Powered By Blogger

جمعرات, جون 02, 2022

ہندوستانی فوٹو گرافر کے کیمرے سے 115 سال قبل حج کے مناظر

ہندوستانی فوٹو گرافر کے کیمرے سے 115 سال قبل حج کے مناظر

ریاض : شاہ عبدالعزیز پبلک لائبریری نے نئی کتاب شائع کی ہے جس میں 115 سال قبل حرمین شریفین کے حالات اور ماحول کو تصاویر کی شکل میں اجاگر کیا گیا ہے۔ العربیہ کے مطابق انڈین فوٹو گرافر احمد مرزا نے سوا صدی پیشتر حج کے موقعے پر حرمین شریفین کی تصاویر لیں جنہیں اب ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔

کتاب کو 'مناظر حرمین شریفین اور حج کے مظاہر الحاج احمد مرزا کے کیمرے کی آنکھ سے' کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ کتاب عالم دین ڈاکٹر اعظمی ندوی نے ترتیب دی اور اس کا پہلا ایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے جس میں حرمین شریفین کے نقشوں، خاکوں اور قدیم ڈرائنگ سے آغاز کیا گیا ہے۔

کتاب میں انڈین فوٹو گرافر کی حرمین شریفین اور مشاعر مقدسہ کی بنائی گئی تصاویر شامل ہیں۔ سوا صدی قبل حرمین شریفین کی یادگاروں پر مشتمل اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کتاب کا پہلا باب 'جدید ہندی طباعتی ثقافت میں حرمین شریفین' کےعنوان سے ترتیب دیا گیا ہے جس میں فوٹو گرافر احمد مرزا کی تیار کردہ تصاویر شامل ہیں۔

کتاب کا ایک حصہ الحاج احمد مرزا کی تصاویر کے مجموعے کے سائنسی بنیاد پر مطالعے، تجزیے اور علمی نگرانی سے بھی متعلق ہے جنہیں 1907ء میں حج پر آنے والا پہلا پیشہ ور ہندوستانی فوٹو گرافر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مکہ معظمہ میں اپنے قیام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حرم مکی شریف کی تصاویر حاصل کیں۔

الحاج احمد مرزا کو 1907ء میں حج پر آنے والا پہلا پیشہ ور ہندوستانی فوٹو گرافر سمجھا جاتا ہے


ہندوستان واپسی کے بعد انہوں نے ان تصاویر کو (دہلی میں) اپنی فوٹوگرافی لیب میں پرنٹ کیا۔ انہوں نے وہ تصاویر اور کارڈ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں آنے والے حجاج کو فروخت کئے۔ محقق اعظمی ندوی ہندوستان میں مغلوں پراپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے آغاز سے ہی مرزا کے تصویری مجموعے سے کیا۔

تلاش کے دوران انہیں تصاویر اور کارڈز اور البم ملے جو حاجی احمد مرزا کے سٹوڈیو سے چھاپے اور شائع کئے گئے تھے۔ احمد مرزا کی لی گئی تصاویر میں حرم مکی شریف کے اندر موجود حجاج کرام کو دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی، مسجد حرام، جبل عرفات، باب العنبریہ، مسجد الخیف، منیٰ، المعلاۃ اور جنۃ البقیع قبرستان، مسجد قبا اور حجاج کی زیارت کے دیگر مقامات کوکیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا گیا۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ علماء دیوبند عظیم کارنامہ " پانی والی مسجد مسجد کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ ۔۔۔۔ ضلع شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ علماء دیوبند عظیم کارنامہ " پانی والی مسجد مسجد کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ ۔۔۔۔ ضلع شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے جسے پانی والی مسجد کہا جاتا ہے ۔ گاه یہ مسجد کھیر تھر کینال کے بیچ میں ہے اور یہ صرف ایک عبادت نہیں بلکہ ایک طرح سے تحریک آزادئ ہند کی اہم یادگار ہے اور ایک موقع پر اسی مسجد نے دین اسلام پر مر مٹنے والوں کا جذبہ اور اللہ کے راستے میں جان بان کرنے کی سچی آرزو بھی دیکھی ہے ۔>> اس مسجد کو شمالی سندھ میں انگریزوں کے خلاف ایک سیاسی قوت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا 1932 میں برطانوی راج میں جب سکھر بیراج اور کینال پراجیکٹ کا کام شروع کیا گیا تو بلوچستان تک نہری پانی پہنچانے کے لیے کھیر تھر کینال کی کھدائی کی جانے لگی ۔ اس وقت یہ چھوٹی سی مسجد کھیر تھر کینال کے منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھی گئی اور انگریز سرکار نے منہدم کرنے اور کینال پراجیکٹ کو اسی جگہ سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ، مگر حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے جو ایک عالم اور نہایت دین دار شخص مانے جاتے تھے ، انھوں نے کینال کا رخ تبدیل کرنے مشورہ دیتے ہوئے مسجد کو شہید نہ کرنے کا کہا ۔ انگریز انتظامیہ نے ان کا مشورہ مسترد کر دیا تو مولانا امروٹی نےمتعلقہ امور کے ماہرین اور افسران کو تحریری طور پر اس مسئلے آگاہ کیا اور اپنا مشورہ ان سے کے سامنے رکھا ، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا ۔ تب مولانا امروٹی نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا ۔ ان کی آواز پر ہزاروں لوگ جمع ہو گئے اور ایک ایسی دینی اور سیاسی تحریک شروع ہوئی کہ برطانوی سرکار مشکل میں پڑ گئی ۔ مولانا صاحب کے حکم پر مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگ گھروسے نکل آئے ۔ نوجوانوں نے مختلف اوقات میں مسجد پہرہ دینے کی ذمہ داری اٹھا لی ۔ مسلمانوں کو یوں اکٹھا ہوکر مسجد کی حفاظت کرتا دیکھ کر انگریز انتظامیہ نے فیصلہ ترک کر کا دیا ۔ ماہرین سے مشاورت اور منصوبے کے انجینئر کی ہدایت پر کھیر تھر کینال کو مسجد کے دونوں اطراف گزارا گیا اور یوں مسجد پانی آگئی ۔ سے کے بیچ میں ں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پانی والی مسجد بھی کہا جاتا ہے

10 ہزارکیلئے پورا خاندان جان دینے پرہوا مجبور ۔ تحقیقات میں انکشاف

10 ہزارکیلئے پورا خاندان جان دینے پرہوا مجبور ۔ تحقیقات میں انکشاف

حیدرآباد: پرانا شہرسے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے چارافراد کی خودکشی کے معاملہ میں معلوم ہوا ہے کہ 10ہزارروپئے کیلئے انھوں نے یہ انتہائی اقدام کیا ہے۔ واضح رہے کہ حیدرآباد کے سنتوش نگرسے تعلق رکھنے والے 37 سالہ قدوس نے اپنی بیوی 28 سالہ فاطمہ اوردونوں بچوں 9 سالہ مہر 6 سالہ فردوس کے ساتھ کل زہرپینے کے بعد تالاب می چھلانگ لگا کرخودکشی کرلی تھی۔

تحقیقات کے دوران پولیس کومعلوم ہوا کہ پیشہ سے ویلڈرقدوس نے 20 ہزارروپئے بطورقرض حاصل کئے تھے، قرض کی واپسی کیلئے ان پردباو ڈالا جارہا تھا، انھوں نے اپنے سسرالی رشتہ دارسے 10 ہزارروپئے طلب کئے تاکہ قرض کی رقم لوٹا سکیں،تاہم وہ اس کا انتظام نہیں کرسکے۔ اس مسئلہ پرشوہربیوی کے درمیان جھگڑا ہوا اورانھوں نے بچوں کے ساتھ ملکرخودکشی کرلینے کا فیصلہ کیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...