کے بعد خوشیاں منائیں، جیل سے باہر آنے پر ان کا استقبال کیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں، یہ ایک خطرناک رجحان ہے، لیکن گجرات میں انتخاب ہونے ہیں، اس لیے حکومت ہندتوا ووٹ کو متحد کرنے کے لیے اس خطرناک رجحان پر پابندی لگانے کے موڈ میں نظر آرہی ۔

ملعون راجہ سنگھ کیخلاف مزید 7 مقدمات درج ، احتجاج جاری ، پتلے نذر آتش

ملعون راجہ سنگھ کیخلاف مزید 7 مقدمات درج ، احتجاج جاری ، پتلے نذر آتش

رات 8 بجے بازار بند، پولیس کی بربریت، رات دیر گئے گھروں کے دروازے توڑکر نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا

حیدرآباد : /24 اگست (اردو دنیا نیوز٧٢) شان رسالتؐ میں گستاخی پر معطل شدہ بی جے پی رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ کی گرفتاری کے بعد فوری رہائی کے خلاف عوام میں ہنوز برہمی کا ماحول ہے اور چہارشنبہ کو بھی احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور راجہ سنگھ کے پتلے نذر آتش کئے گئے۔ راجہ سنگھ کے خلاف آج مزید 7 مقدمات پولیس اسٹیشن عنبرپیٹ ، ملک پیٹ ، چادر گھاٹ ، راجندر نگر اور نامپلی میں درج کئے گئے ہیں ۔ پولیس نے ساؤتھ زون میں فلیگ مارچ کیا۔ احتجاج کے دوران سنگباری کے واقعات بھی پیش آئے۔ شاہ علی بنڈہ آشا ٹاکیز کے قریب آج رات اس وقت کشیدگی پھیل گئی جب احتجاجی نوجوانوں نے پولیس پر سنگباری شروع کردی۔ رات 8 بجے بازار بند کرادیئے گئے اور پرانا شہر عملاً کرفیو کا منظر پیش کررہا تھا۔ رات دیر گئے پولیس نے نشاندہی کے بعد گھروں کے دروازے توڑ کر ان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جو سنگباری میں ملوث بتائے گئے ہیں۔پولیس کی اس بربریت سے گھروں میں خواتین اور بچے انتہائی خوفزدہ ہوگئے اور چیخ و پکار کرنے لگے۔ بتایا گیا ہے کہ گرفتار شدگان میں 3 غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ پولیس نے تقریباً 100 نوجوانوں کو احتیاطی اقدام کے طور پر حراست میں لے لیا جو شاہ علی بنڈہ اور چندرائن گٹہ علاقہ میں احتجاج کررہے تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ نوجوان جہد کار سعید عبداؤ کشف کو بھی پولیس نے اشتعال انگیز نعرہ بازی کے کیس میں حراست میں لے لیا ہے۔ رات دیر گئے ٹاسک فورس کی اس کارروائی کے بعد احتیاطی اقدامات کے تحت پرانے شہر میں بھاری پولیس فورس کو متعین کردیا ہے ۔ تمام تجارتی دوکانوں کو بالخصوص پرانے شہر میں 8 بجے سے قبل ہی بند کرادیا گیا اور یہ احکامات جمعہ تک جاری رہنے کا امکان ہے ۔ پولیس پرانے شہر پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعہ کو بروقت روکا جاسکے ۔ سوشل میڈیا پر بھی کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ آج صبح سے ہی ایک واٹس ایپ میسیج پولیس کیلئے تشویش کا باعث رہا جس میں شام 5 بجے شاہ علی بنڈہ چوراہے پر کثیر تعداد میں احتجاج کیلئے جمع ہونے کی اپیل کی گئی تھی حالانکہ پولیس نے اس میسیج کو گشت کرانے کے پس پردہ افراد کا پتہ لگانے کی کوشش کی لیکن یہ معلوم ہوا ہے کہ نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ریاپڈ ایکشن فورس کے علاوہ کمشنر ٹاسک فورس اور سنٹرل کرائم اسٹیشن و آرمڈ ریزرو پولیس کے پلاٹونس کو بھی پرانے شہر کے حساس علاقوں میں تعینات کردیا گیا ہے اور پولیس کی گشت میں شدت پیدا کردی گئی ہے ۔ کل رات دیر گئے بعض احتجاجی نوجوانوں میں ڈیٹکٹیو انسپکٹر مغل پورہ کی پٹرولنگ گاڑی پر سنگباری کرتے ہوئے اسے نقصان پہنچایا ۔ اسی طرح رات دیر گئے احتجاج کرنے والے بعض نوجوانوں نے بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ کے مکان کو جانے کی کوشش کررہے تھے کہ پولیس نے انہیں علاقہ بیگم بازار کے قریب انہیں حراست میں لے لیا جبکہ بعض نوجوانوں کو اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے زدوکوب کیا جس میں ایک نوجوان زخمی ہوگیا ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کی اعلیٰ پولیس عہدیداروں کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ جمعہ تک پرانے شہر میں چوکسی برقرار رہے گی اور احتجاج و مظاہروں پر کڑی نظر رکھی جائے گی ۔ حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے انٹلیجنس عملہ اور اسپیشل برانچ کے ملازمین کو بھی علاقوں میں پھیلادیا گیا ہے تاکہ ناگہانی واقعہ کے بارے میں فوری طور پر اعلیٰ عہدیداروں کو اطلاع دی جاسکے ۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں نے ملعون راجہ سنگھ کے پوسٹر پر چپل کا نقش بناکر اسے سڑکوں پر چسپاں کیا تاکہ عوام ان پوسٹرس پر سے گزرے ۔ ایڈیشنل کمشنر پولیس لا اینڈ آرڈر ڈی ایس چوہان کی نگرانی میں پولیس بندوبست کیا جارہا ہے اور پرانے شہر کے اہم راستوں پر خاردار تار کے علاوہ بیریکیٹس بھی نصب کرتے ہوئے چیک پوسٹ کی طرح پولیس پکٹس قائم کئے گئے ہیں تاکہ اُن راستوں سے گزرنے والے افراد کو روک کر ان کی تلاشی لی جاسکے ۔ بتایا جاتا ہے کہ گنیش تہوار کے لئے صرف ایک ہفتہ باقی ہے اور اس سے قبل شہر میں کشیدہ حالات سے پولیس ہنوز تشویش کا شکار ہوگئی ہے اور ممکنہ تشدد کے واقعات سے نمٹنے کیلئے خصوصی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے ۔ ب

بدھ, اگست 24, 2022

مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ(زیر اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن

مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ(زیر اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں آزادی کا امرت مہوتسو 75ویں یوم آزادی کے موقع پر امرت مہوتسو سیریز کا انعقاد ، 

پھلواری شریف پٹنہ 23/اگست (پریس ریلیز اردو دنیا نیوز٧٢) 
مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں 75ویں یوم آزادی،آزادی کا امرت مہوتسوکے موقع پر پروگرام امرت مہوتسو سیریز کا انعقاد ۔

پروگرام کا آغازقومی پرچم لہرانے کی رسم سے ہوا۔مدرسہ کے نگراں محمد ضیاء العظیم، اور مشہور استاذ، سماجی کارکن ماسٹر محمد نیاز صاحب اور بھی دیگر شخصیات کے ساتھ ساتھ مدرسہ کے اساتذہ اور بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات  کی موجودگی میں یہ رسم انجام دی گئی۔۔مدرسہ ضیاء العلوم کے نگراں مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی  نے بھی یوم آزادی کے حوالے سے تقریب کو خطاب کیا اور ہندوستانی آزادی کی جدو جہد اور عظیم مجاہدین آزادی کے کردار کے بارے میں عوام سے خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ ہم لوگ مجاہدین آزادی کے دکھائے ہوئے راستے پر وطن عزیز کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کریں۔آزادی کے حوالے سے لوگوں کو معلومات فراہم کریں، اور آج کے دن کے حوالے سے کہا کہ15اگست کا دن بہت اہم دن ہے۔ ملک میں رہنے والے سبھی مذاہب کا قومی تہوار  ہے انہوں نے عوام کو یوم آزادی کی پرخلوص مبارکبادی پیش کی ۔یوم آزادی کی تقریب میں مدرسہ کے طلباء وطالبات نے آزادی مہوتسو سریز کی پہلی کڑی پورے جوش وخروش کے ساتھ پیش کیا، مہوتسو کی پہلی کڑی میں محب وطن پر نظم پیش کی، اور کچھ طلباء وطالبات نے انگریزی اور ہندی میں یوم آزادی کے حوالے سے تقریر پیش کی ساتھ ہی مختلف رنگا رنگ پروگرام پیش کیا۔تقریر پیش کرنے والوں میں جو طلباء وطالبات شامل تھیں ان کا نام اس طرح سے ہے
افضل، طلحہ شمس  نور جہاں، عالیہ پروین ،فقیھہ روشن، صادقین، شاداب خان، 
نظم پیش کرنے والوں میں شہزاد، مہدی حسن، علی شیر، نور جہاں، ثاقب خان، زویہ ملک، کا نام شامل ہے،
جبکہ قومی ترانہ ایک ساتھ بہت خوبصورت انداز میں شہزاد، مہدی حسن، شہزاد خرد،زینب فاطمہ، زاہرہ، انشاء ریاض نے پیش کیا،
 اس کے بعد قاری عبد الواجد صاحب نے پر اثر انداز میں حب الوطنی سے سرشار ہو کر نظم پیش کیا، واضح رہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم یہ ملک کی مشہور ومعروف تنظیم ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چل رہا ہے، جہاں طلباء وطالبات اپنی تعلیمی پیاس بجھا رہے ہیں،آخر میں مدرسہ ضیاء العلوم کے ڈائریکٹر اور ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کے برانچ اونر محمد ضیاء العظیم قاسمی نے تمام طلباء وطالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، مہمانوں کے شکریہ کے ساتھ پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا،
اس پروگرام  کو بہتر اور خوبصورت بنانے میں ماہر اقبالیات، ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ نے اپنا بھر پور تعاون پیش کی، انہوں نے ہی اس سیریز کی تربیت دی، جس کی پہلی کڑی پیش کی گئی، عمومی طور پر قاری ابو الحسن، قاری عبد الماجد، حافظ شارق خان، مولانا نورالعظیم، حافظ ثناء العظیم، فاطمہ خان نے اپنا تعاون دیا،

فریب : نہ دیجئیے اور نہ کھائیے __

فریب : نہ دیجئیے اور نہ کھائیے ___

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
انسانی سماج میں جن چند برائیوں نے مضبوط جگہ بنا لی ہے ، اور انہیں برائی اور گناہ سمجھنے کا تصور دن بدن ختم ہو تا جا رہا ہے ان میں ایک ’’فریب ‘‘ ہے’’ فریب‘‘ کے معنی لغت میں دھوکہ کے آتے ہیں ، دھوکہ دینے والے کو فریبی ، مکار ، عیار دغا بازاور دھوکہ باز کہتے ہیں ، فریب کی جو چند قسمیں سماج میں پائی جاتی ہیں ان میں’’ فریب نفس ‘‘سب سے اہم ہے ، آدمی اپنی ذات کے بارے میں فریب میں مبتلا رہتا ہے ، وہ اپنے کو بڑا اسکالر سمجھتا ہے ، حالانکہ وہ شیر او رشٖیر میں فرق نہیں کرپاتا ہے ، وہ اپنے کو بڑا عالم سمجھتا ہے، حالانکہ حقیقتاً اسے علم کی ہوا نہیں لگی ، وہ معمولی بس کا ڈرائیور ہے؛ لیکن پائلٹ لکھ کراپنے کو فریب دے رہا ہے۔وہ معمولی کلرک ہے ، لیکن اپنے کو ادارہ کے ذمہ داروں سے بھی بڑا سمجھتا ہے۔
 فریب نفس کی ہی ایک قسم یہ ہے کہ آدمی اپنی صحت ، جوانی ، عہدے ، مال اور جاہ ومنصب میں اس طرح کھوجاتا ہے، گویا یہ چیزیں ہمیشہ ہمیش اس کے پاس رہنے والی ہیں ، حالانکہ موت اور بسا اوقات احوال وحوادثات ان چیزوں کو آسانی سے جدا کردیتے ہیں اور فریب نفس کا شکار آدمی ٹوٹ کر رہ جاتا ہے ، وہ چلتا پھرتا ، کھا تا پیتا ، ہنستا بولتا ہے؛ لیکن حقیقت میں ’فریب نفس‘ کے بت کے پاش پاش ہونے کی وجہ سے مردہ کی طرح ہوجاتا ہے اور زندگی میں ہی اسے فریب خوردہ ہونے کا عذاب مل جاتا ہے ، جمیل مظہری نے اس فلسفہ کو ایک شعر میں پیش کیا ہے   ؎
بقدر پیمانۂ تخیل سُرور ہردل میں ہے خودی کا اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا 
انسان فریب پیہم میں مبتلا رہتا ہے ، اور موت اسے آخری نیند سلا دیتی ہے، فریب کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اب حقیقت کی دنیا میں آنے کا وقت نہیں رہتا ،اب تو آخرت کے حقائق سے اس کا سامنا ہوتا ہے ،جس کے لئے اس نے کچھ تیاری نہیں کی تھی۔ فریب نفس کی ایک دوسری قسم ، اپنے بارے میں دوسروں کو دھوکہ میں ڈالنا ہے ، اس مرض کا شکار آدمی جیسا ہو تا ہے ویسا نظر نہیں آتا، اورجیسا نظر آتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے ، وہ اپنے کو ایماندار، شریف اور متواضع بنا کر سماج کے سامنے پیش کرتا ہے ، حالانکہ ان چیزوں سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ پروفیسر لطف الرحمن کا ایک بڑا ہی بلیغ شعر ہے   ؎
عجب طرز انا ہے یہ خاکساری بھی قریب سے جو دیکھا تو خدا نکلا
گویا کہ خاکساری اور تواضع صرف دکھاوے کا ہے ،حقیقت میں وہ اتنا متکبر اور اس قدر فخر وغرور رکھتا ہے کہ بزعم خود ،خدا سے مقابلہ کر رہا ہے ۔ یہ دو رُخی زندگی اگر ایمان وعقیدہ کا جز بن جائے تو یہ فریب نفسی انسان کومنافق بنادیتی ہے ، وہ سوچتا ہے کہ میں دوسروں کو دھوکہ دیتا ہوں؛ حالانکہ وہ خود فریب خوردہ ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ خود دھوکہ کھا رہے ہیں جس کا انہیں احساس تک نہیں ہے ۔ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ آمَنُوْ وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْن۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا  یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ھُوَ خَادِعُھُم۔
 فریب کی یہ قسم خاص طور پر قابل مذمت ہے ، اس سے بڑے مفاسد جنم لیتے ہیں ،آدمی جن لوگوں پر اعتماد کرتا ہے اور جن کے ظاہری حرکات وسکنات سے ان پر اعتماد کرنے کو جی چاہتا ہے وہی دھوکہ پراتر آتے ہیں اور معاملہ جن پر تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے کا ہوجاتا ہے ، ایک شاعر نے اچھے انداز میں اس کی ترجمانی کی ہے  ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف 
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی 
 یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا مقام جہنم کے نچلے طبقے میں رکھا ہے ۔ ارشاد فرمایا:اِنَّ المُنَافِقِینَ فِِیْ الدَّرْکِ الأسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔ 
فریب کی ایک قسم فریب نظر بھی ہے ، اس میں آدمی خود دھوکہ کھا جاتا ہے ، سامنے والے کی نیت دھوکہ دینے کی نہیں ہوتی ، یہ فریب نظر ہے ، تپتے ہوئے صحرا میں زمین کی حرارت سے اٹھ رہی لہر پانی نظر آتا ہے، حالانکہ وہاں ریت ہی ریت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کَسَرَابِ بِقیعۃ یَحْسَبُہُ الظَمْاٰنُ مَائَ اً ، حَتّٰی اِذَا جَائَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئاً۔ جیسے صحرا کا سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے اور جب قریب جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ہے ، اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی ،شاعر نے کہا ہے  ؎ 
نہ جا ظاہر پرستی پر اگر کچھ عقل ودانش ہے
چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا
غالب کا فریب نظر کے سلسلے میں مشہور شعر ہے   ؎
ہیں کو اکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
عملی اورمعاملاتی زندگی میں بھی ان دنوں فریب اور دھوکہ کی کثرت ہو گئی ہے ، وعدہ کرکے پورا نہ کرنا دھوکہ کی ہی ایک قسم ہے ، آپ نے کسی سے کسی تقریب میں شرکت کا وعدہ کیا ، مال ودولت فراہم کرانے کی یقین دہانی کرائی اور عین وقت پر مکر گئے، یہ بھی دھوکہ ہے ، اسی وجہ سے وعدہ خلافی کو منافق کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیاگیاہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اذا وعد اخلف فرمایا کہ جب وعدہ کرے تو  اس کی خلاف ورزی کرے، خیانت بھی فریب کی ایک قسم ہے ، کسی نے آپ کے یہاں امانت رکھ دیا ، آپ نے اس کی امانت واپس کرنے سے انکار کر دیا یا اس میں تصرف کرکے اسے نیست ونابود کر دیا یہ بھی عملی فریب ہے اور اسی وجہ سے اس کو بھی منافق کی علامتوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے ، اذأتمن خان، جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
دھوکہ اور فریب کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ معاملات میں جو کچھ طے ہوا ہے اس کی خلاف ورزی کی جائے ، کاروبار میں اچھا مال دکھا کر سودا کیا جائے اور خراب مال سپلائی کر دیا جائے ، پھٹے ہوئے تھان کو اچھا تھان کہہ کر بیچ دیا جائے ، گول مرچ میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ کر دی جائے اور گول مرچ کہہ کر بیچ دیا جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج قرار دیا ہے ، فرمایا من غش فلیس منا ، جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے ، اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ اگر اوپر کا گیہوں ہوا لگنے سے خشک ہوگیا ہو اور اندر کا تر ہو تو نکال کر دکھاؤ کہ اندر کا گیہوں بھیگا ہے ، امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ ایک تھان میں کچھ نقص تھا ، خادم نے بغیر بتائے ہوئے بیچ دیا تو اس دن کی ساری آمدنی صدقہ کر دیا ۔ 
اسلام نے ہر قسم کے فریب کی مذمت کی ہے تاکہ ایک ایسے سماج کی تشکیل کی جا سکے، جس میں کوئی کسی سے بلکہ خود سے بھی دھوکہ نہ کھائے اور معاشرہ میں ایک دوسرے پر اعتبار واعتماد کی ایسی فضا بنے کہ کسی بھی پریشانی اور مشقت کے وقت انسان ایک دوسرے کا دست وبازو بن سکے۔
دراصل فریب کی وجہ سے جوبے اعتمادی پیدا ہوئی ہے، اس سے سماج میں انسان کا مرتبہ تو کم ہوتاہی ہے، اس سے انسان بہت ساری اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، دھوکہ دینا آسان ہے، لیکن جب انسان دھوکہ کھاتا ہے تو اس کی کراہیں نکل آتی ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری عزت بڑھتی ہے ، یہ خیال بھی ایک فریب ہے، جو شیطان انسانوں کے دماغ میں ڈالتا ہے۔ 
تجربہ کا ر لوگوں کے مشورہ کے بغیر جو کام کیا جاتا ہے اس میں دھوکہ اور فریب کھانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دھوکہ دینے سے وقتی لذت وفائدہ کا حصول ہو سکتا ہے، لیکن جیسے ہی وقتی لذت ختم ہوتی ہے، انسان بے سکونی میں مبتلا ہوجاتا ہے، اسے یہ ڈر ستانے لگتا ہے کہ اگر ہمارا یہ فریب لوگوں پر کھل گیا تو کیسی رسوائی ہوگی، اس کے علاوہ اگر فریب اور دھوکہ کا معاملہ کسی پر نہ بھی ظاہر ہوا تو بھی وہ کراماً کاتبین سے چھپا ہوا نہیں رہ سکتا، اور آخرت کی رسوائی، دنیا کی رسوائی سے زیادہ سخت ہے۔
 ہمارے زمانہ میں فریب اور دھوکہ دہی کی بعض ایسی صورتیں بھی نکل آئی ہیں، جس کا کوئی تصور ماضی میں نہیں تھا، اب بینک میں کلیرنس کے نام پر دھوکہ دینے والوں کی پوری فوج موجود ہے، آپ کے موبائل پر فون آتا رہتا ہے کہ آپ کو اتنی رقم انعام میں ملی ہے، بینک کی تفصیلات بھیجئے اور اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرائیے، بہت سارے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ زمین کے دلال دوسرے کی زمین کو آپ کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اوپیسہ لے کر فرار ہوجاتے ہیں، سرکاری زمینوں کو بیچ دینے کا چلن تو عام ہے، اسی طرح غیر ملک میں نوکری دلانے کے نام پر موٹی موٹی رقمیں وصول کر کے لے بھاگنا عام سی بات ہے، لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر شادی کرنے کے عزم کا اظہار کرکے ناجائز جنسی تعلق کے بعد شادی سے مکر جانا ،یہ سب فریب اور دھوکہ کی ہی مختلف شکلیں ہیں، اس لیے دھیان رکھئے نہ فریب دیجئے اور نہ فریب کھائیے، دنیا وآخرت کی بھلائی اسی میں ہے ۔

منگل, اگست 23, 2022

بی جے پی نیتا ٹی راجا پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز تبصرہ کرنے کے الزام میں گرفتار

بی جے پی نیتا ٹی راجا پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز تبصرہ کرنے کے الزام میں گرفتار

اردو دنیا نیوز٧٢

حیدرآباد: تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ کو منگل کے روز پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز تبصرے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ حیدرآباد ساؤتھ زون کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس پی سائی چیتنیا نے کہا کہ ٹی راجا کے خلاف مذہبی عقیدے کی توہین سے متعلق قانون کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق شہر کے پولس کمشنر سی وی آنند کے دفتر اور حیدرآباد کے دیگر حصوں میں پیر کی شب راجا سنگھ کی جانب سے پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں توہین آمیز کلیمات والی ایک ویڈیو جاری کرنے کے بعد احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ جس کے بعد مقدمہ درج کر کے یہ کارروائی کی گئی ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ راجا سنگھ نے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، لہذا انہیں فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ چنانچہ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ٹی راجا کو گرفتار کر لیا۔ قبل ازیں، حیدرآباد کے گوشا محل سے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ نے گزشتہ ہفتے ایک کامیڈی شو میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کے شو کو منسوخ کرنے کے لیے تقریباً 50 حامیوں کے ساتھ پنڈال تک پہنچنے کی کوشش کے بعد جمعہ کو پولیس نے انہیں احتیاطاً تحویل میں لیا تھا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...