Powered By Blogger

جمعرات, جنوری 11, 2024

قبروں پر بلڈوزر

قبروں پر بلڈوزر 
اردودنیانیوز۷۲ 

پچھلے تین مہینے سے صہیونی افواج کی غزہ پر بمباری،عام شہریوں کی گرفتاری، دکان ومکان کی مسماری اور ہسپتال کی تباہی کی خبریں موصول ہورہی ہیں،مگر یہ خبر پہلی بار مل رہی ہے کہ فلسطین کے قبرستان پر بھی اسرائیلی کارروائی شروع ہوگئی ہے، اس وقت جبکہ غزہ شہرسنسان پڑا ہے، انسانی آبادی ملبہ کے نیچے دبی ہوئی ہے، شہربھی قبرستان کا منظر پیش کررہا ہے، اس سے بھی درندوں کو سکون نہیں ملا تو اب وہاں کےقبرستان کو بھی زیر وزبر کرنے کی تیاری ہے۔
بقول شاعر؛
                آباد کرکے شہر خموشاں ہرچار سو 
            کس کھوج میں ہے تیغ ستمگر لگی ہوئی 

یہ بات تین دن پہلے کی ہے۔غزہ  شہر کے مشرق میں واقع "التفاح "نامی محلے کےقبرستان کواسرائیلی فوج نے بلڈوز سے تہس نہس کر دیا ہے، شہدا کی لاشیں نکال کران کے باقیات کو زمین پرپھیلادیا ہے،انہیں رونداگیا ہے، کل گیارہ سو قبریں اکھیڑ دی گئی ہیں۔  پچاس شہداء کی لاشیں غائب بتائی جارہی ہیں۔
 گورستان کے اس منظر نے پوری دنیا کے لوگوں میں بے چینی پیدا کردی ہے، اس تکلیف دہ منظر نےمردہ دلوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، پوری انسانی برادری شرمسار ہوئی ہے، سننے والوں کو یہ واقعہ افسانہ محسوس ہوتا ہے،نیز انسانیت کے لئےایک سوالیہ نشان قائم ہوگیا ہے کہ کیا ایک انسان اس حد کو پار کرسکتا ہے؟کیا کسی مذہب میں اس حد تک گزرنے کی گنجائش ملتی ؟جواب ہر حال میں نفی میں آئے گا۔
مذہب اسلام میں انسان کی تکریم کا حکم ہے،قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ؛ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے (قرآن )اس لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے، خواہ وہ کسی برادری اور کسی مذہب سے وابستہ ہوں، بحیثیت انسان اس کے حقوق ایک مسلمان پر لازم آتے ہیں، ان کاخیال کرنا ہی مسلمانی ہے۔خانہ کعبہ جو خدا کا اس دھرتی پر پہلا گھر ہے،اپنی نمازوں میں مسلمان جس کی جانب رخ کرتے ہیں، ایک انسان کی عظمت اس گھر سے بڑی چیز ہے۔انسان زندگی میں بھی انسان ہے ،اور مرنے کے بعد بھی وہ عزت وتکریم کا حقدار ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں انسانی لاش کی بے حرمتی سے منع فرمایا ہے۔جنگ کے میدان میں بھی اس کی اسلام میں قطعا اجازت نہیں ہے کہ دشمنوں کی لاش کی بے حرمتی کی جائے،بخاری شریف کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار اورلاش کا مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔مذہب اسلام کیا کوئی بھی مذہب اس بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا ہےاور نہ عالمی جنگی قانون میں اس کی گنجائش ہے۔باوجود اس کے اسرائیل اس حد تک صرف اور صرف اسی لئے اتر گیا ہے کہ فلسطینیوں کی جدوجہد کو کمزور کرد ہے، اور ان کے عزم واستقلال کو متزلزل کردے۔درحقیقت اس کوشش میں اسرائیل ناکام ونامراد ہوچکا ہے۔اس کی بڑی دلیل فلسطین سے متعلق موجودہ مقامی وعالمی حالات ہیں، جو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ فلسطینیوں کے عزائم مزید پہاڑ جیسے مضبوط ہوتے چلے جاریے ہیں، اب قبرستان پر شہداء کی لاشوں کے ساتھ صہیونی توہین سے یہ گھبرانے والے نہیں ہیں۔اب تو ان کی جدوجہد اور صبر بھی اسلام کی دعوت بن گئی ہےاوراس کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہورہی ہے۔ہفتہ عشرہ کے اندرایک وقیع تعداد نے یہ سب دیکھ کر اسلام قبول کیا ہے ۔ڈیوڈ گولڈ نامی پادری جنہوں نے  پینتالیس سال مسلسل چرچ کی خدمت کی ہے اب وہ  اسلام کے لیے وقف ہو چکے ہیں، اپنا نیا اسلامی نام عبدالرحمن بھی تجویز کر چکے ہیں، اسٹریلیا کی تیس خواتین نے ایک ساتھ اسلام قبول کیا ہے، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اسلام میں کس وجہ سے داخل ہوئی ہیں توانہوں نےیہ بتلایا ہے کہ "فلسطینیوں کی جدوجہد نے ان دلوں کو چھو گئی جس کے باعث انہوں نے اسلام قبول کیا ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے مسائل انہیں روزانہ کی بنیاد پر رلاتے ہیں "۔
 ان واقعات کی روشنی میں یہ برملا کہا جا سکتا ہے کہ یہ قبرستان کی کاروائی بھی دعوت اسلام کا بڑا ذریعہ سبب بنے گی،ان شاء اللہ العزیز۔
 قران کریم میں ارشاد ربانی ہے دنیاوی ساز و سامان پر فخر نے تم کو اخرت سے غافل کیے رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبرستان پہنچ جاتے ہو، ہرگز نہیں تم کو بہت جلد قبر میں جاتے ہی معلوم ہو جائے گا، پھر دوبارہ تم کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا، اب تو تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے ،پھر تم اس کو اس طرح دیکھو گے جو تم کو پختہ یقین ہوجائے گا، پھر اس روز تم سے نعمت کی پوچھ ہوگی( قرآن )
آج غزہ کو قبرستان بنانے والے اور وہاں کے قبرستان پر بلڈوزر چلانے والے ان صہیونیوں کا انجام بھی دوزخ ہے۔
انہیں اپنے جنگی ساز و سامان اور بلڈوزر پر بڑا نشہ ہے،اس سے تعمیر کا کام نہ لیکر تخریب کاری مچارہے ہیں۔
اب اس ناپاک عزائم کو لیکر قبرستان میں بھی پہونچ گئے ہیں۔بار بار اسرائیل کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ وہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی نہ کرے باوجود اس کے وہ اس کا بار بارمرتکب ہورہا ہے،اقوام متحدہ کی ہدایت بھی اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہے، جس طرح قرآن ایسے لوگوں کو بار بار خبردار کرتا ہے کہ اس حد تک زیادتی کا مطلب اخرت کی تباہی ہے،عنقریب وہ اپنے انجام کو پہونچ جائیں گے۔پھر اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں گے کہ ظلم کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟


مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل

ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

بدلتے ہندوستان میں ہرچھوٹے،بڑے کے ذہن میں ایک سوال گردش کر رہا ہے کہ موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے؟ ظاہر ہے یہ بات صرف اللہ رب العزت جانتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے، انسان حالات کا تجزیہ کر سکتا ہے، اندازہ لگا سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ نوشتہئ دیوار پڑھنے کی کوشش کر سکتا ہے، ان کوششوں کے نتیجے میں جو چیز چھن کر سامنے آئے گی وہ حتمی تو نہیں ایک ظنی بات ہوسکتی ہے، یہ گمان حقیقت کے قریب بھی ہو سکتا ہے اور دور بھی۔
 واقعہ یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان کے موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہیں، ہندتوا کی تیز لہر نے مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان پہونچایا ہے، ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے اور مسلمان خوف کی نفسیات میں جی رہے ہیں، ماب لنچنگ، فسادات، مسلم پرسنل لا سے متعلق قوانین میں عدالت کے ذریعہ ترمیم کے واقعات کثرت سے ہو رہے ہیں، بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہوچکا ہے، بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ اور دہلی کی سنہری مسجد پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں، تین طلاق کا لعدم ہو کر قابل تعزیر معاملہ بن گیا ہے، لیو ان ریلیشن شپ یہاں جائز ہے اور اس میں تعداد کی بھی قید نہیں ہے، لیکن کثرت ازدواج کو جرم قرار دیا جا رہا ہے، آسام میں اس سلسلے کا بل اسمبلی میں پیش ہونے والا ہے، سی اے اے، این آر سی کو 2024 کے انتخاب کے قبل نافذ کرنے کی بات زوروں پر چل رہی ہے اور وزیر داخلہ نے اس کے لیے کمر کس لیا ہے، بعض جگہوں پر فرقہ پرستوں نے مسلم تاجروں اور چھوٹے دکانداروں سے سامان کی خریداری پر روک لگا رکھی ہے یوٹیوب پر اس مہم کی کئی کلپ آپ کو مل جائیں گی، غرضیکہ مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ کی جا رہی ہے، انہیں جانی،مالی وسماجی، بلکہ اعتقادی مسائل ومشکلات کا سامنا ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
 سماجی طور پر مختلف عنوانات سے مسلمانوں کو الگ تھلگ کر دینے اور انہیں نفسیاتی دباؤ کے ذریعہ مضمحل کرنے کی مہم بھی زوروں پر چل رہی ہے، جس کی وجہ سے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں، ڈاڑھی اور حجاب کا معاملہ اسی زمرے میں آتا ہے، حکومتی سطح پر معاملات کے نمٹانے کے بھی پیمانے دو ہو گیے ہیں، نواب کنور دانش کوپارلیامنٹ میں گالیاں دے کر بھی کوئی بچ جاتا ہے اور حکومت پر تنقید کرنے پر بعضوں کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے،جوہر یونیورسٹی برباد کی جاتی ہے، جب کہ غیروں کی کتنی عبادت گاہیں غیر قانونی طور پر قبضہ کی زمینوں پر قائم ہیں، کوئی جرم کرکے بھی دندناتا پھرتا ہے اور کوئی بے گناہی کے باوجود داروگیر کا شکار ہوتا ہے، حالات تویہی ہیں اور ان حالات کی روشنی میں اگر مستقبل کی طرف جھانکیں تو وہ تاریک نظر آتا ہے بہتری کی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔
 لیکن ہم مسلمان ہیں، قنوطیت یاس اور نا امیدی میں جانے سے ہمیں روکا گیا ہے اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہے، اللہ کی رحمت سے نا امیدی کو کفر کا شعار بتایا گیا ہے،ا س لیے ان تاریک راتوں کے بعد ہمیں ”صبح نو“ کی نمود دکھائی پڑتی ہے، فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے۔
 دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
رات کی تاریکی سے دن کے سورج نکلنے کی بات وہم وخیال نہیں، مشاہدہ اور صداقت پر مبنی ہے، جس کا ہم لوگ روز مشاہدہ کرتے ہیں، اس لیے ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اس شب دیجور کی سحر یقینا ہوگی، تاریخ نے اس کا مشاہدہ بار بار کیا ہے کہ ”پاسباں مل گیے کعبے کو صنم خانے سے“۔
 معاملہ نادرشاہ درانی کا ہویا تاتاریوں کا، مسلمانوں پر بڑا سخت وقت گذرا اورکوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ مسلمان اس سَیل بلا خیزسے کبھی نکل پائیں گے، لیکن نکلے اور آب وتاب کے ساتھ نکلے، انگریزوں نے مسلمانوں کی حکومت کو تاراج کیا، شیر میسور ٹیپو سلطان اور مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر بھی ان کے ظلم وستم کی بھینٹ چڑھ گیے، اس وقت بھی دنیا مسلمانوں کے لیے تاریک سی ہو گئی تھی، کم وبیش آٹھ سو سال تک حکمرانی کے بعد یہ زوال ظاہر ہے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنے والا تھا، لیکن 1947میں ملک آزاد ہوا تو مسلمان اسی شان وشوکت کے ساتھ دوبارہ منظر عام پر آئے، زمینداری ختم ہوئی، شان وشوکت پر زوال آیا، کئی مسلم ریاستیں ہاتھ سے نکل گئیں، ہر طرف گھور اندھیرا ہی اندھیرا تھا، ایسے میں مسلمان نئے حوصلے اورجذبہ کے ساتھ میدان میں آئے، مولانا ابو الکلام آزاد نے مسلمانوں کے اکھڑتے قدم اور پاکستان کی طرف تیزی سے ہجرت کر رہے لوگوں کو آواز لگائی تو مسلمان ہندوستان میں جم گیے اور وہ اس وقت پوری ملکی آبادی میں کم وبیش اٹھارہ فی صد ہیں، بعضے تو یہ تعداد بائیس فی صد بتاتے ہیں، اس لمبی مدت میں تاریخ کی آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا، بہت سارے مد وجزر آئے، سُدھی تحریک چلی، لڑکیوں کو مرتد کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے گیے، مسلمانوں کو ان کی تہذیب وثقافت سے دور کرنے کی مہم پہلے بھی چل رہی تھی اور اب بھی چل رہی ہے، لیکن مسلمان وہ قوم ہے جسے روئے زمین سے ختم نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ یہ ابدی اور دائمی امت ہے، اور اسے ہر طوفان سے نکلنے کا فن آتا ہے، سامنے کی بات ہے کہ اگر اسلام قیامت تک کے لیے ہے تو اس کے ماننے والے بھی قیامت تک رہیں گے۔
 اس رجائیت کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے نہ تو اب ابابیل کا لشکر آئے گا اور نہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کی طرح آسمان سے من وسلویٰ کا نزول ہوگا، قدرت کا نظام ہے کہ سارے کام اسباب کے ذریعہ ہوتے ہیں، اسباب سے پہلو تہی کرکے صرف امید کا دامن تھام کر ہم حالات کو بدل نہیں سکتے، ہمیں ان حالات کو بدلنے کے لیے بڑے عزم وارادہ کے ساتھ مثبت اور مضبوط فیصلے لینے ہوں گے اور اسے ترجیحی بنیادوں پر تنفیذ کے مراحل سے گذارنا ہوگا، تبھی ہم ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی داغ بیل ڈال سکیں گے،  تبدیلیاں لانے کے لیے درج ذیل کام ہمیں لازماً کرنا ہوگا۔
۱۔سب سے پہلے ہمیں متحد ہونا ہوگا، اتحاد میں قوت ہے، ہم جس قدربھی اس بات کی تردید کریں کہ ہم ٹکروں میں بنٹے ہوئے نہیں ہیں، واقعہ یہی ہے کہ ذات برادری، مسلک ومشرب، ادارے، جمعیت اور جماعتوں کے نام پر ہم ٹکڑوں میں بنٹ گیے ہیں رفیق بن کر کام کرنے کے بجائے ہم آپس میں فریق بن گیے ہیں، ہمیں ملی کاموں میں ایک امت اور ایک جماعت کی حیثیت سے خود کو متعارف کرانا ہوگا۔آخر کچھ تو بات ہے کہ دو فی صد سکھ سے سارا ہندوستان ڈرتا ہے، اور حکومت تک اس کے خلاف قدم اٹھانے سے خوف کھاتی ہے، لیکن ایک مسلمان ہے جس کی متحدہ قوت نہیں ہے، اس لیے اسے پریشانیوں کا سامنا ہے، ہم چاہے جس قدر اس کا انکار کریں، واقعہ یہی ہے کہ ہمارے اندر کوئی متحدہ قیادت نہیں ہے، جس کے پیچھے ہر مسلک اور ہر مکتب فکر کے مسلمان چلنے کو آمادہ ہوں، لے دے کر ایک مسلم پرسنل لا بورڈ ہے، لیکن اس کا دائرہ کار صرف مسلم پرسنل لا ہے،ایسے میں ضرورت ہے کہ ایک مشترکہ قیادت کھڑی کی جائے، یہ کام آسان یقینا نہیں ہے، لیکن اسے نا ممکن نہیں کہا جا سکتا۔
 ۲۔ دوسری چیز میدان عمل کی تبدیلی ہے، پتہ نہیں کن کن امور میں ہم اپنی توانائی صرف کرتے ہیں، ہمیں ترجیحی طور پر تعلیم کی ترویج واشاعت اور معیاری تعلیم کے فروغ پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے، یہ وہ میدان ہے جس میں تصادم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، شاملی کے میدان میں انگریزوں سے جنگ کرتے ہوئے جب حافظ ضامن شہید ہو گیے تو ہمارے بڑے جن میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒجیسے علماء شامل تھے،ا نہوں نے اپنا میدان عمل بدلا، اور دار العلوم دیو بند کا قیام عمل میں آیا، یہ انگریزوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کا معاملہ نہیں تھا، یہ ایک ایسے میدان کا انتخاب تھا، جس میں بلا واسطہ انگریزوں سے تصادم کے خطرات نہیں تھے، پھرجب دار العلوم کی بنیاد مضبوط ہو گئی تب وہ بلا واسطہ جد وجہد آزادی میں علماء دیوبند کود گیے۔جس سے ہر تاریخ داں واقف ہے۔
۳۔ تیسرا میدان اقتصادیات کا ہے، مفلس قومیں اور افراد نفسیاتی کمتری کا شکار ہوتی ہیں اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتی ہیں،اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ہمیں چھوٹی بڑی صنعتوں اور گھریلو پیداوار کی طرف توجہ دینی ہوگی، تبھی ہمارے لیے مفلسی کے عذاب سے نکلنا ممکن ہو سکے گا۔ان صنعتوں کے قیام کے لیے مختلف ادارے اور تنظیموں کو بھی آگے آنا پڑے گا،تبھی یہ بیل سر چڑھ سکے گی، طریقے اور بھی ہیں، لیکن پہلے مرحلہ میں ترجیحی طور پر ہندوستان میں ان کاموں کو کیا جائے، انشاء اللہ حالات بدلیں گے اور مسلمانوں کا مستقبل روشن ہوگا، ہمیں یہیں رہنا ہے، اب دوسری ہجرت ہم سے نہیں ہونے والی، اور کریں بھی تو کون ملک ہمیں قبول کرنے کو تیار ہوگا، لیکن اس کے لیے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ
طلوع صبح کی خاطر ہمیں بھی جاگنا ہوگا        وہ جائیں میکدہ میں جنہیں لطف شام لینا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...