احساس وآگہی کا نقیب
Urduduniyanews72
وصیل خان
اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر ٹانڈہ امبیڈکر نگر کے معروف شاعر وادیب انس مسرور انصاری کی تازہ ترین تجزیاتی تحریر پر مبنی کتاب " عکس اور امکان ,, موجود ہے جو بیشتر ادبی و تحقیقاتی مضامین پر مشتمل ہے ۔ میری عادت رہی ہے کہ میں کسی کتاب کا نہ تو طائرانہ مطالعہ کرتا ہوں نہ ہی سرسری اظہار خیال بلکہ پوری کتاب کو بہ نظر عمیق پڑھنے کے بعد ہی اپنی رائے اور اظہار خیال کیلئے چند شکستہ الفاظ جمع کرپاتا ہوں۔ کسی کی بے جا تعریف وتو صیف ، مدح سرائی اور خواہ مخواہ کی تنقیص کو بھی اللہ نے میری فطرت سے دور رکھا ہے ۔ عام روش سے مکمل انحراف اور تنقید و تنقیص میں فرق کرتے ہوئے خالص علمی سطح پر کلام کرتا ہوں ۔ اللہ اسی نہج کو قائم رکھے ۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند ۔
انس مسرور صاحب سے میری واقفیت اس وقت سے ہے جب انہوں نے جولانگاہ ادب میں اولین قدم رکھا تھا لیکن وہ دن اور آج کا دن نہ رکے نہ تھمے نہ ہی تھکن سے سمجھوتہ کیا آج بھی بساط ادب پر پورے طمطراق سے نہ صرف متمکن ہیں بلکہ آس پاس کے ادبی حلقوں میں معتبر درجے پر فائز ہیں ۔ اب تک نثر ونظم پر مشتمل ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ انس مسرور انصاری صاحب ایک کہنہ مشق شاعر وادیب ہیں ،وہ ادب کی مختلف النوع اصناف پر نہ صرف طبع آزمائی کرتے ہیں بلکہ ان کی بیشتر کاوشات معیارو اعتبار کے درجہ پر فائز نظر آتی ہیں ۔ انس مسرور صاحب کی شعری و نثری تخلیقات تصورات وجذبات کے امتزاج کا ایسا نگارخانہ ہے جس میں زندگی کے مختلف رنگ جھلکتے ہیں ،انسانی عظمت میں آپ کا یقین غیر متزلزل ہے ان کے یہاں خالی خولی جذباتی انداز نہیں بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق کا اظہار صاف ونمایاں نظر آتا ہے ۔ روایات کا احترام ان کی تخلیقات کا نمایاں عنصر تو ہے ہی ساتھ ہی وہ نیرنگ زمانہ کی بنتی بگڑتی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور مثبت حل بھی تلاش کرلیتے ہیں ۔ ماضی اور حال کے دھندلکوں میں وہ نہ خود ایک تابناک مستقبل دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنے قاری کو بھی اس تابناکی کا مشاہدہ کراتے ہیں ۔ اندھیروں کی گہری تہوں کا سینہ چاک کرکے اجالوں کو دیکھ لینا اور موسم خزاں میں بہار کا مشاہدہ بڑی بات ہے ، مزید یہ کہ وہ جس اسلوب میں قاری سے مخاطب ہوتے ہیں اس کی کشش وسادگی دلوں کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ان کا احساس ان کے تخلیقی وجدان سے پوری طرح مربوط و منسلک ہے ۔
عکس اور امکان ان کی تازہ ترین نثری تصنیف ہے جس میں کل بارہ مضامین شامل ہیں اولین مضمون تعلیقات نعت پر ہے جسے خالص تحقیقی انداز میں تحریر کیا گیا ہے جس میں صنف نعت کے متعدد گوشوں پر مدلل اور موثر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن واحادیث اور اس میدان کی عبقری شخصیات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ کتاب سے ایک اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس سے زبان وبیان پر گرفت کے ساتھ ان کی فکری رفعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
" قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی قوم کو عروج صرف اس کی علمی برتری اور فوقیت کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے ۔ قرون وسطیٰ میں عرب مسلمانوں کو زندگی کے ہر میدان میں جو برتری اور تفوق حاصل تھا وہ صرف ان کی علمی برتری کا نتیجہ تھا۔ اس زمانہ میں مسلمان نہ صرف عقلی علوم میں یگانہ و یکتا تھے بلکہ دینی علوم کے امام بھی وہی تھے ۔ "
دوسرا مضمون پروفیسر محمود الٰہی زخمی کی ادبی تحریکات و خدمات اور مولانا آزاد کے جریدہ الہلال کے تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ہے ۔ اسی طرح ابوعلی حسن ابن اللہیشم اور یگانہ روزگار طبیب فلسفی شیخ بوعلی سینا کی فنی تحریکات ،ایجادات و اختراعات پر موثر گفتگو کی گئی ہے ۔ کچھ مضامین عصری ادباء و شعراء کی شعری و نثری تخلیقات پر مشتمل ہیں جن میں انور جلال پوری ، شرافت حسین ،ڈاکٹر امین احسن ، احمد شبلی ، ذکی طارق ، ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی اور مولانا شمشاد منظری شامل ہیں ۔ آج کے اس قحط الرجال میں خصوصاََ اردو ادب جس طرح اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہا ہے اس طرح کی کتابیں یقیناً حیات بخش ثابت ہوسکتی ہیں ، انس مسرور انصاری کی یہ کاوش قابل قدر ہے ،ہم ایوان ادب میں اس خیر مقدم کرتے ہیں ۔ شائقین یہ کتاب قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،سکراول ،اردو بازار ،ٹانڈہ ضلع امبیڈکر نگر 224190 یوپی سے حاصل کرسکتے ہیں۔