Powered By Blogger

اتوار, اکتوبر 16, 2022

موت کوئی حادثہ نہیں ہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

موت کوئی حادثہ نہیں ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
جامعہ تجوید القرآن میر نگر ارریہ میں ناظم مدرسہ جناب مولانا قاری نیاز احمد صاحب قاسمی کی نظامت میں مرحوم سبطین احمد کے لیےایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی،مولانا جسیم الدین صاحب حسامی اوراساتذۂ جامعہ وطلبہ کے ساتھ ساتھ عمائدین شہر کی ایک قیمتی تعداد موجود تھی، مہمان خصوصی کی حیثیت سے جناب حضرت مولانا افتخاراحمد صاحب قاسمی استاد حدیث جامعہ اکل کواں نے اپنے صدارتی بیان میں مجمع کو خطاب کرتے ہوئےیہ کہا ہےکہ؛ مجھے معلوم ہوا کہ مرحوم سبطین احمد بڑی خوبیوں کے حامل تھے،تعلیمی وملی خدمات میں پیش پیش رہتے، انسان میں کمیاں بھی ہوتی ہیں، مرنے کے بعد کمیوں کا نہیں بلکہ خوبیوں کا ذکر کرنے کا حکم ہے،اپنی خوبیوں سے انسان زندہ رہتا ہے، قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے جو نفع کی چیز ہوتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے، اس دنیا کا یہ اصول ہے کہ پھل دار درخت کو دشمن بھی نہیں اکھیڑتا ہے،اور خاردار درخت کو دوست بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے،مرحوم کم سخن تھے مگر علم وعلماء کے قدردان تھے،یہ ان کے بڑے ہونے کی دلیل ہے،
درحقیقت بڑے لوگ وہی  ہیں جو علم وعلماء کی قدر کرتے ہیں، ایک واقعہ سلطان سبکتگین کا یاد
آگیا ہے، پہلےیہ کوئی بادشاہ نہیں تھا بلکہ بادشاہ کی فوج کا ایک ادنی ملازم رہا ہے، ایک موقع پر ان کے گھر ایک عالم تشریف لائے، انہوں نے بڑی تکریم کی، جب روانگی کا وقت ہوا تو ساتھ ساتھ چلے، چلنے میں چند قدم اس عالم سے آگے نکل گئے تھے، فورا اپنے کو پیچھے کیا، اورچھ قدم پیچھے ہوگئے، اللہ نے اس کے صدقے ان کے چھ نسلوں میں بادشاہت عطا کی، سلطان محمود غزنوی انہیں کی لائق وفائق اولاد ہے،آپ اگر یہ سوچیں اس وقت ہمیں بادشاہت نہیں مل سکتی ہے تو یہ سوچ غلط ہے،اصل بادشاہت تو دلوں پر ہوتی ہے، اس وقت جو دلوں پر حکومت کرتا ہے وہی دراصل بڑا فاتح ،اور ایک عظیم انسان ہے،وہ چپ اور خاموش بھی بیٹھا رہتا ہے مگر وہ بڑا ہے،بقول شاعر 
 ع۰۰۰     یہ الگ بات کہ خاموش کھڑے رہتے ہیں 
    پھر بھی جو لوگ بڑے ہیں وہ بڑے رہتے ہیں 
مرحوم کے والد گرامی قدر جناب پروفیسر الحاج رقیب احمد صاحب اس وقت ہمارے سامنے موجود ہیں، انہیں دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہے اور غم بھی،غم اس بات پر کہ جوان بیٹا باپ کے سامنے فوت ہوگیا ہے، یہ ایک باپ کے لیے صدمہ کی بات ہے، مگر خوشی اس بات پر ہورہی ہے کہ انہیں صبر جمیل نصیب ہوا ہے، ہشاش بشاش ہیں،اپنے چھوٹے بیٹے انجینئر ابوسفیان صاحب اور مرحوم کے اکلوتے بیٹے ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے اہل خانہ کو سنبھالنے کا کام کررہے ہیں، یہ بڑی بات ہے، 
قرآن کریم کا یہی پیغام ہے،خدا تعالی نے صبر کرنے والوں کو بشارت دی ہے،جب کوئی جانی مالی نقصان کا سامنا اہل ایمان کو ہوتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، قرآنی یہ جملہ انا للہ وانا الیہ راجعون کہتا ہے تو دنیا وآخرت کی بھلائیاں اسے نصیب ہوجاتی ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون کے دو مطالب لیے جاسکتے ہیں، ایک یہ کہ اے اللہ یہ اولاد کی شکل میں دی ہوئی امانت آپ کی ہی ہے، آپ نے واپس مانگ لیا ہے تو بخوشی ہم اس کو واپس کررہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ ہم بھی تیار بیٹھے ہیں، جب بھی بلاوا آئے گا ہم بھی واپس چلے جائیں گے، دوسرا مفہوم یہ کہ اے اللہ! اس مصیبت کی گھڑی میں ہم آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو حکم آپ نے اس موقع پر اہل ایمان کو دیا ہے بسروچشم اسے قبول کرتے ہیں، ہم آپ کی مرضی کے خلاف نہ کچھ کہنے جارہے ہیں اور نہ کچھ کرنے جارہے ہیں، موت ایمان والوں کے لیے کوئی حادثہ نہیں ہےبلکہ ایک تحفہ ہے،جب بندہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس پر اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
اس دنیا میں خوشی بھی ہے اور غم بھی ہے،زندگی تو اسی کا نام ہے،ترمذی شریف کی حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جب کسی کا بچہ فوت ہوجاتا ہے،تو اللہ تعالٰی فرشتوں سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح نکال لی؟ باوجود یہ کہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے،فرشتے عرض کرتے ہیں کہ نکال لی ہے،پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے نے اس پر کیا کہا ہے؟فرشتے کہتے ہیں؛اس نے آپ کی حمد کی ہے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ہے،  اللہ تعالٰی کا ارشاد ہوتا ہے کہ اس کے بدلے میرے بندے کے لئے جنت میں ایک گھر بنادو جس کا نام بیت الحمد ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۹/ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

کٹیہار: برنڈی ندی میں کشتی الٹنے سے 7 افراد کی موت

کٹیہار: برنڈی ندی میں کشتی الٹنے سے 7 افراد کی موت
کٹیہار، 16 اکٹوبر (اردو دنیا نیوز ٧٢)۔ ضلع کے براری بلاک کے تحت مغربی باری نگر پنچایت سے گزرنے والی برنڈی ندی میں کشتی الٹنے سے سات افراد ڈوب گئے۔ جاں بحق ہونے والے تمام افراد دریا کے دوسری جانب دھان کی کٹائی کے بعد اپنے گھروں کو جا رہے تھے کہ اس دوران کشتی دریا کے درمیان میں زیادہ بوجھ کے باعث الٹ گئیمرنے والوں کی شناخت شوقین عالم (06 سال) ولد افتخار عالم، کنتی دیوی (42 سال) شوہر مہیش پاسوان، روبی کماری (19 سال) بنت دنیش پاسوان، ببیتا کماری (19 سال) بنت جگدیش پاسوان، دکھن پاسوان (51 سال) ولد راموتر پاسوان، روچی کماری (16 سال) بنت دکھن پاسوان اور وکاس کمار (14 سال) ولد مہیش پاسوان شامل ہیں۔ تمام مرنے والے مغربی باری نگر پنچایت کے قادر ٹولہ کے رہنے والے ہیں۔ 

مقامی عوامی نمائندے اروند کمار نے بتایا کہ کشتی پر نو افراد سوار تھے۔ جس میں دو نوجوان کسی طرح جان بچا کر بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ 

اروند کمار نے بتایا کہ ہفتہ کو تمام مزدور برنڈی ندی کے اس پار لکشمی پور بہیار میں دھان کاٹنے گئے تھے۔ تین بجے کے قریب نو مزدور مرغیہ کٹائی ہوئی فصل کو کشتی پر لاد کر اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ اس دوران کشتی اوور لوڈنگ کے باعث دریائے برنڈی کے درمیان میں ڈوب گئی۔ 
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی بی ڈی او پورن ساہ، سی او للن منڈل، سی آئی مرتیونجے کمار، ایس ایچ او ودھان چندر نے مقامی غوطہ خوروں کی مدد سے تمام لاشوں کو دریا سے باہر نکالا اور مزید کارروائی کی جارہی ہے

مایوس نہ ہوں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

مایوس نہ ہوں 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 زندگی میں مسائل ، مصائب اور مشکلات آتے رہتے ہیں، ایسے میں انسان گھبرا جاتا ہے ، بے چین ہواٹھتا ہے اور اس پر مایوسی، ناامیدی اور ڈپریشن کا حملہ ہوتا ہے ، یہ حملہ ان مصائب ومشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کو خاصہ متاثر کرتا ہے، مصائب کچھ بھی ہو سکتے ہیں، نوکری چھوٹ جائے یا کسی قریبی عزیز کی موت کا غم ، دنیا سے دل اُچاٹ ہوجاتا ہے ، کبھی اپنی گرتی صحت اور دوا علاج سے فائدہ نہیں ہونے کی وجہ سے بھی آدمی اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے ،خصوصا اس وقت جو ملک کے حالات ہیں اور مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، حکومتی سطح پر ان کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے کی جو مہم چل رہی ہے ، اور جس طرح مسلمانوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں ، اور دس بیس سال کے بعد عدالت ان کو با عزت بری کر رہی ہے، زندگی کے قیمتی مہہ وسال قید وبند میں گذر جاتے ہیں اور باہر آنے کے بعد بھی سماج کی ترچھی نظروں کا ان کو سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس سے مستقبل کے بارے میں مایوسی اورخوف کا غلبہ ہے، یہ مایوسی آپ کے حال اور مستقبل کو متاثرنہ کرے، اس کے لئے خود کو پُر عزم رکھنا ضروری ہے ، حالات سے گھبرانے کے بجائے حالات سے مقابلہ کی قوت اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے، گو یہ بہت آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے خود کو نفسیاتی طور پر تیار کرنا ہوتا ے ، اور اپنی ذات سے کونسلنگ کرنی ہوتی ہے ، اس کو نسلنگ کا پہلا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ فکر مند ہو کر کوئی فائدہ نہیں ہے ، اس لیے کہ جو کچھ ہوچکا ہم اس کے لوٹا نے پر قادر نہیں ہیں، حالاںکہ آپ ہر ممکن اس خبر کے بُرے اثرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیے تھے اور اس کے نتائج پر بھی آپ کی گہری نظر تھی، لیکن تدبیر کے درجہ میں آپ اس کو رو کنے پر قادر نہیں تھے، اس لیے دل ودماغ میں خوف کو نہیں گُھسنے دیں، بہت سارے کام خوف کی نفسیات سے بگڑجاتے ہیں۔
 ظاہر ہے فکر مند ہونا ایک فطری چیز ہے، لیکن اس فکر مندی میں بھی مایوسی کے بجائے امید کا دامن تھامے رکھیں اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں، جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، اللہ کی رحمت پر ایمان آپ کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے میں انتہائی ممد ومعاون ہوگا، اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ ہر حالت میں اپنے کو پُر سکون رکھیں، آپ کو پُر سکون رکھنے میں آپ کے خاندان اور قرب وجوار کے لوگوں کی بھی بڑی اہمیت ہے، ان کے تعاون سے مصیبت کی گھڑی کو سہنے اور اس کے مضر اثرات سے نکلنے کا کام آپ بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں، جو کچھ ہو گیا اس کو یاد کرکرکے ہلکان اور جو ہونے والا ہے اس کے بارے میں سوچ کر پریشان نہ ہوں، اس لیے کہ جو کچھ آپ سوچ رہے ہیں کہ ایسا ہوجائے گا، اس کی حیثیت بسا اوقات وہم سے زیادہ نہیں ہوتی او وہ عموما وقوع پذیر نہیں ہوتا، لیکن ہمارے دل میں جو خوف بیٹھ گیا ہے وہ ہمیں کسی کام کا نہیں رکھتا، میں یہاں مکمل کنفیڈنس خود اعتمادی کی بات نہیں کرتا، کبھی اوور کنفیڈنس (overconfidece)سے بھی نقصان پہونچ جاتا ہے، اس لیے منفی احساسات وجذبات اور غیر ضروری خود اعتمادی کے درمیان ایک توازن پیدا کریں، تاکہ یہ توازن آپ کی سوچ اور خیالات کو بھی معتدل کرکے مایوسی کے منفی اثرات سے بچا سکے ۔واقعات ، حوادثات اور معاملات کی تہہ تک پہونچنے کی کوشش کیجئے، کیوں کہ سچ کے ہمیشہ دبے رہنے کی روایت قدیم ہے، ایسے موقع سے اپنے جوش کو بنائے رکھنا بھی ایک بڑا کام ہے، یہ جوش بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کام کے کرتے وقت ڈر اور خوف کو قریب مت آنے دیں، تنہائی کے بجائے تھوڑا وقت خاندان اور دوستوں کے ساتھ گذاریں، خود کو ضرورت سے زیادہ کام میں مشغول نہ رکھیں، چھٹیوں کے ایام واوقات کو سیر وتفریح میں لگائیں، کچھ وقت بیوی بچوں کو دیں، اس لیے کہ اگر آپ نے مایوسی کا سایہ ان پر ڈالا اور ان کے ساتھ وقت نہیں گذارا تووہ آپ کے بغیر جینا سیکھ جائیں، اس وقت آپ اپنے کو تنہا محسوس کریں گے۔
 مایوسی کے اسباب ووجوہات کا تدارک کیا جائے، اگر یہ حالات آپ کی کسی غلطی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ہیں تو اس سے سیکھ لیں، مانیں کہ آپ سے چوک ہوئی ہے، آپ بھی انسان ہیں، اس لیے غلطی ہوئی ، خیال صرف یہ رکھنا ہے کہ بعد میں اس کا اعادہ نہ ہو، ایسے موقعوں سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اس غلطی سے آپ کس قدر سیکھتے ہیں، کسی کام میں عجلت نہ کریں، ہر کام کا آغاز دھیمی رفتار سے کریں ، تاکہ پہلے مرحلہ میں ہی ناکامی سے آپ مایوسی کا شکار نہ ہوں، اسلام میں تھوڑا کام اور مسلسل کام کی اہمیت بتائی گئی ہے ۔
 آپ کام کریں گے تو کبھی ناکامی کا بھی سامنا کر نا پڑ سکتا ہے، ایسے میں آپ نروس نہ ہوں، گھبرائیں نہیں، یقینا ناکامی کے اثرات آپ کے دل ودماغ پر پڑیں گے ، لیکن ناکامی کے خوف سے کام کا آغاز نہ کرناانتہائی درجہ کی بزدلی ہے، کام آپ اپنی پسند کامنتخب کریں، اس میں دل لگائیں، اس کی وجہ سے آپ خوشی محسوس کریں گے ، خوشیاں کوئی بڑا کام نہیں کرتئیں، لیکن وہ اداسی کو قریب نہیں کرنے دیتیں، یہ خوشی ہلکی معلوم ہوتی ہے، لیکن جب چلی جاتی ہے اور پریشانیاں آتی ہیں ، تب احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کھودیا ہے اور وہ کتنی قیمتی شئے تھی، خوشیاں حاصل کرنے کا ایک طریقہ محبت بھی ہے، نفرت کی سودا گری کے اس دور میں خوشیوں کی کاشت آپ کو مایوس ہونے سے بچا بھی لے گی اور اگر آپ مایوس ہیں تو اس کے دور کرنے میں معاون ہوگی، کسی کا بُرا نہ چاہیں اور جو آپ کا بُرا چاہتے ہیں ان کو بھی اپنے عمل سے بتائیںکہ وہ ان کے بھی خیر خواہ ہیں۔
مایوسی کے باوجود موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے، اپنی ہمت اور صلاحیت کو مجتمع کیجیے اور ذہن میں بٹھائیے کہ اگر میں اس میں کامیاب نہ بھی ہوا تو میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ، اس طرح آپ ایک تجربہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے، ہو سکتاہے یہ تجربہ ہی آپ کو مایوسی کے دلدل سے نکال دے ، آپ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سب کچھ ہماری خواہش مرضی اور ضرورت کے مطابق ہو یہ ضروری نہیں؛ لیکن ہم اپنی ناکام خواہشوں کا متبادل تلاش کر سکتے ہیں، یہ ہمارے بس میں میں ہے، آپ خواہشوں کی تبدیلی کے ساتھ کام کے طریقۂ کار کو بدل کر بھی مایوسی پر ایک ضرب لگا سکتے ہیں۔
مایوسی دور کرنے کے بہت سارے طریقے کتابوں میں درج ہیں، آپ ان کو پڑھ کر برت سکتے ہیں، لیکن برتنے کا یہ کام آپ کو خود ہی کرنا ہوگا، اپنی زندگی کو بے رس اور بے کیف نہ ہونے دیں، مصیبت اور پریشانی کے لمحات میں یاد رکھیں کہ ’’یہ دن بھی گذر جائیں گے‘‘ آپ اپنے حالات کا دوسروں کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں، اس سے آپ خود احتسابی سے محروم ہوجاتے ہیں، اس لیے اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار خود کو سمجھیں، اس سوچ کے نتیجے میں آپ کا ذہن اپنی الجھنوں کو خود ہی دور کرنے کے لیے تیار ہوگا، یہ اپنے میں بڑی بات ہے،حالات چاہے جتنے پریشان کن ہوں، ان کا سامنا کرنا آپ ہی کو ہے اورآپ  اپنی صلاحیت ، توانائی اور قوت سے موجودہ حالات سے نکل کر مستقبل کو مفید اور کار آمد بنا سکتے ہیں، آپ کو یقین کرنا چاہیے کہ ہر تاریک رات کے بعد روشن صبح ہوتی ہے اور مستقبل میں یہ روشن صبح آپ کی زندگی کا حصہ بننے والی ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...