Powered By Blogger

پیر, اکتوبر 25, 2021

آسان اور مسنون نکاح ' مہم کو مضبوط بنائیں ۔


آسان اور مسنون نکاح ' مہم کو مضبوط بنائیں ۔


ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی

اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکر اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیاہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔

اسلام نے نکاح کو انسانی بقا وتحفظ کے لئے ضروری بتایا ہے۔اسلام نے نکاح کو احساس بندگی اور شعور زندگی کے لئے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آدھا ایمان بھی قرار دیا ہے۔ جو کوئی نکاح کرتا ہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتا ہے اور باقی آدھے دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔(معجم الاوسط،شعب الایمان)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے، ارشاد نبوی ہے: 'النکاح من سنتی' نکاح کرنا میری سنت ہے۔(بخاری)

اسلام نے نہ صرف نکاح کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اسے آسان سے آسان بنانے کا بھی حکم دیا ہے اور ان تمام باتوں سے رُکنے کا بھی حکم دیا ہے جس سے نکاح میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔احادیث میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو ہدایت اور رہنمائی دی ہے کہ شادیاں، ہلکی پھلکی اور کم خرچ کی کیا کریں اور بشارت سنائی گئی ہے کہ اگر ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شادیوں میں اور ان کے نتیجوں میں بڑی برکتیں ہوں گی، آج ہم جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور خاص کر خانگی زندگی میں جو الجھنیں ہیں ان کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ نکاح اور شادی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات سے انحراف کرکے ہم آسمانی برکات اور خداوندی عنایات سے محروم ہوگئے ہیں، اسی بنا پر ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بار کم سے کم پڑے۔( مسند احمد)

اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔ عربی زبان میں جہیز کے لیے کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔ عہد نبوی میں جتنی شادیاں ہوئیں، کسی میں بھی جہیز کا تذکرہ نہیں ملتا۔

لیکن آج کل شادی بیاہ کے موقع پر جہیز کا مسئلہ ہند وپاک میں بہت ہی سنگینی اختیار کرگیا ہے۔

اسلام کو ساری انسانیت کے لیے آسان ترین دین سمجھنے والے عام مسلمان سے لے کر سماجیات عمرانیات کے ماہر ترین شخص تک ہر درد دل رکھنے والا عقلمند مروجہ رسم جہیز کی تباہ کاریوں سے پریشان ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مروجہ رسم جہیز کا خاتمہ فی الواقع انسانیت کے لئے بڑی خدمت ہے۔ چنانچہ مسلم طبقے میں شادی بیاہ کے دوران جہیز و دیگر بےجا رسومات کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ کمیٹی کی جانب سے 'آسان اور مسنون نکاح' کے نام سے جو بیداری مہم چلائی جارہی ہے الحمد للہ ملک کے کونے کونے میں اس کے حوصلہ بخش نتائج واثرات ظاہر ہورہے ہیں۔

‌خاص طور پر ان علاقوں میں اس کے اچھے اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں جہاں عوام میں مقامی علمائے کرام اس مہم کی تائید و حمایت کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر غیر اسلامی اور بےجا رسوم و رواج کو مٹانے کی بھر پور جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے مقامات میں لوگوں کی سوچ میں نہایت تیزی کے ساتھ مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

جب سے آسان اور مسنون نکاح کی مہم کا آغاز ہوا ہے اس کے بعد سے مسلم معاشرے میں سادگی اور آسانی کے ساتھ نکاح کو انجام دینے کا ماشاءاللہ مزاج بن رہاہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ کمیٹی کی جانب سے جاری آسان اور مسنون نکاح مہم کے تحت بیس دنوں کے اندر راقم الحروف نے دو جوڑوں کا نکاح مدھیہ پردیش میں اور دو کا مظفر پور بہار میں پڑھایا ان چاروں شادیوں کی خصوصیات یہ رہیں کہ بلا کسی رسم و رواج کے نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد ہوئی۔

ابھی پچھلے دنوں مورخہ 15 اکتوبر کو جناب وصی احمد صاحب کے صاحبزادے حافظ محمدآصف اقبال کا عقد مسنونہ مرحوم جناب آفتاب عالم صاحب کی دختر نیک اختر عزیزہ کشف عروج سے کرایا۔ زندگی کے اس اہم موڑ پر اس جوڑے اور ان کے گھر والوں نے سماج اور معاشرے کے خلاف اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح کرکے جو مثال قائم کی ہے واقعی یہ حضرات اس کام کے لئے قابل مبارکبادی کے لائق ہیں۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ!ان دونوں کے نکاح کو مبارک فرمائے، ان پر اپنی برکتوں کا نزول فرمائے اور ان دونوں کو بہترین طریقے پر جمع رکھے۔ آمین


موجودہ حالات میں آسان اور مسنون نکاح کو فروغ دینے کے لئے گھر گھر جاکر لوگوں کو اس تعلق سے سمجھانے کی ضرورت ہے، اس سے مسلم معاشرے میں سادگی اور آسانی کے ساتھ نکاح کو انجام دینے کا مزاج بنے گا۔ان شاءاللہ

گوگل کروم کے 2 ارب 60 کروڑ صارفین کے لیے الرٹ جاری

گوگل کروم کے 2 ارب 60 کروڑ صارفین کے لیے الرٹ جاری


واشنگٹن ،25؍اکتوبر - گوگل کروم استعمال کرنے والے 2 ارب 60 کروڑ صارفین کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی۔بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق گوگل نے انٹرنیٹ براؤزر کروم صارفین کو بڑے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ سسٹم میں پانچ ایسے نقائص کی نشاندہی ہوئی، جو صارفین کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔گوگل کے مطابق ان خامیوں کی وجہ سے گوگل کروم کے 2 ارب 60 کروڑ سے زائد صارفین ہیکرز کا باآسانی شکار ہوسکتے ہیں۔ گوگل کی جانب سے شائع کردہ بلاگ پوسٹ میں ان پانچ نقائص کو معمولی نہیں بلکہ 'ہائی رسک' یعنی انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔کمپنی نے صارفین کو ہدایت کی کہ وہ اگر ہیکرز سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر انٹرنیٹ براؤزر کروم کو اپ ڈیٹ کرلیں۔ماہرین کے مطابق کروم میں گیارہ سیکیورٹی نقائص کی نشاندہی ہوئی تھی جن میں سے 6 کو دور کردیا گیا ہے جبکہ پانچ تاحال برقرار ہیں۔گوگل کروم میں سیکیورٹی نقائص کی نشاندہی امریکا کی ٹیکنالوجی کمپنی کے ماہرین نے کی، جس کے بعد کمپنی نے بھی اس کا اعتراف کیا۔ماہرین نے ان نقائص کو 'سفید خطرہ' قرار دیتے ہوئے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔گوگل نے بتایا کہ کسی بھی صارف کو سیٹنگز میں جاکر ہیلپ اور پھر اباؤٹ گوگل کروم پر کلک کرنا ہوگا، اگر وہاں کروم ورژن 95.0.4638.54 آرہا ہے تو یہ خطرے کی بات ہے۔گوگل نے صارفین کو ہدایت کی کہ ایسی صورت میں وہ کروم کو فوری طور پر سسٹم سے ان انسٹال کریں یا پھر کروم کو اپ ڈیٹ کرلیں۔


مغربی بنگال میں 15 نومبر سے اسکول ، کالج دوبارہ کھلیں گے : بنرجی

مغربی بنگال میں 15 نومبر سے اسکول ، کالج دوبارہ کھلیں گے : بنرجی


کولکتہ
، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے پیر کو کہا کہ اسکول اور کالج 15 نومبر سے دوبارہ کھلیں گے اور چیف سکریٹری کو اس کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے۔
بنرجی نے سلی گوڑی کے اتر کنیا میں انتظامی جائزہ اجلاس میں شرکت کے بعد چیف سکریٹری ایچ کے دویدی سے کہا کہ تعلیمی ادارے دوبارہ کھولنے سے پہلے وہاں مناسب صفائی اور حفظان صحت کو یقینی بنائیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ سال مارچ میں کووڈ 19 کی وبا پھیلنے کے بعد ریاست میں اسکول اور کالج بند کر دیے گئے تھے۔

رکشہ چلانے والےکومحکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے 3 کروڑسےزائد اداکرنےکی نوٹس ، پولس سے ہوا رجوع

رکشہ چلانے والےکومحکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے 3 کروڑسےزائد اداکرنےکی نوٹس ، پولس سے ہوا رجوعاتر پردیش کے متھرا Mathura ضلع میں اتوار کو ایک رکشہ چلانے والے نے پولیس سے رابطہ کیا جب اسے محکمہ انکم ٹیکس (آئی ٹی) کی طرف سے 3 کروڑ روپیے سے زائد رقم کو ادا کرنے کے لیے کو کہا گیا۔ متھرا میں باکالپور علاقے کی امر کالونی کے رہنے والے پرتاپ سنگھ Pratap Singh نے محکمہ آئی ٹی IT department کی جانب سے نوٹس ملنے کے بعد ہائی وے پولیس اسٹیشن میں دھوکہ دہی کا دعویٰ کرتے ہوئے شکایت درج کرائی۔ اسٹیشن ہاؤس آفس (ایس ایچ او) انوج کمار نے کہا کہ سنگھ کی شکایت کی بنیاد پر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا لیکن پولیس معاملے کو دیکھے گی۔ دریں اثنا سنگھ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ اپ لوڈ کیا جس میں انہوں نے واقعات کی ترتیب بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ 15 مارچ کو انہوں نے بکالپور کے جن سویدھا مرکز میں تیج پرکاش اپادھیائے کی ملکیت میں ایک پین کارڈ کے لیے درخواست دی، کیونکہ ان کے بینک نے اسے جمع کرانے کے لیے کہا تھا۔رکشہ والے نے کلپ میں کہا کہ اس کے بعد اسے بکل پور کے ایک سنجائی سنگھ (موبائل نمبر 9897762706) سے پین کارڈ کی رنگین فوٹو کاپی ملی۔ چونکہ وہ ناخواندہ ہ ہے وہ اصل پین کارڈ اور اس کی رنگین فوٹو کاپی میں فرق نہیں کر سکتا تھا۔ اسے اپنا پین کارڈ حاصل کرنے کے لیے تقریباً تین ماہ تک ایک دوسرے دفتر تک بھاگنا پڑا۔ سنگھ نے کہا کہ انہیں 19 اکتوبر کو آئی ٹی حکام کی طرف سے ایک کال موصول ہوئی اور انہیں 3,47,54,896 روپے ادا کرنے کو کہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ حکام نے انہیں بتایا کہ کسی نے ان کی نقالی کی ہے اور کاروبار چلانے کے لیے ان کے نام پر جی ایس ٹی نمبر حاصل کیا ہے اور 2018تا 2019 کے دوران وہ شخص 43,44,36,201 روپیے کا مالک تھا۔ سنگھ نے کہا کہ انہیں آئی ٹی حکام نے ایف آئی آر درج کرانے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ کسی نے ان کی نقالی کرتے ہوئے دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا تھا۔

لالو پرساد یادو کی پٹنہ آمد ، کانگریس پرطنز

لالو پرساد یادو کی پٹنہ آمد ، کانگریس پرطنزپٹنہ: آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو نے کانگریس کے بہار انچارج بھکت چرن داس پر تنقید کی ہے۔ پٹنہ آنے سے پہلے لالو یادو کو ایک بار دہلی میں اپنے پرانے انداز میں دیکھا گیا، انہوں نے کانگریس کے بہار کے انچارج کو بھک چونہر قرار دیا۔جب لالو یادو سے بھکت چرن داس کے اس بیان پر سوال کیا گیا جس میں انہوں نے آر جے ڈی کے اندر بی جے پی سے ملنے کی بات کہی تھی، تو اس سوال پر لالو یادو برہم ہوگئے۔لالو یادو نے اپنے مخصوص انداز میں بھکت چرن داس کو نشانہ بنایا۔لالو یادو نے کہا کہ اتحاد کیاہوتا ہے؟ کیا ہم ضمانت ضبط کرانے کے لیے یہ سیٹ کانگریس کو دے دیں؟ کیا ہم یہ سیٹ کانگریس کو ہارنے کے لیے دے دیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم تارا پور اور کشیشوراستھان دونوں سیٹوں پر ضمنی انتخابات میں حلقہ میں جانے کی کوشش کریں گے۔لالو یادو نے دونوں سیٹوں پر آر جے ڈی امیدوار کی حمایت میں مہم چلانے کا اشارہ بھی دیا۔لالو یادو نے کہا کہ ہم بہت دنوں سے پٹنہ میں نہیں تھے لیکن آج ہم پٹنہ جا رہے ہیں۔ اس دوران ڈاکٹر سے مشورہ کیا گیا ہے۔ وہ تقریباً ساڑھے تین سال بعد پٹنہ پہنچے۔ لالو یادو نے کہا کہ ڈاکٹر نے ایک ماہ کی چھٹی دی ہے اور دوا بھی دی ہے، اس کے بعد ہم پٹنہ جا رہے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کی جانب سے لگاتار کہا جا رہا ہے کہ لالو یادو کو صحت کی بنیاد پر ضمانت مل گئی ہے، اس لیے وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے، خاص طور پر 2 سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں۔لالو یادو نے کہا کہ ہمیں ہیلتھ گرانڈ پر ضمانت نہیں ملی ہے۔ بی جے پی کے لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔

‎ ‎یوپی مدرسہ ایجو کیشن بورڈ : تجاویز اور خد شات !شاہد زبیری


یو پی مدرسہ ایجو کیشن بورڈ : تجاویز اور خد شات !شاہد زبیری

یو پی مدرسہ ایجو کیشن بورڈٖ یا اتر پردیش مدرسہ شکشا پریشد ، پرا نا نام عربی فارسی بورڈ الٰہ آباد کی طرف سے الحاق شدہ اور گرانٹ پر لیے گئے مدارس دینیہ کے نصاب میں جہاں منشی، مولوی اور عالم کے امتحان میں ریاضی، تاریخ اور سائنس کو لا زمی کر دیا گیا ہے وہیں اساتذہ کی تقرری کے لیے اردو جاننے کی لازمیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ 13 اکتوبر کے ایک ہندی روزنامے کی خبر کے مطابق، بورڈ کے رجسٹرار، آر پی سنگھ نے اردو کی لازمیت کو ختم کرنے کی دلیل یہ دی ہے کہ متبادل مضامین پڑھا نے والے اساتذہ کے لیے اردو کی لازمیت کا کوئی جواز نہیں بنتا، کیونکہ اردو جاننے والے ایسے اساتذہ جو ان مضامین کو پڑھا سکیں، آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ ہندی روز نامے کی خبر کے مطابق، پاس شدہ تجاویز حکو مت کو بھیج دی گئی ہیں۔ رجسٹرار صاحب نے کہا کہ اردو جاننے والے اساتذہ آسانی سے دستیاب نہیں یہ تو خیر ہو ئی یہ نہیں کہا کہ ان مضامین کو پڑھا نے والے اردو اساتذہ دستیاب ہی نہیں بلکہ ناپید ہیں۔
جہاں تک جدید مضامین کی لازمیت اور اس سے پیدا ہو نے والی طلبہ کی مشکلات کا سوال ہے، اس پر ٹیچرس ایسو سی ایشن مدارسعربیہ اتر پردیش نے واضح ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ہم اگر اردو جاننے کی لازمیت ختم کرنے کی بات کریں، اس پر اردو اساتذہ کی کسی انجمن کا کوئی ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی اس کھلی اردو دشمنی پر ہمیں نہیں معلوم اردو اساتذہ کی انجمنوں اور اردو زبان و ادب کی انجمنوں کا کوئی ردعمل سامنے آئے گا بھی کہ نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات کا عذر پیش کر کے ان انجمنوں کے منھ میں مصلحتوں کی دہی جم جا ئے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ مدرسہ ایجو کیشن بورڈ اتر پردیش بورڈ کے لائق فائق چیئرمین اور ممبران اردو تو جانتے ہی ہوں گے کہ ان کے ہاتھوں یو پی میں اردو کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونک دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ڈور کہیں سے ہلی ہوگی۔ ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اتر پردیش نے بورڈ کے ایکٹ اور ضابطے کا حوالہ دے کر صحیح کہا کہ بورڈ کے ایکٹ اور ضابطے کے مطابق مدارس کی ملازمت میں اردو کی لازمیت ختم کرنے کے فیصلے سے مدارس کی تعلیم کا معیار متاثر ہو گا۔
مایاوتی نے 2007میں اپنے دور اقتدار میں نہ جا نے کس سیاسی مفاد یا سیاسی مصلحت کی خاطر انگریز حکمرانوں کے دور سے چلے آ رہے عربی فارسی بورڈ الٰہ آباد بورڈ کا نام بدل کر مدرسہ شکشا پریشد اتر پردیش /مدرسہ ایجوکشن بورڈ اتر پردیش کر دیا تھا ۔ 2007 تک عربی فارسی کے فروغ میں عربک بورڈ الٰہ آباد کو جو معتبریت حاصل تھی، وہ اس کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتی رہی اور جب مدارس کی جدید کاری کا سلسہ شروع ہوا تو ریاضی، سائنس، انگریزی اور ہندی کو نصاب میں اختیاری مضمون کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ ان مضامین کو پڑھا نے کے لیے ماہا نہ اعزازیہ پر انٹر اور گریجوئٹس اساتذہ کی تقرریاں شروع ہو ئیں تو مدرسہ شکشا پریشد /مدرسہ ایجو کیشن بورڈ سے مدارس کے الحاق کی ہوڑ لگ گئی۔ 2007 تک عربک بورڈ سے الحاق شدہ مدارس کی تعداد محض 1458 تھی۔ اکھلیش سرکار کے قیام کے بعد قاضی زین الساجدین کو بورڈ کی چیئرمینی سونپی گئی تو 1458 الحاق شدہ مدارس کی تعدادبڑھ کر7 ہزار کے قریب ہو گئی تھی۔ اس میں صرف 500 مدارس ایسے تھے جو گرانٹ لسٹ میں شامل تھے اور ریاستی سرکار اعزازی اساتذہ کے ماہا نہ اعزازیہ کے علاوہ مستقل اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرتی تھی۔ اعزازی اساتذہ کی تقرریوں میں اضلاع کے مائنارٹی ویلفیئر دفاتر اور بورڈ کی ملی بھگت سے کاغذی تنظیموں کے ذریعے ایک ایک تنظیم نے اپنی فرنچائزی پر 100-100 مدارس کا ٹھیکہ اپنے نام چڑھوالیا تھا۔ اساتذہ کی تقرری سے لے کر ماہا نہ اعزازیہ میں بھی کاغذی تنظیموں کے کرتا دھرتائوں نے اپنی جیبیں بھرنا شروع کر دی تھیں۔ اکھلیش سرکار میں 149 مدارس نے گرانٹ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں گزاریں۔ اکھلیش سرکار نے مائنارٹی ویلفیئر ڈائریکٹوریٹ کو اس کی جانچ کی ہدا یات بھی جا ری کی تھیں۔ معلوم نہیں اس جانچ کا کیا حشر ہوا۔
یہاں بات مدرسہ بورڈ ایجو کیشن اتر پردیش کی اردو دشمنی کی ہو رہی ہے تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ عربک بورڈ کا قیام ہی عربی، فارسی اور اردو کے فروغ کے لیے کیا گیا تھا ۔ عربک بورڈ کا قیام اس وقت کے گورنر سر ولیم میور نے 1866 میں کیا تھا۔اس کے پس پشت ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص سرسید احمد خاں جیسے مسلم رہنمائوں کی ناراضگی کو دور کرنا تھا۔ اس وقت بنارس کی ایک تنظیم ہندی پر چارنی سبھا نے اردو، فارسی کی جگہ ہندی کو سرکاری کام کاج میں استعمال کرنے کی تحریک شروع کر رکھی تھی۔ سرسید احمدکا خیال تھا کہ اس کے پیچھے ہندو-مسلمانوں کو لڑا نے کے لیے انگریزوں کا ہی ہاتھ تھا۔ اس تحریک کا مقصد عربی، فارسی ہی نہیں اردو کو بھی سرکاری دفتروں سے باہر کرنا تھا۔ مسلم رہنمائوں بشمول سر سیّدؒکے اس اندیشے کو دور کر نے کے لیے انگریز حکو مت نے عربک بورڈ الٰہ آباد کو باقاعدہ ایک ضابطے کا پابند بنا دیا تھا۔ اس وقت محکمۂ تعلیم نام کا کوئی محکمہ با قاعدہ طور پر نہیں تھا۔ تعلیمی امور کی ہدایات عامہ کے تحت انجام دیے جا تے تھے۔ عربک بورڈ کو ایک ضا بطے کا پابند بنا کر اس بورڈ کے تحت تحتانیہ ( پرائمری )، فو قیانہ ( سیکنڈری) اور عالیہ (گریجویشن) کے درجات قائم کیے گئے۔ اسی کے تحت منشی، مولوی، عالم اور کامل کی اسناد کامیاب طلبہ کو دی جا نے لگی تھیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جا ری ہے اور ان اسناد کو پرائمری ، سیکنڈری اور گریجویشن کے مساوی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اردو اساتذہ کی تقرری میں بھی ان اسناد کو منظوری دی گئی تھی۔
جن مدارس میں ان درجات کی باقاعدہ کلاسز چلتی ہیں، اطلاعات کے مطابق ان میں مدرسہ مفتاح العلو م ( مئو)، دارالعلوم ( مئو)اور مرادآ باد کے دو مدارس ، جامعہ الہدایہ اور مدرسہ امداد الغربا کے علاوہ کچھ مدارس اعظم گڑھ میں ہیں جہاں باقاعدہ کلاسز میں مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کے نصاب کی کلاسز چلتی ہیں۔ اکثرالحاق شدہ مدارس میں ریگو لر کلاسز محض کاغذوںمیں چلتی ہیں۔ پرائیویٹ فارم بھر کر ہی طلبہ امتحان دیتے ہیں۔ اب لڑکیوں پر بھی اس مدرسہ تعلیم کے دروازے کھول دیے گئے تھے جس کے پس پشت اردو ٹیچر کی سرکاری ملازمت کی امید تھی جو 2017 میں بی جے پی کی سرکار کے بعدختم ہو کر رہ گئی، تاہم جو مدارس گرانٹ پر ہیں، ان کے اساتذہ کو تنخواہیں پے اسکیل کے مطابق مل رہی ہیں۔ اعزازی اساتذہ کا اعزازیہ کئی کئی ماہ بعد یا سال بعد ملتا ہے۔ اس میں بھی چور دروازے سے وہ مدرسہ مافیا ہاتھ صاف کر جا تے ہیں جو ایک سے زائد مدارس کسی ایک تنظیم کے نام پر چلا رہے ہیں جن کے ہاتھوں اعزازی اسا تذہ کا معاشی استحصال کیا جا تا رہا ہے لیکن یہ جو کچھ مل رہا ہے، وہ اردو کی لازمیت کا فیض ہے، ورنہ معاشی اعتبار سے اب اردو کی جو حالت ہے، وہ کسی سے پو شیدہ نہیں ہے۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اتر پردیش کے سائنس، ریاضی اور تاریخ کے اساتذہ کی تقرری سے اگر اردو کی لازمیت ختم کر دیے جانے کی مدرسہ بورڈ کی تجاویز کو حکو مت کو ماننے میں کیا عار ہو سکتا ہے، اس لیے اگر یہ کہا جا ئے کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا یہ فیصلہ اردو دشمنی پر مبنی ہے تو کیا بیجا ہے۔ اب جبکہ معاشی طور پر اردو کے لیے سب دروازے تقریباً بند ہیں تو یہ ایک دروازہ اور بند ہو جائے گا اور یہ خدشات اسی وقت سے محسوس کیے جا نے لگے تھے جب بورڈ کا نام ہی نہیں شکل ہی بدل دی گئی تھی اور بورڈ پر وہ عناصر قابض ہوگئے یا قابض کرا دیے گئے تھے جو بقول ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کے چیئرمین اور بورڈ کے ممبران مدرسہ بورڈ کے ایکٹ کے مطابق شرائط پر ہی کھرے نہیں اتر تے تو کس سے کیا گلہ کرے کوئی کہ یہ تو باڑھ ہی کھا گئی ۔
کتنے دور اندیش تھے اکابر اور بانیان دارالعلوم دیو بند اور کتنے کھرے تھے ان کے اصول ہشتگانہ، دارالعلوم دیو بند کی طرح ہی بانیان مظاہر علوم نے سرکاری امداد کو پہلے دن سے پرے رکھا اور ملت کے چندے سے کروڑوں کے سالانہ بجٹ کو پورا کیا بھی اور مدارس کو چلایا بھی اور چلابھی رہے ہیں۔ رہی بات مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کی تو کون جا نے آگے اس کی کیا درگت بنتی ہے۔
zuberi019@gmail.com

The post یو پی مدرسہ ایجو کیشن بورڈ:تجاویز اور خد شات! appeared first on Roznama Sahara.

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...