Powered By Blogger

منگل, اکتوبر 18, 2022

ادب اطفال کی اہم شخصیت متین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچل پوری کا انتقال۔ دنیائے ادب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اطفال سوگوار

ادب اطفال کی اہم شخصیت متین 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اچل پوری کا انتقال۔ دنیائے ادب 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اطفال سوگوار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نئی دہلی۔۔ ( رپورٹ سراج عظیم) 17اکتوبر ۔۔۔ اچل پور، امراوتی کے مزاح نگار بابو آر کے کی اطلاع کے مطابق آج صبح آٹھ بجے مشہور و معروف شاعر اور ادیب الاطفال متین اچل پوری کا انتقال ہوگیا۔ متین اچل پوری پچھلے ایک سال سے کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ اس سلسلے میں ان کا ایک بڑا آپریشن بھی ہوا تھا جو کامیاب نہیں ہو پایا تھا جس کی وجہ سے مرض میں مزید شدت آگئ تھی۔ متین اچل پوری کے انتقال کی خبر سے پورا اردو ادب خصوصاً ادب اطفال سوگوار ہے۔ متین اچل پوری کی پیدائش 18جنوری 1950 کو اچلپور ضلع امراوتی میں ہوئ۔ اردو میں ایم اے اور بی ایڈ کیا۔ اس کے بعد انکا تقرر ایک مدرس کی حیثیت سے ہوگیا۔ انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز 1970 میں کیا۔ بڑوں کی شاعری کے ساتھ انھوں نے اپنی شاعری کا محور بچوں کے ادب پر مرکوز رکھا۔ چونکہ متین صاحب ایک مدرس تھے اس لئے وہ بچوں کی نفسیات سے خوب واقف تھے اور انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا زیادہ عرصہ ادب اطفال میں صرف کیا۔ انھوں نے بچوں کے ادب میں جہاں سائنسی نظمیں، ماحولیاتی نظمیں تحریر کیں وہیں کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان کو صدر جمہوریہ سے بہترین مدرس کا ایوارڈ بھی 1990 میں حاصل ہوا۔ متین اچل پوری کو مختلف تنظیموں اور سرکاری اداروں نے بھی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا۔ متین اچل پوری نے اپنی پچاس سالہ ادبی زندگی میں تقریباً پچاس سے اوپر بچوں اور بڑوں کی کتابوں کا سرمایہ چھوڑا ہے۔ متین اچل پوری کے سانحۂ ارتحال پر ادب اطفال کی شخصیات نے اپنے رنج و ملال کا اظہار کیا ہے۔ آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کے سکریٹری محمد سراج عظیم نے متین اچل پوری کے انتقال پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متین صاحب ادب اطفال کا ایک متحرک نام تھا جنھوں نے بچوں کے ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا اور ادب اطفال میں اپنی ایک طویل روایت کے طور بہت بڑا سرمایہ چھوڑا ہے۔ اس دور کی ادب اطفال کی تاریخ میں متین اچل پوری کا نام سرفہرست سنہرے الفاظ میں تحریر ہوگا۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے سابق نائب صدر و معروف شاعر انتظار نعیم صاحب ، رسالہ الفاظ ہند کے مدیر و مالک ریحان کوثر صاحب، کردار آرٹ تھئیٹر گروپ کے چئیرمین اور ڈراما نگار اقبال نیازی، گل بوٹے کے فاروق سید، خیر اندیش کے مدیر مالک اور بچوں کے شاعر خیال انصاری صاحب نے اور ادب اطفال کے ادباء و شعرا نے اپنے گہرے رنج و غم  کا اظہار کیا۔ متین اچل پوری کے جسد خاکی کی تدفین حضرت دولہا شاہ رح علیہ کے مزار کے احاطے میں بعد نماز عصر عمل میں آئ۔

پٹنہ پریس ریلیز (18اکتوبر)امارت شرعیہ کے زیر اہتمام بہار شریف میں منعقد معلمین و ائمہ کرام سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

پٹنہ پریس ریلیز (18اکتوبر)
امارت شرعیہ کے زیر اہتمام بہار شریف میں منعقد معلمین و ائمہ کرام سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی و مولانا احمد حسین مدنی کا خطاب
حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مد ظلہ العالی کی سر پرستی میں امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے تمام شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے۔ سی بی ایس ای کے پانچ نئے اسکول قائم ہوئے اور دس دار القضاء کا قیام عمل میں آیا، اسی کے ساتھ شعبہ تعلیم کے تحت سو سے زائد مکاتب دینیہ جو خود کفیل ہیں، مختلف اضلاع میں نئے سرے سے قائم ہوئے ہیں۔ 
صیغہئ تعلیم کے تحت شروع سے بین المدارس و المکاتب معلمین کے لیے تربیتی اجتماعات کا انعقاد ہو تا رہا ہے۔ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی منظوری سے مدینہ مسجد بہار شریف میں سہ روزہ تربیتی اجتماع ہورہا ہے، جس میں مکاتب کے معلمین و اساتذہ کے ساتھ مساجد کے ائمہ بھی بڑی تعداد میں شرکت فرما رہے ہیں، آج دوسرے دن مرکزی دفتر امارت شرعیہ سے دو مہمان خصوصی نے اس جاری ورک شاپ میں حصہ لیا، امارت شرعیہ کے نائب ناظم مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب انچارج صیغہ ئ تعلیم اور مولانا احمد حسین قاسمی مدنی معاون ناظم امارت شرعیہ کا اس تربیتی اجتماع سے خصوصی خطاب ہوا۔ مولانا احمد حسین قاسمی نے حضرات معلمین کوان کے مقام و منصب کا دینی و شرعی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلا معلم خود رب کائنات ہے۔ جس نے حضرت آدم علیہ السلام یعنی پہلے  انسان کو تمام ناموں کا علم سکھایا، پھران کی آنے والی تمام نسلوں کی تربیت و ہدایت کے لیے بہ حیثیت معلم حضرات انبیاء کا انتخاب فرمایا۔ چناں چہ آخری نبی  جناب محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کی نمایاں حیثیت کا ذکر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”انما بعثت معلماً“ میں تمہارے درمیان استاذ و معلم کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا گیا ہوں۔ 
 نبی کے وارث اور ان کے جانشیں ہونے کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ اپنی حیثیت بھی بہ حیثیت معلم پہچانئے۔ آپ کے سپرد ہماری نئی نسل ہے، جن کی انسانی، دینی و معاشرتی تربیت کر کے بہترین انسان اور کامل مسلمان بنانے کا فریضہ آپ کے ذمہ ہے۔ انہوں نے فن تدریس پر کلام کرتے ہوئے کہا کہ معلومات ہونا الگ شئی ہے، مگر ان کو بچوں میں منتقل کرنا الگ شئی ہے، جس کے لیے ٹریننگ اور تربیت بہت ضروری ہے۔ تدریس ایک اہم آرٹ اور فن ہے، جسے سیکھے بغیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے امارت شرعیہ علماء و معلمین اور ائمہ مسائد کے لیے تربیتی پروگرام کا انعقاد کرتی ہے۔
 مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ نے حضرات معلمیں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تدریس اور سکھانے کا عمل کار نبوت کا حصہ اور نبوی کام ہے، اس کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ جد و جہد اور قربانی درکار ہے، آپ بے لوث ہو کر محنت کریں، اللہ آپ کی محنت کا بدلہ عطا کرے گا۔ آج پوری امت کا سب سے بڑا مسئلہ نئی نسلوں کی دینی و اسلامی تربیت ہے، جس اہم کام کو آپ انجام دے رہے ہیں۔اگر یہ کام آپ نے کما حقہ کر دیا تو آئندہ کے لیے ہماری نسل محفوظ ہو جائے گی۔ آپ نے بہت کم وقت میں نہایت جامع باتیں بتائیں۔ آج کی دوسری نشست بعد نماز ظہر بہار شریف کے عمائدین پر مشتمل تھی، جس میں امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا احمد حسین  نے حضرت امیر شریعت مدظلہ العالی کا پیغام سناتے ہوئے کہا کہ ملک کی نازک صورتحال میں ہمارے کرنے کے جو اہم کام ہیں، ان میں پہلا کام اپنی نئی نسل کے دین و ایمان کے تحفظ کی فکر کرنا ہے، اس کے لیے امارت شرعیہ تحریک چلا رہی ہے، ائمہ مساجد کے تربیتی نظام کا سلسلہ ہر ضلع میں جاری ہے۔مسلمان اپنی مساجد کو مرکز بنا کر اصلاح معاشرہ کا کام انجام دیں، ہر مسجد میں بنیادی دینی تعلیم کے لیے مکتب کا نظام، نما زبا جماعت کی طرح قائم ہو۔ حضرت مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے ملت اسلامیہ کی فکر فکر و عمل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اپنی نماز با جماعت سے سبق حاصل کر یں، جس طرح ہم مسجد میں امام کی اطاعت کرتے ہیں، مسجد سے باہر ایک امیر شریعت کی اتباع کو لازم سمجھیں۔ اور کلمہ کی بنیاد پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیں۔ 
واضح رہے کہ اس پروگرام کی نظامت مولانا منت اللہ حیدری فرما رہے تھے۔ اس موقع پر مولانا منصور قاسمی قاضی شریعت بہار شریف بھی پیش پیش رہے، شہر کے مخلصین کے تعاون  سے تمام علماء و معلمین کی میزبانی آسان ہو سکی۔معلمین کی تربیت کرنے والے علماء میں مولانا عبد الوالی منانی قاسمی، حافظ عالمگیر صاحب استاذ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی سیتا مڑھی اور مولانا مامون الرشید صاحب مدرسہ طیب المدارس پریہار، سیتا مڑھی کے نام اہم ہیں۔

اسقاط حمل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

اسقاط حمل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس اے ایس بوپننا کی سہ نفری بینچ نے شادی شدہ ، غیر شادی شدہ اور ریلیشن شپ یعنی بغیرشادی کے مردوںکے ساتھ رہنے والی عورتوں کو چوبیس ہفتے یعنی کم وبیش چھ (۶)ماہ تک محفوظ اسقاط حمل کی اجازت دیدی ہے، سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ ایم ٹی پی ایکٹ ترمیم شدہ ۲۰۲۱ء کی دفعہ ۳(۲) جی کے تحت سنایا، یہ قانون اصلا شادی شدہ خواتین کے اسقاط حمل سے متعلق ہے، لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ غیر شادی شدہ عورتوں کو اس قانون سے الگ رکھنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے ، ایسا کرنا آئین کے آرٹیکل ۱۴؍ کے خلاف ہوگا، عدالت نے شوہر کے ذریعہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر جنسی تعلقات جسے قانون کی زبان میںازدواجی عصمت دری کہاجاتاہے کے نتیجے میں ٹھہرنے والے حمل کو بھی اس دائرہ میں لانے کی ضرورت پر زور دیا، اور ہدایت دی کہ حاملہ اگر نا بالغہ ہو تو اس کے نام کی تشہیر بھی نہیں کی جا سکتی، پاکسو ایکٹ ( POCSO ACT.2012)کے تحت اس کی پابندی بھی لازمی ہوگی۔
عدالت نے یہ فیصلہ ایک پچیس سالہ غیر شادی شدہ حاملہ عورت کی عرضی پر سنائی ہے، یہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ذریعہ اپنی مرضی سے حاملہ ہو گئی تھی اور اسے تئیس(۲۳) ہفتے ، پانچ (۵)دن کا حمل تھا، جسے وہ ضائع کرانا چاہتی تھی،دہلی ہائی کورٹ نے اسے ایم ٹی پی ایکٹ سے باہر مانا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے ایم ٹی پی ایکٹ کے دائرے میں مان کر اسقاط حمل کی اجازت دو ڈاکٹروں کی ٹیم کے معائنہ کے بعد محفوظ اسقاط کی صورت میں دیدی۔
 ایم ٹی پی (MEDICAL TERMINATION OF PREGNANC) ACT۱۹۷۱میں بنایا گیا تھا، ۲۰۰۳ اور ۲۰۲۱ء میں اس میں ترمیم کی گئی اور اسقاط حمل کی اجازت بیس (۲۰) ہفتہ سے بڑھا کر چوبیس (۲۴) ہفتے کر دی گئی جس کا مطلب ہے کہ چھ ماہ تک یہ غیر انسانی ، غیر اخلاقی قتل، حمل کے دوران کیا جا سکتا ہے، یہ وہ مدت ہے جس میں بچہ میں روح پڑجاتی ہے اور اس کے اعضاء تکمیل کے مرحلے سے گذر رہے ہوتے ہیں، بلکہ اسلام کی روشنی میں یہ بچہ اس قدر مکمل ہوجاتا ہے کہ وہ صحیح وسالم اس مدت میں پیدا ہو سکتا ہے، سات آٹھ ماہ کے اندر ولادت کے واقعات عجوبے کے درجے میں نہیں ہوتے، ایسے بچے عموما لا غر اور کمزور ہوتے ہیں، جن پر خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور بس ، بتانا صرف یہ ہے کہ چوبیس(۲۴) ہفتے میں بچہ ولادت کے مرحلہ سے بھی گذر سکتا ہے اورعقلی اعتبارسے اس کا اسقاط ایک بچے کے قتل کے دائرہ میں آناچاہے۔
 عدالت کے اس فیصلے کی بنیاد عورت کی خود مختاری کے حقوق بالفاظ دیگر ــ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘کے اصول پر مبنی ہے، اس طرح کی اجازت سے جنسی بے راہ روی بڑھے گی، کیوں کہ تعلق قائم کرنے والی عورت کو اسقاط حمل کی اجازت کی وجہ سے قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور تعلق قائم کرنے والامرد مطمئن ہوگا کہ اس پر بچے کی کوئی ذمہ داری نہیں آئے گی، کیوں کہ وہ دنیا میں آئے گا ہی نہیں۔
 خواتین کے حقوق سے متعلق تنظیموں نے اس فیصلے کی ستائش کی ہے، پرینکا چترویدی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ہے ’’سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہر عورت کو اپنے جسم پر اختیار کا مساوی حق ہے، سپریم کورٹ نے تمام عورتوں کو برابر کا حق دیا ہے، سماج کو چاہیے کہ وہ عورتوں کے بنیادی حقوق، مساوات، پرائیویسی اور ان کے اپنے جسم کے تئیں حقوق کو سمجھے‘‘۔
 برابری کے اس حق کو تووہ ممالک جن کے یہاں عورتوں کی آزادی کا تصور عام ہے، وہ بھی منظور نہیں کرتے، مغربی یورپی ، افریقی اورایشیائی چوبیس ممالک میںاسقاط حمل قابل سزاجرم ہے ابھی اسی سال ماہ جون میں امریکہ نے ۱۹۷۱ء کے اسقاط حمل قانون میں تبدیلی کرکے اسے ممنوع قراردیدیاہے جس کی وجہ سے اسقاط کاحق قانونی باقی نہیں رہا، امریکہ میںاحتجاج اورمظاہروںکے بعدیہ حق ریاست کودیدیاگیاہے کہ وہ مقامی طورپر اس سلسلے میں کوئی فیصلہ لے جب اسقاط حمل کووہاںقانونی حق حاصل تھاتوبھی زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک اس حق کااستعمال کیاجاسکتاتھا،لٹن امریکی دیش السلواڈورمیں حمل کے ضائع ہونے کی صورت میں عورت کوتیس (۳۰)سال تک کی سزاہوسکتی ہے، انگلینڈ اور آئرلینڈ میں اسقاط عورت کاحق ہے، وہ اگربچے کوآنے نہیںدیناچاہتی ہے تواسقاط کرواسکتی ہے،لیکن جاپان میں اسقاط حمل اور  مانع حمل دواؤں کے استعمال کے لئے بھی شوہر کی اجازت کی ضرورت ہے، کیوں کہ حمل میں پلنے والا بچہ صرف عورت کا نہیں،مرد کا بھی ہے اور پیدا ہونے کے بعد اسے والد کا نام ملے گا، اس لیے مرد کی اہمیت کو حمل میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،جن ملکوںمیں اسقاط پر پابندی ہے ، وہاںحمل میں پلنے والے بچے کے حقوق کی رعایت کی گئی ہے، کیوں کہ وہ بھی ایک روح ہے اوراسے بھی دنیادیکھنے کاحق ہے ، یہی اسلام کاموقف ہے اس لئے ہماری گذارش ہے کہ  اس فیصلہ پر عدالت کو نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ہر ایک کے حقوق کی رعایت ہو سکے۔
عدالت نے بغیر بیوی کی رضا مندی کے جنسی تعلق کو بھی عصمت دری (ریپ) کے زمرے میں رکھنے کی ضرورت بتائی ہے، یہ رولنگ نہیں، فیصلے کا حصہ ہے، اس لیے نظیر کے طور پر آدھا کام تو ہو گیا ، دوسرے آدھے کی تعیین اگلی سماعت میں ہو جائے گی، اس کی وجہ سے خواتین کی طرف سے شوہروں کو ہراساں کرنے اور خانگی تشدد کا بازار بھی گرم ہو سکتا ہے، اور خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اس فیصلے کامنفی اثرسماج پر پڑے گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...