Powered By Blogger

ہفتہ, مارچ 18, 2023

زاویہ نظر پر میری نظر ✍️فرید بلگرامی خیرآباد سیتاپور

زاویہ نظر پر میری نظر 
Urduduniyanews72
 ✍️فرید  بلگرامی خیرآباد سیتاپور 
آج ہمارے پیش  نظر جناب مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی کتاب زاویہ نظر ہے ، کتاب سے پہلے صاحب کتاب کی بات ہوجائے، محترم مفتی صاحب  مشہورعالم دین، نائب ناظم امارت شرعیہ، مسلم پرسنل لا بورڈ اور آل انڈیا ملی کونسل کے ممبر، مدرسہ ابا بکر پور کے سابق استاذ اور صاحب طرز قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ ہفت روزہ نقیب کے ایڈیٹر بھی ہیں۔
53 سے زائد کتابوں کا مصنف ہونا کوئی معمولی بات نہیں، بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ مفتی صاحب کا میدان عمل بہت وسیع ہے، وہ بہت نرم دل اور وسیع النظر مصنف ہیں، آپ کی تحریروں سے صاف عیاں ہے کہ مدرسہ ومسجد کی چہار دیواری آپ کے لیے  موضوعات کے انتخاب  میں  رکاوٹ نہیں بن سکی،  مسجد کے گنبد ومینار کی بلندی سے آپ بہت دور دیکھتے ہیں۔ عین الحق قاسمی نے آپ کے بارے میں ایک بہتر بات لکھی ہے، وہ یہ کہ
”میرے علم کے مطابق یہ پہلے خوش نصیب صاحب قلم مولوی ہیں، جس کی دانشوری کو مروج حلقہ ادب ودانشوری میں قبولیت حاصل ہے۔“
حلقہ دانشوران میں آپ کو قبولیت حاصل ہونا ہی چاہیے کیوں کہ آپ اعلیٰ ترین کی دینی درسگاہوں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد عصری علوم  یونیورسیٹی سے  حاصل کیا۔خود پی ایچ ڈی نہیں ہیں لیکن مفتی صاحب کی ادبی خدمات  پرتحقیقی کام کرکے راحت حسین نے متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی ہے۔خود مفتی صاحب کا کام اس قدر وقیع ہے کہ کسی یونیورسٹی کو ان کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری ضرور دینی چاہیے۔
 میں نے مفتی صاحب کی کتاب زاویہ نظر پر تفصیل سے نظر ڈالی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ صرف دین ومذہب کے معاملات اور شرعی مسائل بیان کرنے تک محدود نہیں رہے ہیں، آپ نے اپنی کھلی آنکھوں، بلند خیال اور وسعت قلب سے سماج کے ہر پہلو پر خامہ فرسائی کی ہے، آپ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں، صحافی بالخصوص ایک مدیر کا فرض ہے کہ وہ حالات حاضرہ پر اپنی عقابی نگاہ رکھے، ایک ایڈیٹر کے سامنے خبروں کا خوان سجایا جاتا ہے اس میں ہر طرح کی خبریں ہوتی ہیں، کچھ اچھی جن کو پڑھ کر ایک گونہ مسرت حاصل ہوتی ہے، اور کچھ بہت بڑی جن کو پڑھ کر دل اداس ہوجاتا ہے، کچھ سے معاشرہ کی اصلاح کی امید کی جا سکتی ہے اور کچھ مخرب اخلاق ہوتے ہیں، ان میں سے انتخاب کرنا ایک دشوار گزار کام ہوتا ہے، اس کام میں اپنی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سماج کی خواہشات اور قاری کی امیدوں کابھی احترام کرنا ہوتا ہے۔
”زاویہ نظر“ کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب ہر بات پر عمیق نظر رکھتے ہیں، ان کے مضامین میں اقتصادی شرح نمو، ان کاؤنٹر۔ جی اس ٹی، داخلی سلامتی، منا بجرنگی، دلت کی بارات، پولی تھین، سول کوڈ، بائی کاٹ، برہمن وادی سوچ، قومی آبادی رجسٹر، تعلیمی نصاب کا بھگوا کرن۔ نیٹ کا نتیجہ، جیسے عنوان کا فی تعداد میں موجود ہیں، جن کو پڑھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ قاسمی صاحب کتنے باہوش مدیر اور کتنا وسیع علم رکھنے والے مضمون نگار ہیں۔
اگر میں قاسمی صاحب کے انداز بیان اور عبارت کے مضمرات کا جائزہ لوں تو اس میں ایک درد مند مسلمان کا دل دھڑکتا نظر آئے گا، مثال کے طور پر مفتی صاحب اپنے مضمون بعنوان انتہائی خطرناک میں جو کیرالہ کے سبری مالا مندر میں دس سال سے پچاس سال کی عمرکی لڑکیوں اور خاتون کا داخلہ ممنوع  ہونے سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ نے ہر عمر کی خواتین کے لیے مندر کے دروازے کھولنے کا حکم دیا تھا، مگر اس کے بر عکس مندر کے کارکنوں نے کسی کو داخل ہونے نہیں دیا۔
 اس ضمن میں ایک درد مند مسلمان کا دل یوں ذوفشاں ہوا۔ ”یہ مسلمان اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہے جو عدالت کے ہر فیصلہ کو قبول کرنے کو تیار ہے، لیکن دوسرا فریق نہ تو آئین کے احترام کا جذبہ رکھتا ہے اور نہ عدالت کے ہر قسم کے فیصلے اس کے لیے حجت اور دلیل ہیں، جب سے حکومت کا شکنجہ عدلیہ پرکسا ہے، فیصلے کی منطق،استدلال کے طریقے اور فیصلوں کی معقولیت میں بڑی تبدیلی آئی ہے، یہ تبدیلی ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ایسے بے باک اور بہادرانہ جملے ایک نڈر صحافی ہی کہہ سکتا ہے۔
 ایک مولوی کا me tooجیسے نازک موضوع پر قلم اٹھانا معمولی بات نہیں ہے۔ me too  کے معنی ہوتے ہیں ”میرے ساتھ بھی“ اس عنوان کے تحت خواتین اپنے ساتھ ہوئی جنسی ہراسانی کے مسئلے بیان کرتی ہیں، اس الزام کی وجہ سے بہت سی سیاسی شہادتیں بھی ہوئی ہیں، اس مسئلہ کے تمام کوائف بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں۔
 ان ساری تفصیلات کے بعد ہمیں اسلامی موقف بھی سمجھنا چاہیے، اسلام کے نزدیک اس قسم کا اعلان قذف اور تہمت ہے، اس میں دو طرفہ سزاؤں کا اہتمام ہے، ثبوت اور شواہد سے الزام ثابت ہو گیا تو مرد سزا کا مستحق ہوگا اور اگر ثبوت اور شواہد سے الزام کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا تو تہمت لگانے والی عورت کو سزا دی جائیگی۔  خود کشی جیسے حساس اور نازک مسئلہ پر آپ قلم اٹھاتے ہوئے صفحہ قرطاس پر اپنا اشہب قلم یوں دوڑاتے ہیں۔
”خود کشی ایک انتہائی قدم ہے، جو انسان مختلف احوال میں مایوسی کا شکار ہو کر اٹھاتا ہے، کسی کو نوکری ملنے میں مایوسی ہاتھ آئی، کسی کو قرض کی ادائیگی کے لیے رقم کی حصول میں مایوسی کا سامنا پڑا، کبھی امتحانات میں ناکامی سے طلبہ مایوس ہوجاتے ہیں اور کبھی عشق اور محبت میں ناکامی اس کا سبب بنتی ہے۔
 قاسمی صاحب اپنے قلم کی جولانئی طبع سے اور اسلامی نقطہ نظر سے ایسے مایوس اور محروم افراد کو راہ دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں۔
 اسلام نا امیدی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں امید وتوقعات کے چراغ روشن کرنے کی تلقین کرتا ہے وہ اللہ کی رحمت سے نا امید ہونے کو کفر کے برابر قرار دیتا ہے، اسلام کا عقیدہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے۔ اور حالات کو بدلنے کی قدرت وطاقت اسی کے قبضہ میں ہے۔
626 صفحات کی اس کتاب میں 273 موضوعات پر منتخب مضامین شامل ہیں، صفحہ قرطاس پر  یہ مضامین اس طرح کا جمالیاتی نقشہ پیش کرتے ہیں جیسے کہکشاں میں ستارے جڑے ہوں۔
 اس کتاب کی بڑی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب میں املے کی ایک بھی غلطی ٹائپنگ میں نظر نہیں آئی ہے، مطلب یہ ہے کہ اس کی پروف ریڈنگ بہت عرق ریزی سے کی گئی ہے، آجکل اردو کتابوں میں یہ عیب بہت نظر آتا ہے، اس کا ذمہ دار کچھ تو انگریزی کی بورڈ ہے اور کچھ اردو کے وہ لفظ جن کے صوتی اثرات ایک ہوتے ہیں، جیسے ث، س، اور ص سے شروع ہونے والے الفاظ  غلط ٹائپ ہوجاتے ہیں، حالانکہ جدید انگریزی جسے امریکن انگلش کہا جاتا ہے وہاں k اور c میں امتیاز باقی نہیں رہا، کافی آپ چاہے k سے لکھیں یا c سے دونوں قابل قبول، مگر اردو میں ص کی جگہ ث استعمال کردیا اور ”ع“ کی جگہ الف لکھ دیا تو اچھا خاصہ معصوم مکمل طور پر گنہ گار ہوجاتا ہے اور اگر امارت الف کی جگہ ”ع“ سے لکھدیں تو  پوری حکومت ایک چھوٹی سی بلڈنگ میں محدود ہوجائے گی۔
میرے خیال میں یہ کتاب اپنی گوناگوں صفات، ہمہ جہت وسیع النظری اور قابل قدر عنوانات اور اسلام کی چاشنی میں لپٹی ہوئی معلومات کی وجہ سے اہل نظر کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔

کاروان علم کا ایک روشن ستارہ جناب نوشاد اعظم صاحب نینی تال پبلک اسکول تھاوے گوپال گنج ایک ادارہ نہیں ایک مشن ہےامداداللہ قاسمی استاد نینی تال پبلک اسکول

کاروان علم کا ایک روشن ستارہ جناب نوشاد اعظم صاحب 
Urduduniyanews72
نینی تال پبلک اسکول  تھاوے گوپال گنج  ایک ادارہ نہیں ایک مشن ہے

امداداللہ قاسمی استاد نینی تال پبلک اسکول


پھونک کر اپنے آشیانے کو 
روشنی بخش دی زمانے کو 

عام طور سے اس طرح کے اشعار کو مبالغہ آرائی پر محمول کیا جاتا ہے، لیکن جہاں معاملہ شنید اور دید سے بڑھ کر  چشم دید کا ہو بلکہ ہر لحظہ اور ہر آن کا ہو نیز  دل کی نگاہوں اور دماغ کی بصارتوں سے دیکھنے کا ہو مزید یہ کہ قوم کے قیمتی سرمائے کے مستقبل کا ہو تو چند اچھے بول حوصلہ افزائی کے چند الفاظ اخلاقی طور پر ہی نہیں قومی فریضہ سمجھ کر کرنا چاہیئے 
امت مسلمہ جب مجموعی طور پر زوال اور انحطاط کا شکار ہوئی تو بجائے اس کے اچھے لوگوں کے حوصلوں کو سہارا دیا جائے  یا جنونیت میں مہمیز لگائی جائے ٹانگوں کے کھینچنے اور کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہوگئ 

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے 


آج کے اس ترقی یافتہ دور میں تعلیم کی اہمیت سے ہر کس و ناکس  واقف ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو حقیقت بر مبنی ہو گا کہ وہ قومیں جو زوال و انحطاط کا شکار تھی  اس نے تعلیم کو اپنے سینے سے لگایا اور ترقی کی وہ منازل طے کی کہ آج دنیا انگشت بدنداں ہے  اقبال نے یورپ میں جب مسلم سائنسدانوں کی کتابیں  اور ان کتا بوں کا احترام دیکھا تو آہ بھرتے ہوئے کہا 

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

ہم نے اسلاف کے طور طریقوں سے ہٹ کر کتابوں کی ناقدری کی اور کتابوں کے بجائے الماریوں میں جوتیوں کو سجانے لگے تو جوتیاں ہماری مقدر بنی اور تاج ان کے سر سجا 

ایسے دور میں جب کہ تعلیم اور اعلی تعلیم کا رجحان مسلم معاشرے میں نہ کے برابر ہےتو چند مخلص اور قوم کے ہمدرد لوگ پرانی روایت،  سر سید اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے لوگوں کے خواب اور کام کو آگے بڑھانے میں لگے ہیں تو دل اور دماغ دونوں ہاتھوں سے اسے قبول کرنے کی ضرورت ہے 

خوش قسمتی سے مجھے چند اچھے اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا  لیکن جو جنونیت جو دلی وابستگی انتظامیہ کا اس ادارے کے ساتھ دیکھا دوسری جگہ میں نے نہیں دیکھا  پورا گھرانہ اگر کسی چیز کے لئیے سوچتا ہے یا گھر کے تمام افراد کے ذہن ودماغ میں ہر وقت کچھ سوار رہتا ہے تو وہ اسکول کی ترقی اور اس کا معیار ہے  اور یہ کسی بھی چیز سے بے انتہا محبت اور دلی وابستگی کی واضح دلیل ہے اور اس ادارے کی کامیابی کی ضمانت ہے 

گھر کے تقریباً آٹھ سے دس افراد روزانہ کی بنیاد پر پڑھانے اور انتظامات کے سنبھالنے میں مصروف ہیں لیکن معاوضہ کے نام پر ایک پیسہ نہیں 
سینکڑوں ایسے بچے اور بچیاں ہیں جو فیس ادا نہیں کرسکتے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کا علم ایک دو کو چھوڑ دیں تو دیگر اساتذہ کو بھی نہیں

 خود اسکول کے ڈائریکٹر جناب نوشاد اعظم صاحب کا معمول ہے کہ درسگاہوں سے فراغت کے بعد روزانہ کی بنیاد پر آن لائن کئی جماعتوں کو پڑھا تے ہیں گویا کہ صبح سے رات تک کا وقت پڑھنے پڑھانے میں مصروف
 بڑی مدت میں بھیجتا ہے ساقی ایسامستانہ 

بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ 

ان کا پرانا خواب تھا کہ اپنے علاقے میں ایک ایسا معیاری ادارہ ہو جس سے قوم کا قیمتی سرمایہ تیار ہو جہاں کے فارغین  اچھی صلاحیت کے ساتھ ساتھ تقریر اورتحریر  کے میدان کا بھی ماہر کھلاڑی ہو جو دنیا کو سمجھتے ہوں قوموں کے ترقی و تنزلی کے راز سے واقف ہوں جن کا مشن قوم اور ملک کی خدمت ہو جو ستاروں پر کمندیں ڈالنا جانتے ہوں جن کے حوصلوں کے سامنے بڑا سے بڑا چٹان بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہو  اسی جذبے کے تحت انہوں نے  سن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نینی تال پبلک اسکول کا قیام عمل میں لایا  جس نے تقریباً دو سال کی قلیل مدت میں پورے گوپال گنج میں اپنی ایک شناخت اور پہچان بنا لی ہے جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جس میں بچے ایڈمیشن کے لئے نہ آتے ہوں 

ارشاد اعظم صاحب جو انتظامیہ کے اہم رکن ہیں اور پرنسپل بھی  انڈین ایمبیسی کے اسکول کی اچھی تنخواہ اور پرکشش مراعات کو چھوڑ کر   اپنے قوم اور ملک کی خدمت کے لئیے وطن لوٹ آئے  جو اس شعر کے بجاطور پر مصداق ہیں 

میں یہ صاف ہی نہ کہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں 
تیرا درد دردِ تنہا  میرا غم غمِ زمانہ 

ذمہ داروں میں سے ایک اہم نام گوپال گنج اور اطراف کی معروف شخصیت انتہائی متواضع ملنسار اور گوپال گنج سول کورٹ کے سینئر وکیل جناب مشتاق اعظم صاحب کا ہےجن کی اپنی گوں ناگوں مصروفیات ہیں لیکن روزانہ صبح اسکول تشریف لاتے ہیں اور معاینہ کے بعداپنی قیمتی مشوروں سے نوازتے ہیں 
شمشاد اعظم صاحب اسکول کے ایک اور اہم ذمہ دار جو انڈین ایمبیسی کے ایک اہم اسکول میں درس و تدریس کا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں 
ہمیشہ اسکول کے لئیے فکر مند رہتے ہیں 
اساتذہ کا شاندار انتخاب با صلاحیت اور فنون کے ماہر  اساتذہ کا ایسا سنگم  انتہائی محنت و مشقت اور معیاری تنخواہ کی بنیاد پر ہی جمع کیا سکتا ہے  بچوں کے صلاحیتوں کو نکھارنا ان کو ضروری اور اہم کاموں کی طرف توجہ دلانا جس سے ان کا مستقبل تابناک اور روشن ہو  انتظامیہ اور اساتذہ کی اولین ترجیح میں شامل ہے جس کی ایک واضح مثال ہیڈ ماسٹر جناب عطاء اللہ صاحب ہیں بچوں کے نفسیات پر مکمل عبور،                                 کاہے کو کوئی موٹیویشنل اسپیکر اتنے اچھے انداز میں سمجھا ئیگا ان کے حوصلہ افزائی کے الفاظ اور سمجھانے کے بعد ایک ناکارہ بھی اپنی اہمیت کو پہچان کر کسی کام کا بن جائے  
انگریزی کے قابل استاد پڑھانے کا نرالا انداز بچوں میں انتہائی مقبول جن کے ساتھ کام کرنے میں بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے  معیاری اور پرکشش تنخواہ کو چھوڑ کر جدہ سعودی عربیہ کے مستند ادارے کو چھوڑ کرچلے آئے اور اپنے آپ کو اپنےقوم اور ملک کی خدمت کے لئے  وقف کر رکھا ہے

ضرورت اس بات کی ہے آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں جب لوگ اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسری چیز کے سلسلے میں سوچتے بھی نہیں اور انویسٹ سے زیادہ منافع کا سوچتے ہیں چند دیوانے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں لگے ہیں کہ 

ہاں دکھا دے ائے تصور پھر وہ صبح وشام تو 

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو 

اور جن کی زندگیوں کا نصب العین صرف یہ رہ گیا ہو 

اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ 

راستے میں خواہ دوست کے دشمن کا گھر ملے 

یا یہ کہ 

کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے 
جہاں روشنی کی کم ملی وہیں ایک چراغ جلا دیا 

جو لوگ بھی  اور جہاں بھی اس طرح کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بالخصوص جناب نوشاد اعظم صاحب جو کہ اپنا سب کچھ قربان کر کے قوم کی بہتری کے لئے  قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں لگے ہیں ضروری ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے کارہائے نمایاں کو سراہا جائے یہ ہمارا اخلاقی اور قومی  دونوں فریضہ ہے

ایسے لوگ اور ایسی شخصیات بار بار نہیں آتی 

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

مبارک اے مسلمانو ماہ رمضان کا جلوہ ۔شمشیر عالم مظاہری دربھنگویامام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

مبارک اے مسلمانو ماہ رمضان کا جلوہ ۔
Urduduniyanews72
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
آقائے دو جہاں کا فرمان ہے اے لوگو تمہارے پاس ماہ رمضان آ پہنچا لوگو برکتی مہینہ آگیا لوگو رب کی رحمت نے تمہیں ڈھانک لیا دیکھو خدا کی رحمتیں اتر رہی ہیں گناہ بخشے جا رہے ہیں دعائیں قبول ہو رہی ہیں لوگو تمہارا اس ماہ میں ایک دوسرے سے عبادتوں اور نیکیوں میں بڑھ جانے کی کوشش کرنا خدا دیکھ رہا ہے بلکہ اس کا فخر وہ اپنے فرشتوں میں کر رہا ہے بس تم بھی خدا کو اپنا جوش و خروش دکھاؤ حقیقی بد نصیب وہ ہے جو اس ماہ مبارک میں بھی خدا کی رحمت سے محروم رہ جائے  (طبرانی)
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اسلام نام ہے پانچ چیزوں کا جو شخص ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دے وہ پانچوں کا چھوڑنے والا ہے اور اس کا اسلام اللہ  کے نزدیک مقبول نہیں (1)  خدائے تعالی کے ایک ہونے اور محمد ﷺ  کے سچے رسول ہونے کی گواہی دینا  (2) پانچوں وقت کی نماز پڑھنا  (3)  رمضان کے روزے رکھنا  (4)  اگر مال ہو تو زکوۃ دینا  (5) اگر مال ہو تو حج کرنا آپ فرماتے ہیں رمضان کا روزہ بلا عذر شرعی چھوڑ نے والا کافر اور قابل گردن زدنی ہے جو شخص اس ماہ کا ایک روزہ بھی بلا اجازت شرع ترک کرے اگر ساری عمر روزے رکھے پھر بھی اس گناہ کی تلافی نہ ہوگی جو شخص اس مبارک مہینے میں بھی خدا کو راضی نہ کرے  وہ بڑا ہی بد نصیب ہے جو شخص وقت سے پہلے جان بوجھ کر روزہ کھول دے اس کو جہنم میں معلق لٹکا دیا جائے گا اور بار بار اس کی باچھیں چیری  جائیں گی جن سے خون بہتا رہے گا اور کتے کی طرح چیخے گا ۔  
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم اس مہینہ میں نازل ہوا اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کر لیۓ جاتے ہیں رمضان کی اول  رات ہی سے تمام آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ آخر رمضان تک بند نہیں ہوتے اس مہینے میں مومن کی روزی میں برکت دی جاتی ہے اس مہینے کے اول دس دن رحمت کے اور درمیانی دس دن مغفرت کے اور تیسرے دس دن جہنم سے آزادی حاصل کرنے کے ہیں اس مہینے میں جنت اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور آخر تک ایک بھی بند نہیں ہوتا اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ایک بھی نہیں کھلتا  اس مہینے میں اللہ تعالی کی طرف سے برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں گناہوں کی معافی اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے رمضان المبارک کے لئے جنت سال بھر سنواری جاتی ہے اور رمضان کی اول رات ایک لطیف ہوا عرش سے چلتی ہے جو جنتی درختوں کے پتوں وغیرہ کو لگتی ہوئی گزر جاتی ہے جن سے ایک نہایت سریلی آواز پیدا ہوتی ہے اس وقت حوریں ندا کرتی ہیں کہ کوئی ہے جو اللہ تعالی سے ہماری خواہشتگاری کرے رمضان کی ہر رات ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ کوئی سائل ہے جس کو خدا دے کوئی تائب ہے جس کی توبہ قبول کرے کوئی استغفار کرنے والا ہے جس کے گناہوں سے درگزر فرمائے کوئی ہے جو ایسے خدا کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ کم دینے والا ہے بلکہ پورا دینے والا اور ظلم نہ کرنے والا ہے اے بھلائی کرنے والو آگے بڑھو اور اے برائی کرنے والو  پیچھے ہٹو اور رک جاؤ رمضان کی اول رات اللہ تعالی اپنے مسلمان بندوں کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور پھر انہیں عذابوں سے نجات دیتا ہے  یہ مہینہ غمخواری اور صبر کرنے کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے مسلمانوں کے لئے اس سے بہتر اور منافقوں کے لئے اس سے برا کوئی مہینہ نہیں ہے اللہ تعالی اس مہینے میں دس لاکھ مسلمانوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے جو جہنم کے لائق ہوتے ہیں اور آخری رات پورے مہینے کی گنتی کے برابر اگر مسلمان رمضان کی بزرگیاں بخوبی  معلوم کرلیں تو سارا سال رمضان ہونے کی تمنا کریں ۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں رمضان المبارک کے روزے خلوص اور پابندی شرع کے ساتھ رکھنے والے کے تمام اگلے گناہ اللہ تعالی معاف فرما دیتا ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کو مشک و عنبر سے زیادہ پسند ہے دن بھر فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت کی نعمتیں بڑھتی رہتی ہیں روزہ دار کو اللہ تعالی باب الریان سے جنت میں داخل کرے گا اور اس کو ان گنت نعمتیں عطا فرمائے گا اور اس سے خوش ہو کر ملے گا روزہ جہنم کے عذابوں کی ڈھال ہے روزہ دار کو ایک خوشی افطار کے وقت ہوتی ہے اور دوسری خدائے تعالی کی ملاقات کے وقت ہر ہر روزہ کے عوض اللہ تعالی روزہ دار کو حور و قصور اور غلمان اور درجات جنت وغیرہ وغیرہ طرح طرح کی نعمتیں عطا فرماتا ہے  روزہ تندرستی کا سبب اور جسم کی زکوٰۃ اور آدھا صبر ہے روزے دار اور جہنم کے درمیان اللہ تعالی آسمان و زمین سے بھی زیادہ دوری ڈال دیتا ہے روزہ قیامت کے روز اور قبر میں روزہ دار کی شفاعت کرتا ہے افطار کے وقت کی دعا بہت جلد مقبول ہوتی ہے اور اس وقت اللہ تعالی ہر روز ساٹھ (  60)  ہزار آدمیوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے افسوس ایسے مبارک وقت کو غموما بعض نا واقف مسلمان بیکار کھو دیتے ہیں وہ اس وقت یا تو افطاری کے سامان کی دیکھ بھال میں مصروف ہوتے ہیں یا حقہ تازہ کرنے اور فضول بکواس میں مشغول ہوتے ہیں مسلمانوں اس وقت کی قدر کرو اور اسے یونہی نہ کھو دو بلکہ دعا اور ذکر اللہ میں اس وقت رہا کرو افطار کے وقت یہ دعا پڑھنی صحابہ کرام سے مروی ہے (  اللہم انی اسٔلک برحمتک التی وسعت کل شیٔ ان تغفرلی ذنوبی ) اے اللہ میں تجھ سے بوسیلہ تیری رحمت کے جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے اپنے کل گناہوں کی معافی طلب کرتا ہوں ۔ گرمیوں میں روزہ کی پیاس برداشت کرنے والے کو اللہ تعالی قیامت کے دن کی پیاس سے بچا لے گا صائم کے ہونٹوں کی خشکی کے بدلے اللہ تعالی اس کی پیشانی کو قیامت کے دن منور کر دے گا روزہ اور قرآن دونوں روزہ دار اور تلاوت قرآن کرنے والے کی سفارش اور شفاعت اللہ تعالی سے کریں گے یہاں تک کہ ان کی شفاعت قبول کی جائے گی 
اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے فضائل و برکات اور اس کی رحمتوں برکتوں سے مسلمانو کو مالا مال فرمائے اور سنت کے مطابق رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...