Powered By Blogger

پیر, دسمبر 05, 2022

اشرف استھانوی کیلئے قرآن خوانی ودعائیہ مجلس کا اہتماماشرف استھانوی کی خدمات ناقابل فراموش، انہوں نے قلم وزبان سے دینی اداروں کو تقویت پہنچائی:عالم قاسمی

اشرف استھانوی کیلئے قرآن خوانی ودعائیہ مجلس کا اہتمام
اردو دنیا نیوز ٧٢
اشرف استھانوی کی خدمات ناقابل فراموش، انہوں نے قلم وزبان سے دینی اداروں کو تقویت پہنچائی:عالم قاسمی
پٹنہ:بہار کے سینئر، مشہور اور بے باک صحافی اشرف استھانوی مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی اور دعائیہ نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ اس موقع پر حاضرین نے قرآن پاک کی تلاوت کرکے ان کیلئے ایصال ثواب اور ان کی مغفرت کی دعائیں کی۔ در یاپور جامع مسجد کے امام وخطیب ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی نے دعا کرائی، انہوںنے دعا سے قبل اپنے مختصر خطاب میں جناب اشرف استھانوی کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے بلندی درجات کیلئے دعائیں کیں۔ انہوں نے کہاکہ ان کے اندر تین بڑی خوبیاں تھیں، پہلی خوبی یہ تھی کہ وہ بے باک اور حق گو صحافی تھے۔ انہوں نے جس بات کو سچ سمجھا اسے بے خوف وخطر ہوکر لکھا اور کسی کی پرواہ نہیں کی، دوسری خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کبھی علمائے کرام اور دینی اداروں کے خلاف ایک لفظ نہیں لکھا بلکہ انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم وزبان سے دینی اداروں کو تقویت پہنچائی، تیسری خوبی یہ تھی انہوں نے جو کچھ کیا وہ ذاتی مفاد سے بلند ہوکر کیا، وہ نئی نسل کی آبیاری اور تربیت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ اللہ انہیں اس کا بہتر بدلہ عطا فرمائے اور جنت کا مکین بنائے۔نوشاد عالم نے ان سے متعلق یادوں کو شیئر کرتے ہوئے کہاکہ ان سے میرا گہرا تعلق تھا، وہ مجھے جب جس کام کیلئے بولتے میں ہمیشہ تیار رہتا تھا، میں نے انہیں ہمیشہ مخلص اور وفادار پایا۔ صحافی کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہترین اور باکردار انسان تھے، ان کے انتقال سے بہار کی اردو صحافت میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر نورالسلام ندوی نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مرحوم اردو زبان اور اردو صحافت کے بے لوث خادم تھے، انہوں نے پوری زندگی قلم وقرطاس کی آبیاری میں گذاری۔ اردو زبان اور صحافت کے تعلق سے ان کے کارنامے لائق ستائش ہے، ان کو نئی نسل سے بڑی محبت تھی اور وہ ہمیشہ نئے لکھنے پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور قدر کیاکرتے تھے۔ قاری ایاز احمدنے کہاکہ اشرف استھانوی ملی وسماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہا کرتے تھے، وہ دینی اداروں کی ترقی اوراس کو آگے بڑھانے کیلئے فکر کیا کرتے تھے،ان کوجامعہ مدنیہ سبل پور اور اس کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم مرحوم سے بڑی محبت تھی۔ وہ ایک متحرک ، فعال اور سرگرم صحافی اور سماجی کارکن تھے، اردو کیساتھ ساتھ ہندی میں بھی صحافت کیا کرتے تھے۔ یحیٰ فہیم نے کہاکہ مرحوم میرے محسن تھے، وہ ہمدرد اور مخلص انسان تھے، ان کو مجھ سے بڑی محبت تھی اور ان کی بہت ساری کتابیں میں نے کمپوز کی ہے، وہ جس سے کام لیتے تھے تو اس کا معقول معاوضہ بھی دیا کرتے تھے۔ ضیاء الحسن نے کہاکہ وہ بے باک صحافی تھے انہوںنے اپنی صحافت کے ذریعہ اردو صحافت کو وقار واعتبار بخشا، انہوں نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی خدمات کو اجاگر کیا جائے اور اردو رسالے اور جرائد ان کے اوپر خصوصی گوشہ شائع کیاکرے۔
اس موقع پر عارف اقبال صحافی، احمد علی ، مبین الہدیٰ، مولانا محمد سعد قاسمی، حافظ عرفان دلکش، محمدمہزادوغیرہم نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

نئے ٹی این سیشن کی ضرورت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نئے ٹی این سیشن کی ضرورت  __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جمہوریت میں صاف ستھرے انتخابی عمل کی بڑی اہمیت ہے، کیوں کہ اقتدار تک پہونچنے کا صدر دروازہ یہی ہے، واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، ای وی ایم میں ادلا بدلی اور بٹن کے سسٹم پر بھی لوگوں کی نظر رہی ہے، ووٹ کسی کو دیں، آپ کا ووٹ کسی خاص پارٹی کو منتقل ہوتے رہنے کی روایت میں کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی صداقت کا سراغ بھی لوگوں نے لگا رکھاہے ، انتخاب کے وقت سارے اختیارات انتخابی کمیشن کو منتقل ہوجاتے ہیں، یہ اختیارات اس قدر مضبوط ہیں کہ انتخابی کمیشن کا سر براہ بتادلہ اور دوسری جگہ بحالی کے عمل کو بھی کر گذر سکتاہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اختیارات انتہائی وسیع ہیں، وہ نتیجہ انتخاب کو روک سکتا ہے ، دو بارہ گنتی کا حکم دے سکتا ہے ، گنتی کرنے والے عملہ کو اس عمل سے باہر کر سکتا ہے ، اب اگر انتخابی عمل کو انجام دینے والا مرکزی افسر جسے الیکشن کمشنر کہا جاتا ہے ، خود ہی صاف ستھرا نہ ہو، حکومت کے چشم وابر وپر کام کرنے والا ہو اور ذہن کے کسی گوشے میں یہ بھی جاگزیں ہو کہ سبکدوشی کے بعد کسی دوسرے اعلیٰ عہدے پر ہمیں فائز ہونا ہے تو انتخابی عمل پر اس کے اثرات پڑتے ہیں اور وہ الیکشن کمشنر نہیں پی ام او آفس کا اردلی بن کر کام کرنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کا اعتبار واعتماد الیکشن کمیشن سے اٹھ جاتا ہے ، حکومت اس معاملہ میں اس قدر دخیل ہوگئی ہے کہ ۲۰۰۷ء کے بعد الیکشن کمیشن کی مدت کار مختصر ہوتی چلی گئی ہے، پہلے یہ مدت چھ سال کی تھی ، اب یہ سمٹ کر پانچ سال رہ گئی ہے ۔
ابھی حال ہی میں مرکزی حکومت نے چیف الیکشن کمیشن کے عہدے پر ارون گوئل کی تقرری کی ہے ، تین دن قبل انہیں رضا کارانہ سبکدوش ہو جانے کو کہا گیا اور تین دن بعد الیکشن کمیشن کے عہدے پر ان کی تقرری عمل میں آگئی، حالاں کہ عرضی گذار پر شانت بھوشن نے پہلے ہی عدالت میں معاملہ درج کرا رکھا تھا، سپریم کورٹ کے سینئر جج کے ایم جوزف نے سماعت کے دوران حکومت کے وکیل سے بڑے چھبتے ہوئے سوالات کیے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس قدر جلدی کیا تھی، جب معاملہ عدالت مین زیر غور تھا ، انہوں نے رولنگ دیا کہ اگر الیکشن کمشنر ، کمزور اور گھنے ٹیکنے والا ہوگا تو سارے سسٹم کا بریک ڈاؤن ہوجائے گا، ملک کو ایسے الیکشن کمشنر کی ضرورت ہے جو وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کا دم خم رکھتا ہو، الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ادارہ ہے، اسے اسی طرح کا کمشنر چاہیے۔ فاضل جج نے اس موقع سے دسویں چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کی انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے تعریف وتوصیف کی، ۱۹۹۰ء میں انہوں نے الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا تھا اور ایک با اصول ، سخت مزاج ، بے خوف اور ایماندار کمشنر کی ایسی شبیہ پیش کی تھی کہ انہیں انتخابی اصلاح کے لیے آج تک یاد کیا جاتا ہے، بلکہ الیکشن کمنشر کے اختیارات اور حدود کا پتہ پہلی بار لوگوں کو چلا، ان کے دور میں تین الیکشن کمشنر کو ان پر مسلط کیا گیا کہ وہ ان کے مشورے سے کام کریں، لیکن اس کی وجہ سے بھی ان کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑا، آج بھی انتخابی اصلاحات اور اسے غیر جانب دارانہ بنائے رکھنے کے لیے ایک نئے ٹی این سیشن کی ضرورت ہے ارون گوبل ٹی این سیشن نہیںبن پائیں گے ، جس طرح ان کی تقرری عمل میں آئی ہے، اس سے تو ایسا ہی معلوم پڑتا ہے۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...