اردودنیانیوز۷۲
مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا ابولہب تھا۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھ کر لوگوں سے خطاب کررہے تھے اوردلنشیں انداز میں مذہب اسلام کی دعوت دے رہے تھے کہ اچانک مجمع میں سے ابولہب اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر حضور اکرم کی طرف پھینکا اور یہ بولا محمد!"تو برباد ہوجائے! کیا ہم کو اسی بات کے لیے یہاں جمع کیا تھا "
ابو لہب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت ترین دشمن تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے مکمل ایک سورہ نازل کرکے دنیا جہان والوں کو اس کی گستاخی کے برےانجام سے باخبر کیا ہے۔ارشاد باری تعالٰی ہے:
" ٹوٹ گئے ہاتھ ابی لہب کے اور ٹوٹ گیا وہ خود آپ،اور کام نہ آیا اس کو مال اس کا، اور نہ جو اس نے کمایا،اب پڑے گا ڈیگ مارتی آگ میں، اور اس کی جورو جو سر پر لئے پھرتی ہے ایندھن، اس کی گردن میں رسی ہے مونجھ کی۔(سورہ تبت مکیہ)
قرآن کا کہاہواحرف بحرف پورا ہوا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تباہی چاہنے والا خود بربادی کے گڑھے میں پہونچ گیا۔ اس گستاخ کےناپاک جسم میں زہریلے دانے نکلنے شروع ہوگئے، سخت بدبو پیدا ہوگئی، چنانچہ تعفن اور مرض لگ جانے کے خوف سے کوئی اس کے قریب نہیں پھٹکتا تھا، گھر والوں نے بھی اس سے دوری بنالی،اسی حالت میں وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا۔ تین دن تک اس کی لاش پڑی سڑتی رہی،جب راہ گیروں کو سخت اذیت محسوس ہوئی تو حبشی مزدوروں کے ذریعہ ایک گڑھا کھدوایا گیا اورلکڑی ڈنڈے سے اس کی لاش کو اندر ڈھلکاکر اوپر سے پتھر بھردیئےگئے، اس طرح یہ گستاخ نبی جہنم رسید ہوا اور اپنی بربادی کے گڑھے میں پہونچ گیا۔
ابولہب کو اپنے مال اور اپنی تعداد پر بہت ناز تھا، دراصل اسی وجہ سے اس کے اندرنبی کی شان میں یہ گستاخی کا حوصلہ پیدا ہوا۔وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ تھوڑی سی تعداد میں کلمہ گو مسلمان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں،قرآن نےاس موقع پر یہ اعلان کیا کہ اس کامال اس کے کام نہ آیا اور نہ تعداد اس کے کام آئی، سب کچھ پڑا رہ گیا اور وہ نشان عبرت بن گیا۔
دوسری چیز جس کا اس سورہ میں خاص طور پر ذکرہے یہ ابولہب کی بیوی ہے جس کا نام ام جمیل یے۔
قرآن کریم نے اس عورت کے عبرتناک انجام سے بھی آگاہ کیا ہے۔اس کا گناہ یہ تھا کہ انہوں گستاخ نبی کی مدد کی تھی، جنگل سے خاردار لکڑیاں لاتی تھی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں میں ڈالا کرتی تھی ۔اس عورت کے گلے میں ایک قیمتی ہار تھا،وہ کہا کرتی تھی کہ لات وعزی کی قسم! میں اس ہار کو محمد کی عداوت پر خرچ کروں گی۔چنانچہ لکڑیوں کے گٹھر کی رسی گلے میں آپڑی جس سے گلا گھٹ گیا اور یہ بھی جہنم رسید ہوگئی ۔
لو اب آپ دام میں صیاد آگیا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی یہ قرآنی سزا ہے۔ ہر زمانے میں گستاخوں کو ملتی رہی ہے۔تاریخ اس پر شاہد ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ رب العزت نے اپنی لازوال کتاب میں یہ کہ دیا ہے کہ ہم آپ کا مذاق بنانے والوں کو نشان عبرت بنادیں گے باوجود اس کے کچھ احمق لوگ آقا کی شان میں گستاخیاں کرنے لگتے ہیں۔انہیں اپنی تعداد پر فخر ہے، یہ چیز ان کے کسی کام نہیں آنے والی ہے، اپنے انجام کو یہ بھی پہونچنے والے ہیں۔آقائے نامدار سے بغض وعداوت کی وجہ صرف اور صرف مذہب اسلام اور اس کی سچی تعلیم ہے۔آج بھی بحمداللہ لوگ اس پاک دین کو گلے لگارہے ہیں۔
آج دین اسلام سےمتنفر کرنے کے لئے اور اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لئے ایک ناپاک اور زہریلا انسان جو خود کو پنڈت کہتا ہے وہ نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون جلانے کی بات کہتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ونشان مٹانے کا خواب دیکھتا ہے، اسی طرح کے خواب آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے بھی کچھ لوگ دیکھ رہے تھےاور یہ خیال ظاہر کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بیٹا نہیں ہے، بس جب تک وہ زندہ ہیں تو زندہ ہیں،جس دن انتقال کریں گے تو کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا۔عرب میں جس کے گھراولاد نرینہ نہیں ہو اسے" ابتر" یعنی بے نام ونشان کہتے تھے۔قرآن نے یہ اعلان کیا کہ : اے محمد! بیشک جو تیرا دشمن ہے وہی ابتر اور بے نام ونشان ہے۔آج ساڑھےچودہ سو سال کے بعد بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد سے دنیا بھری پڑی ہے، جسمانی ودختری اولادیں بھی بکثرت ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں،مگر ان گستاخان نبی کا کہیں اتا پتہ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ العزیز عنقریب یہ بھی اپنی گستاخی کی سزااپنے انجام بدکی شکل میں پائیں گےاورقصہ پارینہ ہوجائیں گے۔قرآن کا ان کے حق میں فیصلہ یہی ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی ارریہ
یکم ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ