Powered By Blogger

اتوار, نومبر 07, 2021

ابو ظفر سراج الدین محمد شاہ ظفر کی 159 ویں یوم وفات کے موقع پر بہادر شاہ غازی ... بہادر

ابو ظفر سراج الدین محمد شاہ ظفر کی 159 ویں یوم وفات کے موقع پر بہادر شاہ غازی ... بہادر

آخری مغل بادشاہ ابوظفر سراج الدین محمد بہاد ر شاہ غازیؔ (ثانی) ہندوستان کے بیسویں اور آخری مغل شہنشاہ تھے، لیکن ان کے والد اکبر شاہ ثانی ممتاز محل کے فرزند کو اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے مگر جب ولی عہد مرزا جہانگیر بخت نے ریزیڈنٹ پر حملہ کے باعث جلاو طنی کے عالم میں 18؍جولائی 1821ء کو آخری سانس لی، تب لعل بائی کے بطن سے پیدا بہادر شاہ ظفر کے لیے تخت شاہی کی راہ ہموار ہوگئی، 28؍ستمبر 1837ء کو وہ مغلیہ مسند پر متمکن ہوئے، لیکن وظیفہ خوار بادشاہ کو وراثت میں ایسی نام نہاد حکومت ملی جس کی طاقت اور دائرہ اختیار کمپنی کے کوتوال سے بھی کم تھی۔

بہادر شاہ ظفر ایک نرم دل، غریب پرور، شاعرا نہ اور صوفیانہ مزاج کے پیکر تھے، جنہوں نے مروجہ علوم کے علاوہ فنون حرب گھوڑ سواری، تلوار بازی، تیر اندازی اور آتشیں اسلحہ پر مکمل دسترس حاصل کی، خصوصاً وہ ایک بہترین نشانہ باز اور اعلیٰ گھوڑ سوار تھے، جن کا شمار اس عہد میں ہندوستان کے ڈھائی گھوڑ سواروں میں ہوتا تھا، ان کے بعد دوسرا نمبر مرزا جہانگیر بخت (بھائی) جبکہ آدھا نمبر پر مہاراشٹر کا گھوڑ سوار کا تھا۔

ہرعروجے را زوال است کے مماثل مغلیہ سلطنت بھی وقت کے پہیہ کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنے زوال کی طرف گامزن تھی اسی اثنا میں یکایک میرٹھ سے قبل از وقت پہلی ملک گیر جنگ آزادی 10؍مئی1857ء کے شعلے بھڑ ک اٹھے۔ بغاوت کے علم بلند کرنے والے دیسی سپاہیوں نے درگاہ شاہ پیر صاحب پر روزہ افطار کرکے 11؍مئی کی صج جب دہلی کی دہلیز پر قدم رکھا، تب شہنشاہ ہند سراج الدین محمد بہاد رشاہ ظفر اس جھرونکھے میں تشریف فرما تھے جہاں کبھی مغل شہنشاہ شاہجہاں بیٹھ کر عوام سے روبرو ہوتے تھے۔ اچانک ان کی نظریں آسمان میں اٹھتے گرد وغبار کی طرف اٹھی تو انہوں نے رسالہ دار کو سوار بھیج کر ماجرہ جاننے کی کوشش کی، تو معلوم ہوا کہ میرٹھ کے باغی سپاہیوں کا لاؤ ولشکر ہے جو کمپنی بہادر سے بغاوت کرکے عالم پناہ کے حضور میں پیش ہونے کے لیے متمنی ہے۔

بہرکیف تقربیاً شام چار بجے سپاہیوں نے حضورِمعلی سے مل کر التجا کی کہ وہ ان کے سروں پر ہاتھ رکھیں اور انقلابی تحریک کی عنان سنبھالیں،جو اس پیرانہ سالی میں سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا مگر 82 ؍سالہ ضعیف العمر تاجدار ہند کچھ لیت ولعل کے بعد رضامند ہوگئے اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ان کی حکمت عملیوں نے باغی فوجیوں کے حوصلوں میں ایک نئی جان پھونک دی، چنانچہ دلّی میں جوق درجوق انقلابیوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، جن میں سب سے اہم نام عظیم انقلابی بخت خاں کا ہے، موقع ومحل کے مدنظر بادشا ہ سلامت نے انگریزوں کے خلاف راجپوتانہ سمیت تمام ریاستوں کو تعاون کے لیے خطوط روانہ کیے، مگر ان کے خون اتنے سفید ہوچکے تھے کہ انہوں نے ان کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔

گنگا-جمی تہذیب کے علمبردار عالم پناہ کے حکم سے بخت خاں نے 9؍جولائی کو ڈھنڈورا پٹوایا کہ جو گائے ذبح کرے گا وہ توپ کے منھ سے اڑایا جائے گا۔ 19؍جولائی 1857ء کو بخت خان اور اس کے فوجیوں نے انگریزوں کے چھکے چھڑاتے ہوئے مغربی چوکیوں پر قبضہ کر لیا، مگر انگریز ہار کہاں ماننے والے تھے، انہوں نے اپنے نمک خواروں کے ذریعہ 7؍اگست کو انقلابیوں کے اسلحہ خانہ میں آگ لگ لگوادی جس میں کافی جانی نقصان ہوا، آخرکار جیون لعل، رجب علی، مرزا الہٰی بخش کی ٹولیوں اور غدار ہندوستانی ریاستوں کے فرماں رواؤں کی بدولت ایسٹ انڈیا کمپنی نے دلّی کی اینٹ سے اینٹ بجادی، دل برداشتہ بہادر شاہ ظفر نے قلعہ چھوڑ کر ہمایوں کے مقبرے میں جانے کا فیصلہ کیا، بخت خاں اپنے مورچہ پے ڈٹا ہوا تھا جیسے ہی اس نے سنا وہ ویسے ہی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا، جہاں پناہ کو زمینی حقائق سے روبرو کرا کر اپنے ساتھ چلنے کی گزارش کی تو بادشاہ سلامت نے جواب دیا کہ ہم ہمایوں کے مقبرے جاتے ہیں، تم کل صبح وہاں آؤ۔

قابل ذکر امر ہے کہ قلعہ سے نکل کر بہادر شاہ ظفر سیدھے درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء پہنچے اور وہاں خواجہ شاہ غلام حسن سے ملاقات کی۔ پریشان حال شہنشاہ نے مختصر گفتگو کرنے کے بعد بتایا کہ جب تیمور نے قسطنطنیہ پر یلغار کی تھی تو اس نے وہاں کے سلطان با یزید یلدرم سے پیغمبر اکرم ﷺ کے خط کے بال حاصل کیے تھے، جو اب تک مغل بادشاہوں کے پاس محفوظ تھے لیکن اب میرے لیے آسمان کے نیچے یا زمین کے اوپر کوئی جگہ نہیں بچی، اس لیے میں یہ امانت آپ کے حوالے کر رہا ہوں تاکہ یہ محفوظ رہے۔

خواجہ شاہ غلام حسن نے وہ بال ان سے لے کر درگاہ کی تجوری میں رکھ دیئے، بھوک سے بے حال بادشاہ سلامت نے روکھی سوکھی روٹی کے چند لقمے نوش فرماکر ہمایوں کے مقبرے کی جانب رخ کیا۔ اگلے روز 21؍ستمبر 1857ء کو وعدے کے مطابق جنرل بخت خاں، ڈاکٹر وزیر خاں اور مولانا فیض احمد بدایونی بہادر شاہ ظفر سے ملے، مگر بادشاہ سلامت اپنے فریبی سمدھی مرزا الٰہی بخش کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکے تھے، دلّی کو چھوڑنے کو راضی نہ ہوئے، اس طرح انہوں نے خود انگریزوں کو دنیا کی تیسری بڑی طاقت مغلیہ سلطنت کے آخری حکمراں کی باقی ماندہ عظمت واحترام کو پیروں تلے روندنے کا موقع فراہم کر دیا۔ مایوس بخت خاں بادشاہ کو ان کے حال پہ چھوڑ کر اپنی فوج کے ساتھ مشرقی دروازے سے دریا کی طرف اتر گیا، مرزا الٰہی بخش نے فوراً اس کی خبر برٹش خیمہ کو پہنچائی تو ہڈسن آخری تاجدار ہند کو گرفتار کرنے کے لیے پہنچ گیا۔

بہادر شاہ ظفر، ز ینت محل اور شہزادے جواں بخت نے جان بخشی کے وعدے پرخود کو ہڈسن کے حوالے کر دیا، حراست کے دوران بہادر شاہ ظفر کو ہر لمحہ ذلت کے گھونٹ پینے کے علاوہ مختلف روحانی اور جسمانی اذیتیں جھیلنی پڑیں، مگر جب بے رحم ہڈسن نے مرزا مغل، مرزا خضرسلطان اور مرزا ابوبکر کو گولی مار کر ان کا سرتن سے جد ا کرکے بادشاہ کو بطور نذرانہ پیش کیا، تو ایک عمر رسیدہ مقید بادشاہ کی زبان سے برجستہ نکلا کہ ''تیموری نسل کے غیور شہزادے اپنے بڑوں کے سامنے اسی طرح سرخرو ہوتے ہیں۔'' اس طرح ایک لاچار و بے بس بادشاہ جیت گیا اور ہڈسن ہار گیا۔

27؍جنوری 1858ء کو صج 11؍بجے بہا در شاہ ظفر کے نمائشی مقدمہ کی سماعت ایک خود ساختہ ملٹری کمیشن نے شروع کی۔ پنجاب کمشنر لارنس کے حکم پر عدالت نے 2؍اپریل 1858ء کو جلاوطنی کی سزا سنائی۔ مورخہ 7؍کتوبر 1858ء بادشاہ سلامت، اہلیہ زینت محل، دو بیٹے مرزا جواں بخت اور مرزا شاہ عباس سمیت 35 ؍شاہی افراد کو بذریعہ بیل گاڑیوں دلّی سے کلکتہ روانہ کیا، مگر خوفزدہ فرنگیوں نے حفاظتی نقطہ نظر کے مدنظر انہیں اثنائے راہ ملک کی مختلف چھاؤنیوں میرٹھ و الٰہ آباد وغیرہ میں ٹھہرایا، میرٹھ کینٹ میں واقع ایک مسجد ان کے قیام کی گواہ تھی، 83 سالہ ناتواں بادشاہ سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے کلکتہ پہنچے۔ جنہیں 4؍دسمبر کو ہگلی کی ڈائمند بندر گاہ سے رنگون بھیجا گیا، چھ دن کی مسافت طے کرنے بعد ان کا مگویرا (Magoera) جہاز10 ؍دسمبر کو لنگر انداز ہوا، کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا منتظم تھا، اس نے بندرگاہ پر شہنشاہ اور ان کے خاندانی افراد کو اپنی تحویل میں لیا، جنہیں اس نے مختلف خیموں نیز ایک گیراج میں رکھنے کے بعد ساگون کی ایک عمارت میں منتقل کر دیا۔

ہندوستان کے آخری مغل حاکم بہادر شاہ ظفر کی صحت قید وبند کی زندگی سے مزید خراب ہوگئی۔ ان کا گلا فالج کا شکار ہوگیا، جہاں پناہ کو 6 ؍نومبر 1862ء کو فالج کا تیسرا دورہ پڑا اور 7 ؍نومبر کی صبح 5؍بجے 87 ؍سال کی عمر میں انہوں نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا، شہزادہ جوان بخت اور حافظ محمد ابراہیم دہلوی نے غسل دیا، سرکاری بنگلے کے پیچھے قبر کھودی گئی، ڈیوس کے مطابق ان کے جنازے میں تقریباً 100 ؍لوگ شامل تھے۔ شام 4 ؍بجے جسد خاکی کو سپرد خاک کر دیا گیا، تدفین کے بعد گور ہموار کردی گئی، جس کا علم 132 سال تک کسی کو نہیں ہوا۔ 1991ء میں ایک یادگاری ہال کا سنگ بنیاد رکھنے کی کھدائی کے دوران ایک زیر زمین قبر نکلی، نشانیوں اور باقیات سے تصدیق ہوئی کہ یہ سراج الدین بہادر شاہ ظفر کی آخری آرام گاہ ہے۔ 1994ء میں ان کے مقبرے کی تزئین وآرائش کی گئی۔ جس کی ہر اینٹ بہادر شاہ ظفر کی عظیم قربانی کو یاد کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ

کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کے لیے

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں


ساتویں مرحلے کی پولنگ کے لیے ای وی ایم لگانے کا کام شروع

ساتویں مرحلے کی پولنگ کے لیے ای وی ایم لگانے کا کام شروعبھاگلپور ، 7 نومبر ۔ ضلع کے گوراڈیہہ بلاک میں ہونے والے پنچایتی انتخابات کے ساتویں مرحلے کے لیے ای وی ایم کمیشننگ کا کام اتوار سے اچھو ہائی اسکول میں شروع ہو گیا ہے۔ اس دوران انجینئروں کی ٹیم کے ساتھ ماسٹر ٹرینر بھی موجود تھے۔ ای وی ایم کی تیاری کا کام دن بھر ای وی ایم کمیشننگ و ڈسپیچ سنٹر پر کیا گیا۔ صبح 11 بجے سے دیر شام تک بوتھ کے مطابق ای وی ایم تیار کرنے کا کام جاری تھا۔ ای وی ایم کی تیاری کا کام 12 نومبر تک مکمل ہونے کی امید ہے۔ اس کے تحت ای وی ایم میں بیلٹ پیپر ڈالنے سے لے کر اس کی بیٹری چیک کرنے تک کا کام کیا جارہا تھا۔ اس کام میں درجنوں اہلکار تعینات تھے۔ اس کے علاوہ ان کے انجینئروں کی ٹیم بھی ای وی ایم کی جانچ کے دوران موجود تھے۔ اس دوران گوراڈیہہ بلاک ڈیولپمنٹ ا?فیسر چندریما ، اے ا?ر او ونے کمار ، امیت کمار ، گوری شنکر چودھری ، نوین کمار سنگھ وغیرہ موجود تھے۔ دوسری جانب ای وی ایم کی تیاری کے ا?غاز کے ساتھ ہی ای وی ایم کمیشننگ سائٹ پر حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے تھے۔ سیکوریٹی فورس کی اضافی تعداد یہاں تعینات کی گئی ہے۔

ٹی -20 عالمی کپ 2022 : براہ راست رسائی حاصل کرنے والی 8 ٹیمیں

ٹی -20 عالمی کپ 2022 : براہ راست رسائی حاصل کرنے والی 8 ٹیمیں

دبئی: انٹر نیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے آئندہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2022 کے سپر 12 مرحلے میں براہ راست رسائی حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست جاری کر دی۔ آئی سی سی کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق آئندہ سال آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2022 کے سپر 12 مرحلے میں خود بخود رسائی حاصل کرنے والی ٹیموں کے حتمی نام سامنے آگئے ہیں۔

اعلامیہ کے مطابق اس سال ٹی 20 ورلڈکپ کا سپر 12 مرحلہ کھیلنے والی 12 ٹیموں میں سے 8 ٹیمیں آئندہ سال ہونے والے ورلڈکپ کے سپر 12 مرحلے کے لیے کوالیفائی کرچکی ہیں اور انہیں اس مرحلے میں داخلے کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ نہیں کھیلنا پڑے گا۔

آئی سی سی کے مطابق سپر 12مرحلے میں خود بخود رسائی کے لیے ورلڈکپ کی فاتح ٹیم اور رنر اپ سمیت فائنل کے بعد 15 نومبرکو بننے والی رینکنگ کے لحاظ سے بقیہ 6 ٹاپ ٹیموں کا فارمولہ رکھا گیا تھا۔ آج آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے بعد گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا فاتح ویسٹ انڈیز رینکنگ میں 10 ویں نمبر پر چلا گیا ہے اور بنگلہ دیش 8 نمبر پر آکر سپر 12 مرحلے میں اپنی جگہ یقینی بناچکا ہے جبکہ سری لنکا نویں نمبر پر موجود ہے۔

اس وقت آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں انگلینڈ پہلے نمبر پر براجمان ہے جس کے بعد بالترتیب پاکستان، ہندوستان، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا موجود ہیں اور ان کی پوزیشن میں تبدیلی مشکل ہے اور ساتویں نمبر پر موجود افغانستان کے بھی آٹھویں نمبر سے نیچے آنےکا امکان نہیں ہے۔

آئندہ سال ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کو 2021 کا سپر 12 مرحلہ کھیلنے والی دیگر 2 ٹیموں اسکاٹ لینڈ اور نامیبیا کے ساتھ راؤنڈ ون مرحلہ کھیلنا ہوگا جس میں کامیابی کے بعد ہی وہ سپر 12 مرحلے کے لیے کوالیفائی کرسکیں گی۔ یاد رہے 2020 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ آسٹریلیا میں ہونا تھا تاہم کورونا وائرس کے باعث اسے ملتوی کردیا گیا اب یہ ملتوی ہونے والا ٹی 20 ورلڈکپ 2022 میں آسٹریلیا میں ہوگا۔


مولانا ڈاکٹر عبد المتین اشرف عمری مدنی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا ڈاکٹر عبد المتین اشرف عمری مدنی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مدرسہ اشرف العلوم مراد آباد، جنداہا ویشالی کے بانی دار التکمیل مظفر پور ، جامعہ اصلاحیہ سلفیہ پٹنہ ، ہائی اسکول باڑھ، گورمنٹ مڈل اسکول بہار شریف اور دانا پور مڈل اسکول کے سابق استاذ، رابطہ عالم اسلامی سے بحیثیت داعی ہندوستان میں مبعوث، اچھے استاذ، کامیاب داعی ومبلغ بہتر مقرر اور قابل ذکر محقق مولانا ڈاکٹر عبد المتین اشرف عمری مدنی ۲۳؍ اپریل ۲۰۲۱ء مطابق ۱۰؍ رمضان بروز جمعہ بوقت بارہ بجے دن سفر آخرت پر روانہ ہو گیے، جنازہ کی نماز کے بہنوئی اور پھوپھا زاد بھائی مولانا محمد طاہر حسین شمسی نے بعد نماز عشاء پڑھائی اور عالم گنج پٹھان ٹولی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ، پس ماندگان میں اہلیہ شمیمہ اشرف، دو لڑکا خالد اشرف، شاہد اشرف اور تین لڑکی بشریٰ اشرف، حیا اشرف، اور طوبیٰ اشرف کو چھوڑا۔
 مولانا ڈاکٹر عبد المتین اشرف عمری مدنی بن شمس الضحیٰ بن مولوی عبد القادر کی ولادت ۸؍ اگست ۱۹۶۳ء کو مراد آباد ڈاکخانہ بھُتھاہی وایا جنداہا، موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے دادا مولوی عبد القادر سے حاصل کرنے کے بعد گاؤں کے اردو سرکاری اسکول میں داخل ہوئے، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ دار السلام عمرا ٓباد تشریف لے گئے اور وہاں سے ۱۹۷۲ء میں فراغت کے بعد مدینہ یونیورسٹی گئے وہاں انہوں نے کلیۃ اللغۃ العربیۃ وادابھا (Feculty of Arabic language and literatures)میں داخلہ لیا ، وہاں سے فراغت کے بعد رابطہ عالم اسلامی سے بحیثیت داعی مبعوث ہوئے اور حضرت مولانا عبد السمیع جعفری ؒ کی ایما وتحریک پر جامعہ اصلاحیہ سلفیہ جس کا پرانا نام مدرسہ اصلاح المسلمین پتھر کی مسجد پٹنہ ہے، اپنی خدمات سپرد کردی ،پٹنہ میں قیام کے دوران ہی انہوں نے عربی میں ایم اے پی ایچ ڈی اور پیشہ وارانہ تعلیم کی تربیت (ٹریننگ) حاصل کی، پہلی دفعہ حج کی سعادت ۱۹۸۱ء میں ملی، پھر متعدد دفعہ حج وعمرہ کی سعات پائی، آپ اپنے پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے، تین بہنیں بھی ہیں۔
 مدینہ طیبہ سے فراغت کے بعد مولانا، ماسٹر محمد ظہیر الدین محمد پور گنگھٹی، بکساواں ، ویشالی کی دختر نیک شمیمہ خاتون سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور کامیاب ازدواجی زندگی گذاری ، مولانا چوںکہ ،ز مانہ تک داعی کی حیثیت سے سعودی عرب سے مبعوث تھے، اس لیے پٹنہ اور ویشالی کی مسجدوں میں ان کاجمعہ میںخطاب ہوا کرتا تھا، بعض موقعوں سے جلسوں میں بھی شرکت ہوا، کرتی تھی ، دونوں موقعوں سے تقریر میں ان کی طلاقت لسانی کا اثر سامعین پر ہوتا، ان کی نظر نصوص شرعیہ پر تھی اور آیات واحادیث مستحضر تھے، اس لیے تقریر میں اس کا خوب استعمال کرتے ، جس سے ان کی تقریر مدلل ہوتی ، وہ اپنی تقریر کو چیخ چلا کر با اثر بنانے کی کوشش کبھی نہیں کرتے، آواز نہ تو پست ہوتی اور نہ ہی گھن گرج والی ، سیدھے سادے انداز میں بات رکھتے اور قرآن واحادیث سے مزین ہونے کی وجہ سے سامعین پر اس کا اثر پڑتا ، وہ اپنے مسلک پر سختی سے عامل تھے، لیکن دوسرے مسلک والوں کو بُرا بھلا کہتے میں نے انہیں کبھی نہیں سنا، ان کے مزاج میں اعتدال تھا او روہ طعن وتشنیع سے دور رہا کرتے تھے۔
قرآن واحادیث کے ساتھ مولانا کو ترکہ یعنی سہام شرعی، فقہ کی اصطلاح میں علم فرائض پر اچھی خاصی دسترس تھی ، وہ جامعہ اصلاحیہ سلفیہ میں جب تک رہے ، یہ مدت کوئی سال دو سال نہیں تیس پینتیس سال کو محیط ہے، فرائض کا درس آپ سے ہی متعلق رہا ، اور آپ کے اس فن میں کئی نامور شاگرد ہیں۔ 
پٹنہ میں مستقل قیام کے با وجود آپ اپنے آبائی وطن کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے، اس فکر مندی کے نتیجے میں آپ نے اپنے گاؤں میں ۱۹۸۰ء مدرسہ اشرف العلوم قائم کیا، اپنے شاگرد مولانا اختر اصلاحی اور مولانا شیخ اسلم جوہر اصلاحی کو تعلیم وتربیت کے کام پر لگایا، لیکن مولانا کے پٹنہ قیام کی وجہ سے گاؤں کی سیاست درآئی اور اس نے اس مدرسہ کو روبہ زوال کر دیا، اس حالت میں مولانا کی دلچسپی بھی اس سے کم ہو گئی ، بعد میں ان کے بھتیجہ محترم ابو بکر صدیق نے اس کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لیا، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے فوقانیہ تک منظور کراکر تعلیم وتربیت کے سابقہ انداز کو بحال کرنے کی جہد مسلسل کیا، اس طرح مدرسہ مولانا کی باقیات کے طور پر ان دنوں کام کر رہاہے۔
 رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ سے مبعوث داعی کی حیثیت ختم ہونے کے بعد ۲۰۰۷ء میں سرکاری استاذ کی حیثیت سے باڑھ ہائی اسکول میں اردو کی سیٹ پر بحال ہوئے، ۲۰۱۲ء میں آپ کا تبادلہ بہار شریف گورمنٹ مڈل اسکول میں ہو گیا، وہاں سے دانا پو رمڈل اسکول آئے اور انتقال کے وقت وہیں وہ تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔
 مولانا سے میرے تعلقات کم وبیش اڑتیس سال کو محیط تھے، دار العلوم دیو بند سے فراغت کے بعد میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور سے بحیثت استاذ منسلک ہو گیا ، ان دنوں میرا آنا جانا آبائی گاؤں حسن پور گنگھٹی بکساواں ویشالی سے ہی ہوا کرتا تھا، مولانا کی شادی ہو چکی تھی ، محمد پور گنگھٹی میرے گاؤں کا ہی ایک محلہ ہے، ان کے خسر محترم مرحوم ماسٹر محمد ظہیر عالم سے والد مرحوم ماسٹر محمد نور الہدیٰ صاحب ؒ کے گہرے روابط اور تعلقات تھے، اس لیے ماسٹر صاحب نکاح اور گھریلو معاملات کے وقت بھی مجھے خصوصیت سے یاد رکھا کرتے تھے، مولانا کا آنا جب گنگھٹی ہوتا تو مختلف قسم کی مجلسوں میں ان سے ملاقات ہوتی اور ان کے علمی ارشادات سے ہم لوگ فائدہ اٹھاتے، ان کی مجلس ہم عمروں میں زاہدانہ خشکی لیے نہیں ہوتی تھی اور انہیں اپنی عالمانہ بصیرت کا غن بھی نہیں تھا، اس لیے ہم عمر ی کی وجہ سے ہم لوگ ان سے گھل مل جاتے ، ایک دو دفعہ ان کے گھر پٹنہ بھی جانا ہوا تھا، محبت سے پیش آتے ، وہ خلیق اور ملنسار تھے، میں نے ان کو کبھی کسی کی غیبت کرتے نہیں سنا ، بعض دفعہ میں نے انہیں چھیڑنا چاہا اور ان لوگوں کا ذکر کیا، جن سے ان کو تکلیف پہونچی تھی،مگر انہوں نے خوش اسلوبی سے ٹال دیا، اب جب کہ ہماری کوئی مجلس غیبت سے خالی نہیں ہوتی، مولانا کا یہ عمل لائق تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کے سیئات کو در گذر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم

بغیر اجازت نامہ عمرہ ادا کرنے پر بھاری جرمانہ عائد

بغیر اجازت نامہ عمرہ ادا کرنے پر بھاری جرمانہ عائد

مکہ مکرمہ ۔ سعودی حکام نے بغیر اجازت عمرہ کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کردیے۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین کی دونوں خوراکوں کے بغیر اجازت نامے نہیں ملیں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عوامی سیکورٹی حکام نے واضح کیا ہے کہ بغیر اجازت نامے حرم شریف میں داخل ہونے والوں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ بغیر اجازت نامہ عمرہ کرتے ہوئے پکڑے جانے پر 10 ہزار ریال جرمانہ ہوگا۔ یاد رہے کہ عمرہ، نماز اور زیارت کی بحالی کے بعد سے اب تک ایک کروڑ زائرین کو حاضری کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔


احمد نگر کے ہاسپٹل میں آتشزدگی ، 10 مریض فوت آئی سی یو میں رات دیر گئے آگ لگی ، شارٹ سرکٹ سے حادثہ ، وزیراعظم کا اظہار رنج

احمد نگر کے ہاسپٹل میں آتشزدگی ، 10 مریض فوت آئی سی یو میں رات دیر گئے آگ لگی ، شارٹ سرکٹ سے حادثہ ، وزیراعظم کا اظہار رنج

آئی سی یو میں رات دیر گئے آگ لگی ، شارٹ سرکٹ سے حادثہ ، وزیراعظم کا اظہار رنج
احمد نگر/نئی دہلی: مہاراشٹر کے احمد نگر کے سیول ہاسپٹل میں ہفتہ کو شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگنے سے دس مریض فوت اور دس سے زیادہ زخمی ہوگئے ۔احمد نگر کے ضلع مجسٹریٹ راجیندر بھوسلے نے فون پر یواین آئی کو بتایا کہ حادثہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوا۔ ہاسپٹل کے عملے نے آج یہاں بتایا کہ آگ انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں تقریباً 11.30 بجے لگی اور تیزی سے پورے کمرے میں پھیل گئی۔ کمرے میں تقریباً 25 کووڈ مریض داخل تھے ۔مہاراشٹر کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔سات فائر ٹینڈرز کی مدد سے آگ پر قابو پالیا گیا ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے احمد نگر ہاسپٹل میں حادثے میں مریضوں کی موت پر غم کا اظہار کیا ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی تمنا کی ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا مہاراشٹر کے احمد نگر کے سیول ہاسپٹل میں پیش آنے والے دل دہلا دینے والے حادثے سے بہت تکلیف ہوئی ہے ۔ غم کی اس گھڑی میں میری تعزیت سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہے اور میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کرتا ہوں۔حکام نے بتایا کہ مریضوں کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے ۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ۔مہاراشٹر حکومت کے وزیر حسن مشرف نے کہا کہ اس واقعے میں دس افراد کی المناک موت ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اگر غفلت پائی گئی تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔مشرف احمد شہر کے نگران وزیر ہیں۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...