Powered By Blogger

پیر, جولائی 24, 2023

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما ✍️✍️✍️ ٭انس مسرورانصاری

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما
Urudduinyanews72
 ✍️✍️✍️        ٭انس مسرورانصاری
میاں بیوی میں کتنی ہی محبت اورخلوص واپنائیت کیوں نہ ہولیکن کبھی کبھی ،کسی نہ کسی وجہ سے اختلافِ رائے کے سبب توتو،میں میں ،ہوہی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ روٹھنے اورمنانے کے بغیرازدواجی زندگی میں حقیقی لطف ومسرت بھی تونہیں۔ 
میاں بیوی کے درمیان اَن بن کی صورت میں گھریلوکام کاج کے لیے سب سے اہم رول اداکرتے ہیں ننھے بچے۔یہ معصوم بچے فریقین کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ممی کوپاپاسے کوئی ضرورت آن پڑے یاپاپاکو ممی سے کوئی کام ہو توننھے میاں پکڑے جاتے ہیں۔ 
‘‘ببلو!ذرااپنے پاپاسے کہوکہ فلاں چیز لانی ہے۔آفس سے ذراجلدی آجائیں گے۔ہمیں کہیں جاناہے۔ببلو!اپنے پاپاسے کہوناشتہ تیارہے۔پاپاسے پوچھوکہ رات کے کھانے میں کیارہے گا۔؟میں ذراپڑوس میں بڑی آپاکے گھرجارہی ہوں۔اپنے پاپاسے کہومیزپرکھانالگادیاہے،کھالیں گے۔’’وغیرہ وغیرہ۔پاپاکوممی سے کچھ کہناہے توببلوسے کہاجائے گا۔‘‘بیٹا!ہمارے شرٹ کی بٹن ٹوٹ گئی ہے،ممی سے کہوبٹن لگادیں۔شام کوذرادیرسے واپس آؤں گا،ممی کوبتادو۔ممی سے کہوکل صبح مجھے کہیں جاناہے،ناشتہ کرکے جاؤں گا۔’’وغیرہ وغیرہ۔ایسے ہرموقع پرببلومیاں کی حیثیت بہت بڑھ جاتی ہے۔والدین کے لیے وہ بہت زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔انھیں ضرورت سے زیادہ پیارکیاجانے لگتاہے۔اُن کی ہرفرمائش کوفوراََپوراکیاجاتاہے۔میاں،بیوی کے درمیان وہ رابطے کاواحدذریعہ ہوتے ہیں۔ببلومیاں کوبھی حیرت ہوتی ہے کہ آخرمعاملہ کیاہے کہ انھیں کبھی اُدھربھیجاجاتاہے اورکبھی اِدھر!وہ پیغام رسانی کاکام حسن وخوبی سے انجام دیتے رہتے ہیں۔اس درمیان ببلومیاں کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے یاگھرمیں کوئی مہمان آجاتاہے یاکوئی غیرمعمولی واقعہ ہوجاتاہے تومیاں،بیوی کے درمیان کشیدگی خودبخودختم ہوجاتی ہے اورلگتاہی نہیں کہ ان میں اَن بن تھی۔ 
یہ گھریلوکشیدگی مہذّب اورتعلیم یافتہ گھرانوں کی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی ناخواندہ یانیم خواندہ گھرانوں میں پیداہوتی ہے توآخری تان گالی گلوج اورمارپیٹ پرٹوٹتی ہے۔کشیدگی اورتناؤکے درمیان اگرفریقین میں کوئی بیمارپڑجاتاہے یاکوئی بچہ علیل ہوجاتاہے یاگھرمیں کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آجاتاہے توگھرکی فضارفتہ رفتہ معمول پرآجاتی ہے۔پھروہی روزوشب پھروہی زندگی۔کبھی کبھی تھوڑی سی گھریلوکشیدگی کھٹّے میٹھے لمحوں کااحساس دلاتی ہے۔میاں بیوی کے تعلق کومستحکم بھی کرتی ہے اورپیارومحبت میں اضافے کاسبب بھی ہوتی ہے۔ازدواجی زندگی میں مزید خوش گواریت پیداہوتی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی تسلسل اورتواتراختیارکرلیتی ہے توفریقین کے آپسی اختلافات اورکشیدگی کے مضراورمنفی اثرات سب سے زیادہ بچوں پر پڑتے ہیں۔گھریلوکشیدگی سے گھرکی فضامیں ہروقت جو ایک تناؤ،سنسنی خیزخاموشی،اُداسی اورمتوقع مہابھارت کی سی کیفیت ہوتی ہے،وہ بچوں کی ذہنی وجسمانی نشوونماکے لیے زہرِقاتل ہوتی ہے۔ 
گھریلوکشیدگی کے اس ماحول میں بچے ہراساں،خاموش،اداس،غم زدہ اورمتفکررہتے ہیں۔ہمہ وقت اُن پرخوف ودہشت اورایک طرح کی بے چارگی و محرومی اورمایوسی طاری رہتی ہے۔والدین کے درمیان متوقع مہابھارت کی وجہ سے معصوم بچے ہروقت خائف ،گم سم اورخاموش رہتے ہیں۔چونکہ بچوں کواپنے والدین سے وہ پیار،وہ محبتیں اورشفقتیں نہیں مل پاتیں جن کے وہ مطلوب،متلاشی اورتمنّائی ہوتے ہیں اورجو ان کی ضرورت اوران کا حق ہیں۔والدین کی بے توجہی کے سبب اُن میں متعددنفسیاتی امراض پیداہوجاتے ہیں۔ہروقت چہلیں کرنا،کھیناکودنا،ہنسناہنسانابچوں کی فطرت ہوتی ہے لیکن جب فضااورماحول ناخوش گوارہوتے ہیں توبچوں کی ذہنی و فطری قوت اچھی طرح بیدارنہیں ہوپاتی۔ان میں اضافہ نہیں ہوپاتا۔صلاحیتوں کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں۔گھریلوکشیدگی کے درمیان خوف ودہشت،اُداسی اورخاموشی کی حالت میں پرورش پانے والے بچے ذہنی ونفسیاتی اورجسمانی امراض کی وجہ سے کبھی کوئی بڑاکارنامہ انجام نہیں دے پاتے۔وہ بزدل اورڈرپوک ہوجاتے ہیں ۔مایوسی انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اُن میں احساسِ کمتری کے جذبات شدّت کے ساتھ عودکرآتے ہیں۔اُن کے افعال اورفیصلے جذباتی ہوتے ہیں۔والدین کی توجہ سے محروم بچے ایک طرح سے ذہنی طورپرناکارہ ہوتے ہیں اوراحساسِ محرومی اُ ن کی پوری زندگی کو سانحاتی بنادیتاہے۔وہ بڑے ہوکر ایک ناکام زندگی جیتے ہیں۔ 
نفسیات کے ماہرین کامتفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے کشیدہ اورناخوش گوارماحول میں پرورش پانے والے بچے زندگی میں کبھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ 
بچوں کی جسمانی وذہنی نشوونمامیں خوش گوارگھریلوفضابہت زیادہ معاون ومددگارہوتی ہے۔اس لیے جن گھروں میں فضاکسی بھی وجہ سے کشیدہ اورمکدّرہوان گھروں کے افرادکی بڑی ذمّہ داری ہے کہ وہ نئی نسل پررحم کریں۔خاندان کی فلاح وبہبوداوربہتری کے لیے مصالحت اوردرگزرکاراستہ اختیارکریں۔بچو ں کے ساتھ شفقت اورمحبت سے پیش آئیں۔نئی نسل کوتباہ وبرباد ہونے سے بچائیں
۔ موڈکتنابھی خراب کیوں نہ ہومگرجب گھرمیں داخل ہوں تومسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ داخل ہوں۔اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت ضرورگزاریں۔اسکول کاہوم ورک دیکھیں۔تعلیم کے معاملے میں اُن کاحوصلہ بڑھائیں۔بچوں کی ضرورتوں کاپوراخیال رکھیں۔انھیں محسوس نہ ہونے دیں کہ اُن سے غفلت برتی جارہی ہے یااُنھیں نظراندازکیاجارہاہے۔اس حقیقت کوکبھی فراموش نہ کریں کہ گھریلوماحول ہی انسان کی کردارسازی کرتاہے۔اچھایابُرابناتاہے۔اپنے بچوں کوکامیاب دیکھناچاہتے ہیں تواُن کی رہنمائی کریں اور اُن کے ساتھ پوراپوراتعاون کریں۔ 
٭٭ 

            * انس مسرؔورانصاری 
                   قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن 
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر224190(یو،پی) 
                     رابطہ/9453347784/َ

عربی زبان وادب سے بے توجہیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

عربی زبان وادب سے بے توجہی
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
 عربی زبان وادب کے امتیازات وخصوصیات میں سب سے بڑی خصوصیت اس کا قیامت تک باقی رہنا ہے، کیوںکہ یہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی زبان ہے، اور اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ کہہ کر خود لے لی ہے، اور جب قرآن کریم کو محفوظ رہنا ہے تو کتاب کی زبان عربی مبین کو کیوں کر ختم کیا جا سکتا ہے، دنیا کی بہت ساری زبانوں کا وجود باقی نہیں رہا یا وہ لکھنے بولنے کی زبان کے بجائے میوزیم میں پائی جانے والی زبان بن گئی ہے، عربی زبان وادب کے ساتھ ایسا ہونے کا کہیں کوئی شائبہ نہیں ہے۔
اس کی دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہماری علمی ، ادبی، مذہبی اور ثقافتی زبان ہے، بہت سارے ملکوں کی یہ عوامی اور سرکاری زبان ہے، جس کی وجہ سے عربی زبان پر قدرت رکھنے والوں کے لیے معاش کے حصول کے بہترین مواقع یہاں حاصل ہیں، یہی وجہ ہے کہ بر صغیر ہندو پاک اور بنگلہ دیش کے باشندگان بڑی تعداد میںان ممالک میں حصول روزگار کے کے لیے فروکش ہیں اور بر صغیر ہی کیا، دنیا کے ہر ملک سے لوگ یہاں معاش کی تلاش میں آتے ہیں، اور روزگار سے لگ کر نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں، بلکہ یہ ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے لیے غیر ملکی زر مبادلہ کی شکل میں اپنے اپنے ملک کے معاشی نظام کومستحکم کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں سری لنکا اور پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخیرہ کی کمی کی وجہ سے کیسے حالات پیدا ہو گیے تھے، ایسا اس لیے ہوا کہ غیر ملک کو سامان در آمد اور بر آمد کرنے میں ملکی کرنسی کے بجائے غیر ملکی زر مبادلہ کی ضرورت پڑتی ہے، عرب ممالک میں کام کرنے والے اس ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں۔
 اس زبان کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ہمارا بڑا علمی ذخیرہ قرآن وحدیث، تفسیر وفقہ اور ادب کا اس زبان میں محفوظ ہے، یہ ایک مالدار زبان ہے ا س لیے کہ جتنی تعبیرات اور ایک شئی کے لیے جتنے الفاظ کمیت وکیفیت کے تغیر وتبدل کو واضح کرنے کے لیے اس زمان میںموجود ہیں، ایسا کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔
ان خصوصیات وامتیازات نیز اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اسے مدارس اسلامیہ اور یونیورسیٹیوں میں زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھایا جائے، اور اس قدر مہارت پیدا کردی جائے کہ وہ طلبہ کی عام بول چال کی زبان بن جائے، صرف عبارتوں کے سمجھنے، مسائل کے حل کرنے اور جزئیات کو ذہن نشیں کرانے کی زبان کی حیثیت اسے نہ دی جائے، بلکہ اسے بول چال کی زبان مشق وتمرین کے ذریعہ بنائی جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ تقلیدی اور روایتی انداز کو ترک کرکے براہ راست اس زبان میں لکھایا، پڑھا یا جائے، انداز ترجمہ کا نہ ہو بلکہ طریقۂ تعلیم میں میڈیم عربی رکھا جائے تو یہ کام انتہائی آسان ہوجائے گا۔ 
بد قسمتی سے ہمارے مدارس اسلامیہ اور دانش گاہوں میں عربی ادب کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس سے کتابیں حل ہوجاتی ہیں اور امتحان میں لڑکے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے اندر بول چال اور لکھنے کی مضبوط صلاحیت نہیں پیدا ہوتی، مشق وتمرین اور عربی بول چال کا ماحول بنا کر اس کام کو بحسن وخوبی انجام دیا جاسکتا ہے، اس کے لیے ماہر اساتذہ کی بھی ضرورت ہے، جو مدارس میں تنخواہ انتہائی کم ہونے کی وجہ سے نہیں مل پاتے۔ ہماری درسگاہوں سے جو قیمتی جواہر نکلتے ہیں اور عربی زبان وادب میں ممتاز ہوتے ہیں وہ حصول معاش کے لیے عرب کا رخ کر تے ہیں یا یونیورسیٹیوں کی راہ لیتے ہیںاور ہمارے مدارس کو اچھے اساتذہ نہیں مل پاتے، ہم اچھی تنخواہ اور سہولت دے کر عربی زبان وادب کے ماہرین کو اس کام پر لگا سکتے ہیں، معاملہ عربی ادب کو قرآن واحادیث کے زبان کے ناطے خصوصی توجہ کا ہے، عربی میں مہارت سے نصوص کا سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوگا، اور ہم اس کو دوسری زندہ زبانوں کی طرح برت سکیںگے، یہ بھی ایک کام کرنے کا ہے جس سے دنیا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ آخرت کی دولت بھی نصیب ہوگی، خانقاہ رحمانی مونگیر میں حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے ایسا نظام بنایا ہے کہ حفظ کے بچے عربی زبان بولنے پر قادر ہوجاتے ہیں، خواہش مند لوگوں کو اس نظام کو قریب سے جا کر دیکھنا اور سمجھناچاہیے اورممکن ہو تو اسے ہر مدرسہ میں رائج کرنا چاہیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...