Powered By Blogger

پیر, نومبر 06, 2023

تعلیم اصلاح معاشرہ کی بنیاد ہے۔مفتی ثناءالہدی قاسمی

تعلیم اصلاح معاشرہ کی بنیاد ہے۔مفتی ثناءالہدی قاسمی
اردودنیانیوز۷۲ 
 پٹنہ/چکیامشرقی چمپارن(پریس ریلیز 6نومبذ ) اصلاح معاشرہ کمیٹی میگھوا مشرقی چمپارن کے زیر اہتمام ایک روزہ عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلعم واصلاح معاشرہ کانفرنس  سے ملک کے معروف اکابر علماء کرام وچترویدی نے خطاب کیا،پروگرام کا آغاز قاری انظار صاحب ثاقبی مدرس مدرسہ تحفیظ القرآن راجا بازار پٹنہ کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا اور نعت نبی کا نذرانہ سب سے پہلے ننھا شاعر شاہ عمر سہرساوی نے پڑھا۔ پروگرام کی صدارت حضرت مفتی جنید عالم صاحب قاسمی سابق صدر مفتی امارت شرعیہ بہار کررہے تھے اور سرپرستی حضرت مولانا فیاض الدین صاحب قاسمی وحضرت مولانا جمال الدین صاحب قاسمی فرمارہے تھے جبکہ نظامت کے فرائض حضرت مولانا لطف الرحمن صاحب قاسمی صمدانی علیگ سہرسہ و حضرت مولانا فیاض صاحب اظہری ڈھاکہ مشرقی چمپارن کررہے تھے 
جس میں امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر،کاروان ادب اور اردو میڈیا فورم کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے بیان میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قران کریم کی پہلی آیت علم پر نازل فرمائ اس کا مطلب ہے کہ سماج میں جتنی برائیاں ہیں انہیں دور کر نے میں کلیدی کردار تعلیم کا ہےوہ یہاں میگھوا ضلع مشرقی چمپارن میں سیرت النبی واصلاح معاشرہ کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھےمفتی صاحب نے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب نور اللہ مرقدہ کے حوالہ سے  یہ بات بتائی کہ اس دور میں اگر ہمارے بچے نہیں پڑھ پارہے ہیں تو یہ بے کسی و بے بسی کا معاملہ نہیں ، بلکہ بے حسی کا ہے ،  انہوں نے کہا:تعلیم حاصل کرنے کے لئے غربت و افلاس آج  مانع نہیں ہےدل میں سچی لگن ہوتو راستےخود بخود ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں انہوں نے میزائل مین اے پی جی عبدالکلام کے تعلیمی دور کا واقعہ نقل کرتے ہوۓ فرمایا کہ انہوں نے کس کس طرح  دشوار گذار گھاٹی سے گذر کر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے متعارف کرایا انہوں نے یہ بھی فرمایاتوجہ کوالٹی اور معیار پر دیجیےاسلیےکہ اگر اندر میں صلاحیت اور کوالیٹی بھری پڑی ہوگی تو دنیا ماننے پر مجبور ہوگی آج ہم صرف رونا روتے ہیں کہ ہمیں تعلیمی میدان اور سرکاری ملازمتوں میں  حق نہیں ملتا ۔کہاں سے ملے؟ جب ہماری کامیابی کا تناسب آئ  ایس آئ  پی اس میں ساڑھے چھ فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکا بے،بی پی ایس سی کا اساتذہ بحالی امتحان ہوا اس میں ہماری اردو ، فارسی اور عربی کی بہت ساری سیٹیں خالی رہ گئیں بلکہ المیہ یہ رہا کہ عربی اور فارسی میں صرف انگلیوں پر گننے لائق  امیدوار ہی کامیاب ہو پاۓ  ،مفتی صاحب نے میگھوا کے لوگوں کو تعلیمی میدان میں کام کرنے  پر توجہ دینے کے لئے  درخواست کی۔جلسہ سے خطاب کرتے ہوۓ مفسر قرآن حضرت مولانا راشد وحید صاحب قاسمی ناظم مدرسہ رفاہ المسلمین سیتاپور لکھنؤ نے سامعین کو بتایا کہ حضرت آدم علی الصلوٰۃ والسلام سے لیکر حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم تک۔ تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ایک مشن تھی کہ تم خدا کو ایک تسلیم کرلو تم دونوں جہاں میں کامیاب ہوجاؤگے مرنے کے بعد کی کامیابی یہ ہے کہ تم کو جنت ملے گی اور دنیاوی کامیابی یہ ہے کہ رزق کی تنگی کو اللہ تعالٰی دور کردیں گے اور سکون والی زندگی نصیب فرمائیں گے ۔حضرت مولانا و مفتی جنید صاحب قاسمی سابق صدر مفتی امارت شرعیہ بہار وصدر جلسہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اصلاح مستورات کے حوالے سے کہ اگر عورتیں چار کام کرلے تو جنت میں داخل ہو گی ۔نماز کی پابندی ،روزہ کی پابندی ،شوہر کی اطاعت ،اپنی عزت کی حفاظت ‌۔حضرت مولانا محمد نظر الہدیٰ صاحب قاسمی ویشالی نے فرمایاکہ بیٹیوں کی پیدائش پر والدین اور دیگر رشتہ داروں کے چہرے اتر جاتے ہیں اور ان کی پیشانی سکڑ جاتی ہے، اس کے پس منظر پر ہمیں غور کرنا چاہیے ایسا آخر کیوں ہوتا ہے اگر لوگ بیٹی والے سے شادی کے موقع پر خطیر رقم نہ لے کر شادی کو سادگی سے منانے کا اہتمام کریں اور لڑکا بھیک نہ لے کر اپنی بازو کی طاقت سے  ضروریات کی سامان کوسجانے کے بعد آنے والی مہمان بچی کا استقبال کرنے کی عام فضا قائم ہوجائے تو ان شاءاللہ بیٹیوں کی پیدائش پر بھی والدین اور دیگر رشتہ داروں کو وہی خوشی محسوس ہوگی جو بیٹوں کی پیدائش پر ہوتی ہے اور انہوں نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق میں مقصد تخلیق "عبدیت" رکھا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پوری زندگی ہمارا اٹھنا بیٹھنا ،سونا، کھانا پینا سب عبادت میں شمار ہوتو اس کے لیے سنت نبوی کو مضبوطی سے پکڑکر زندگی گذارنا ہوگا اور یہ کوئ مشکل امر نہیں ہے تھوڑی سی غور وفکر اور توجہ سے ہم اپنی زندگی کے نشیب وفراز کو سنت نبوی کا خوگر بنا سکتے ہیں ۔حضرت مولانا صدرے عالم صاحب قاسمی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ تعلیم ہی کے ذریعہ ہمارے سماج کی اصلاح ممکن ہے تعلیم ہی غربت و افلاس مٹے گا ۔مولاناکے خطاب کے دوران پروفیسر ریاض احمد صاحب میگھوا نے میگھوا کے مسلمانوں کی دینی و عصری تعلیم کیلئے چار کٹھ زمین وقف کرنے کا اعلان کیا جس کی تعمیر کیلئے انکے بہائی ڈاکٹر تنویر احمد صاحب میگھوا نے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ۔حضرت مولانا سالم عبد اللہ صاحب چتر ویدی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کی قدرکرنا سیکھیں اسی میں امت کی بھلائی ہے کیونکہ یہ امت خیر امت ہے اور جانوروں جیسے صفات سے اپنے آپ کو بچائیں حضرت مفتی محفوظ الرحمن صاحب قاسمی ناظم مدرسہ سراج الحق سیوان نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ آپ ﷺ سے محبت یہ انسان کے لیے سعادت کی بات ہے لیکن یہ محبت ، اور محبت کا دعویٰ صحیح معنوں میں اس وقت مفید اور کارآمد ہوگا جب اس محبت کے بعد نبی کی اطاعت پورے طور پر قبول کرلے اگر ہم نبی کی سنتوں کو عملی زندگی میں داخل نہیں کریں گے تو صرف نبی سے محبت و عقیدت رکھنا ہی کافی نہیں ہوگا انسان کی نجات کیلئے، دوسری بات اصلاح معاشرہ کے تعلق سے یہ فرمایا کہ اگر‌ہم واقعتا چاہتے ہیں کے ہمارے معاشرے کا اصلاح ہوجائے تو اپنی ذات سے اور اپنے گھر سے شروع کرنی پڑیں گی گھر کے ماحول کو دینی بنانا یہ ہر انسان کا ذمہ داری ہے ہماری ذمہ داری صرف نماز پڑھنا روضہ رکھنا نہیں ہے بلکہ اپنے بیوی بچوں کو بھی دین دار بنانا انکے اندر اچھی صفات کو منتقل کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے آج ہم لوگ اپنی اولاد کی طرف سے گھر والوں کے دین کی طرف سے بالکل لاپرواہ ہوچکے ہیں بچے کنوینٹ اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ انکو کیا پڑھایا جارہا ہے کیا سکھایا جارہا ہے انکی کیسی تربیت کی جارہی ہے والدین کو اس کی کوئی فکر نہیں ٹھیک ہے اپنے بچوں کو جو پڑھاناہے پڑھائے ڈاکٹر بنائے انجنیئر بنائے لیکن اس کے بارے میں فکر مند رہےکہ انکا دین بھی باقی رہے انکے اندر دینی مزاج پیدا کیاجائے دینی شعور انکے اندر پیدا کیاجائے اسلامی عقائد کے پہچان ہو اور یہ ساری چیزیں ہوں گی اس وقت جب انکو دینی تعلیم سے آراستہ کیاجائے تو ہربچےکےلیے جو اسکول کالج جارہا ہے اس کے لیے دینی تعلیم کا اور دینی ماحول کا نظم کرنا ہر والدین کی ذمہ داری ہے اگر ہم نے کرلیا تو انشاءاللہ ایک گھر سے دوسرے گھر ایک محلے سے دوسرے محلے تک اصلاح ہوتی چلی جائے گی اس طرح ہمارا پورا معاشرہ درست ہوجائے گا،حضرت مولانا جاوید عالم صاحب قاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء مشرقی چمپارن نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہر محلہ ہر گاؤں میں مضبوط مکتب کا نظام ضروری ہے بھلے آدھی پیٹ کھائے لیکن اپنے بچوں کو ضرور تعلیم سے آراستہ کریں اور اپنے علمائے کرام وحفاظ عظام کی تنخواہوں کا معیار اعلی کریں کم از کم سکچھامتر ٹیچر کے مساوی تنخواہ دے ۔حضرت ہی کی دعاء پر پروگرام کا اختتام ہوا ۔جس میں دور دراز اور قرب وجوار کے علماء کرام کچھ علماء کرام کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ (مولانا عبد القدیر صاحب مظاہری میگھوا ۔مولانا نذر المبین صاحب ڈھاکہ ۔مولانا محبوب عالم صاحب قاسمی ناظم مدرسہ خیر العلوم کنڈواں کسریا۔مولانا افروز صاحب ندوی ۔مولانا طفیل صاحب قاسمی صدر المدرسین مدرسہ اسلامیہ پہنہرہ۔قاری توفیق صاحب مدرس مدرسہ بستان رحمت محی الدین پور سیوان۔مفتی عبد الرحمٰن صاحب قاسمی ناظم مدرسہ جامعہ عربیہ دار السلام چرگاہاں مشرقی چمپارن۔مولانا عرفان صاحب۔مولانا تبریز صاحب۔مولانا حبیب اللہ صاحب قاسمی۔مولانا نور الضحی صاحب مظاہری۔مولا‌نا اشفاق صاحب مظاہری۔مفتی عظمت اللہ صاحب قاسمی۔مولانا جمال الدین صاحب۔مظاہری )عوام و خواص۔سیاسی لیڈران :(جناب اسداللہ صاحب عرف بابو صاحب یووا جدیو نیتا صوبائی سکریٹری ۔جناب بدیع الزمان صاحب عرف چاند بابو 16کلیان پور ویدھا سبھا چھتر کے سابق ایم ۔ایل ۔اے امیدوار ۔جناب منوج یادو 16کلیان پور مشرقی چمپارن کے ویدھایک ۔جناب سچندر سینگ سابق ویدھایک 16کلیان پور مشرقی ۔جناب راشد جمال صاحب چکیا ۔جناب حفیظ اللہ صاحب الگھبنی ) مسلمان اور برادران وطن ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے تمام مہمانوں کی ضیافت میگھوا، مٹھیا ،بہلول پور سسواسوب ،الگھبنی ۔اور مدرسہ فیض اقبال سسواسوب مشرقی چمپارن کے اساتذہ کرام مفتی صابر صاحب ناظم مدرسہ ۔مفتی شرف عالم صاحب ندوی ۔مفتی اقبال احمد صاحب قاسمی ۔حافظ نوشاد صاحب جامعی وطلبہ عزیز نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ منتظمین جلسہ: مولانا کلام الدین صاحب کنوینر جلسہ ،مولانا شاہد ظفر صاحب قاسمی پیش امام وخطیب جامع مسجد میگھوا ۔مولانا سجاد صاحب قاسمی ۔مولانا ظہیر الدین صاحب مظاہری مدرس مدرسہ فیض اقبال سسواسوب ۔مولانا عبد الحکیم صاحب ندوی ۔مولانا عرفان صاحب ۔مولانا اخلاق صاحب ۔پرو فیسر ریاض احمد صاحب ۔ظفیر صاحب ۔رمضانی صاحب ۔الیاس صاحب ان سبھی حضرات کا انتہائی ممنون و مشکور ہیں جنہوں نے اس پروگرام کو شروع سے آخر تک کامیاب بنانے میں ساتھ دیا اللہ ان کو اس کا بہتر سے بہتر بدلہ دونوں جہاں میں عطاء فرمائے

کچھ تبسم زیر لب

*    کچھ تبسم زیرِ لب (16)   
اردودنیانیوز۷۲ 
                        * انس مسرورانصاری

                    *****جنگ آخر جنگ ہے***** 
          ہمارےمیردانشمند بہت اداس بیٹھےتھے۔فلسطین اوراسرائیل کےمابین جنگ زوروں پرتھی۔ایک دوسرے کوجی جان سےشکست دینےکی کوشش کررہےتھے۔میر صاحب نےپوچھا۔۔آخر جنگ ہوتی کیوں ہے۔۔،،؟ 
         ہم نے انھیں سمجھایاکہ یہ ہماری آ بائی رسم ہے جسےہم گاہےگاہےاداکرتےرہتےہیں۔جنگ کی تاریخ قدیم سے قدیم ترہے۔لیکن جنگ چاہے میدان میں ہویاگھرمیں، تباہیاں دونوں جگہ آتی ہیں۔گھریلوجنگ میں شوہِرنام دارہمیشہ ہارمان لیتےہیں اوربیویاں ہمیشہ جیت جاتی ہیں۔جنگ کی بہت ساری اقسام ہیں۔دوملکوں کےدرمیان  جنگ کو۔۔جنگِ صغیراوربہت سارےملک جب آپس میں لڑنےلگیں تو اسےجنگِ عظیم کہتےہیں۔بعض مرتبہ گھروں میں بھی جنگِ عظیم برپاہوتی ہے۔میدانی جنگوں میں بین الاقوامی اصولوں کی ہمشہ خلاف ورزی کی جاتی ہے۔عورتیں،بچےاورضعیف مردوں کاقتلِ عام کیاجاتاہے۔آبادیاں اجاڑ دی جاتی ہیں۔اوربہت کچھ ہوتاہے۔
       ایک جنگ میں فتح حاصل کرنےوالی فوج کےدو سپاہی مفتوحہ علاقہ کےایک مکان میں داخل ہوئے جہاں ایک خوبصورت جوان لڑکی اپنی استانی کے ساتھ خوفزدہ بیٹھی تھی۔انھیں دیکھتےہی ایک سپاہی مسرت کےساتھ چیخا۔۔ہمارے ساتھ رنگ رلیاں منانےکے لیےتیارہوجاؤ۔۔۔! 
        لڑکی گڑگڑانےلگی۔۔۔ دیکھو۔! میرےساتھ جوچاہو سلوک کرومگرمیری استانی کوہاتھ مت لگاؤ۔وہ مردکے سائےسےبھی دورہے۔اس نےشادی بھی نھیں کی ہے۔۔،،      استانی نےلڑکی کی بات کاٹتےہوئےکہا۔۔۔ان کو مت روکومیری بچی۔! جنگ آخر جنگ ہے۔
                            **********

                           * امر یکن گا  ئے*
          ہمارےسابق پردھان منتر ی آنجہانی اٹل بہاری واجپئی ہرچندکہ آرایس ایس سےوابستہ تھےمگر بڑے سلجھےہوئےمزاج کےبھولےبھالےآدمی تھے۔شدت پسندی ان میں بالکل نہ تھی۔انھوں نےہمیشہ فلسطین کی  حمایت کی اوراسرائیل کوغاصب قراردیا۔۔ایک باروہ امریکہ کےدّورےپرگئے۔وہاں ڈنرلیتےہوئےاپنےپہلو میں بیٹھےشخص سےکھانےکی تعریف کی۔۔۔بڑاسوادشٹ بھوجن ہے۔۔۔! اس نےمسکراتےہوئےکہا۔۔۔ سر!آپ جس کھانےکی تعریف کررہےہیں وہ گائےکابیف ہے۔۔،،واجپئی جی نےبرجستہ جواب دیا۔۔۔کوئی بات نھیں،کوئی بات نھیں۔یہ انڈین گائےکا بیف توہےنہیں،یہ توامریکن گائےکا بیف ہے۔۔
                                 **********       

                             * وضا حت *
          دنیا کےتین بڑےنفسیات دانوں میں ڈاکٹرالفریڈ ایڈلرکانام لیاجاتاہے۔ایک باراحساسِ کمتری کےموضوع پرایک یونیورسٹی میں وہ لکچردےرہےتھے۔
     ۔۔ جسمانی طورپرمعذوراورکمزورافراداکثرایسےکا موں کواختیارکرتےہیں جوان کی معذوری اورکمزوری کےبرعکس ہوتےہیں۔یعنی اگر وہ ضعفِ تنفس کامریض ہوتاہےتولمبی دّوڑ کےجیتنےمیں لگ جاتاہے۔لکنت کا مریض ہےتوخطیب بنناچاہتاہے۔کمزورآنکھیں رکھتا ہے تومصوری کی طرف نکل جاتاہے۔،،انھوں نےاوربہت سی مثالیں بیان کیں۔اچانک درمان میں ایک طالب علم نے اٹھکرمداخلت کرتےہوئےپوچھا۔۔۔۔ سر!اجازت ہوتو کچھ پوچھوں۔؟ڈاکٹرایڈلرنےکہا۔۔۔ہاں ہاں،ضرورپوچھو۔مجھے خوشی ہوگی۔،، 
        ۔۔ ڈاکٹرصاحب! آپ کی باتوں کایہ مطلب تونہیں کہ ضعفِ دماغ میں مبتلالوگ ماہرِنفسیات ہوجاتےہیں۔؟ 
                         *************
                    
                           * مفت کی دعا ئیں *
        اودھ کےنواب واجدعلی شاہ اخترعیش وعشرت میں پڑکرواجدعلی کےبجائےسائل علی ہوگئے تھے۔مجبوری کی حالت میں انگریزبہادرسےوظیفہ کی درخواست کی۔
      انگریزافسران کےپاس آیااورپوچھا۔۔۔ تم اپنی حیات تک وظیفہ چاہتےہویامرنےکےبعداپنےپسماندگان کےلیے بھی چاہتےہو۔۔۔؟ 
       ۔۔۔صرف اپنی حیات تک وظیفہ چاہتا ہوں۔۔۔ اس جوب پران کےوارثوں نےاحتجاج کیااور کہا۔۔۔ یہ آپ کیا کرنےجارہےہیں۔۔؟پھرہماراکیاہوگا۔؟؟
          واجدعلی شاہ نےجواب دیا۔۔۔ایسا اس لیےکررہا ہوں کہ میرےورثاءمیرامرنانہ تکنےلگیں۔اب سب لوگ میری لمبی عمرکی دعائیں کیا کریں گے۔میں زیادہ سے زیادہ جیناچاہوں۔۔اس طرح وظیفےکےساتھ میں نے دعائیں مفت میں حاصل کرلیں۔
                             **********
 
                      *عا د ت سے  مجبو ر*
      نیتاجی کےاعزادمیں ایک تقریب تھی،جس میں انھیں ایک شانداربھاشن دیناتھا۔یہ بھوشن وہ ایک رائٹرسےپانچ سوروپئےمیں لکھواکرلائےتھے۔بھاشن بہت اچھااورکامیاب رہا۔پبلک نےخوب تالیاں بجائیں۔ اتنی تالیاں کہ ان کاسینہ چھپن انچ کاہوگیا۔پروگرام ختم ہواتونیتاجی اپنےچاہنےوالےچاپلوسوں کےجِلومیں منچ سےنیچےآئے۔تبھی میڈیاوالوں نےانھیں گھیرلیا۔ایک چینل والےنےسوال کیا۔۔۔۔شری مان جی۔!ابھی تک آپ نے شادی نھیں کی۔کیا اس کی وجہ بتاسکتےہیں۔؟،، 
          ۔۔۔ کیوں نھیں بھائی۔! نیتاجی دونوں ہاتھ جوڑ کرمسکراتےہوئےبولے۔۔۔بہت سارےلڑکےاورلڑکیاں جواب سننےکےلیےہمہ تن گوش ہوگئے۔موصوف کافی شرمیلے تھے۔اس لیےمسکراتےاورلجاتےہوئےفرمایا۔
         ۔۔۔ تین چاربہنوں کےرشتےآئےہوئےہیں۔اورایک بہن جی سےتوباتیں بھی چل رہی ہیں۔ ،، 
                             **********

                            * نہلے پر د ہلا *

        رگھومل جی بہت مالدارآدمی تھے۔لیکن تھے بڑے کنجوس۔انھیں چنتابس ایک ہی بات کی تھی۔ان کا اکلوتابیٹاراجن نہاتانھیں تھا۔وہ صرف کپڑےبدلتارہتا۔ہفتہ ہفتہ بھرنہانےکانام نھیں لیتاتھا۔رگھومل جی کو بیٹے کی اس عادت سےبڑی الرجی تھی۔انھوں نے ایک ترکیب نکالی اوراپنےبیٹےراجن سےکہا۔ 
     ۔۔۔ بیٹا! اگرتم روز بلا ناغہ نہاؤگےتوایک ماہ بعد میں تمھیں ا نعام میں دوسوروپئےدوں گا۔،، 
      ۔۔ بیٹاراجن باپ کی بات سن کربہت خوش ہوا۔دوسوروپیوں کےلالچ میں وہ روزبلاناغہ نہانےلگا۔آخر جب ایک ماہ پوراہوگیاتواس نےباپ کواس کاوعدہ یاددلایا۔کنجوس باپ نےمسکراتےہوئےاس کےہاتھ میں ایک بل تھمادیاجس میں دوسوپچیس روپئےصابن کے درج تھے۔باپ نے بیٹے سے کہا۔۔ 
          ۔۔ تمھارےدوسوروپئےانعام کےاورپچاس روپئے جیب خرچ کے،کاٹ کریہ بل دوکاندارکواداکیاجائےگا۔،، 
         بیٹےنےمسکراتےہوئےجواب دیا۔۔پتاجی۔! آپ دوسوروپئےمجھےدیں۔میں ایک ماہ سےبغیرصابن کے نہاتارہاہوں۔*****

             قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
                     رابطہ/9453347784 =

اسلامی اقامت گاہوں کی ضرورت

اسلامی اقامت گاہوں کی ضرورت
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

ہندوستان میں نئی نسل کی بے راہ روی، دین سے دوری، لایعنی کاموں میں مشغولیت، فرائض وواجبات میں کوتاہی، حقوق کی ادائیگی سے پہلوتہی عام سی بات ہے، اس کے اسباب ووجوہات بہت سارے ہیں، ان میں سے ایک بڑا سبب اسکول وکالج میں اخلاق واقدار سے بے پرواہی، تعلیم کے ساتھ تربیت کا فقدان اور نصاب تعلیم میں خدا بیزار مواد وموضوعات کی شمولیت ہے، ان اداروں سے پڑھ کر جو طلبہ نکل رہے ہیں، وہ عموماً ذہنی طور پر مذہب بیزار اور دین سے دور ہوجاتے ہیں۔
صورت حال کی اس سنگینی کے بارے میں مجھے یہ کہنا ہے کہ اسکول وکالج میں پڑھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد دیہاتوں سے آکر حصول علم کے لئے شہروں میں فروکش ہوتی ہے، یہاں انہیں اسکولی تعلیم کے ساتھ کوچنگ کی بھی سہولت ہوتی ہے، ظاہر ہے وہ ہر دن گھر سے آجا نہیں سکتے، اس لئے کسی ہوسٹل می4545ں قیام پذیر ہوتے ہیں، کسی لاج کو اپنا مسکن بناتے ہیں، جہاں کا ماحول اور بھی خراب ہوتا ہے، یہاں عموماً مالک مکان کو کرایہ سے مطلب ہوتا ہے، بچے کدھر جارہے ہیں؟ خارج وقت میں کیا کررہے ہیں؟ کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں؟ اس کی نگرانی نہیں کی جاتی اور اگر کوئی نگرانی کرتا ہے تو ایسے ہوسٹل کو طلبہ پسند نہیں کرتے اور اسے اپنی آزادی پر پہرہ قرار دیتے ہیں، ظاہر ہے ہمارے لیے یہ ناممکن سا ہے کہ اسکول وکالج کے ماحول میں کوئی بڑی تبدیلی لائیں، اس طرح جو ہوسٹلس قائم ہیں، ان کے اندر کہہ سن کر جزوی تبدیلی تو لائی جاسکتی ہے؛ لیکن بالکلیہ اسے اسلامی اخلاق واقدار سے ہم آہنگ کرنا کوہ کنی سے زیادہ مشکل کام ہے، ایسے میں ایک شکل تو یہ ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور نسلوں کو تباہ ہوتا دیکھتے رہیں، دوسری شکل یہ ہے کہ ہم اس کے لیے اپنی حد تک جد وجہد کریں، تاکہ نئی نسل کو گمراہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں اسکول وکالج کا ایسا حال نہیں تھا، طلبہ کی تربیت گھر سے باہر تک کی جاتی تھی، اساتذہ کے ادب واحترام کا ماحول تھا، ایسے میں لڑکے لڑکیاں کم گمراہ ہوتے تھے اور بہر کیف ان اخلاق واقدار کو چھوڑنا معیوب سمجھا جاتا تھا، آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ تربیت کی کمی کے ساتھ اخلاق رذیلہ پیدا کرنے کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس بھی بے راہ روی کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں اور لڑکے لڑکیوں پر اس حوالہ سے کوئی قدغن نہیں ہے، اختلاط مرد وزن عام ہے، اور اس کے مضر اثرات سے کوئی گاؤں، محلہ اور علاقہ محفوظ نہیں ہے، مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے ساتھ چلے جانا، کورٹ میریج کر لینا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، یہ معاملہ صرف شادی کا نہیں، ارتداد کا ہے، جس کا سامنا ہر جگہ مسلمانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کو اس کا احساس کوئی ستر سال پہلے ہوگیا تھا، ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ہوا کا رخ کیا ہے اور کس تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، مولانا گیلانی کی تحریر وتقریر کا مرکز اصلاً انسان سازی ہی تھا، وہ بے راہ رواور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا جذبہ رکھتے تھے، نام نہاد روشن خیال لوگوں کو عمل کی حد تک نہ سہی، کم از کم ایمان ویقین کی حد تک انہیں مسلمان رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔ اس سلسلہ میں ان کے پاس ایک اسکیم تھی جو جدید نسل کی بے راہ روی کے لیے تریاق کا درجہ رکھتی ہے، جس کا ذکر مکاتیب گیلانی: مرتبہ حضرت امیر شریعت رابع ؒکے مقدمہ میں مولانا عبد الباری ندویؒ نے تفصیل سے کیا ہے، اس کے مطابق طلبہ وطالبات کو دین وایمان پر قائم رکھنے کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہر جگہ اور ہر علاقہ میں اسلامی نہج کے اسکول کھولے جائیں، جہاں دینی تعلیم اور اسلامی ماحول میں مسلم طلبہ وطالبات کو تعلیم دی جائے، اس کے لیے سرمایہ کثیر چاہیے، جس کے خرچ کے مسلمان متحمل نہیں ہیں اور جو لوگ متمول ہیں ان کو اس کا خیال ہی نہیں ہے، وہ سرکاری اسکول وکالجز میں پڑھنے پڑھانے کو کافی سمجھتے ہیں، پھر جو مسلمانوں ہی کے قائم کردہ ادارے ہیں، ان میں بھی کتنے ہیں جو اسلامی تہذیب وثقافت اور معتقدات کی حفاظت کو ضروری سمجھتے ہیں، ضرورت کے مطابق اسکول وکالجز کھولنے کے لیے نہ تو ہمارے پاس سرمایہ ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی تیار ہے، اس لیے اس کا قابل عمل حل مولانا گیلانی نے اسلامی اقامت خانے (ہوسٹل) کے طور پر ڈھونڈ نکالا تھا، ان کا خیال تھا کہ اسے سستا ہونا چاہیے اور تجارتی نقطہئ نظر کے بجائے اس میں اصلاحی فکر کے ساتھ لگنا چاہیے، وہ دیکھ رہے تھے کہ عصری تعلیم کا شیوع اس تیزی سے ہورہا ہے کہ امراء کے بچوں کے ساتھ غرباء کے بچے بھی اس ریس میں شامل رہے ہیں، اعلی تعلیم کے لیے شہروں میں وہ بود وباش کریں گے اور غیر اسلامی تہذیب وثقافت اور کلچر کا سیلاب انہیں خس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا، ایسے وقت میں یہ اسلامی اقامت خانے ان کو دین وایمان پر قائم اور ثابت قدم رکھنے میں مفید ہوں گے۔
 مولانا گیلانی نے ان اقامت گاہوں کا ایک خاکہ بھی بنایا تھا، جس کے مطابق بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اقامت گاہوں کا ماحول دینی رکھنا ضروری تھا، نگراں اور وارڈن تو متشرع ہوں ہی، ان کی نشست وبرخواست بھی کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ کرائی جاتی رہے، جن کو دیکھ کر طلبہ کے اندر دینی شوق اور جذبہ پیدا ہو، روزہ اور نماز با جماعت کی پابندی تو ضرور کرائی جائے، البتہ زیادہ زور معاملات اور اخلاق کی درستگی پر دیا جائے، کتابی تعلیم کا بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے، بعد نماز فجر آدھے گھنٹے قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر، منتخب احادیث جو ایمان ویقین کے ساتھ اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ پر ابھار سکتے ہوں، روزمرہ کے ضروری دینی مسائل کی واقفیت کے لئے فقہ کی کوئی ہلکی پھلکی کتاب، ان سب کے لیے ایک گھنٹے سے زیادہ نہ لگایا جائے؛ تاکہ طلبہ کو بار خاطر نہ ہو، تھوڑا تھوڑا کر کے سیرت کا مطالعہ اور بس۔
مولانا گیلانی کے یار غار مولانا عبد الباری ندوی نے مولانا کے اس خاکے کی جزئیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، انہوں نے اقامت گاہوں میں دار المطالعہ کے قیام اور ان میں رسائل وجرائد اور جدید ذہنوں کے لیے مناسب کتابوں کی فراہمی پر زور دیا ہے، انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ایسے اقامت گاہوں میں ابتدا میں ایسے طلبہ رکھے جائیں جو دین وایمان کے اعتبار سے زیادہ لا پرواہ نہ ہوں، تاکہ دوسرے طلبہ انتہائی سرکش لڑکوں کے اخلاق وعادات سے محفوظ رہ سکیں۔ ابتدا میں اقامت گاہ میں عارضی داخلہ دیا جائے اور اگر ان کے عادات واطوار ایسے نظرآئیں جن پر محنت کرنے سے صحیح رخ پاجانے کا امکان ہو تو اس کو مستقل کردیا جائے۔مولانا عبد الباری ندویؒ گیلانی اقامت خانوں کے قیام کو اس ارتدادی فتنہ کے نئے طوفان کے مقابلہ کے لیے ضروری سمجھتے تھے، ان کے خیال میں جس طرح گاؤں گاؤں میں سیکولر نظام تعلیم کے مقابلے اسلامی مکتب کھولنے کی مہم چل رہی ہے، گیلانی اقامت خانے قائم کرنے کی بھی مہم چلنی چاہیے۔حضرت گیلانی کے معتقدین اور ان کی فکر رسا کے مادحین اور ان کے شاگرد کسی کو بھی اس تجویز کو عملی شکل دینے میں دلچسپی نہیں ہوئی، حالانکہ اس تجویز کی اہمیت وافادیت کے قائل مولانا عبد الماجد دریابادی، حضرت مولانا محمد منظور نعمانی، حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی اور ڈاکٹر مولانا سید عبد العلی رحمہم اللہ سبھی تھے۔
مولانا عبد الباری ندویؒ عثمانیہ یونیورسیٹی سے سبکدوشی کے بعد اس تجویز کو عملی رنگ وروپ دینا چاہتے تھے، انہوں نے ہارڈنگ روڈ لکھنؤ میں خود اپنے وسیع وعریض اور لق ودق مکان ”شبستان قدم رسول“ کو اس کام کے لیے دینے کا ارادہ کر لیا تھا، ایک صاحب عزیمت جواں سال
نگرانی کے لیے تیار بھی ہو گئے تھے، لیکن پھر وہ اس پتہ ماری کے کام کے لیے خود کو تیار نہ رکھ سکے اور اقامت گاہوں کا قیام موزوں نگراں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے دھرا کا دھرا رہ گیا، حالانکہ اس کام کے لیے کسی بڑے عالم وفاضل کی ضرورت بھی نہیں، صرف جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہنی رجحانات وکوائف سے مانوس اور خود دینی احکام وہدایات پر عمل پیرا ہونا ضروری تھا، اس کام کے لیے عصری تعلیم یافتہ کو بھی رکھا جاسکتا تھا، لیکن اسلامی اقامت خانوں کی گیلانی تجویز کو سب سے زیادہ کارگر، آسان اور عملی تسلیم کرنے کے باوجود اس معاملہ میں ہنوز روز اول ہے، وجہ صرف ایک سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ مادی منفعت سے دو ریہ کام خالص پِتّہ ماری اور عملی ہے، اور ہم لوگ جو حصول شہرت کے لیے اپنی بہت ساری توانائی لگادیتے ہیں، اس بے نام کے کام کی عملی صلاحیت سے کوسوں دور ہیں۔
 حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی ؒلکھتے ہیں:”حالات وہی ہیں جو انگریزوں کے دور حکومت میں تھے؛ بلکہ بعض اعتبار سے حالات پہلے سے زیادہ سنگین ہیں اور مسلمان نوجوانوں کو مختلف راستوں سے گمراہ کرنے کی تدبیریں جاری ہیں؛ بالخصوص مذہب بیزاری یا خدا بیزاری پر بڑی طاقتیں جو کچھ کررہی ہیں وہ کسی با خبر سے مخفی نہیں ہے، الحاد کا ایک طوفان ہے، جو مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک انسانی ذہنوں کو متاثر کرنے میں کام کررہا ہے۔“ (حیات گیلانی:۶۹۱)
اس تناظر میں دیکھیں تو اسلامی اقامت گاہوں کے قیام کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے۔

آفتاب:جو غروب ہو گیا

آفتاب: جو غروب ہو گیا  ____
اردودنیانیوز۷۲ 
   ✍️مولانا رضوان احمد ندوی 
سب ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب پھلواری شریف، پٹنہ

 دبستان ویشالی (بہار) کے ممتاز عالم دین ، کامیاب معلم ومدرس اور مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور کے سابق پرنسپل حضرت مولانا آفتاب عالم مفتاحی ۱۱؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء کو رب ذو الجلال سے جا ملے، مولانا مرحوم کا وطن کواتھ روہتاس تھا، لیکن انہوں نے مدرسہ احمدیہ کو علم نبوت کی نشر واشاعت کے لئے مرکز بنایا جہاں مختلف علوم وفنون کی معیاری کتابیں پڑھائیں اور اپنی علمی وفکری صلاحیت اور انتظامی خصوصیت سے ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے، اور اپنی گوناگوں خوبیوں اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا، گوکہ ان کی شہرت عام نہ تھی، لیکن خطابت وامامت کے باعث ضلع ویشالی میں ہر دل عزیز رہے، جس کا اہل نظر کو بھی اعتراف تھا، ایسے متحرک اور درد مند شخصیت  کا دور قحط الرجال میں اٹھ جانا ایک نعمت خداوندی سے محروم ہوجانا ہے، گرچہ میں حضرت مولانا کی زیارت سے محروم رہا تاہم ان کے احباب ومعاصرین اور تلامذہ کی زبانی ان کے ذکر خیر سے کان آشنا ضرور تھا، جوکمی رہ گئی اس کو زیر تبصرہ کتاب ’’آفتاب جو غروب ہو گیا‘‘ نے پوری کر دی ، جس کو علوم اسلامیہ کے فاضل جلیل مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ نے مرتب کی ہے، لائق مرتب صاحب تصانیف کثیرہ ہیں، حدیث اور اصول حدیث ، تاریخ وسیر اور ادب وتنقید پر ان کی متعدد کتابیں معروف ومقبول ہیں، ہفتہ وار جریدہ نقیب کے ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے ان میں ان کی تحریریں برابر چھپتی رہتی ہیں، جو باذوق قارئین کے لئے نشاط روح کا سامان فراہم کرتی ہیں، پیش نظر کتاب بھی ان کی کاوش کا عکس جمیل ہے، در اصل مولانا مرحوم کے صاحبزادے جناب محمد احمد کی تحریک پر مفتی صاحب آمادہ ہوئے اور مولانا مرحوم کے احباب ومتعلقین اور شاگردوں سے نگارشات کے لئے رابطہ کیا ، مراسلات وفون کے ذریعہ متوجہ کرتے رہے، حتی المقدور اہل قلم کا قلمی تعاون حاصل کر لیا ۔ اس طرح یہ مجموعہ مقالات ’’آفتاب جو غروب ہو گیا‘‘ منظر عام پر آگیا۔
مرتب نے اس کتاب کے مضامین کو چار عنوانات کے تحت شامل کیا ہے۔ پہلا عنوان احوال وآثار ، اوصاف وکمالات رکھا ، جس کے تحت 24اصحاب قلم نے اپنے تاثرات وانطباعات کا اظہار کیا ، ان میں مولانا سید مظاہرعالم قمر شمسی ، مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری، جناب انوار الحسن وسطوی ، شاہد محمود پوری ، مولانا محمد قمر عالم ندوی، مفتی ظفر الہدیٰ قاسمی ، محمد الغزالی، ڈاکٹر حسین اور خود مرتب کتاب کے رشحات قلم شامل ہیں۔ باب دوم میں مولانا کی نثری تحریریں ہیں، جنہیں مولانا مرحوم نے وقت اور حالات کے تناظر میں سپرد قلم فرمایا، ان میں اکبر اور اسکا دین الٰہی ، باکردار انسان ، عبد المغنی صدیقی یاد ماضی ، شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات، جیسے عناوین پر اظہار خیال کیا۔ باب سوم میں ڈائری کے چند اوراق کے تحت خسر محترم کے انتقال پر دلی صدمے کا ظہار اور جمشید پور کے سفر نامے کی روداد وغیرہ شامل ہیں، اور آخری باب چہارم میں مولانا کی نظموں اور غزلوں کو شامل کیا گیا ہے، ان کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو زبان وبیان پر قدرت حاصل تھا۔ اس طرح یہ کتاب معلوماتی مضامین کا مجموعہ اور مولانا مرحوم کے اوصاف وکمالات کا حسین گلدستہ ہے، کتاب کی طباعت دیدہ زیب ہے اور کاغذ بھی ہر اعتبار سے مناسب ہے، میں اس کتاب کی اشاعت پر نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساماں ویشالی کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ قارئین اس کو پسند یدگی کی نظروں سے دیکھیں گے ۔ 182صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ایک سو روپے ہے، سیرت وسوانح سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب ذوق کو یہ کتاب ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ضرورت مند حضرات بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ سے خرید سکتے ہیں، یا براہ راست مرتب کتاب کے موبائل نمبر 9431003131پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...