اعظم گڑھ: اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں باہمی ہم آہنگی کی ایسی صورتحال سامنے آئی ہے جہاں ہندو بیٹی کی شادی کے لیے مسلم خاندان نے اپنے آنگن میں سات پھیروں کے لیے نہ صرف منڈپ لگایا بلکہ ہندو مسلم خواتین نے شادی میں رات گئے تک منگل گیت بھی گائے۔ جس کی وجہ سے شادی کی تقریب میں رونق آ گئی۔
اتوار, اپریل 24, 2022
مسلم خاندان نے کرائی ہندو بیٹی کی شادی
اعظم گڑھ: اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں باہمی ہم آہنگی کی ایسی صورتحال سامنے آئی ہے جہاں ہندو بیٹی کی شادی کے لیے مسلم خاندان نے اپنے آنگن میں سات پھیروں کے لیے نہ صرف منڈپ لگایا بلکہ ہندو مسلم خواتین نے شادی میں رات گئے تک منگل گیت بھی گائے۔ جس کی وجہ سے شادی کی تقریب میں رونق آ گئی۔

مسلمان ہی نہیں ، دیگرمذہبی اقلیتیں بھی ' : UCC یکساں سول کوڈکےخلاف ' آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ
اتراکھنڈ میں نو منتخب بی جے پی حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ (Uniform Civil Code) کو لاگو کرنے کی کارروائی شروع کرنے کے دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (All India Muslim Personal Law Board) یا اے آئی ایم پی ایل بی نے کہا ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذہبی اقلیتوں کو بھی اس پر اعتراض ہے۔ بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے اپنی میٹنگ کے دوران کرناٹک میں حجاب کے حالیہ تنازعہ (hijab controversy in Karnataka) پر بھی تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں اس کیس کا مضبوطی سے مقابلہ کرے گی۔ اتوار کے روز یہاں کمیٹی نے نشاندہی کی کہ میزورم اور دیگر مقامات پر قبائلی قوانین موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اکثریتی برادری کے ساتھ ساتھ مذہبی برادریوں کے اندر بھی مختلف قوانین موجود ہیں۔ بورڈ کے ایک سینئر رکن نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ آئین نے پہلے ہی ہر ایک کو اپنی ثقافت، رسم و رواج اور روایات کو برقرار رکھنے کا حق دیا ہے۔ کسی بھی رواج، روایت یا قانون کو آئینی طور پر یا ہندوستان کی اخلاقیات کی بنیاد پر پورے ملک میں یکساں طور پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پشکر سنگھ دھامی حکومت کی پہلی کابینہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یو سی سی کو لاگو کرنے کے لیے ماہرین کے پینل کی سربراہی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کریں گے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ: اے آئی ایم پی ایل بی کا قیام 1973 میں ہندوستان میں مسلم پرسنل لاز بالخصوص مسلم پرسنل لاء (شریعت) کے تحفظ اور مسلسل لاگو ہونے کے لیے مناسب حکمت عملی اپنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ بورڈ میں زیادہ تر مسلم فرقوں کی نمائندگی کی جاتی ہے اور اس کے ممبران میں ہندوستانی مسلم معاشرے کے ایک کراس سیکشن سے تعلق رکھنے والے نمایاں لوگ شامل ہیں، جس میں مذہبی رہنما، علماء، وکلاء اور سیاست دان اور دیگر پیشہ ور افراد شامل ہیں۔ اتوار کے روز اس کے صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی کی سربراہی میں ایگزیکٹو باڈی کے اجلاس کے دوران اراکین نے حجاب کے معاملے کو سپریم کورٹ میں سختی سے مسئلہ کو اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ بورڈ نے پہلے ہی اس معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ہے، انہوں نے کہا کہ تمام سرکاری اداروں کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی مذہبی مسئلہ پر کسی مذہب کے ماہرین سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید پڑھیں: niform Civil Code: کئی ریاستیں یونیفارم سول کوڈ کا کیسے بنا رہی ہیں منصوبہ؟ اور کیوں...؟

وزیر ریلوے کے فوری ایکشن : Indian Railways سے دور ہوئی والد کی بڑی ٹینشن ، جانیے کیا ہے معاملہ
بیٹے سے رابطہ نہیں ہونے پر بڑھ گئی والد کی ٹینشن
شانتنو پہلی بار ٹرین سے اکیلا جا رہا تھا، اس لیے راؤ اور ان کی بیوی نے اسے ایک موبائل فون دیا تاکہ راستے میں کوئی بات ہونے پر وہ اس سے رابطہ کر سکے۔ صبح تقریباً 10 بجے راؤ نے بیٹے کا حال معلوم کرنے کے لیے فون کیا تو ان کا فون بند تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے دوبارہ کال کی۔ تب بھی شانتنو کا فون بند پایا گیا۔ اس کے بعد اس نے لگاتار کئی بار فون کیا لیکن فون بند ہی تھا۔ جس کے بعد ان کی پریشانیاں بڑھنے لگیں۔
یہ بھی پڑھیں:
والد نے ریلوے منسٹر کو کیا ٹوئٹ
انہوں نے بغیر کسی تاخیر کے صبح 10:34 بجے بیٹے کے ٹرین ٹکٹ کے پی این آر کے ساتھ وزیر ریلوے کو ٹویٹ کیا اور مدد کی التجا کی۔ راؤ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کا بیٹا ملیالم نہیں جانتا اور پہلی بار ٹرین میں اکیلا سفر کر رہا ہے۔ راؤ نے بتایا کہ ٹویٹ کرنے کے 15 منٹ بعد انہیں ریلوے کنٹرول روم سے کال آئی اور ان سے بیٹے کے بارے میں تفصیلی معلومات لی گئی۔ یہ اطلاع آر پی ایف کو بھیجی گئی اور صبح 11:06 پر انہیں اپنے بیٹے کے بارے میں اطلاع دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:
34 منٹ بعدRPF نے والد سے بیٹے کی کرائی بات
راؤ نے بتایا کہ جیسے ہی ٹرین شورنور جنکشن پر پہنچی، آر پی ایف اہلکار ان کے بیٹے کی بوگی میں داخل ہوئے اور اس کا نام پکارا۔ پہلے تو اس کا بیٹا ڈر گیا کہ اسے کیوں تلاش کیا جا رہا ہے۔ جب آر پی ایف جوانوں نے اسے ساری بات بتائی اور اسے اپنے والد سے بات کروائی تو اس کا خوف دور ہوگیا۔ شانتنو نے بتایا کہ اس کا فون غلطی سے بند ہو گیا تھا۔ راؤ نے فوری کارروائی کے لیے وزیر ریلوے، ریلوے حکام اور RPF (ریلوے پروٹیکشن فورس) کا شکریہ ادا کیا اور ان کی تعریف کی۔ انہوں نے بتایا کہ بعد میں ٹی ٹی ای ان کے بیٹے کے پاس پہنچا اور راستے بھر اس کی دیکھ بھال کی

بہار میں مدارس منتظمہ کمیٹی پر نکیل ؟ -پروفیسر مشتاق احمد
بہار میں مدارس منتظمہ کمیٹی پر نکیل ؟ -پروفیسر مشتاق احمدموبائل:9431414586
ای میل: rm.meezan@gmail.com
بہار کے مسلم اقلیت طبقے کی تعلیمی شرح کے اضافے میں مدارس کا اہم کردار ہے۔ اگر چہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بیشتر مدارس معیار ووقار کے تقاضوں کو پورے نہیں کرتے اور ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کی منتظمہ کمیٹی رسّہ کشی کی شکار رہی ہے۔ نتیجہ ہے کہ بہارریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ، پٹنہ جو ریاست بہار کے تمام مدارس کے امتحانات اور اس کے نتائج کے عمل کو پورا کرنے کا کام کرتا ہے اس کے کام بھی مدارس کے تنازعوں کی وجہ سے متاثر ہوتے رہے ہیں اور بعض مدارس کے مقدمے ضلعی عدالت سے لے کر ہائی کورٹ پٹنہ تک پہنچے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان تنازعوں کی وجہ سے اکثر مدرسے میں گروپ بندی پروان چڑھتی رہی ہے اور بعض مدرسوں میں تصادم کے حالات پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اب تک ریاست بہار میں مدارس انتظامیہ کو یہ آئینی اختیار حاصل رہا ہے کہ وہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کی بحالی کے لئے خود مختار رہی ہیں۔ دراصل اساتذہ اور ملازمین بحالیوں کو لے کر ہی بیشتر مدارس میں تنازعے پیدا ہوتے رہے ہیں اور گروپ بندی کا ماحول سازگار ہوتا رہا ہے جس کا اثر تعلیمی ماحول پر براہِ راست پڑا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ حکومت کو اب یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ تمام تر تنازعوں کی بنیادی جڑیں اساتذہ اور ملازمین کی بحالی کے اختیار کو منتظمہ کمیٹی سے الگ کیا جائے اور یہ اختیار حکومت نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے ۔ اگر چہ یہ آئین کی رو سے مناسب نہیں ہے کہ آئین نے اقلیت طبقے کو اپنے مزاج کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انتظام وانصرام کی آزادی دی ہے ۔ لیکن اب نئے قانون سے یہ اختیار سلب ہو جائے گا ۔ یوں تو محکمۂ تعلیم نے وضاحت کی ہے کہ حکومت کا نظریہ بالکل صاف ہے کہ مدارس کی جدید کاری کے ساتھ ساتھ اس کے انتظام وانصرام کو بھی صاف وشفاف بنایا جائے۔ مگر اقلیت طبقے کے حلق سے نیچے یہ بات اتر نہیں رہی ہے۔لہذا اس نئے قانون پر بحث ومباحثہ شروع ہو گیاہے ۔ ایک طبقہ حکومت کے فیصلے کی حمایت میں بیان بازی کر رہاہے تو دوسرا طبقہ اسے اقلیت طبقے کے ساتھ نا انصافی قرار دے رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس قانون کے نفاذ کے معاملے میں کون سا رخ اختیار کرتی ہے ۔
واضح ہو کہ ریاست بہار میں 1981ء میں بہار مدرسہ تعلیم کے لئے قانون بنایا گیا تھا اور اس کے تحت اس وقت 1945غیر سرکاری مدارس چل رہے ہیں جسے محض امتحان تک کی منظوری دی گئی ہے لیکن اسے کوئی مالی امداد نہیں دی جاتی ۔ جب کہ 814سرکاری مدارس ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے انتظامی امور کے لئے فنڈ فراہم کئے جاتے ہیں ۔ یہا ں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے سرکاری مدارس کے اساتذہ کو صرف ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے ، وہ نہ پنشن اسکیم کے دائرے میں کبھی رہے ہیں اور نہ انہیں دیگر سرکاری مراعات حاصل ہیں ۔ان مدارس کے لئے کوئی مخصوص تعمیری فنڈ بھی نہیں ہے۔ غرض کہ انتظامیہ عوامی چندے اوردیگر عطیات کی بدولت تعمیری کام کو انجام دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مدارس کے اندر اب بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ۔
ریاست بہار میں دو طرح کے مدارس ہیں ۔ اول نظامیہ جسے کسی طرح کی سرکاری امداد حاصل نہیں ہے اور دوسرے عالیہ جسے سرکاری امداد فراہم ہوتی ہے۔ مدارس کے لئے حکومتِ بہار نے جو نیا حکم نامہ جاری کیا ہے وہ صرف اور صرف ان مدارس پر نافذ ہوگا جو سرکار سے فنڈ فراہم کرتے ہیں یعنی ویسے عالیہ مدارس جن کے اساتذہ کو حکومت تنخواہ دیتی ہے۔ ریاست میں تین زمرے کے مدارس ہیں ۔ اول جہاں درجہ وسطانیہ اول تا وسطانیہ چہارم تک کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اس کے بعددرجہ میٹرک کے مساوی فوقانیہ اور درجہ بارہویں کے مساوی یعنی مولوی درجے تک کے مدارس ہیں اور تیسرے زمرے کے مدارس میں گریجویشن تا پوسٹ گریجویٹ یعنی درجہ عالم وفاضل تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وسطانیہ درجے کے مدارس میں کل سات عہدے میں چار دینی تعلیم اور زبان وادب کے ساتھ دو عصری تعلیم یعنی سائنس ، انگریزی اور ہندی وغیرہ کے اساتذہ کے ساتھ ایک غیر تدریسی ملازم کی پوسٹ کو منظوری دی گئی ہے۔وہیں دوسرے زمرے کے مدارس میں بارہ پوسٹیں دی گئی ہیں ۔ ان میں سات دینیات اورزبان وادب، تین عصری تعلیم کے اساتذہ کے ساتھ دو غیرتدریسی ملازمین کے عہدے منظور کئے گئے ہیں۔ جب کہ تیسرے زمرے کے مدارس میں کل پندرہ عہدوں میں نو دینیات اور زبان وادب ، تین عصری مضامین کے اساتذہ ساتھ تین غیر تدریسی ملازمین رکھے جا سکیں گے۔ حکومت بہار نے اپنے حالیہ مکتوب نمبر-28/2016 new-396 10/o1مورخہ 19-04-2022میں اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اب مدارس میں کوئی بھی نئی بحالیاں محکمہ تعلیم حکومتِ بہار کی تعلیمی پالیسی اور قوانین کے مطابق ہی ہو سکے گی اور ان بحالیوں میں مدارس انتظامیہ کو کوئی دخل نہیں ہوگا۔ جس طرح ریاست کے اسکولوں میں بی ۔ایڈ، ڈی ایل ایڈ یعنی ٹرینڈ اساتذہ کی بحالیاں ہوتی ہیں اسی طرح اب مدارس میںبھی نئے قوانین کے تحت ریاستی سطح پر مدارس کے لئے اسامیاں نکالی جائیں گی اور تقرری کا عمل پورا کیا جائے گااور جن مدارس کی انتظامیہ اس نئے حکم نامے پر عمل نہیں کرے گی ان کے اساتذہ کو سرکاری تنخواہ نہیں مل سکے گی۔ظاہر ہے کہ جب ریاستی سطح پر اسامیاں نکالی جائیں گی تو یہ قیدبھی ختم ہو جائے گی کہ مدارس میں غیرمسلم اساتذہ کی نہیں ہوگی۔اب تک مدارس میں دینیات کے ساتھ ساتھ انگریزی، ہندی اور سائنس کی تعلیم کے لئے بھی مسلم اساتذہ کی ہی بحالیاں ہوتی رہی ہیںلیکن اب سائنس ، انگریزی اور ہندی کے لئے یہ قید ختم ہو جائے گی۔یوں تو حکومت نے حافظ کے عہدے کے لئے ٹرینڈ ہونے کی شرط نہیں رکھی ہے لیکن اس کی بحالی بھی حکومت کے ذریعہ ہی ہوگی۔ بہار کے وزیر تعلیم وجے کمار چودھری نے اس نئے قانون کے متعلق وضاحت کی ہے کہ اس سے مسلم طبقے کو کسی بھی طرح کے اندیشے میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ نیا قانون صرف اور صرف مدرسہ تعلیم کے معیار ووقار کو بلند کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اور بالخصوص مدارس انتظامیہ میں جو آپسی تنازعے ہیں اس کے خاتمے کے لئے یہ نیاقانون مفیدثابت ہوگااور مدارس میں تعلیمی ماحول سازگار ہو سکیں گے ۔ کیوں کہ بیشتر مدارس انتظامیہ میں رسّہ کشی کا ماحول ہے اور اس سے تعلیمی نظام متاثر ہو رہا ہے۔ وزیر تعلیم کی وضاحت کسی حد تک حقیقت پر مبنی ہے لیکن سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ مدارس کے قیام کا جو اصل مقصد ہے کہیں نہ کہیں اس نئے قانون سے وہ مقصد فوت ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ مدارس کے قیام کا اصل مقصد دینی تعلیم کو فروغ دینا ہے اور مذہبی تشخص کو مستحکم کرنا ہے۔ عصری تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور مدارس کے طلباء کو بھی سائنس، کمپیوٹر کے ساتھ دیگر جدید علوم کی تعلیم دینے کی پہل ہونی چاہئے اور ایک دہائی سے مرکزی حکومت وریاستی حکومت کی طرف سے مدارس کی جدید کاری کے اقدام کئے بھی جا رہے ہیں ۔ گذشتہ ایک دہائی سے سرکاری مدرسوں میں سائنس کے اساتذہ کی بحالیاں کی گئی ہیں اور دینیات کے علاوہ اردو، فارسی، عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی، ہندی اور سائنس کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مدارس انتظامیہ نے کبھی معیاری تعلیم کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا ۔نتیجہ ہے کہ روایتی روش عام رہی اور مدارس کے فارغین عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں نظامیہ مدارس کی انتظامیہ کے ذریعہ عصری تقاضوں کی اہمیت کے مدنظر کمپیوٹر سائنس، کامرس اور دیگر پیشہ وارانہ تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ بالخصوص مہاراشٹر، گجرات، مغربی بنگال کے مدارس کے طلباء سی بی ایس سی اوردیگرریاستی بورڈوںکے امتحان میں بھی اپنی شناخت مستحکم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ندوۃ العلماء لکھنؤکا نصاب تو ایک زمانے سے عصری تقاضوں کو پورا کرنے والا رہاہے اور دارالعلوم دیوبند میں بھی اب دینیات کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم پر توجہ دی جا رہی ہے۔مگر ریاست بہار کے مدارس میں اس طرح کی کوششیں کم دکھائی دیتی ہیں۔ الّا ماشاء اللہ چند مدرسے ایسے ہیں جہاں کی انتظامیہ عصری علوم وفنون کی طرف توجہ دے رہی ہے ورنہ بیشتر مدارس میں داخلہ ، امتحان فارم بھرنے اور امتحان میں شامل ہونے کی روش عام رہی ہے جس سے کہیں نہ کہیں مسلم اقلیت طبقے کو نقصان پہنچا ہے ۔ اب جب کہ تعلیم شعبے میں مقابلہ جاتی مزاج عام ہوا ہے ایسے وقت میں مدارس انتظامیہ کو بھی اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مدارس کو بھی دینیات کی تعلیم کے ساتھ طلباء کو معیاری تعلیم دے کر عصری تعلیم کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...
-
ٹرین میں ناری شکتی پردرشن Urduduniyanews72 عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں من...
-
گستاخ نبی کی قرآنی سزا اردودنیانیوز۷۲ مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بل...
-
یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے ! Urduduniyanews72 سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات ...
-
بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری Urduduniyanews72 1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربی...
-
مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھن...
-
ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت Urduduniyanews72 ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں...
-
نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر Urduduniyanews72 نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ...
-
پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ Urduduniyanews72 Urduduniyanews72 @gmail.com ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پ...
-
سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری Urduduniyanews72 رات آئی تو خوف کا عفریت...
-
خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔ Urduduniyanews72 تعارف: خنساء اسلامک انگلش ...