Powered By Blogger

ہفتہ, اپریل 02, 2022

دہلی: رمضان المبارک سے قبل عوام ملی مفت میں کمر توڑ مہنگا ئی

دہلی: رمضان المبارک سے قبل عوام ملی مفت میں کمر توڑ مہنگا ئی

نئی دہلی: رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان کے آغاز سے قبل بازاروں میں رونقیں تو بحال ہو گئی ہیں لیکن آسمان چھوتی مہنگائی نے عوام کا جینا دشوار کر دیا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں 50 سے 60 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کو گھر چلانے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رسوئی گیس، دال، چینی، چاول، کھجور، تیل، گوشت، سبزیاں، آٹا، مصالحے، چائے کی پتی، سحری میں خصوصی طور پر کھائے جانے والا کھجلا، فینی، ٹوسٹ، بند وغیرہ کی قیمتیں بڑھنے سے دہلی کے تمام چھوٹے و بڑے دکاندار سخت پریشان ہیں۔ مُسلسل بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے میں مرکزی و ریاستی دونوں حکومتیں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

قومی آواز کے نمائندہ نے شمال مشرقی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقہ جعفرآباد اور سیلم پور مارکیٹ کا دورہ کیا اور مہنگائی کے تعلق سے دکانداروں سے بات کی۔ مہنگائی کے تعلق سے پرچون کی دکان کے مالک محمد فرقان نے کہا کہ رمضان المبارک سے قبل آسمان چھوتی مہنگائی روزے داروں کے لئے پریشان کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی مہنگائی بڑھتی رہی ہے لیکن جس طرح روزانہ ہر چیز کے دام بڑھ رہے ہیں اس سے ہرکس و ناکس جیب پر خاصا فرق پڑ رہا ہے۔ تاہم آمدنی ہے کہ بڑھنے کا نام نہیں لے رہی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

فرقان نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ رمضان میں چینی 35 روپے فی کلو تھی جو آج 40 روپے ہے، آٹا 22 روپے تھا جو اب 30 روپے ہوگیا، اور سب سے اونچی چھلانگ تیل نے لگائی ہے، ایک سال پہلے سرسوں اور ریفائنڈ تیل 100 روپے فی لیٹر تھا جس کی قیمت اب 180 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے اور آگے بھی بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان میں پکوڑی کے بغیر افطار ادھورا ہے۔ پکوڑی بنانے کے لئے بیسن ضروری ہے، گزشتہ سال اس کی قیمت60 روپے تھی وہی بیسن آج 90 روپے کلو تک پہنچ چکا ہے۔ تاہم روح افزا کی بوتل 160 روپے کی ہوگئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سال ہر چیز مہنگی ہے جس کے سبب جو صارفین کلو کے حساب سے سامان لے جاتے تھے وہ اب ضرورت کے مطابق ہی را شن خرید کر لے جاتے ہیں۔ مہنگائی ڈائن ذات نے سحری و افطار میں کھائی جانے والی کھجوروں اور کھجلا، فینی، ٹوسٹ، پا پے، بند کو بھی نہیں بخشا، ماہ صیام میں کھجور دسترخوان کی رونق کو بڑھا دیتا ہے لیکن اس کی خریداری سے لوگوں کی جیب ڈھیلی ہو رہی ہے۔

نمائندہ سے بات کرتے ہوئے جعفر آباد روڈ پر کھجوروں کا ٹھیلا لگانے والے محمد شمیم نے بتایا کہ میں تقریباً دس سالوں سے کھجوروں کا کاروبار کر رہا ہوں، لیکن بیتے دس سالوں میں جس طرح مہنگائی روزانہ بڑھ رہی ہے اس نے ہمیں اور صارفین کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی پر انہوں نے کہا کہ جب کو ئی صارف ہم سے 200 روپے کلو والی کھجور لے جاتا ہے اور کچھ دن بعد وہ دوبارہ آتا ہے تو قیمت بڑھنے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پچھلی مرتبہ والے دام میں ہی کھجو ر چاہئے۔ اب گاہک کو کون سمجھائے کہ پیچھے سے کھجوریں مہنگی آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس عنبر، براری، فرہاد، کیمیا، نامی کھجور زیادہ فروخت ہوتی ہیں جو گزشتہ برس 200 روپے فی کلو ہوا کرتیں تھیں لیکن اب ان کی قیمت 300 روپے فی کلو ہے۔

گلشن بیکری کے مالک محمد گلفام نے کہا کہ دو برس سے عالمی وبا کورونا انفیکشن اور لاک ڈاؤن نے کاروبار کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی برسوں میں جاکر پوری ہوگی۔ انہوں نے آگے کہا کہ کورونا کے بڑھتے معاملوں کے سبب پورے دو سال بعد زندگی پوری طرح پٹری پر آئی بھی نہیں تھی کہ اب مہنگائی کا جن چراغ سے نکل آیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کھجلا، فینی، بند، ٹوسٹ، پاپے وغیرہ میں تیل کا زیادہ استعمال ہوتا ہے اور آج تیل کے کنستر کی قیمت 2480 روپے ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے اس سال کھجلا 240 روپے فی کلو ہے جو گزشتہ برس 180 تھا اور فینی 200 روپے کلو ہے جو پہلے 160 روپے کلو تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سحری میں کھائے جانے والا بریڈ جس کو عام زبان میں (بند) کہتے ہیں اس کی قیمت میں دو گنا اضافہ ہوا ہے، 10 روپے والا بند اس سال 20 روپے کا ہوگیا ہے۔

محمد گلفام نے کہا کہ مہنگائی لوگوں کا دم نکال رہی ہے لیکن موجودہ حکومتیں سیاسی داؤ پیچ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ مہنگائی سے عوام کا برا حال ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے کپڑے تاجروں کا کاروبار متاثر ہوا ہے، رمضان میں جہاں ایک جانب مومنین کثرت سے عبادات کرتے ہیں وہیں دوسری جانب مومینین اچھا لباس، خاص طور پر کرتا پاجامہ پٹھانی سوٹ، پہننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی مہنگائی سے کپڑوں کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کرتے کے کپڑوں کے لیے مشہور کاٹن ہاٹ نامی دکان کے ملک محمد شریف نے کہا کہ کبھی نوٹ بندی، پھر جی ایس ٹی، اور اب مہنگائی نے کاروباریوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری دکان پر 150 روپے میٹر سے لیکر 3 ہزار روپے میٹر تک کا کپڑا دستیاب ہے۔ لیکن امسال کپڑے کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صارفین کو سستا کپڑا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ان کا کاروبار متاثر تو ہو ہی رہا ہے ساتھ میں دکان پر کام کرنے والے لڑکوں کی تنخوہیں ادا کر پانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرف توجہ دے تاکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پایا جا سکے

استقبالِ رمضانمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

استقبالِ رمضان
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہر کام کا سیزن اور موسم ہوتا ہے او ر اپنے متعلقہ کاموں کے سیزن کا لوگوںکو انتظار رہتا ہے ، کیوں کہ اس کی نفع بخشی سے کاروبار زندگی میں رونق آتی ہے اور سال بھر معاشی زندگی پر اس کے اثرات باقی رہتے ہیں، ایمان والوں کو بھی ایک سیزن کا انتظار رہتا ہے اور وہ سیزن ہے نیکیوں کے موسم بہار کا، جسے ہم رمضان المبارک کے نام سے جانتے ہیں، اس موسم کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شرپھیلانے والی بڑی قوت شیطان کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے ، خیر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، قلب ونظر اور ذہن ودماغ پر اس سیزن کے اثرات خوش کن ہوتے ہیں، خیر کے کاموں کی طرف رجحان بڑھتا ہے اور برائیوں سے فطری طور پر دل میں نفور پیدا ہوجاتا ہے ، مسجدیں نماز یوں سے بھر جاتی ہیں، تلاوت قرآن کریم کی آواز ہر گھر سے آنے لگتی ہے ، خیرات وزکاۃ دینے والے، ادارے، تنظیمیں افراد کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے آگے آتی ہیں، مسلمان غریبوں، مسکینوں ہی کے لئے نہیں، محلہ میں اہل ثروت روزہ داروں کے لیے بھی دستر خوان سجاتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ افطار کا ثواب روزہ کے ثواب کے برابر ہے ، دستر خوان پر جتنی چیزیں رمضان میں جمع ہوجاتی ہیں، اس کا چوتھا حصہ بھی عام دنوں میں دسترخوان پر دیکھنے کو نہیں ملتا ، روزہ کو حدیث میں ڈھال کہا گیا ہے اور اس ڈھال کے ذریعہ ایمان والا خیر کو اپنا تا اور شر کو چھوڑ تا ہے ، دھوپ کی تمازت ، پیاس کی شدت اور غضب کی بھوک میں بھی اسے یقین ہوتا ہے کہ یہ عمل رضائے الٰہی کا سبب ہے اور جو ثواب ملے گا اس کا پیمانہ مقرر نہیں ہے ، حدیث قدسی ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میںہی اس کا بدلہ دوں گا ، عام طور سے نیک اعمال میں ثواب کا فارمولہ ایک پر دس کا ہے،قرآن کریم میں مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشَرُ اَمْثَالِھَا مذکور ہے یعنی ایک نیکی کیجئے دس پائیے؛ روزہ ظاہر کے اعتبار سے ایک مخفی عبادت ہے ،لیکن بندے کا روزہ کس پائے کا ہے، اللہ ہی جانتا ہے ، اس لئے روزہ کے اجر و ثواب کا فارمولہ الگ ذکر کیا گیا کہ وہ اللہ کے لئے ہے اور اللہ ہی اس کے روزے کے اعتبار سے بدلہ عطا فرمائیں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ میں ہی اس کا بدلہ ہوں، ظاہر ہے اللہ جس کو مل جائے اسے کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، اس لیے ایمان والوں کو اس موسم بہار سے اس طرح فائدہ اٹھانا چاہیے کہ دل کی دنیا بدل جائے اور زندگی اس راستے پر چل پڑے جو اللہ اور اس کے رسول کو مطلوب ہے ، اس کے لئے روزہ کے ساتھ تراویح،تہجد اور تلاوت قرآن کا اہتمام بھی کرنا چاہیے اور خود کو منکرات سے بچانا بھی چاہیے، اس حد تک کہ کوئی جھگڑے پر اُتارو ہو تو آپ کہدیجئے، میرا روزہ ہے ، ایسا روزہ انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرتا ہے ، اور تقویٰ ہی رضائے الٰہی تک لے جانے والی شاہ راہ ہے ۔
 رمضان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر جو حضرت سلمان فارسی کے حوالے سے احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگو !ایک باعظمت مہینہ آپہونچاہے، یہ ماہ رمضان ہے۔ اس ماہ میں جو شخص کوئی نیک کام کریگا، اس کا ثواب فرض کے برابراور فرض اداکریگا تو اس کا ثواب ستر فرض کے برابر ملے گا، جو روزہ دار کو افطار کرائے گا وہ جہنم سے خلاصی پائے گا ۔اوراسے روزہ دار کے بقدر ثواب ملے گا، جب کہ روز ہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔اوریہ ثواب محض ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرانے پر بھی ملے گا۔اور اگر کسی نے روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلادیا تو حوض کوثر سے ایسی سیرابی ہوگی کہ جنت میں داخلے تک پیاس نہیں لگے گی اورجنت بھوک پیاس کی جگہ نہیں ہے ، فرمایا : اس ماہ کا پہلا حصہ رحمت ، دوسر ا مغفرت اورتیسرادوزخ سے آزادی کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ میںاپنی خاص رحمت سے ایسا انتظام کرتے ہیں کہ شیطان بندوں کو گمراہ نہ کرسکے ، اور بُرائی پر آمادہ کرنے سے بازآجائے اسی لئے جنات اورسرکش شیاطین کو پابند سلاسل کردیاجاتاہے۔جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے پورے ماہ کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں ۔اور منادی خدا کی طرف سے آواز لگاتا ہے کہ خیر کے طالب آگے بڑھو اورشر کی طرف مائل لوگو رک جائو ، باز آئو، اتنے اہتمام کے باوجود اگر کوئی مسلمان  اس ماہ سے فائدہ نہیںا ٹھاتا اور جنت کے حصول کے سامان نہیں کرتاتو بدبختی اور شقاوت کی انتہا ہے ۔
روزہ کا ایسا اہتمام کیاجائے جو شریعت کو مطلوب ہے ، اور جس سے تقوی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ، روزہ صرف کھانے پینے اور شہوانی خواہشات سے پرہیز تک محدود نہ رکھا جائے ، بلکہ آنکھ ، دل ، دماغ ، کان ، زبان ، ہاتھ ، پائوں ، اور سبھی اعضا و جوارح کا روزہ رکھا جائے، آنکھ غلط چیزوں کو نہ دیکھے ، دل گناہوں کی طرف مائل نہ ہو ،دماغ خدا کے احکام کے خلاف نہ سوچے ، کان غلط نہ سنے ، زبا ن غیبت ، چغل خوری ، جھوٹ، طعن وتشنیع گالی گلوج سے محفوظ رہے ، اوراعضا وجوارح خداکی مرضیات پر لگ جائیں ، ایسا روزہ ہی دراصل روزہ ہے ،  چونکہ یہ غم گساری کا بھی مہینہ ہے اس لیے جہاں کہیں بھی رہے، جس کام میں لگا ہوا ہو۔ اس میں اس کو ملحوظ رکھے ، حسب استطاعت غربا کے خورد ونوش اورمحتاجوں کی ضروریات کی کفالت کا بھی نظم کرے کہ یہ بھی روزہ کے مقاصد میں سے ایک ہے، ہم لوگ جنہیں اللہ تعالی نے خوردونوش کی سہولتیں دے رکھی ہیں اور بھوک پیاس کی تکلیف کا احساس پورے سال نہیں ہوتا، بلکہ شادی اور دیگرتقریبات میں کھانے پینے کی اشیاء کو ضائع کرتے ہیں ، انہیںروزہ میں جب بھوک پیاس لگے تو ان کے اندریہ احساس جاگناچاہئے کہ سماج کے دبے کچلے لوگ جن کے گھرچولہا بڑی مشکل سے جلتاہے ۔ اور کئی بار فاقہ میںرات گذرجاتی ہے، کس قدر پریشانیاں محسوس کرتے ہوں گے ، اس وجہ سے اکابر نے اس بات پر زوردیا کہ افطار اورکھانے میں تلافیٔ مافات کی غرض سے اتنا نہ کھالے کہ روزہ رکھنے سے جو شہوانی قوت میںتھوڑی کمی آئی تھی وہ جاتی رہے اورسحری میں اس قدر نہ کھالے کہ دن بھر بھوک پیاس کا احساس ہی نہ ہو ۔ اس ماہ میں مدارس کے اساتذہ اوراکابر علماء ، ادارے تنظیموں اور مدارس کی فراہمی مالیات کے لئے کوشاں اور متفکرہوتے ہیں۔ ان کا اکرام کیاجائے ، اور محسوس کیا جائے کہ وہ امراء پراحسان کرتے ہیں کہ ان کی زکوۃ بروقت مناسب جگہ پہنچ جاتی ہے ، اس لئے جھڑک کر اوربار بار انہیں دوڑا کر اپنے عمل کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، اس سے علماء کی بے وقعتی بھی ہوتی ہے اور ثواب بھی ضائع ہوتا ہے۔
اس موقع سے یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے لوگ ٹی وی کے ان پروگراموں کو دیکھنے میں وقت بر باد کر تے ہیں، جو استقبال رمضان یا رمضان کے لیے خصوصی پروگرام کے حوالہ سے پیش کیے جاتے ہیں، ان پروگراموں کو دیکھنے میں وقت برباد کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے ، کیوں کہ ان پروگراموں میں بھی منکرات کی بھر مار ہوتی ہے ، لہو ولعب کے وہ مناظر اشتہار کے طور پر دکھائے جاتے ہیں جو شرعی طور پر منکرات کے ذیل میں آتے ہیں، یقینا قرآن کریم کی تلاوت، نعت خوانی اور روزہ رمضان کی مناسبت سے ترغیبی گفتگو اچھی چیز ہے ، لیکن اس اچھے کام کے ساتھ منکرات کی ایک لمبی فہرست اس میں ہوتی ہے ، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ٹی وی بند کردیں اور سارا وقت تلاوت کلام پاک اور ذکر واذکار میں لگائیں،یہ آپ کی اخروی زندگی کے لیے فائدہ مند اور رمضان المبارک کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...