Powered By Blogger

ہفتہ, جون 25, 2022

مدھوبنی : 25 جون 022 کوضلع کے بینی پٹی لیلادھرہاءی اسکول کے ٹیچر ماسٹر محمد ہارون صاحب ( باشندہ گنگولی گاؤں )

مدھوبنی : 25 جون 022 کوضلع کے بینی پٹی لیلادھرہاءی اسکول کے ٹیچر ماسٹر محمد ہارون صاحب ( باشندہ گنگولی گاؤں ) بینی پٹی انومنڈل سطح پر مادھمک شکچھک سنگھ کے سکریٹری عہدہ پر کامیابی حاصل کیا, واضح ہوکہ سنگھ کی بیٹھک میں 6 امیدواروں میں موصوف واحد مسلم چہرہ تھا,
اس عہدے پر براجمان ہونے پر دوست و احباب اور متعلقین میں خوشی کا ماحول ہے نیز ڈھیرساری دعاءیں بٹور رہے ہیں,ساتھ ہی اساتذہ کے ہر طرح کے مساءل کو جمہوری طریقہ پر حل کرنے و کرانے کی جدوجہد کرتے رہیں گے,یہ کہناہے ماسٹر محمد ہارون صاحب کا- یاد ریے کہ موصوف کی ایلیہ محترمہ بھی ہاءی اسکول کی ٹیچر ہیں, (م- احمد گنگولوی)

آسام کے بعد مہاراشٹر میں بارش کا قہر،سات ہلاک

آسام کے بعد مہاراشٹر میں بارش کا قہر،سات ہلاک 

اورنگ آباد: مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ علاقے کے اورنگ آباد اور جالنا اضلاع میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں بارش سے متعلق واقعات میں کم از کم سات افراد کی موت ہو گئی۔

موصولہ اطلاع کے مطابق اورنگ آباد ضلع کے کنڑ تعلقہ کے ادگاؤں-جوہر گاؤں میں بادل پھٹنے سے آٹھ افراد سیلابی پانی میں بہہ گئے۔

ان میں سے پانچ کو بچا لیا گیا لیکن ایک خاتون اور دو لڑکیاں دم توڑ گئیں۔ ایک اور واقعہ میں سویا گاوں تعلقہ کے ہنومنت کھیڑا کے رہنے والے 20 سالہ کشور پوار کی آسمانی بجلی گرنے سے موت ہو گئی۔

جالنا ضلع میں آسمانی بجلی گرنے سے تین افراد کی موت ہو گئی۔ مرنے والوں کی شناخت رینا داور، امباد دھننجے میتھے اور شانتا بائی رنگناتھ پوار کے طور پر کی گئی ہے۔ (ایجنسی)

امارت شرعیہ کے آٹھویں امیر شریعت حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے بڑا منصوبہ بنایا ہے

امارت شرعیہ کے آٹھویں امیر شریعت حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے بڑا منصوبہ بنایا ہے کہ صوبہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے مسلم اکثریتی علاقے میں اسلامی ماحول میں عصری تعلیم کے فروغ کے لئے سی بی ایس ای اسکول انگلش میڈیم کے ساتھ قائم ہوگا۔ الحمد للہ اس کی شروعات ہو چکی ہے ۔ سرزمین سہوڑا، ضلع گڈا میں مورخہ ۲۸؍ جون کوامارت پبلک اسکول کا افتتاح ہو رہا ہے۔ اس اسکول میں فی الحال نرسری ، ایل کے جی، یو کے جی اور پہلی جماعت(اسٹینڈر  ون) تک کی تعلیم ماہر اساتذہ کی نگرانی میں ہوگی۔
 *اس اسکول کے لئے ۲؍مدر ٹیچر’’جو نرسری ایل کے جی کے بچوں کو اچھے سے سنبھال سکیں اور تمام سبجیکٹ بڑھا سکیںــ‘‘ ۲؍پرائمری ٹیچر’’ جو تمام سبجیکٹ پڑھا سکیں‘‘اور ایک ایسے باصلاحیت آفس انچارج کی ضرورت ہے جوکمپیوٹر کی جانکاری رکھتے ہوں اور اسکول سے متعلق کاموں کا اچھا تجربہ بھی ہو۔ خواہشمند حضرات مندرجہ ذیل پتہ پر اپنا بایو ڈاٹاجمع کر سکتے ہیں۔ ٹیچر کی بحالی انٹرویو کے ذریعہ ہوگی۔انٹرویو کی تاریخ 26 جون 2022 بروز اتوار بوقت 10 بجے دن  امارت پبلک اسکول سہوڑا  گڈا میں ہونا طے پایا ہے ۔۔
لیاقت : گریجویشن )( ڈی ایل ایڈ)( ڈی ایڈ) (بی ایڈ)
امارت پبلک اسکول سہوڑا پوسٹ مہیش ٹکری ، بلاک بسنت رائے ضلع گڈا
موبائل نمبر : (9472077527-9304796956)
مندرجہ بالا نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں اور بذریعہ وہاٹس ایپ اپنا بایو ڈاٹا بھی بھیج سکتے ہیں۔ انٹرویو کی تاریخ آپ کے دئے گئے نمبر پر فون کرکے دی جائے گی۔

ترکی کی معروف اسلامی عالمی شخصیت شیخ محمود آفندی کا انتقال

ترکی کی معروف اسلامی عالمی شخصیت شیخ محمود آفندی کا انتقالاستنبول،عالم اسلام کی معروف شخصیت اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے پیر اوستاؤسمان اوغلو یا شیخ محمود آفندی کا انفیکشن کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے کے دو ہفتے بعد انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر تقریباً 93برس تھی۔ یہ اطلاع وکی پیڈیا پر دی گئی ہے۔ اوستاؤسمان اوغلو جن کو عام طور پر محمود آفندی کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کے شاگردوں میں حضرت لری آفندی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ایک ترک صوفی شیخ اور نقشبندی خالدیہ سلسلے کے بااثر جامعہ اسماعیلہ کے رہنما تھے۔ محمود آفندی ضلع اوف کے گاؤں مکو(اب تیوسانلی) میں 1929میں ایک گاؤں کے امام کے یہاں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 10 سال کی عمر میں اپنے والد کے زیر سایہ حافظ بن گئے اور 16 سال کی عمر میں اپنا اجازہ حاصل کرتے ہوئے مدرسہ کی تعلیم جاری رکھی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی چچا زاد بہن سے شادی کی اور امامت کا کام شروع کیا۔ 1952ء میں، محمود آفندی سے احسکاعلیٰ حیدر آفندی (گربزلر) سے ملاقات ہوئی، جو ایک نقشبندی شیخ تھے وہ ان کے مرشد بن گئے۔ علی حیدر آفندی نے انہیں 1954ء میں اسماعیلہ مسجد کا امام مقرر کیا۔ جہاں وہ سال 1996ء تک امام رہے، 1960ء میں علی حیدر آفندی کے انتقال کے بعد محمود آفندی کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ آیا اور وہ اس راستے (طریقہ) کے رہنما بن گئے۔ 1996ء میں، وہ اسماعیلہ مسجد کے امام کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ محمود آفندی نے آنے والے سالوں میں، خاص طور پر 1997ء کے میمورنڈم کے بعد، تنہائی میں رہنے کی کوشش کی، لیکن سلسلے میں اندرونی جھگڑوں کے ایک سلسلے کی وجہ سے ان کے تعلقات عوامی سطح پر آگئے۔ ان کے داماد حضر علی مراتو اوغلو کو 1998ء میں قتل کر دیا گیا تھا اور 2006ء میں ایک ریٹائرڈ امام بیرم علی اوزترک کو مسجد میں قتل کر دیا گیا تھا اور جس شخص نے انہیں چاقو مار کر قتل کیا تھا اسے جماعت نے بلوے میں قتل کر دیا تھا۔ رجب طیب ایردوان محمود آفندی کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ایردوان نے 2014ء میں صدارتی انتخابات سے ایک رات قبل محمود آفندی (استاؤسمان اوغلو) کی خانقاہ کا انتہائی مشہور دورہ کیا۔ واضح رہے کہ ترکی میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علمائے نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دھاتی گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینا شروع کیا تھا اور جب وہاں کے لوگ فوج کو آتے دیکھتے تو فورن بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے یوں محسوس ہوتا تھا یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ان طالبعلموں میں یہ شیخ محمود آفندی نقشبندی بھی شامل تھا اسی طرح دینی تعلیم حاصل کی۔پھر وہاں سے شہر کا رخ کیا وہاں ایک قدیم مسجد تھی محمود آفندی نقشبندی جب وہاں رہنے لگے اورچالیس سال تک درس دیتے رہے۔ اس کے علاوہ ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا وہ وہاں کے بانی کمال اتا ترک نے عربی کتاب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی تو شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے گردان پڑھائے حج اور نماز کے مسئلے بھی ہاتھوں کے اشاروں پر سمجھائے اللہ تعالی نے اس کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھا تھا شیخ محمود آفندی علمائے دیوبند سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ شیخ آفندی نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کو چودہویں صدی کا مجدد کہا۔ جنہوں نے اٹھارہ جلدوں میں ترکش تفسیر "روح الفرقان" لکھی اور اسکی چوتھی جلد کے صفحہ 724 پر مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو شیخ المشائخ اور مولانا ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کو امام, محدّث اور علامہ لکھا۔یہی وجہ ہے کہ 2013 میں شیخ الاسلام شیخ محمود آفندی کو "امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اوارڈ" سے بھی نوازا-

قربانی کےبغیرعیدقرباں منانے کی اپیل

قربانی کےبغیرعیدقرباں منانے کی اپیل

نئی دہلی: اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا، مرکزی حکومت کا ایک قانونی ادارہ ہے،اس نے عید الاضحی کے دوران جانوروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کو روکنے کے لیے پیٹا انڈیا کی درخواست پر تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو نوٹس جاری کیے ہیں۔

بورڈ نے اپنی سفارش میں کہا کہ عید کے دوران ٹرانسپورٹ اینیمل رولز 1978 کی کئی خلاف ورزیاں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ گاڑی میں لے جانے والے جانوروں کی تعداد محدود نہیں ہے۔ بعض اوقات عید کے موقع پر جانوروں کی نقل و حمل میں اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔

نوٹس میں جانوروں پر ظلم کی روک تھام (ذبح خانہ) رولز، 2001 کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص میونسپل ایریا کے اندر کسی بھی جانور کو ذبح نہیں کرے گا، سوائے مذبح کے۔

اس کے علاوہ اس میں کہا گیا ہے کہ فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا کے قوانین کے تحت اونٹوں کی قربانی نہیں کرنی چاہیے۔ فرحت العین، ایسوسی ایٹ پیٹا انڈیا ایڈوکیسی نے کہا، تمام مذاہب ہمدردی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور جانوروں کے تحفظ کے قوانین پر عمل کرنا ہر ایک کی شہری ذمہ داری ہے۔

پیٹا انڈیا اپیل کرتا ہے کہ عید جانوروں کو ذہن میں رکھ کر منائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ میری طرح پیٹا انڈیا کے بہت سے مسلمان پیروکار نقد رقم، کپڑے، سبزی پرمبنی کھانا یا دیگر اشیاء عطیہ کر کے قربانی کے بغیر عید مناتے ہیں۔پیٹا انڈیا نے جانوروں پر ظلم کی روک تھام ایکٹ 1960 کے سیکشن 28 کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

آدھی ملاقات ‘‘ ایک مطالعہ ایک تأثر انوارالحسن وسطوی

’’آدھی ملاقات ‘‘ ایک مطالعہ ایک تأثر
  انوارالحسن وسطوی 
 زیر نظر کتاب ’’آدھی ملاقات‘‘ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جنہیں انہوں نے اکابرین، معاصرین اور متعلقین کے نام وقتا فوقتا ارسال کیے تھے، اس سے قبل مفتی صاحب موصوف اپنے نام آئے خطوط کا مجموعہ ’’نامے میرے نام‘‘(جلد اول) مطبوعہ ۲۰۱۶ء ) نذر قارئین کر چکے ہیں، خطوط کو سنجوگ کر رکھنا مکتوب نگار اور مکتوب الیہ دونوں کے لئے مشکل کام ہے ، لیکن اس موبائل او رانٹرنیٹ کے دور میں بھی کچھ ایسے با ذوق مل جائیں گے جو خطوط کی اہمیت کے معترف بھی ہیں اوراس کی حفاظت بھی کرتے ہیں، ایسی ہی نادر روزگار شخصیتوں میں ایک نام مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا بھی ہے ۔ تقریبا چار درجن کتابوں کے مصنف مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، ان کے تعلق سے میرے لیے کھ کہنایا لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، انہوں نے مضمون نگاری، تنقید نگاری، سوانح نگاری، صحافت نگاری کے ساتھ ساتھ مکتوب نگاری کے میدان میں بھی اپنا کمال دکھایا ہے جس کا اندازہ ان کی پیش نظر کتاب ’’آدھی ملاقات‘‘ کے مطالعہ سے لگایا جا سکتاہے ۔
’’آدھی ملاقات‘‘ تین ابواب پر مشتمل ہے، باب اول میں وہ خطوط شامل ہیں جو مکتوب نگار کے ذریعہ اکابرین کے نام ارسال کیے گئے تھے، اس فہرست میں کل تیرہ نام شامل ہیں، جو اس طرح ہیں: مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی، مولانا سید نظام الدین ؒ، مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ ، مولانا سعید الرحمن اعظمی، مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا سید محمد شمس الحق ؒ، مولانا سید سلمان الحسینی ندوی، مولانا عمید الزماں کیرانویؒ قاری مشتاق احمد ؒ اور ڈاکٹر منظور عالم (جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل) 
اکابرین کے نام لکھے گئے ان خطوط میں سب سے زیادہ نو (۹) خطوط حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ امیر شریعت سادس کے نام ہیں، اس کے بعد حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ امیر شریعت سابع کے نام خطوط ہیں، جن کی تعداد آٹھ (۸) ہے، ان خطوط کے مطالعہ سے مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی کی علمی، دینی ، فلاحی اور ملی خدمات اور اکابرین کی نظر میں ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ باب دوم میں خطوط کی تعداد کل اڑسٹھ (۶۸)ہے ۔ یہ خطوط وہ ہیں جنہیں مکتوب نگار نے اپنے معاصرین کے نام ارسال کیے ہیں، ان معاصرین میں علمائ، ادبائ، اساتذہ، دانشور، سیاست داں اور صحافی سب شامل ہیں، ہر خط کا مزہ اور لہجہ جداگانہ ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ، یہ خطوط ذاتی نوعیت کے بھی ہیں اور کچھ کا تعلق علمی، ادبی، لسانی اور ملی سر گرمیوں سے  ہے، اس فہرست میں راقم السطور کے نام بھی مفتی صاحب کے پانچ (۵) خطوط شامل ہیں۔
 باب سوم کے خطوط اہل خانہ او رمتعلقین کے نام ہیں، جن میں مکتوب نگار کے والد ، والدہ، بڑے بھائی، چھوٹے بھائی، اہلیہ، بیٹی اور دیگر رشتہ دار شامل ہیں، اس فہرست میں ان کے ابا جان ماسٹر محمد نور الہدیٰ رحمانیؒ کے نام بھیجے گئے خطوط کی تعداد تیس (۳۰) ہے، اس کے بعد چھوٹے بھائی ماسٹر رضاء الہدیٰ کے نام بھیجے گئے خطوط ہیں جن کی تعداد انیس (۱۹) ہے، خطوط کے اس ہجوم میں اہلیہ (عشرت خاتون) کے نام ارسال کیے گئے بھی دو (۲) خطوط شامل ہیں، جن کی نوعیت ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہے، ایک خط کی افادیت کے پیش نظر اسے یہاں نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر شوہر اپنی شریک حیات سے اس کے وفادار ہونے کی توقع رکھتا ہے، تاکہ ازدواجی زندگی خوش وخرم گزرے، مختصر سے اس خط میں ڈھیرساری نصیحتیں موجود ہیں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس خط کا مطالعہ قاری کے لیے سود مند ہوگا۔
’’زندگی کی پریشانی اور الجھنوں کو ہنس ہنس کر جھیلنا سیکھو، یاد رکھو! زندگی ایک امتحان ہے اور اس میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنی انانیت اور کبر کو ختم کرنے کے لیے تیار رہے، جو دوسروں کی بڑائی کو تسلیم کرکے چلے ، یہاں جیتے جی اپنے کو ہلاک کرنا پڑتا ہے اور کبھی تو اپنے ہاتھوں قبر بنا کر اس میں لیٹ جانا پڑتا ہے، جب زندگی اس ایثار کی عادی ہوجائے تب جا کر آدمی کامیاب ہوتا ہے، خصوصا عورت کی تو پوری زندگی ایثار وقربانی سے عبارت ہوتی ہے، زندگی بھر وہ گھر لگاتی رہتی ہے، اور پگڑی کسی اور کی اونچی ہوتی ہے، لیکن یقین جانو، اسی ایثار سے گھر بنتا ہے ، اونچے اونچے گنبد اور فلک بوس عمارتیں جب ہی کھڑی ہو سکتی ہیںجب کچھ اینٹیں اپنے کو زمین میں دفن کرنے کو تیار ہو سکیں، وہ اینٹ کسی کو نظر نہیں آتی ، لیکن صحیح او رسچی بات یہ ہے کہ اسی پر ساری عمارت اور گنبد کھڑا ہوتا ہے، اس لیے میری جان ! قربانی یہ نہیں ہے کہ آدمی لڑکر مرجائے، گھریلو جھگڑوں سے عاجز ہو کر خود سوزی اور خود کشی کرلے، اختلاف کی وجہ سے الگ دنیا آباد کرے، قربانی یہ ہے کہ آدمی ان تمام کو انگیز کرکے ایک ایسے نتیجہ خیز عمل کا آغاز کردے جس میں وہ غیر مشہور ہوکر خود چاہے دفن ہوجائے لیکن اپنے خاندان کی پگڑی کو اوپر رکھے۔‘‘ (صفحہ ۲۱۸)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا ایک خط اپنی بیٹی حافظہ رضیہ عشرت کے نام بھی ہے ، وہ خط بھی بہت خوب اور قابل مطالعہ ہے، بیٹی کی جدائی ہر باپ پر کس قدر شاق گزرتی ہے، یہ وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس مرحلہ سے گزرا ہو، جدائی پر بیٹی کو باپ کی جانب سے کیا نصیحت ملنی چاہیے اس کی عکاسی مکتوب نگار کے اس خط سے ہوتی ہے، لاحظہ ہو مذکورہ خط کا ایک اقتباس:
’’… یہ تو سسرال والوں کی باتیں تھیں، اس علاقے میں تمہارا پالا ایک اور شخص سے پڑے گا جسے عورتیں سرتاج کے نام سے تعبیر کرتی ہیں، وہ واقعی سرتاج ہوتا بھی ہے، جسے عام اصطلاح میں شوہر کہتے ہیں یہ کچھ زیادہ ہی نازک مزاج ہوتے ہیں، ذرا سی بات کا بُرا مان جاتے ہیں اور پھر نوبت کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے، ان کے معاملات میں لچک پیدا کرنا، اتنی لچک کہ تم خود کو ان کی مرضی کے مطابق ڈھال سکو، ان کے پسندیدہ رہن سہن ، طور طریقے ، نظریات وخیالات کو اپنانے کی کوشش کرنا، باہمی اختلافات، نرمی اور آپس کی بات چیت سے سلجھا لینا کہ کامیاب زندگی کے لیے یہ نیک شگون ہے، خدا کرے کہ تمہاری پوری زندگی پھولوں کی سیج کی طرح خوشگوار گزرے، تم زندگی کی مسافر ہو اور تمہارا غریب باپ رہنمائی کے لیے یہ ہدایات دے رہا ہے۔‘‘(صفحہ ۲۲۱-۲۲۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایک جید عالم دین اور کہنہ مشق صھافی کے ساتھ ساتھ ایک معروف انشا پرداز بھی ہیں، ان کی انشاء پردازی کا ایک عمدہ نمونہ ان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ہے۔ ’’ آدھی ملاقات‘‘ کا علمی وادبی رنگ وآہنگ مسلم ہے، چنانچہ قاری کو اس سے محظوظ اور مستفیض ہونے کے لیے ایک بار اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، مفتی صاحب نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ موبائل اور انٹر نیٹ کے اس دور میں خطوط کی اہمیت سے نئی نسل کو روسناش کرانے اور اس ورثہ کو نئی نسل کو منتقل کرنے کی ایک عمدہ کاوش کی ہے، جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، مفتی صاحب نے اپنی اس کتاب کے تعلق سے اپنے ’’حرف چند ‘‘میں بجا تحریر فرمایا ہے:
’’گویا آدھی ملاقات سے موسوم خطوط کا یہ مجموعہ قوس قزح کی طرح ہے، جس کا ہر رنگ آنکھوں میں نور اور دل میں سرور پیدا کرتا ہے، بعض خطوط کے مندرجات سے ادارے کی اس دور کی سرگرمیوں اور افراد کی مشغولیت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کم وبیش پچاس سال کے دورانیہ میں لکھے گئے یہ خطوط میری انداز نگارش اور بدلتے ہوئے اسلوب سے بھی آپ کو واقف کراتے ہیں۔‘‘ (صفحہ ۱۰)
۲۳۶ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت صرف ایک سو پچیس روپے ہے، جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ، نور اردو لائبریری ، حسن پور گنگھٹی، بکساما، ویشالی، بہار، الہدیٰ ایجوکیشنل اینڈ ویفیر ٹرسٹ آشیانہ کالونی روڈ نمبر ۶، باغ ملی حاجی پور اور بک امپوریم اردو بازار ، سبزی باغ، پٹنہ ۴ سے حاصل کیا جا سکتا ہے، مصنف سے براہ راست رابطہ کا نمبر ہے9431003131

بچے کو ڈسنے کے بعد زہریلا سانپ مرگیا ، عجیب وغریب واقعہ پر لوگ حیرت زدہ رہ

بچے کو ڈسنے کے بعد زہریلا سانپ مرگیا ، عجیب وغریب واقعہ پر لوگ حیرت زدہ رہنئی دہلی: اکثرآپ نے سنا یا دیکھا ہوگا کہ زہریلے سانپ کے ڈسنے سے انسان کی موت ہوجاتی ہے لیکن ریاست بہارمیں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا۔ ایک سانپ نے بچہ کو ڈس لیا اوربچہ کو ڈسنےکے بعد سانپ ہی مرگیا۔ بہار کے گوپال گنج میں 4 سالہ بچے کوایک سانپ نے ڈس لیا۔ پہلے تو بچے کے گھر والے ڈر گئے کہ اب کیا ہو گا؟ لیکن تھوڑی ہی دیر میں انھوں نے دیکھا کہ بچہ کو تو کچھ نہیں ہوا البتہ زہریلا سانپ تڑپ تڑپ کرمر گیا۔ جب بچے کے گھر والے اس بچہ کو لے کر ڈاکٹرس کے پاس گئے تو وہ بھی یہ واقعہ سن کر حیران رہ گئے لیکن بعد میں انہوں نے بتایا کہ ایسا بھی ممکن ہے۔ اگر بچے کی قوت مدافعت زیادہ ہو تو یہ بھی ممکن ہے۔
دراصل یہ معاملہ بہار کے گوپال گنج کا ہے جہاں ایک 4 سالہ بچہ اپنے گھر کے باہر کھیل رہا تھا کہ اس دوران بچے کو سانپ نے ڈس لیا اور سانپ کی موت ہو گئی۔ اس واقعہ کے بارے میں بچے کی والدہ نے بتایا کہ وہاں بہت سے دوسرے لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا۔ سانپ کے ڈسنے کے بعد بچہ روتا ہوا گھر آیا تو اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ بچے کی والدہ نے بتایا کہ جب اس کے ماموں نے مردہ سانپ کو باہر دیکھا تو انہیں یقین نہیں آیا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔

اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی لوگوں کا ہجوم یہ جاننے کے لیے جمع ہوگیا کہ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ مقامی ڈاکٹر منموہن نے بتایا کہ ہر انسان کے اندر قوت مدافعت ہوتی ہے، ہوسکتا ہے اس بچے کے اندر قوت مدافعت بہت زیادہ تھی جس کی وجہہ سے سانپ مرگیا۔ تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے اور پورے علاقے میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔

جمعیۃ علما ء تین دن میں حلف نامہ داخل کرے گی : مولانا مدنی

جمعیۃ علما ء تین دن میں حلف نامہ داخل کرے گی : مولانا مدنی

عدالت میں اُن سب حقائق کو پیش کیا جائے گا جسے یوپی حکومت نے جان بوجھ کر اپنے حلف نامہ میں شامل نہیں کیا
یوپی میں بلڈوزر کارروائی

نئی دہلی : یوپی کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی املاک کی غیر قانونی انہدامی کارروائی کے خلاف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی جانب سے داخل عرضی پرسپریم کورٹ میں آج ہونے والی سماعت کے دوران جمعیۃ علمائے ہند نے یو پی حکومت کے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کرتے ہوئے جواب دینے کے لئے تین دن کی مہلت طلب کی جسے کورٹ نے منظور کرلیا۔اترپردیش میں بغیر عدالتی حکم کے غیر ْقانونی انہدامی کارروائی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت عمل میں آئی، جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت سے یو پی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ کا جواب داخل کرنے کے لیے وقت طلب کیا جسے عدالت نے منظور کرلیا۔سپریم کورٹ کی تعطیلاتی بینچ کے جسٹس سی ٹی روی کمار اور جسٹس سدھانشو دھولیہ کو ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے بتایا کہ یو پی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر انہیں اعتراض ہے ۔لہٰذا وہ جوابی حلف نامہ داخل کرنا چاہتے ہیں جس پر سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے بھی اعتراض نہیں کیا ۔ سالیسٹرجنر ل کی جانب سے اعتراض نہیں کیے جانے کے بعدعدالت نے سماعت چہارشنبہ 29 جون تک ملتوی کردی اور جمعیۃ علماء ہند کو اجازت دی کہ وہ اس درمیان جوابی حلف نامہ داخل کرے ۔جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ یوپی کے مختلف شہروں میں انہدامی کاررائی انجام دی گئی ،خاص طور پر سہارنپور میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلائے گئے ۔جبکہ حلف نامہ میں صرف تین جگہوں کا ہی ذکر کیا گیاہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یو پی حکومت عدالت سے حقائق کو چھپا رہی ہے ۔جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ہمارے وکلاء یو پی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ کا جواب دیں گے اور عدالت کے روبرو ان سب حقائق کو پیش کیا جائے گا جسے جان بوجھ کر یوپی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں شامل نہیں کیاہے ۔ اس سے قبل کی سماعت پر جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کے روبرو جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء نتیا راما کرشنن اور سی یو سنگھ پیش ہوئے تھے جنہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ کارروائی پر عدالت نے غیر قانونی بلڈوزر انہدامی کارروائی پر نوٹس جاری کیے جانے کے بعد بھی یوپی میں غیر قانونی طریقے سے انہدامی کارروائی کی جارہی ہے ، جس پر روک لگانا ضروری ہے ۔ نیز ان افسران کے خلاف کارروائی کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے قانون کی دھجیاں اڑاکر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے ۔سینئر وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ایمرجنسی کے دوران بھی ایسی بربریت نہیں ہوئی تھی جیسی آج یو پی میں کی جارہی ہے ۔

اُردو یونیورسٹی میں جلد شروع ہوگی سیول سروسس کی کوچنگ

اُردو یونیورسٹی میں جلد شروع ہوگی سیول سروسس کی کوچنگ

اردو دنیا نیوز۷۲ حیدرآباد

کووڈ 19 کے باعث یونیورسٹی کی مسابقتی امتحانات کی اکیڈیمی کا کام رک گیا تھا۔ لیکن اب مرکزی وزارتِ اقلیتی امور کی جانب سے مالیہ کی فراہمی کے سلسلے میں پیشرفت ہوئی ہے اور بہت جلد اقلیتوں کے لیے مسابقتی امتحانات کی کوچنگ اکیڈیمی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں قائم ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں ایک مرکزی ٹیم بہت جلد یونیورسٹی کا دورہ کرے گی۔

کرکٹ گراﺅنڈ کے سلسلے میں بھی جناب محمد اظہر الدین، صدر حیدرآباد کرکٹ اسوسی ایشن سے بات ہوئی ہے۔ بہت جلد اس سلسلے میں یادداشت مفاہمت کا امکان ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی طلبہ یونین کے پروگرام جشنِ بہاراں 2022 کے افتتاحی اجلاس کے دوران کیا۔

جشن کے تحت مختلف ادبی، ثقافتی اور کھیل کود مقابلوں کا اہتمام کیا جائے گا جو 28 جون تک جاری رہیں گے۔ 5 جولائی کو ایک جاب فیسٹ کا بھی انعقاد عمل میں آئے گا۔

پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ "میں نے ہندوستان میں بھی اور ملک کے باہر بھی بہت سے کیمپس دیکھے لیکن مانو میں ایک خاص بات دیکھی۔

یہاں کے طلبہ میں جو انکساری ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتی۔ مانو کے طلبہ جب اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے مقالے پیش کرتے ہیں وہ دیگر سے بہتر نظر آتے ہیں۔"انہوں نے مانو کیمپس کو صحت کے تئیں حساس قرار دیا اور کہا کہ کیمپس میں سگریٹ نوشی بھی نہیں کی جاتی۔

پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ تعلیم کے ساتھ زائد نصابی سرگرمیاں بھی ضروری ہیں۔ جشنِ بہاراں ہمیں اس کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ طلبہ جہاں اس موقع کا فائدہ اٹھائیں وہیں اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ کچھ بھی غلط کرنے پر دنیا میں اور دنیا کے بعد اس کا حساب ہوگا۔

انہوں نے طلبہ یونین کے صدر محمد مرسلین کی ستائش کی جنہوں نے اپنی تقریر میں جشن بہاراں کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے حالات کے پیش نظر تیار کیے گئے شیڈول کا تذکرہ کیا۔

پروفیسر علیم اشرف جائسی، ڈین بہبودیِ طلبہ نے خیر مقدمی خطاب میں طلبہ اور ڈی ایس ڈبلیو ٹیم کی گذشتہ دنوں کی کارکردگی کا ذکر کیا۔ پروفیسر محمد عبدالسمیع صدیقی، صدر نشین، مانو طلبہ یونین مشاورتی کمیٹی و ڈائرکٹر سی پی ڈی یو ایم ٹی نے جشنِ بہارا ں کے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ محمد مرسلین، صدر طلبہ یونین نے بھی خطاب کیا۔

ڈاکٹر محمد یوسف خان، کنوینر، طلبہ یونین مشاورتی کمیٹی و پرنسپل پالی ٹیکنیک نے شکریہ ادا کیا۔ مظہر سبحانی، بی ایس سی نے کاروائی چلائی۔ فاروق اعظم، ایم ایڈ کی قرأت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ شہہ نشین پر پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار؛ طلبہ یونین عہدیداران ابو حمزہ ، نائب صدر؛ انعم جہاں، جوائنٹ سکریٹری اور وقار احمد ، خازن بھی موجود تھے۔

جشن کے پہلے دن آج بیت بازی اور تحریری مقابلے منعقد ہوئے۔ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون بیت بازی اور ڈاکٹر پٹھان رحیم خان، تحریری مقابلوں کے کوآرڈینیٹرس تھے۔ اسپورٹس کی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...