Powered By Blogger

اتوار, جولائی 07, 2024

سال نوکی آمد -مرحبا

سال نوکی آمد -مرحبا
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 



1445ھ گذرگیا اور ہم 1446ھ میں داخل ہوگیے، یعنی نئے سال کا سورج ہماری زندگی کے مہ وسال سے ایک سال اور کم کرنے والا ہے، ہم موت سے اور قریب ہو گیے، انسان بھی کتنا نادان ہے وہ بڑھتی عمر کا جشن مناتا ہے، مبارک بادپیش کرتا ہے، قبول کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ہماری عمر جس قدر بڑھتی ہے، موت اور قبر کی منزل قریب ہوتی رہتی ہے اور بالآخر وقت موعود آجاتا ہے اور آدمی قبر کی آغوش میں جا سوتا ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اور جن کے ذہن میں فکر آخرت رچی بسی ہوئی ہے، وہ گذرے ہوئے سال سے سبق لیتے ہیں، اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں، نئے سال کا استقبال تجدید عہد سے کرتے ہیں کہ آئندہ ہماری زندگی رب مانی گذرے گی، من مانی ہم نہیں کریں گے، اس عہد پر قائم رہ کر جو زندگی وہ گذارتے ہیں وہ رب کی خوش نودی کا سبب بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔
 نئے سال کی آمد پر ہم لوگ نہ محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی تجدید عہد، بلکہ ہم میں سے بیش تر کو تو یاد بھی نہیں رہتاکہ کب ہم نئے سال میں داخل ہو گیے، عیسوی کلینڈر سب کو یادہے، بچے بچے کی زبان پر ہے، انگریزی مہینے فرفر یاد ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے سے جب چاہیے سن لیجئے؛ لیکن اسلامی ہجری سال، جو اسلام کی شوکت کا مظہر ہے، اس کا نہ سال ہمیں یاد رہتا ہے اور نہ مہینے، عورتوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کچھ یاد رکھا ہے، لیکن اصلی نام انہیں بھی یاد نہیں بھلا،بڑے پیراور ترتیزی، شب برأت، خالی، عید، بقرعید کے ناموں سے محرم صفر، ربیع الاول، ربیع الآخر، جمادی الاولیٰ، جمادی الآخر، رجب، شعبان، رمضان، شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ جو اسلامی مہینوں کے اصلی نام ہیں، ان کو کیا نسبت ہو سکتی ہے، ہماری نئی نسل اور بڑے بوڑھے کو عام طور پر یا تو یہ نام یاد نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ترتیب سے نہیں، اس لیے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام ترتیب سے خود بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرانا چاہیے، یاد رکھنے کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے خطوط اور دوسری تحریروں میں اسلامی کلینڈر کا استعمال کیا جائے۔پروگرام اور تقریبات کی تاریخوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے، کیونکہ بعض اکابر اسے شعار اسلام قرار دیتے ہیں اور شعار کے تحفظ کے لیے اقدام دوسری عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے ۔

 ہجری سال کی تعیین سے پہلے، سال کی پہچان کسی بڑے واقعے سے کی جاتی تھی۔ جیسے قبل مسیح،عام الفیل، عام ولادت نبوی وغیرہ، یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت تک جاری تھا، حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مجلس شوریٰ میں یہ معاملہ رکھا کہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک کلینڈر ہونا چاہیے۔ چنانچہ مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہو، چنانچہ سال کا شمار اسی سال سے کیاجانے لگا، البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا،لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا، کیونکہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔اس طرح اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔
 محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے، جس کا زمانہ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اسی دن سے ہیں، جس دن اللہ رب ا لعزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، ان میں چار مہینے خاص ادب کے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے، پھر حضرت ابو ذر غفاری ؓکی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو، یہ روایت سنن کبریٰ کی ہے، مسلم شریف میں ایک حدیث مذکور ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشہر حرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں، بلکہ بہت پہلے سے ہے۔
 اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گیے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں، لیکن اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، اس طرح کہ عاشوراء سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ علامہ عینی کے مطابق اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی،حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی، اور ہمارے آقا مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی دن ”غفر لہ ما تقدم من ذنبہ“کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت وخوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا، اوراس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے ۔

یقیناً اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑاا لم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بْرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے، حق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے اور قرآن کریم میں ان حضرات کے بارے میں ارشاد ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے، اور ظاہر ہے ہمیں تومْردوں پر بھی ماتم کرنے، گریباں چاک کرنے، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیاہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے
روئیں وہ، جو قائل ہیں ممات شہداء کے
ہم زندہ ٔجاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، تعزیہ نکالنے کی اجازت تو شیعوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں نہیں ہے، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہی یاعلی، یا حسین یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے، حضرت علی، کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسین کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا عظمت صحابہ کا تقاضہ اور داماد رسول اور نواسہ رسول کے احترام کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن جلوس میں اس کی پرواہ کس کو ہوتی ہے، اس طرح ان حضرات کا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لیتے ہیں کہ ہمارے باپ کا نا م اس طرح بگاڑ کرکوئی لے تو جھگڑا رکھا ہوا ہے، بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کار ثواب سمجھا جا رہا ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس موقع سے جلوس کے ساتھ بعض جگہوں پر رقاصائیں رقص کرتی ہوئی چلتی ہیں، عیش ونشاط اور بزم طرب ومسرت کے سارے سامان کے ساتھ حضرت حسین کی شہادت کا غم منایا جاتا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں، سب کی موجودگی غیروں کے مذاق اڑانے کا سبب بنتی ہے، اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا۔
جلوس کے معاملہ میں ہمیں ایک دوسرے طریقہ سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اس خانوادہ میں بیمار حضرت زین العابدین اور خواتین کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا،یہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا، جس پریزیدی افواج نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، ان کے پاس جلوس نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تھا، تیر،بھالے، نیزے اورعَلم تو یزیدی افواج کے پاس تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر نیزے پر تھا اوریزیدی بزعم خود اپنی فتح وکامرانی کاجلوس لیکر یزیدکے دربار کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہمارے یہاں جلوس میں جو کروفراور شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے کھلے ذہن سے سوچیے تو معلوم ہوگا کہ ہم کسی اور کی نقل کر رہے ہیں، حسینی قافلہ کی تو اس دن یہ شان تھی ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے، ایسے جلوس میں نہ خود شامل ہوں اور نہ اپنے بچوں کو اس میں جانے کی اجازت دیں۔

کچھ تبسم زیرِ لب) انس مسرورانصاری

( کچھ تبسم زیرِ لب) 
Urduduniyanews72
              انس مسرورانصاری
       
 اک پھول سے آجاتی ہےویرانےمیں رونق 
ہلکا سا تبسم  بھی  مر ی جا ن  بہت  ہے 

                       * خوش نصیب *
  مجاہدِآزادی قاضی احسانﷲشجاع آبادی دوسال کی قید کاٹ رہےتھے۔ایک دن مولانا عطاءﷲشاہ بخاری ان سے ملنے جیل گئے۔ملازموں کو دیکھ کرپوچھا۔۔یہ کون ہیں۔؟،، 
 قاضی صاحب نے بتایا کہ یہ میرے خادم ہیں۔ایک سلیمان ہےجو پودوں کو پانی دیتاہےاوردوسرےکانام سکندرہےجوصفائی وغیرہ کردیتاہے۔،، 
عطاءﷲ بخاری نے کہا"تم تو بہت خوش نصیب ہو کہ سلیمان اورسکندرتمھارےخادم ہیں۔۔۔۔،،**
                           
                             * پڑھنا آتا ہے؟ *
    1960/میں ایک شام کوشعبہءاردو،فارسی۔لکھنؤ یونیورسٹی میں ایک ادبی نشست۔۔ شامِ افسانہ،،منعقد ہوئی۔اس افسانوی محفل میں ملک کےممتازادیبوں نے شرکت کی تھی۔
 رضیہ سجادظہیرڈائس پراپنا افسانہ۔۔مسیحا،،سنا رہی تھیں۔سامعین ہمہ تن گوش تھے۔افسانے کا ہیرو ڈاکٹر، ہیروئن مریضہ کی پیٹھ کا معائنہ کررہاہے۔سوالات بھی کرتاجارہاہے۔ہیروڈاکٹر نے پوچھا۔۔تمھیں پڑھنا آتا ہے۔؟،،
یہ الفاظ رضیہ آپانےکچھ اس اندازمیں اداکیےکہ سامعین میں سےایک طالبہ اچانک بے ساختہ بول پڑی۔۔
  ۔۔ جی ہاں،آتاہے۔،، 
 پھرکیاتھا۔ایسے قہقے پڑےکہ۔۔ شامِ،،لالہ زار بن گئی۔رضیہ آپابھی بے ساختہ ہنس پڑیں۔۔۔۔**

                              *  ا جر ت *
خواجہ الطاف حسین حالی، مرزاغالب کےشاگرداوربہت معتقد تھے۔ایک روزدونوں بیٹھے آپس میں گفت گو کررہے تھے کہ غالب نےاپنےپاؤں میں تکلیف کی شکایت کی۔خواجہ صاحب فوراً استاد کےقریب ہوگئے اور کہا۔۔ 
لایئےمیں آپ کے پاؤں دبادوں۔،، 
خواجہ صاحب چونکہ عالِم دین تھے اس لیے غالب ان سے پاؤں دبوانانھیں چاہتےتھے۔یہ دین کے علم کااحترام تھالیکن شاگرد بھی کچھ کم سعادت مند نہ تھے۔بضدہوگئےکہ نھیں! پاؤں دابیں گے۔ بڑی دیر کے بعد فیصلہ ہواکہ مولانا حالی اجرت پر پاؤں دابیں گے۔غالب نے شرط کوقبول کرلیا۔وہ کافی دیر تک غالب کے پاؤں دباتےرہے۔پھرجب کام سے فارغ ہوگئے تو غالب سے ازراہِ مذاق اجرت طلب کی۔ غالب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔ تم نےہمارےپاؤں دبائےاورہم نے تمھاری اجرت داب  لی۔حساب برابر۔۔۔۔۔ **
 
                        *  ہتھیلی کےنیچے  *
     سرسیداحمدخاں،مولانا شبلی نعمانی اورممتازعلی صاحب ایک کمرہ میں بیٹھے آپس میں گفت گوکررہے تھے۔تین بڑی علمی شبخصیات کا اجتماع،تکلف برطرف قسم کی گفتگو۔عالمانہ موشغافیاں۔ یہ سب کچھ تھا  لیکن سرسیداحمدخاں کچھ بے چین سےنظرآرہےتھے۔ گفتگو میں جی نھیں لگ رہاتھا۔بس ہاں، ہوں میں جواب دے رہے تھے۔کوئی بہت اہم کاغذکھوگیاتھااور تلاشِ بسیارکےباوجودنھیں مل پارہاتھا۔حالانکہ ہوا نےایک ہلکی سی شرارت کی تھی اوراس کاغذکومولانا شبلی کے قریب پہنچادیاتھا۔انھوں نے بڑی ہوشیاری سے مطلوبہ کاغذپراپنی ہتھیلی رکھ لی تھی اورسرسیدکے اضطراب سےلطف اندوزہورہےتھے۔لیکن ان کے ہونٹوں کی دبی دبی سی مسکراہٹ نے چغلی کھائی اورسرسید بھانپ گئےکہ مطلوبہ کاغذ مولاناکی ہتھیلی کےنیچے دباہواہے۔ 
  سرسید نےمولانا شبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔ 
  حضرت! ہم نےبڑےبوڑھوں سےسناہےکہ جب کوئی چیز کھوجائےتو سمجھو شیطان اس پر اپنی ہتھیلی رکھ دیتاہے۔کیا یہ سچ ہے۔،،؟ 
سرسید کی چوٹ پر مولانا نےشرمندگی سے مسکراتے ہوئے کاغذ ان کےحوالےکردیا۔۔۔ **

                                    * بیچاری *
  اردوکےایک معروف شاعر نے پریشان ہوکرمجازلکھنوی سے کہا۔۔مجھے اب شادی کر لینی چاہیے۔۔ 
      ۔۔تواس میں پریشانی کی کیابات ہے۔؟کرلیجیئے شادی۔،، مجازنےکہا۔ 
  ۔۔ لیکن بات یہ ہےکہ میں کسی بیوہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔،، 
    ۔۔ آپ کسی سے بھی کرلیجیئے۔۔ مجازنےسنجیدگی سےکہا۔۔ بیوہ تووہ بیچاری ہوہی جائے گی۔،، **
                          
                                  * انگلیاں *
    اردو ادیبوں کی ایک طعام کی محفل میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کےپہلومیں بیٹھے ہوئے ایک صاحب کھاناکھاتےہوئےباربارچٹخارےلےکراپنی انگلیاں چاٹنےلگتے۔جب وہ خوب چٹخارےلےلےکراپنی انگلیاں چاٹ چکےتولوی صاحب اپنی انگلیاں ان کے منھ کے قریب لےجاکربولے۔۔ لیجیۓ حضرت! اب انھیں بھی صاف کردیجئے۔،، **
                       
                          * کوئی شاعر ہے *
   دروازہ پر دستک ہوئی تو آشفتہ لکھنوی کےملازم نے دروازہ کھولا۔ لیکن دروازہ کھولنےکےبعدکافی دیر تک ملازم واپس نھیں آیا۔آشفتہ نے اسے آوازدی۔وہ آیا تو کہنے لگا۔۔ کوئی صاحب آپ کوباہربلاتےہیں۔،، 
    ۔۔ ارےﷲکےبندے! نام تو پوچھا ہوتا۔،،آشفتہ نے نرمی سےکہا۔
      ۔۔ کوئی شاعر صاحب ہیں۔آپ کےدھوکھےمیں انھوں نے مجھے غزلیں سنانی شروع کردیں۔،، ملازم نے براسامنھ بنا کر جواب دیا۔۔ **

                           * وقت اورتاریخ *
   جن دنوں رشیداحمد صدیقی مسلم یونیورسٹی میں اردو شعبہ کےصدر تھے۔ گرلز کالج کی پرنسپل نے درخواست پیش کی اورکہا۔۔ کالج کی طالبات اردو شعبہ کو دیکھنا چاہتی ہیں۔آپ کوئی مناسب وقت اور تاریخ بتادیں تاکہ سہولت رہے۔،، 
    رشید احمد صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
  ۔۔ وقت اورتاریخ تو ہمیشہ لڑکی والے ہی بتاتے ہیں۔،،         
              **
                      * کس کی تلاش ہے۔؟ *
    ایک روز مرزاغالب اپنےایک دوست سےکہنےلگے۔۔ہماری اہلیہ نے نماز پڑھ پڑھ کرپورےگھرکومسجدبناڈالا ہے۔لیکن کیوں صاحب! ہم تو مرد ہیں۔ہمارانمازپڑھنا تو ٹھیک ہے۔ہم تو نماز پڑھتے ہیں اس لیے کہ جنت میں حوریں ملیں گی۔غلماں ملیں گے۔آخر یہ عورتںں کیوں نماز پڑھتی ہیں۔؟ انھیں کس کی تلاش ہے۔،،؟؟**

                    * جوان بچے کی غلطی *
   کسی شاعر کےکلام کا پہلی بار کسی رسالہ میں شائع ہونا ایک عظیم الشان واقعہ سے کم نھیں ہوتا۔خوشی سنبھالے نھیں سنبھلتی۔وہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا اسے پڑھےاوراگرکوئی پڑھنا نھیں چاہتاتوشاعرزبردستی پڑھواتاہے۔لکھنؤ کے ماہنامہ۔۔ ترچھی نظر،، میں شوکت تھانوی کی پہلی غزل چھپی تومارےخوشی کےگدگدہو گئے۔رسالہ کھول کرمیزپررکھ دیاتاکہ ہرآنےجانےوالےکی نظر پڑ سکے۔شامتِ اعمال کہ سب سے پہلے ان کے والد کی نظر پڑی۔ وہ پولیس مین تھے۔تھانےجارہےتھےکہ ان کی نظرکھلےہوئےرسالہ میں صاحبزادے کی غزل پر پڑگئی۔ایساشورمچااورہنگامہ برپا ہواکہ گویاچورکورنگے  ہاتھوں پکڑلیاگیاہو۔اہلیہ کواندرسےبلاکرلائے اور نہایت غصہ میں بولے۔
  ۔۔ دیکھئےاپنےلاڈلےکی کرتوت۔دیکھئےتوَسہی آپ کے صاحبزاےکیافرمأرہےہیں۔،، 
 ہمیشہ غیرکی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
 ترےکوچےمیں جا کر ہم ذلیل خوار ہوتے ہیں 
    چھپی ہوئی غزل کا یہ شعرسناکرشوکت تھانوی کے والد گرجے۔۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ جاتےہی کیوں ہیں کسی کےکوچےمیں۔؟اور کس سے پوچھ کرجاتےہیں۔؟،، 
        بیچاری والدہ سہم گئیں اور خوف زدہ آوازمیں بولیں۔۔ بچہ ہے،غلطی سےچلاگیاہوگا۔،، **

                            * ذہین ترین لوگ *
    امریکہ کے سابق صدر ہنری کسنجرسےانٹرویولیتے ہوئے ایک صحافی نے سوال کیا۔۔ کبھی کیا آپ کوایک ہی کمرے میں ذہین ترین لوگوں کا اجتماع نظرآیا۔؟،، 
    ۔۔ جی ہاں۔،، امریکہ کےمدبرنےجواب دیا۔۔۔ ایک بار میں ایک شیش محل میں گیا۔وہاں ہر طرف ذہین ترین لوگ نظرآرہےتھے۔یہ ان کے عکس تھے اور میں وہاں بالکل تنہا تھا۔،، **

                                   * وضاحت *
  دنیا کے تین بڑے نفسیات دانوں میں ڈاکٹر الفریڈ ایڈلر کانام کیاجاتاہے۔ ایک بار۔۔احساسِ کمتری،، کےموضوع پر وہ ایک یونیورسٹی میں لکچردےرہےتھے۔
   ۔۔ جسمانی طور پر معذور یاکمزورافراداکثرایسے کاموں کو اختیار کرتے ہیں جوان کی معزوری اورکمزوری کےبالکل برعکس ہوتے ہیں۔ یعنی کوئی ضعفِ تنفس کا مریض ہوتا ہے تو لمبی دوڑ کے جینے میں لگ جاتاہے۔ زبان میں لکنت کا مریض ہےتو خطیب بنناچاہتاہے۔ کمزور آنکھیں رکھتاہےتومصٌوری کی طرف نکل جاتاہت۔،، 
   اچانک ایک طالب علم کھڑاہوجاتاہےاورخطبہ میں مداخلت کرتے ہوئے کہتاہے۔
   ۔۔ سر! اجازت ہو تو کچھ پوچھوں۔۔ 
   ۔۔ ہاں، ہاں ضرورپوچھو،مجھے خوشی ہوگی۔،، ڈاکٹر ایڈلرنےکہا۔ 
   ۔۔ ڈاکٹر صاحب! آپ کی باتوں کا یہ مطلب تو نھیں کہ۔۔ ضعفِ دماغ،، میں مبتلا لوگ ۔۔ ماہرِ نفسیات،، بن جاتےہیں۔؟،، **
                      * جھول نھیں دھوتا *
   علٌامہ انور صابری لحیم شحیم آدمی تھے۔ایک بار ممبئی کے ایک مشاعرہ میں گئے۔وہاں کئی روزقیام کے دوران ایک دھوبی کوبلاکرکپڑےدھونےکےلیےکہا۔چونکہ انور صاحب کرتا پاجامہ پہنتے تھے اس لیےدھونےکےلیے  
چندکرتےاورپاجامےکمرہ کے فرش پرڈھیرتھے۔ دھوبی نے ایک کرتاکاسِراپکڑااوراوپراٹھاتاچلاگیا۔کافی لمباچوڑا کرتاتھا۔ سارے ہی کرتے ایسے ہی تھے۔کرتا کاجائزہ لینے کےبعددھوبی نےبراسامنھ بناکر کہا۔۔ ماف کرناجناب! اپن کپڑےدھوتاہے،جھول نھیں دھوتا۔ تنبووالےکوبلالو وہ دھوئےگا۔ اپن تو بس کپڑےدھوتاہے۔،، **

                          * جواب دے گئی *
     1961/کی ایک دوپہرکوشعبہ اردو،فارسی لکھنؤ یونیورسٹی میں ایک سیمینار کےموقع پرپروفیسر رگھوپت سہائےفراق گورکھپوری اردوشاعری کےموضوع پرلکچر دےرہےتھے۔لکچرکےدوران ایک طالبہ آہستہ سے اٹھی اور ہال سےباہر چلی گئی۔ طالبہ کےجانےکےبعد فراق نےکہا۔۔ میں سمجھا تھا کہ یہ لڑکی کھڑی ہوئی ہے تو کوئی سوال کرے گی۔،، 
     پروفیسرسیداحتثام حسین خاموش نہ رہ سکےاور برجستہ بولے۔۔ لیکن وہ جواب دے گئی۔،،  **
          
                               ** تبصرہ**
  ایبٹ آباد(موجودہ پاکستان) کے ایک وکیل الف دین نے۔۔ اسلام کی حقانیت،،کےموضوع پر ایک کتاب لکھی۔ 
 جب کتاب چھپ گئی تو ایک جلد اکبرالہ آبادی کی خدمت میں تبصرہ کےلیےبھیجا۔چنانچہ اکبرنےتبصرہ لکھا اورکتاب الف دین کوواپس بھیج دی۔ 
 الف دین نے خوب لکھی کتاب 
کہ بےد ین نے پا ئی  راہِ ثواب
                                      **
                          انس مسرورانصاری
                      قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
     سکراول، اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکرنگر (یو، پی) 
          پِن۔۔ 224190/رابطہ/9453347784/

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...