Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 03, 2022

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) تنظیم ائمہ و خطباء مساجد بہار کی عمومی *نشست* آج مؤرخہ ٨ جمادی الاول ١٤٤٤ بمطابق ٣ دسمبر ٢٠٢٢ روز سنیچر صبح سات بجے جامع مسجد ہارون نگر سکٹر 1

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) تنظیم ائمہ و خطباء مساجد بہار کی عمومی
اردو دنیا نیوز ٧٢
 *نشست* آج مؤرخہ ٨ جمادی الاول ١٤٤٤ بمطابق ٣ دسمبر ٢٠٢٢ روز سنیچر صبح سات بجے جامع مسجد ہارون نگر سکٹر 1 پھلواری شریف پٹنہ میں حضرت مولانا محمد عظیم الدین رحمانی صاحب امام و خطیب جامع مسجد خواجہ پورہ کی صدارت میں منعقد ہوئی. مولانا مفتی محمد اسعد اللہ قاسمی صاحب امام و خطیب مسجد سجاد نگر اپنا گھرانہ نیو ملت کالونی پھلواری شریف نے تلاوت کلام ربانی سے مجلس کا آغاز کیا. بعدہ مولانا حسیب جوہر صاحب امام و خطیب چھوٹی جامع مسجد کربگہیا نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیۂ نعت پیش کیا. نظامت کے فرائض مولانا رضوان افسر صاحب مظاہری امام و خطیب سراۓ کی مسجد دانا پور نے انجام دیئے. مجلس کی کاروائی کو آگے بڑھانے سے قبل گزشتہ نشست کی کارروائی پڑھ کر سنائی گئی، بعد ازاں منظور شدہ امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا. حج کی ترغیب کے سلسلے میں یہ طے ہوا کہ ہر امام اپنے اپنے حلقہ میں ہر صاحب استطاعت شخص کے گھر جاکر ملاقات کرکے اسے ترغیب دی جائے اور اس کے لئے جو ضروری کاغذات ہوں وہ تیار کی جائے. جیسے پاسپورٹ کرونا ویکسین کا دونوں ڈوز وغیرہ. 
رسید کے تعلق سے بات ہوئی کہ تنظیم کی اپنی رسید ہو اور تنظیم کی جانب سے رسید چھپائی جائے، اسی طرح مکتب کے نظام کو مضبوط کیا جائے. لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کریں، اگر اعلیٰ تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتے، تو کم ازکم ابتدائی تعلیم کا انتظام تو کر ہی سکتے ہیں، ہمارے قصبوں، گاؤں اور محلوں میں مساجد تو ہوتی ہیں، اگر اسی کے زیر انتظام مکاتب بھی قائم کر لیں، جہاں ہمارے بچے قرآن، سنت اور دینیات کی تعلیم بسہولت حاصل کر سکیں، تو اس سے معاشرے میں ایک انقلاب پیدا ہوگا اور ہماری آنے والی نسل مذہب کے اصول اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے آشنا ہوگی۔اور مکتب کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ماہانہ ہر بچے پر فیس بھی رکھی جائے،
     اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ اصلاح نفس پر خصوصی دھیان دیا جاۓ، مثلاً شریعت کو خود پر مقدم رکھیں، پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام بہر صورت ہو، خود داری اور کفایت شعاری کو شخصیت کا حصہ بنائیں، لوگوں سے تعلق اور ملاقات بے لوث ہو، آخر میں مولانا عظیم الدین رحمانی صاحب امام وخطیب خواجہ پورہ کی دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا. 
آج کی مٹینگ میں شریک ہونے والے ائمہ کرام کے نام یہ ہیں. حضرت مولانا ظہیر عالم صاحب رحمانی و سرپرست تنظیم ائمہ و خطباء مساجد حضرت مولانا محمد عظیم الدین صاحب رحمانی صدر تنظیم ائمہ وخطباء مساجد و حضرت مولانا عبدالقدوس صاحب قاسمی امام وخطیب ہارون نگر سیکٹر ١.نائب صدر تنظیم ائمہ وخطباء مساجد وحضرت مولانا محمد گوہر امام صاحب قاسمی امام وخطیب شاہی سنگی مسجد پھلواری شریف سکریٹری تنظیم ائمہ وخطباء مساجد  و حضرت مولانا محمد ساجد صاحب رحمانی امام وخطیب ابوبکر مسجد عیساپور پھلواری شریف کنوینر تنظیم ائمہ وخطباء مساجد وحضرت مولانا رضوان افسر صاحب مظاہری امام وخطیب سرائے کی مسجد داناپور و مولانا ضیاء الحق صاحب رحمانی امام وخطیب مسجد عثمان غنی نہسہ و مولانا حسیب جوہر امام و خطیب چھوٹی جامع مسجد کربگہیا پٹنہ و مولانا صادق حمیدی صاحب قاسمی امام وخطیب مدینہ مسجد خلیل پورہ مولانا شاہد صاحب قاسمی امام وخطیب مریم مسجد نیا ٹولہ پھلواری شریف و مولانا توقیر عبداللہ صاحب قاسمی امام وخطیب جامع مسجد کرجی پٹنہ 
 حضرت قاری محمد امام الدین صاحب نعمانی امام ملی مسجد ملت کالونی و مولانا ضیاءاللہ صوفی صاحب مسجد عیسیٰ پور. مولانا عرفان صاحب بلال مسجد نیورہ پٹنہ مولانا محمد شاہد قاسمی صاحب مریم مسجد پھلواری شریف پٹنہ مولانا عظمت اللہ صاحب مفتاحی مرہم مسجد  مولانا محمد ارشد رحمانی صاحب امام و خطیب بیور جیل مسجد پٹنہ مولانا محمد تعظیم الدین قاسمی صاحب امام فیصل کالونی پھلواری شریف پٹنہ مولانا بدیع الزماں قاسمی صاحب امام و خطیب جامع مسجد ابوبکر سلطان گنج پٹنہ مولانا اشتیاق احمد صاحب امام آر، کے نگر پھلواری شریف پٹنہ مولانا اختر حسین صاحب مظاہری امام جمع خارج دیگھا پٹنہ مولانا خالد حسین صاحب امام مسجد نہسہ پھلواری شریف پٹنہ مولانا صدیق احمد فاروقی صاحب امام مسجد تاج پھلواری شریف پٹنہ مولانا شمیم عالم صاحب معاذ بن جبل نیورہ پٹنہ مولانا اسعد اللہ قاسمی صاحب امام و خطیب مسجد سجاد نگر اپنا گھرانہ نیو ملت کالونی پھلواری شریف پٹنہ مولانا مطہرعالم صاحب قاسمی امام وخطیب مسجد ہارون نگر سکٹر ٣ وغیرہم قابل ذکر ہیں.
تنظیم کی آئندہ نشست ٢٥ فروری ٢٠٢٣ روز سنیچر صبح سات بجے بمقام مسجد ابو بکر صدیق فیڈرل کالونی میں منعقد ہوگی ان شاء اللّٰہ.

عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ __مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ

عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ
”عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ“ بڑا اہم موضوع ہے، اس کے مصنف پروفیسر محمد انوار الحق تبسم ہیں، پورنیہ نے جو قیمتی لعل وگہر علم وادب کی دنیا کو دیا ہے وہ ان میں سے ایک ہیں، وہ تاریخ کے آدمی ہیں، انہیں نامور مؤرخ عہد وسطیٰ میں اسلامی تاریخ وثقافت پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر قیام الدین احمد کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے،ا نہوں نے عظیم مؤرخ پروفیسر سید حسن عسکری سے بھی استفادہ کیا ہے، اسلامی تاریخ وثقافت سے دلچسپی رکھنے والے چند اور اہل علم کی سر پرستی اور مشورے ان کو ملتے رہے ہیں، ان سب کے ساتھ خو د پرفیسر محمد انوار الحق صاحب اپنا تاریخی ذوق رکھتے ہیں، ان کے اس ذوق نے رہنمائی کی اور ”عالمی تہذیب کو اسلام کے عطیہ“ نامی کتاب تیار ہو گئی، اس کتاب کو دیکھ کر بر جستہ ترانہئ دار العلوم دیو بند کا ایک شعر یاد آگیا، جو مولانا ریاست علی بجنوری کی فکر جمیل کا نتیجہ ہے، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے ملکی اور بیرونی دونوں عطایا کا ذکر اشاروں میں کیا ہے   ؎
سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہل جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
 پروفیسر محمد انوار الحق تبسم نے فکر وتحقیق کی دنیا بسائی اور اس موضوع سے جنون کی حد تک تعلق قائم کرکے ”عالمی تہذیب کو اسلام کے عطا یا“ کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے، یہ ٹو ان ون (Tow in one) کتاب ہے، ایک حصہ کتاب کے اصل موضوع پر مشتمل ہے جو اکاسی (۱۸)صفحات تک پھیلا ہوا ہے، صفحہ براسی (۲۸) سے ان کتابوں اور شخصیات کے تعارف کا سلسلہ تعلیقات کے عنوان سے درج ہے، یہ تعلیقات انتہائی مفید ہیں، جو اصل کتاب سے زیادہ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، یہ سلسلہ صفحہ ایک سو تہتر(۳۷۱) پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ یہ در اصل اشاریہ اورانڈکس کی بدلی ہوئی شکل ہے، جس کے مندرجات کو تفصیلی اور تحقیقی بنا کر تبسم صاحب نے انڈکس کی بہ نسبت زیادہ مفیداور کارآمد بنا دیا ہے۔
 تاثرات کا سلسلہ بھی روایت سے ہٹ کر پسِ لفظ کے عنوان سے کتاب کے آخر میں ہے، اور ان میں بڑے اساطین علم وادب کے رشحات شامل ہیں، پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر خالد محمود، جناب شفیع مشہدی، پروفیسر علیم اللہ حالی، پروفیسر محمد غفار صدیقی، پروفیسر فاروق احمد صدیقی جب کسی کتاب کو ”انتہائی اہمیت کا حامل، فنون لطیفہ، سائنس اور مذہبی علوم پر گراں قدر خدمات کا مجموعہ“ قرار دیتے ہوں، موضوعات کے کثیر الجہات تنوع کے ساتھ مصنف کے ذوق کی بالیدگی، تلاش وتحقیق کی حوصلہ مندی، فہم وفراست کی دقیقہ سنجی، تجزیہ کی دلآویزی اور طرز تحریر کی جامعیت“ کی وجہ سے کتاب کے ”امتیازی شان کے معترف ہوں کہ جس کتاب کے بارے میں ”سائنس، حدیث، تفسیر اور مختلف مسلک کے ساتھ خطاطی، مصوری، ثقافتی، موسیقی اور فن تعمیرات جیسے موضوعات کو کتاب میں شامل کرکے موضوع میں وسعت“ پیدا کرنے کی بات کہی گئی ہو،”جس کتاب میں قابل اعتماد فرامین اور نا قابل تنقید ماخذ پیش کرکے اپنی تحریر کو اسناد کی منزل تک پہونچا دیا گیا ہو“، اور جس کتاب میں مصنف نے اپنی بالغ نظری سے سمندر کو کوزہ میں بندکرنے کا ہنر دکھایا ہو، جس کتاب میں بقول خالد محمود شاید”ایک بھی جملہ علم وآگہی سے خالی نہیں ہو“، اُس کتاب کے مندرجات کو بغیر تحقیق وتفتیش کے قبول کرہی لینا چاہئے، ورنہ تحقیقی تبصرہ لکھنے بیٹھیے گا تو آپ کے پاس بھی پروفیسر انوار الحق تبسم کی طرح تاریخ وتہذیب اور ثقافت اسلامی کا گہرا علم ہونا چاہیے، گہرا نہ بھی ہو تو ان کے مطالعہ کی وسعت تولیے ہوئے ہو۔
 پہلی بار اس کتاب کے مندرجات کو دیکھ کو معلوم ہوا کہ نبوت محمد، اساس دین، حدیث، تفسیر، فقہ، مسالک ائمہئ اربعہ اور تجدید احیاء دین بھی تہذیب وثقافت کا ہی حصہ ہیں، ایسا دراصل مصنف کے نزدیک تہذیب کا واضح تصور نہ ہونے یا مذہب، مسلک اور تہذیب کو ایک دوسرے کا مترادف یا قریب المعنی سمجھ لینے کی وجہ سے ہوا ہے، مسلک کا تو تہذیب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، البتہ مذہب اور تہذیب کا حروف اصلی ایک ہی ہے، شاید اسی وجہ سے مصنف کو غلط فہمی ہوئی، خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مذہب تہذیب نہیں ہے، لیکن ہر مذہب کی اپنی تہذیب ہوتی ہے، جو حرکات وسکنات، اٹھنے بیٹھنے، بود وباش اور خود مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں وجود پذیر ہوتی ہے، اسلام کے حوالہ سے جب ہم بات کرتے ہیں تو اس کی شناخت اسلامی تہذیب کے عنوان سے کراتے ہیں اوراسے ”عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ“ کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کتاب کا نام ”اسلام کا عطیہ“ کے بجائے ”مسلمانوں کا عطیہ“ زیادہ مناسب ہے، کیوں کہ مصوری، موسیقی وغیرہ کے بارے میں جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہے اس کا اسلام سے تعلق نہیں ہے، البتہ مسلمانوں کے حوالہ سے بات کی جاسکتی ہے، میں اس اہم کتاب کی تصنیف پر پروفیسر محمدانوار الحق تبسم کو مبارکباد دیتا ہوں، اور دعا کرتا ہوں کہ اردو، فارسی اور انگریزی میں شائع ان کی دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی مقبولیت کے بلند مقام تک رسائی حاصل کرے۔
 کتاب کی کمپوزنگ تسنیم کوثر نے کی ہے، ترتیب وتزئین میں نازیہ عمران، مہرین عرفان کی فنی مہارت کام آئی ہے، طباعت روشان پرنٹرس دہلی کی ہے، تقسیم کا کام ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کے ذمہ ہے، دہلی، علی گڈھ، الٰہ آباد، اعظم گڈھ، گنیش پور، ممبئی، پٹنہ، ارریہ، کولکاتہ، حیدر آباد، پورنیہ کے سولہ پتوں سے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے، آپ پٹنہ میں ہیں تو بک امپوریم سبزی باغ سے حاصل کر لیجئے ورنہ کتاب پر مصنف کے کئی موبائل نمبر درج ہیں، کسی پر رابطہ کر لیجئے، ایک سو چھہتر صفحات کی قیمت دو سو پچھہتر روپے زائد معلوم ہو تو تخفیف کی درخواست لگا دیجئے، بلا واسطہ لینے میں بک سیلروں کو دی جانے والی رعایت کے آپ بھی مستحق ہو سکتے ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...