Powered By Blogger

ہفتہ, اگست 13, 2022

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دنیا نیوز٧٢)
امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ۱۳۰۱ھ۔وفات ۱۳۵۹ھ)حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھے اور ان کے متعلقین ومتوسلین مختلف انداز میں جدوجہدآزادی میں شریک رہے،کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں: ’’امارت کے تمام رہنما اور اہم کارکن مذہبی اثر ورسوخ کے حامل ہونے کے ساتھ جانے ہوئے کٹر سامراج مخالف سیاہی رہنما بھی تھے، مولانا مشہود احمدندوی قادری موجودہ پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ،امیر شریعت اول مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ پر لکھے گئے ایک مضمون میں مولانا محمد سجادؒ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:’’ایک مرد مجاہد اورآزادی کے سرخیل وعلم بردار حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ جو قت اور زمانہ کے حالات کو دیکھ رہے تھے اورحالات کے صحیح نباض تھے‘‘۔(ہمارے امیر۸،مرتبہ مولانا رضوان احمد ندوی)
مولانانورالحق رحمانی رقم طراز ہیں:’’آپ مجاہد اعظم اور جنرل سپاہی بھی تھے، جب پہلی جنگ کی تیزوتند ہوا چلی اورزبردست طوفان اٹھا تو بہت سی قدآور شخصیت پستہ ہوگئیں ،لیکن آپ مستحکم چٹان کی طرح جمے رہے، آپ حضرت شیخ الہند اورحضرت شیخ الاسلام کے ساتھ جنگ آزادی میںشریک رہے، جب حضرت شیخ الہندؒنے ۱۹؍جولائی ۱۹۲۰ء کو ترک موالات کا فتویٰ دیا تواس کو مرتب کرکے ۴۸۴ دستخطوں کے ساتھ شائع کرنے والی آپ ہی کی شخصیت تھی(ہمارے امیر۳۹)مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ نے خطبۂ صدارت اجلاس مرادآباد میں آزادی کی لڑائی کے لئے ہندو مسلم کو متحد کرنے کی بات کہی، مولانا نے فرمایاکہ گھر کے غیر مسلم قوموں سے پہلے مصالحت وموادعت کی جائے، پھر بیرونی دشمنوں سے گھر کی حفاظت کی جائے،مولانامحمد سجاد ؒ محمد علی جناح کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’اصلی فساد ہلاکت کا سرچشمہ برٹش حکومت کا دستور حکومت ہے یہ روگ بمنزلہ سل ودق کے ہے اور فرقہ وارانہ فسادات یانوکریوں یا وزارتوں میں حق تلفی بمنزلہ پھوڑا پھنسی کے ہے‘‘(مکاتب سجاد۲۵)آگے لکھتے ہیں:’’جناب کو معلوم ہے کہ اس کا علاج بجز اس کے کیاہوسکتا ہے کہ حکومت کے موجودہ سسٹم میں کلیۃ انقلاب برپا کیاجاجائے،لیکن یہ انقلاب صرف تحریروں، تقریروں،جلسوں اور جلوسوں سے حاصل نہیں ہوسکتا اورنہ صرف ظالموں کو برا کہنے سے، اس کے لئے ہمیشہ صرف ایک اصول ہے کہ ظالموں اور جابروں کے استبداد کو ختم کرنے کے لئے اور اقامت عدل وانصاف ورضائے الہی کے لئے مظلوم قوم اپنے جان ومال کی قربانی پیش کرے اور اس اصول پر عمل کرنے کے لئے دو طریقے امتداد تاریخ عالم انسانی سے رائج ہیں، ایک طریقہ جہاد بالسیف ہے اور دوسرا طریقہ بغیر مدافعت جہاد اعلان حق اور تسلیم باطل سے قولاوعملاانکار ،جس کو حرب سلمی بھی کہتے ہیں اور عرف عام میں عدم تشدد کے ساتھ سول نافرمانی‘‘(مکاتب سجاد۲۷)
مسلم لیگ نے آپ کے حرب سلمی کے مشورے کو نہیں مانا تو مولانا کو اس کا بہت افسوس ہوا، محمد علی جناح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں’’مجھے افسوس ہے کہ مسلم لیگ نے اصل مقصد کو پیش نظر رکھ کر برٹش شہنشایت کے خلاف حرب سلمی کے ذریعہ محاذ جنگ میں قدم رکھنے کا فیصلہ نہیں کیا، معلوم ہوتاہیکہ مسلم لیگ کی رہنمائی جن ہاتھوں میں ہے ان کی اکثریت آج بھی انگریزوں پر اعتماد رکھتی ہے(مکاتب سجاد ۳۲)مولانا نے گانگریس کے ترک موالات کی تجویز کی حمایت میں ایک فتویٰ بھی لکھ کر شائع کیا،سری کرشنا سنگھ اپنے تحقیقی مقالہ ۱۶۸ پر لکھتے ہیں:ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق وہ بہار میں علماء کی تحریک کو جنم دینے والے ایسے خطرناک اور کٹر انتہاپسند تھے  جس نے ابوالکلام آزاد اورپان اسلامزم کے دوسرے بڑے داعیوں سے مل کر یہاں سب سے پہلے ایجی ٹیشن شروع کیا(بحوالہ جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۲۳۳)
امارت شرعیہ کے پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ (ولادت ۱۸۵۲ء ،وفات ۱۹۲۴ئ) اس معاملہ میں اس قدر حساس تھے کہ ۱۹۱۵ء مطابق ۱۳۳۳ھ میں آپ کی علمی خدمات اور بااثر شخصیت ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں شمس العلماء کا خطاب اور تمغہ دیا تھا، جسے بعض وقتی مصالح کی وجہ سے آپ نے قبول بھی کرلیا تھا،یکم اگست ۱۹۱۹ء مطابق ۱۳۳۸ھ میں خلعت وتمغہ دونوں کمشنر کو واپس کردیا اورلکھاکہ:’’میں اپنے دلی رنج وغم کا اظہار اس میں سمجھتاہوں کہ اپنے خطاب شمس العلماء ،خلعت وتمغہ وعطیہ سلطنت برطانیہ کو واپس کردوں؛ تاکہ اراکین سلطنت ہم لوگوں کے اس بے انتہا رنج وغم کا اس سے اندازہ کرلیں (ہمارے امیر ص ۷)مولانا کا یہ ردعمل برطانوی حکومت کے ذریعہ ہند وبیرون ملک پر ان ظالمانہ رویہ اور غیر منصفانہ اقدام کے نتیجہ میں سامنے آیا جو انگریزوں نے روا رکھا تھا، اس کی وجہ سے حضرت امیر شریعت اول انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور وہ ان شرائط کو بھی ماننے کو تیار نہیں تھے جو انگریزوں نے ترک   مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے لئے لگائے تھے،امیر شریعت اول نے تحریک خلافت اور تحریک موالات میں بھی حصہ لیا اور اپنے حلقہ کو اس پر آمادہ کیاکہ وہ ملک کی آزادی کے لئے کام کریں۔کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں:’’بہار میں عدم تعاون کا افتتاح بہاری مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما مولانا شاہ بدرالدین قادری پھلواری شریف نے اپنے خطاب شمس العلماء کی واپسی سے کیا‘‘( جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۱۸۹)
 امیر شریعت ثانی مولانا محی الدین قادری اورمولانا سید شاہ قمرالدین رحمھما للہ نے تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کامریڈ تقی رحیم لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے اثر میں آکر بہار کے مسلمان اپنے امیر کی ہدایت کے بموجب آزادی کی جدوجہد میں کانگریس کی مدد کرنے کو اپنا ضروری مذہبی فرض ماننے لگے تھے۔
امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ (ولادت ۱۹۱۲،وفات ۱۹۹۱ئ)شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے انتہائی معتمد اور چہیتے شاگرد تھے، جب حضرت مدنی جیل میں تھے توآپ نے بھی آزادی کی لڑائی کو تیز کرنے کے لئے جیل کی صعوبتیںبرداشت کیں،دوبار جیل گئے اور جدوجہدآزادی میں اپنا حصہ ادا کیا،مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے جدوجہد آزادی میں جو عملی اقدامات کئے اس کی وجہ سے وہ میرٹھ، مظفرنگر، سہارن پور ضلع میں تحریک آزادی کے ذمہ دار(ڈکٹیٹر)بنائے گئے، آزادی کے لئے بڑے مصائب جھیلے۔۱۹۳۶ء میں مسلم انڈپینڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر آپ کامیاب بھی ہوئے، لیکن ۱۹۴۰ء میں پارلیمانی سیاست سے آپ کنارہ کش ہوگئے، حافظ امتیاز رحمانی اپنے مضمون ’’جنگ آزادی اور حضرت امیر شریعتؒ میں لکھتے ہیں:’’پارلیمانی سیاست سے علحدگی کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت نے تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھا یا خانقاہ رحمانی کے مریدین ،مخلصین اور متوسلین کو یہ ہدایت دی کہ وہ تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، حضرت نے ملک وملت کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر سرگرمی کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی اورتحریک آزادی کی جدوجہد میں جو خفیہ سرکلر،پوسٹر اور پمفلٹ شائع ہوکر بہار کے بڑے حصے میں تقسیم ہوا کرتے تھے ،ان کی طباعت کا سب سے بڑا مرکز خانقاہ رحمانی تھا(امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی،مرتبہ مولانا عمیدالزماں قاسمی ص ۴۷۹)
پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب(ولادت۱۹۰۳، وفات ۱۹۹۸) بھی سچے محب وطن اور جدوجہد آزادی میں اکابرامارت کے شانہ بشانہ رہے، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ لکھتے ہیں:’’آپ سچے محب وطن اور مجاہدآزادی بھی تھے، جنگ آزادی میں بے لوث حصہ لیا تھا، ڈاکٹر سید محمود ،ڈاکٹر راجندر پرساد سابق صدر جمہوریہ کی قیادت میں چھپرہ شہر میں کام کیا، حق منزل جو اس زمانہ میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، وہاں قیام کرتے(ہمارے امیر ۲۵)
چھٹے امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ (۱۹۲۷،وفات ۲۰۱۵ئ)آزادی کی تحریک کے وقت بالکل جوان تھے اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کے ذریعہ چلائی جارہی تحریک کے دست وبازو تھے۔مولانا شاہ فیاض عالم ولی اللہی جدجہد آزادی میں اپنے اور مولانا سید نظام الدین کے رول کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہم دونوں دیہاتوں میں نکل جاتے اورلوگوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکاتے ،راستہ میں کھانے کے لئے جھولے میں بھنے ہوئے چنے او رگڑ رکھ لیتے تھے، کھانا ملاتو کھالیانہیں تو چنے اور گڑکھاکر پانی پی لیا، (باتیں میر کارواں کی، از عارف اقبال ۱۶۶)
ان کے علاوہ قاضی حسین احمد صاحب جو امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں ناظم تھے، آزادی کے لئے ان کی محنت قابل رشک تھی،ترک موالات کے مسئلہ سے دوسرے قائدین کی طرح قاضی احمد حسین بھی متفق تھے، انہوں نے اس سلسلے میں گاندھی جی سے ملاقات کی، اور ملک کی آزادی میں روس اور افغانستان کے تعاون سے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی تجویز رکھی، گاندھی جی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا،ان کی سوچ تھی کہ دوسروں کے بل پر اگر ہم آزادی حاصل کریں گے تو برطانیہ سے نکل کر دوسرے معاون ملکوں کے رحم وکرم پرہو جائیں گے، انہوں نے واضح لفظوں میں قاضی احمد حسین صاحب کو کہاکہ ’’ہندوستان میں خود اتنی طاقت ہونی چاہئے کہ وہ بلابیرونی مدد کے آزاد ہو اور تب وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکے گا‘‘۔
گاندھی جی سے ان کی یہ ملاقات چھپی نہیں رہ سکی ،انگریزحکومت کے جاسوس ان کے پیچھے لگ گئے اوران کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا، چنانچہ ۱۹۲۱ء میں خلافت کانفرنس گیا کے دفتر سے قاضی صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی، شاہ محمد عثمانؒ لکھتے ہیں:’’قاضی صاحب کو دفعہ ۱۲۴ الف بغاوت کے الزام میں چھ ماہ کی سزائے قید بامشقت دی گئی تھی، وہ جب گرفتار ہوئے تو شہر میں دکانین احتجاج کے طور پر بند ہوگئیں، اسکول بند کردئے گئے، سرکاری دفاتر میں بھی بہت سے لوگ نہیں گئے گھے، وہ رہاہوئے تو اسٹیشن پر ان کے استقبال کو آدمیوں کا ہجوم جمع تھا، پلیٹ فارم اور اسٹیشن کا کمپائونڈ اوراس سے باہر سڑکوں پر لوگ جمع تھے اور نعرے لگارہے تھے(حسن حیات ۶۰۰۶۱)
 ان کے علاوہ بہت سارے امارت شرعیہ کے نامور لوگوں نے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کیا، مثال کے طورپر مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی، شیخ عدالت حسین، حافظ محمد ثانی وغیرہ کا نام لیا جاسکتاہے۔ڈاکٹر ابولکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’جنگ آزادی میں امارت شرعیہ نے اہم رول ادا کیا، اس سے منسلک ،دانشوران اور عوام نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا، ان میں سے مولانا محمد سجاد،مولانا سید شاہ محی الدین امیر شریعت مولانا شاہ محمد قمرالدین، مولانا سید منت اللہ رحمانی ،قاضی احمد حسین، مولانا عبدالوہاب، مولانا حافظ محمد عثمان، مولانا عثمان غنی، شیخ عدالت حسین، سعیدالحق وکیل،ڈاکٹر سیدعبدالحفیظ فردوسی، مسٹر محمد یونس بیرسٹر، مولانا عبدالصمدرحمانی، مسٹر محمد محمود بیرسٹر،مسٹرخلیل احمد ایڈوکیٹ کے علاوہ سیکڑوں علماء ہیں(تحریک آزادی میں علماء کرام کا حصہ ۳۰۲)
امارت شرعیہ کے پہلے ناظم،مفتی اور امارت شرعیہ کے ترجمان جریدہ امارت اور نقیب کے مدیر محترم مولانا محمد عثمان غنیؒ نے جدوجہد آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ مجاہدین میں جوش وجذبہ اور حوصلہ پیدا کیا، آپ کی تحریروں نے انگریزوں کو بے حد پریشان کیا، جس کے نتیجہ میں امارت کے پرچے ضبط ہوئے، ضمانت طلب کی گئی،مولانا محمد عثمان غنیؒ کو جیل کے اندر ڈالا گیا، لیکن یہ مرد مجاہد اس قدر حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھاکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی اس کے قلم کو روک نہیں سکیں اور ’’امارت‘‘ کو بالآخر بند کردینا پڑا، اس کے بعد’’ نقیب‘‘ کے نام سے امارت کا ترجمان نکلناشروع ہوا،جوآج تک نکل رہاہے، آزادی سے قبل تک اس نے انگریزوں کے خلاف قلمی جہاد کیا،اورآزادی کے بعد مسلمانوں کو متحد ومتفق کرنے ،اصلاح معاشرہ اوراہم موضوعات پر اس کے مضامین ومقالات آج بھی موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
میں نے اپنے ایک مضمون ’’بے باک صحافی۔ مولانا مفتی محمد عثمان غنی‘‘ میں لکھاتھا:’’آپ کی تحریروں میں حکومت برطانیہ پر جارحانہ تنقید ہواکرتی تھی، اوریہ تنقید حکومت لئے ناقابل برداشت تھی، کئی بار مقدمہ چلا، ۸؍مئی ۱۹۲۶ء کے ایک اداریہ پر حکومت نے اس شمارہ کو ضبط کرلیا اور سرکار انگلیشہ نے بغاوت کا مقدمہ کردیا،۲؍نومبر ۱۹۲۶ء کو نچلی عدالت سے ایک سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ کا حکم دیا تھا، ایک ماہ جیل میں رہنے کے بعد ۲۷؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو عدالت عالیہ سے ضمانت منظور ہوئی، قید کی سزا ختم ہوگئی، مگر جرمانہ بحال رکھا گیا۔
۱۹۲۷ء اگست میں بتیا فساد کے موقع سے ۲۰؍صفر ۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹؍اگست ۱۹۲۷ء کا ایک اداریہ پھر حکومت کی جبین اقتدار پر شکن کا سبب بن گیا، دفعہ ۱۵۳(ایف) کے تحت مقدمہ چلا، ایک سال قید ،ڈھائی سو روپے جرمانہ کی ادائیگی کا حکم ہوا، سرعلی امام نے مولانا کی طرف سے اس مقدمہ میں پیروی کی، ایک روز جیل میں رہنے کے بعد ضمانت ملی، ڈسٹرکٹ جج کے یہاں سے ۳۰؍اپریل ۱۹۲۸ء کو مولانا کو انصاف ملا اور وہ بری کردئے گئے، تیسری بار پھر ایک اداریہ کی وجہ سے ۱۳۵۲ھ میں حکومت بہار نے ایک ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، امارت شرعیہ کے ذریعہ اس جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی اور ’’امارت‘‘کو بند کردینا پڑا۔مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے پندرہ روزہ جریدہ’’امارت ‘‘نے اپنے انقلابی مضامین کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں جوش آزادی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، اس کے باغیانہ وانقلابی مضامین کی وجہ سے انگریزوں نے اس پر مقدمہ چلایا اورجرمانہ عائد کیا، بالآخر اس کو بند کردیناپڑا(تحریک آزادی میں علماء کا حصہ ۲۰۳)شاہ محمد عثمان ؒ کے ان جملوں پر اپنی بات کو ختم کرتاہوں ،لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ  اورجمعیۃ علماء کے لوگ تو جنگ آزادی میں کود جانے کے حامی تھے اور وہ کود گئے(ان کے لئے) جہاد جہاد حریت میں شرکت محض قومی نظریہ نہیں بلکہ اسلامی مفادات کا تقاضہ تھا(حسن حیات ۸۶)

مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسار پوریؒ

مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسار پوریؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند

=========================
(اردو دنیا نیوز٧٢)
بافیض عالم دین، حاذق حکیم، حضرت مولانا شاہ عبد القادری رائے پوری ؒ کے خلیفہ ومجاز صحبت، خانقاہ قادریہ شفائیہ کے بانی وسجادہ نشیں، مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کی مجلس شوریٰ کے رکن ،بزم عرفان وحدت اور بزم صحبائے وحدت کے رمز شناش، عظیم مصلح ، ظاہری طور پر مکمل مرداں حسن کے شاہکار، خوبصورت اور نفیس رکھ رکھاؤ والے حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسار پوری ؒ ۲۲؍ جولائی ۲۰۲۲ء ۲ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ کو نوے برس کی عمر میں بروز جمعہ نماز جمعہ سے قبل آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیے، جنازہ کی نماز بعد مغرب حضرت مولانا محمد عاقل صاحب دامت برکاتہم ناظم مدرسہ مظاہر علوم نے پڑھائی اور مقامی قبرستان سنسار پور میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیوں کو چھوڑا۔
 مولانا حکیم سید مکرم حسین بن مولانا حکیم سید اسحاق بن حکیم سید حسن کی ولادت قصبہ سنسار پور ، مظفر آباد بلاک ضلع سہارن پور ،اتر پردیش میں نواسی سال قبل ہوئی ،آپ کے دادا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کے خلیفہ مجاز تھے، آپ کے جد امجد مولانا حکیم سید فیض الحسن صاحب اور صوفی سید کرم حسین رحمہما اللہ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے چشمۂ صافی سے تصوف وسلوک کی تشنگی بجھائی تھی اور حضرت گنگوہی ؒ نے انہیں خلافت دی تھی، ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است ‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔
اسی قصبہ میں واقع مدرسہ فیض رحمانی سے آپ نے ابتدائی تعلیم سے عربی چہارم تک تعلیم پائی، حفظ قرآن کی تکمیل بھی یہیں سے کی، یہاں حضرت کے والد درس وتدریس سے وابستہ تھے اس لیے شرح جامی تک کی بیش تر کتابیں خود اپنے والد یا ان کی نگرانی میں دوسرے اساتذہ سے پڑھیں، پھر جامعہ مظاہر العلوم سہارن پور تشریف لے گیے اور ۱۳۶۹ھ مطابق ۱۹۴۹ء میں اکابر علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے سند فراغت حاصل کی۔
 علوم وفنون میں کامل دسترس کے بعد آپ تصوف وسلوک کی طرف متوجہ ہوئے، حالاں کہ آپ کا پورا خاندان اس معاملہ میں آگے تھا اور سوزومستی، جذب وشوق ، عشق الٰہی ونبوی سے پوراگھرانا سرشار تھا، اس کے با وجود آپ نے خانقاہ رائے پور کا انتخاب کیا اور حضرت مولانا عبد القادر ؒ رائے پوری ؒ جو محبت رسول اور عبدیت کی شمع فروزاں کرنے میں ممتاز ہی نہیں، ممتاز ترین تھے کے دست با فیض سے اپنے کو منسلک کر لیا، حضرت رائے پوری نے اپنے اس مرید پر خصوصی توجہ فرمائی؛ جس سے مولانا کا قلب جو پہلے ہی خاندانی ماحول اور ذکر وفکر کی وجہ سے مصفیٰ تھا ، مجلّٰی ہوگیا، حضرت نے خلافت عطا فرمائی تو لوگوں کا رجوع آپ کی طرف ہونے لگا آپ متبع سنت اور اپنے مرشد کی تعلیمات پر پوری طرح عامل تھے، بعد میں خواب میں مرشد کے اشارے کو پاکر آپ نے سنسار پور میں ہی خانقاہ قادریہ شفائیہ کی بنیاد ڈالی اور متوسلین کی اصلاح اور تزکیہ نفس کا فریضہ پوری زندگی انجام دیتے رہے۔
 آپ نے زندگی کے کسی مرحلہ میں علوم دینیہ اور تصوف کو معاش کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا ، معاش کے لیے آپ نے خاندانی پیشہ طبابت وحکمت کو اپنایا، آپ اپنے وقت کے طبیب حاذق اور کامیاب معالج تھے، نبض دیکھ کر نہ صرف جسمانی امراض سے واقف ہوجاتے؛بلکہ روحانی اعراض وامراض کی بھی نشاندہی فرماتے، دونوں کا علاج بتاتے، اللہ تعالیٰ نے دست شفا عطا فرمایا تھا ، آپ کا مطب دوائے جسمانی اور روحانی دونوں کا مرکز تھا اور مخلوق خدا آپ کی دونوں صلاحیت سے بقدر ظرف مستفید ہوا کرتی تھی، حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری ؒ کے آپ آخری خلیفہ تھے، جو حیات تھے ، مولانا کی وفات سے اس سلسلۃ الذھب کی آخری کڑی بھی ٹوٹ گئی۔
 مولانا مرحوم خلقی طور پر وجیہ اور خوش رو واقع ہوتے تھے، ذکر الٰہی کی روشنی ان کے چہرے پر کھلی آنکھوں دیکھی جا سکتی تھی۔ علوم وسلوک میں منتہی درجہ پر پہونچنے کے باوجود آپ کے اندر تواضع اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، لہجہ سبک، الفاظ نرم اور اصلاح کی قلبی تڑپ سے جو آتا اسیر ہو کر رہ جاتا، نظروں سے بجلی گرانے کا محاورہ تو عام ہے، لیکن وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ ’’نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ اس کے صحیح مصداق اور مظہر اتم آپ تھے۔
 آپ کا سلوک ہر ایک کے ساتھ عالمانہ ، داعیانہ اور مشفقانہ ہوا کرتا تھا، منفی باتوں کو مثبت رخ دینے کا ہنر آپ کو خوب آتا تھا، وہ گالیاں سن کر دعائیں دینے کے نبوی طریقہ پر کار بند تھے، اس لیے آپ کے مخالفین بھی آپ کے چشم عنایت اور دست با برکت سے فائدہ اٹھا لے جاتے تھے، جس طرح سورج کی روشنی ہرکہہ ومہہ کو منور کر دیتی ہے ویسے ہی آپ کی محبت وشفقت اور عشق الٰہی کی روشنی سے سبھی فائدہ اٹھاتے اور سبھی بہرہ ور ہوا کرتے تھے۔
 واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی حیثیت خدا بیزار اور دین سے دوری کے اس دور میں قندیل رہبانی کی تھی جس سے ظلمتیں دور ہوتی تھیں، قندیل رہبانی ایک لفظ ہے جس سے بات کو سمجھایا جاتا ہے، ورنہ مولانا کے یہاں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں تھا، وہ عوام کے درمیان رہ کر’’ خلوت در انجمن‘‘ کا مزہ لیا کرتے تھے، اس کے لیے صحرا نوردی نہ اسلام میں جائز ہے اورنہ مولانا اس کو پسند کرتے تھے، اسلام نے رہبانیت سے منع کیا ہے، اس لیے وہ قندیل رہبانی بن بھی نہیں سکتے تھے، وہ عوام کے درمیان رہا کرتے تھے، خویش واقارب بیوی بچے سب کے ساتھ ہوتے تھے، اور سب کی تربیت میں لگے رہتے تھے، اس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے انہیں محبوبیت اور مقبولیت دونوں عطا کی تھی، مولانا کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا، اور کہنا چاہیے کہ ایک چراغ اور بجھا، روشنی اور گھٹی۔
 اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور خانقاہ قادریہ شفائیہ سنسار پور کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے خانوادے کے ساتھ ملک وبیرون ملک میں پھیلے ان کے مریدین، متوسلین اور معتقدین کو بھی۔ مولانا سے میری ذاتی ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی تھی، لیکن مشک کی خوشبو دور تک پھیلتی ہے اور نادیدہ لوگوں کے مشام جاں کو بھی معطر کرتی ہے، یہ حقیر ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہے۔

کورٹلہ ٹاون میں بھاری ترنگا ریالی _ مسلمانوں کی كثير تعداد بھی شریک

کورٹلہ ٹاون میں بھاری ترنگا ریالی _ مسلمانوں کی كثير تعداد بھی شریک
کورٹلہ _13 اگست ( اردودنیانیوز٧٢) تلنگانہ کے کورٹلہ ٹاون میں یوم آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی تقاریب کے پیش نظر بھاری ترنگا ریالی نکالی گئی۔جس میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین و کارکن کے علاوہ مجلس بلدیہ کی چیئرپرسن، کونسلرس، اسکول اور کالج کے طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی ترنگا ریالی کنگ گارڈن سے شروع ہو کر گودام روڈ نندی پر اختتام کو پہنچی۔ریالی میں مسلمانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی جو مجاہدین آزادی کی تصاویر پر مشتمل بیانرس ہاتھوں میں رکھے تھے جس مولانا ابوالکلام آزاد ، ڈاکٹر ذاکر حسین اور دیگر مسلم مجاہدین آزادی کی تصاویر بھی شامل تھے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...