Powered By Blogger

ہفتہ, جنوری 20, 2024

سمندر منتظر ہے (تعارف تبصرہ)

سمندر منتظر ہے (تعارف تبصرہ)
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 

ڈاکٹر سید فضل رب (ولادت یکم اپریل 1943ئ)ساکن اسماعیل کاٹیج سیکٹر 2، ہارون نگر پھلواری شریف، پٹنہ، اعزازی ڈائرکٹر انسٹی چیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز ، پٹنہ چیپٹر، علمی دنیا کا ایک معتبر نام ہے، وہ تعلیمی اعتبار سے ایم اے (عمرانیات) ایم، ایل، آئی (لائبریری وانفارمیشن سائنس) بی، ایل، پی ایچ ڈی ہیں، نصف درجن سے زائد اداروں میں خدمات انجام دی ہیں اورکم وبیش ایک درجن اداروں سے بحیثیت رکن اعزازی طور پر جڑے رہے ہیں، پروجیکٹ ڈائرکٹر اور رابطہ کار کی حیثیت سے جو خدمات انہوں نے انجام دی ہے وہ اس پر مستزاد ہیں، درس وتدریس کا دائر ہ پٹنہ، مگدھ، نالندہ اوپن یونیورسیٹی تک پھیلا ہوا ہے، مختلف موضوعات پر انگریزی میں نصف درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں، مقالات، افسانے اور ناول کے اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، درد کی آنچ ، پھر جس انداز سے بہار آئی، فاصلہ، مہابھیکاری وغیرہ ان کے مشہور افسانے ہیں، ایک ناول ’’سمندر منتظر ہے ‘‘ کا مجھے پتہ ہے جو زیر مطالعہ ہے۔
’’سمندر منتظر ہے‘‘ ناول کے پیرایہ میں ہے، اس میں ناول کے تمام اجزاء ترکیبی کو شعوری طور پر برتنے کی کوشش کی گئی ہے ، دو سو پنچانوے(295) صفحات پر مشتمل یہ ناول ہندو پاک کی تقسیم، نقل مکانی میں مہاجرین کے کرب والم اور خون کے دریا سے گذرنے کا بیانیہ ہے، ٹوٹتی محبتیں ، بکھرتے خاندان ، منقسم اقدار اور دم توڑتی تہذیبوں کا ماتم اور مرثیہ سب کچھ اس میں موجود ہے ، یہ داخلی کیفیات اور خارجی احوال وواقعات ومشاہدات کا آئینہ خانہ ہے، اس آئینہ خانہ کو سجانے، سنوارنے اور صیقل کرنے کے لیے جن کرداروں کو زندگی بخشی گئی ہے وہ ڈاکٹر فضل رب کے سحر نگار قلم سے چلتی ، پھرتی، اچھلتی، کودتی ، بل کھاتی نظر آتی ہیں، ناول واقعہ نگاری، ماجرا نگاری، سراپا نگاری کا مرقع ہوتا ہے، ڈاکٹر فضل رب نے ان تینوں امور پر اپنے قلم کی جولانیاں صرف کی ہیں اور اس کے ہر کردار کو زندہ وجاوید بنادیا ہے، ناول میں گاؤں کی زندگی اور شہروں کی بود وباش کے موازنہ اور فکری اختلاف نے اس ناول کو وسیع کینوس عطا کر دیا ہے، رحمت نگر، منشی نگر، سمندر، شاہد، محسن، مشفق، ریاض، مسجد، سجدے اور عبادت یہ جامد الفاظ نہیں ہیں ، ان کے پیچھے معنوی علامت کی ایک دنیا ہے واقعہ یہ ہے کہ ناول کی فکری جہتوں کی وسعتوں کو سمیٹنا اسے الفاظ میں بند کرنا، اس کی گہرائیوں تک پہونچنا سرسری مطالعہ سے ممکن نہیں ہے، کچھ کرداروں کی زبانی اورکچھ پلاٹ کی ترتیب سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مصنف روز بروز تہذیبی انحطاط ، اخلاقی زبوں حالی اورمتضاد تہذیبوں کے تصادم کے نتیجے میں جو نقصان ہو رہا ہے اس سے بچانا چاہتا ہے اور حالات کی نا مساعدت کے باوجود ان امتیازات کی حفاظت کوفرض سمجھتا ہے، مصنف ایمان والا ہے اس لیے بڑے مشکل حالات میں بھی ناول کے کسی کردار سے یاس وقنوطیت کا درس قاری میں منتقل نہیں کرتا ، بلکہ وہ ہر دم رجائیت کا علم تھامے ہوا ہے، اور قاری اس کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہونچتا ہے کہ رات کی جو سیاہی پھیلتی جا رہی ہے اس کے دوسرے سرے پر نمود صبح کا مزدہ ہے،جو مشاہداتی بھی ہے اور تجرباتی بھی۔
 اس ناول کو پڑھنے سے وطن کی محبت اور پردیس کا غم والم اور درد وکرب بھی سامنے آتا ہے، پردیس میں رہ کر شاہد وطن کی یادوں میں کھویا رہتا ہے اور جب وہ برسوں بعد اپنے وطن واپس ہوتا ہے تو اس کی دلی کیفیات کا بیانیہ مطالعاتی بھی ہے اور دیدنی بھی ، کیفیات کی دید ذرا مشکل کام ہے، لیکن جب خوشیاں چہرے پر رقصاں ہوں اور دل مسرت سے بلیوں اچھل رہا ہو تو کیفیات مشاہدات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔مصنف نے اس ناول میں شاہد کے جذبات کو الفاظ کی زبان بخش دی ہے، جو زبان حال سے بولتے ہیں اور زبان حال کی باتیں دلوں تک منتقل ہوا کرتی ہیں، واپسی میں جب شاہد ایر پورٹ کی زمین کو چومتا ہے تو وہ اس کی وطن سے محبت کا استعارہ معلوم ہوتا ہے، وہ مسلمان ہے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے وطن کے ذرہ کو دیوتا سمجھتا ہے، وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن چومنا ، بوسہ دینا محبت کی علامت ہر دور میں رہی ہے شاہد بھی زمین کو چوم کر اپنی عقیدت اور تعلق کا اظہار کرتا ہے۔
ناول کا اختتام اس پر ہوجاتا ہے،لیکن قاری کے ذہن میں کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے، یہ سوالات تہذیب کی شکست وریخت ، اشراف ارذال کی غیر اسلامی تقسیم، ذات برادری کی بنیاد پر اونچ نیچ کا تصورہے ، قاری یہ سوچتا ہے کہ کیا ہندوستان سے کبھی ختم ہوگا، نفرت کی گرم بازاری میں کیا محبت کے پھول کھل سکیں گے، کیا سنہا جی جیسے لوگ اپنی مکھ اگنی کے لیے اپنے بیٹا کے علاوہ رحیمن کو نامزد کر سکیں گے، ان سوالات کے جوابات کے لیے بر سوں انتظار کرنا ہوگا، اس ناول کا جو قاری ہے وہ بھی سمندر کی طرح منتظر ہے۔
 کتاب کی طباعت، کاغذ اور سرورق پُر کشش ہے اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کی مالی معاونت سے چھپی اس کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے، بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کمپوزنگ عطا ء الرحمن ، نظر ثانی تنویر اختر رومانی جمشید پور، مطبع روشان پرنٹرس دہلی اور ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ہے، کتاب کے انتساب کے جملے معنی خیز ہیں اوروہ یہ ہیں، ’’اس فیصلے کے نام جس نے اس بر صغیر کے لوگوں کو بے اماں کر دیا، لیکن جس اماں کی خاطر کھودیا تھا اپنے ’’سمندر‘‘ کو تلاش اماں کی وہی تشنگی ہنوز باقی ہے‘‘۔
 کتاب کے ٹائٹل سے اس انتساب کی معنویت زیادہ واضح ہوتی ہے، سمندر کی طغیانی کے باوجود اوپر کے حصے میں لہلہاتے سبزہ زار اور بالکل سرورق پر اگتا ہوا ماہتاب، اس رجائیت کی تصویر ہے جو اس ناول کے مصنف کے قلب ودماغ کا حصہ ہے ۔
 ادبی اصناف کے بارے میں میرا خیال ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہیئت سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے، اگر بات سچی کہی جا رہی ہے تو ہیئت کی معنویت ثانوی ہے، فکر میں کجی ہو تو تمام اصناف نا قابل توجہ ہیں، اگر فکر کا قبلہ درست ہے تو افسانے، ناول، انشائیے، شاعری سب قابل قبول ہیں، فکری جہتوں کی تعیین کے بعد ہی فنی ارتقاء کو قابل اعتنا سمجھنا چاہیے، مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سید فضل رب نے اس ناول میں فکری اور فنی دونوں جہتوں کا خیال رکھا ے، یہی اس ناول کے مطالعہ کا جواز ہے اور یہی میرے تبصرے کی بنیاد بھی۔
 اللہ رب العزت ڈاکٹر سید فضل رب کو صحت وعافیت کے ساتھ درازیٔ عمر عطا فرمائے اور ان کے قلم کی جولانیوں کو استمرار اور دوام بخشے۔ آمین

پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا 
اردودنیانیوز۷۲ 
میری انکھوں نے یہ منظر پہلی بار دیکھا ہےکہ ضلع ارریہ کی بزرگ ترین شخصیت جناب قاری سلیمان صاحب کا جنازہ ان کے ابائی گاؤں "بانسباڑی" میں ذاتی دروازے پر رکھا ہوا ہے، اب جنازہ گاہ پر جانے کی تیاری ہےمگر کواڑی بازار کے لوگ ہچکیاں لے لے کر رورہے ہیں،تدفین کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں اورجنازے کی بھیک مانگ رہے ہیں کہ ہمیں قاری صاحب کا جنازہ عنایت کر دیجئے،ہم ان کی قبر اپنے یہاں بنانا چاہتے ہیں۔ افہام وتفہیم کے بعد کسی طرح  یہ لوگ رضا مند ہوئے،پھرجنازہ گاہ پر صف بندی کے بعد اس بات کی وضاحت کی گئی کہ آپ لوگوں کی محبت بجا ہےمگر مشورے میں خیر ہے، گزشتہ کل یہ مشورہ ہو چکا ہے کہ قاری سلیمان صاحب کے استاد جناب حضرت مولانا صوفی کمالی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو اسی قبرستان میں مدفون ہیں،لہذا شاگرد کی بھی تدفین اسی قبرستان میں ہونی ہے، اس بات پر اتفاق بھی ہوچکا ہے، اب اس کے خلاف اور اسمیں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ جنازے کی نماز پڑھادی گئی، اوراس طرح ایک شاگرد مرنے کے بعد بھی اپنے استادکی خدمت میں حاضر ہوگیا۔
              آخر گل اپنی صرف در میکدہ ہوئی 
            پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
قاری سلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالی نے لمبی عمرہ عطا فرمائی تھی۔ محض 20/سال کی عمر میں سند فراغت حاصل ہوئی، اس کے بعد اپنی زندگی کے مکمل 63/سال درس و تدریس اور لوگوں کی اصلاح وتربیت کےلیے آپ نے وقف کر دی، اپنے استاد گرامی قدر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیپال سے متصل علاقہ کرسا کانٹا اور سکٹی بلاک کی جہالت کے خاتمہ کے لیے تاحیات کمر بستہ رہے ۔ کواڑی بازار میں دینی تعلیم کے فروغ کے لئے مدرسہ مفتاح العلوم کی بنیاد ڈالی اور وہاں کی جہالت کی خاتمہ کے لیے تقریبا 45 /سال تک آپ نے محنت کی ہے۔باری تعالٰی شرف قبولیت سے نوازے اور ان خدمات جلیلہ کو آپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنادے، آمین۔
بدعات وخرافات کے قلع قمع میں قاری صاحب کی کاوشیں آب زر سے لکھنے لائق ہیں ۔پیر و فقیر کا مذکورہ علاقے میں بڑا زور تھا،لوگ تعویذ گنڈہے کے نام پر شرک وبدعات میں گرفتار اور ان جعلی پیر و فقیر کا شکار ہو جایا کرتےتھے ۔حضرت قاری صاحب نے ایسے لوگوں کی دکانیں بند کرائی ہیں،نیز اس کا صحیح متبادل بھی فراہم کیاہے، قران کریم کی آیات سے دعا ودرود کاوہاں مزاج بنایا ہے، لوگوں کی نفع رسانی اور بھلائی کی خاطرخود کو بھی پیش کیا ہے۔جمعہ کا دن ہفتے کی عید ہے اور مدارس اسلامیہ میں یہ چھٹی کا دن ہے باوجود اس کے قاری سلیمان صاحب نے کبھی جمعہ کی بھی چھٹی نہیں لی ہے،بلکہ یہ دن لوگوں کی ملاقات کے لئے آپ نے خاص کررکھا تھا، قرب و جوار اوردورودراز سے  لوگوں کی ایک بڑی تعداد  مدرسے میں حاضر ہوتی، باری باری قاری صاحب سب کے مسائل سنتے اور قران سے ان کا حل بتلاتے ،یہی وجہ ہے کہ اج جب کہ یہ مشورہ ہو چکا ہے کہ قاری سلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین ان کے آبائی گاؤں میں ہونی ہے باوجود اس کے کواڑی بازار کے لوگ حضرت کے معمول کے مطابق جمعہ کے دن انہیں مدرسہ لے جانا چاہتے ہیں اور موصوف کی چھٹی منظور نہیں کررہے ہیں۔بقول شاعر 
                  مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا 
        اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا 

یہ درحقیقت قاری سلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی محبت ہے جسے خدا نے لوگوں کے دلوں میں پیوست فرمادی ہے،قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے؛
"بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے بھلے کام کیے خدا ان کے لیے ایک محبت پیدا کر دے گا"( سورہ مریم )
حدیث قدسی میں ہے کہ جب اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو فرشتہ جبریل سے کہتا ہے کہ "مجھےفلاں بندے سےمحبت ہے،تم بھی اس سے محبت کرو، وہ دوسرے فرشتوں سے کہتے ہیں، پھر اوپر کے آسمان والے دوسرے آسمان والوں کو یہانتک کہ اس کی محبت دریا کی مچھلیوں اور سوراخ کی چوٹیوں تک سرایت کر جاتی ہے "(صحیحین)
اج کھلی انکھوں سے ہم اس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے قاری صاحب مرحوم کے اعمال صالحہ کو قبولیت بخشی ہےاوران کی محبت زمین پر پھیلا دی  ہے ،اتنا بڑا مجمع اس بات کی شہادت دے رہاہے،میرے علم کے مطابق بانسباڑی گاؤں کا یہ پہلا جنازہ ہے جسمیں انسانوں کااتنابڑاسیلاب آیاہوا ہے،جدھر دیکھئے لوگ ہی لوگ نظر ارہے ہیں، یہاں کی تمام مساجد آج بھر چکی ہیں،صحن پر،سڑک پر ہر جگہ نماز ہورہی ہے،مساجد میں جگہ نہیں ہونے پر آج  جمعہ کی نماز لوگوں نے جاکر عیدگاہ کے میدان  میں پڑھی ہے۔سخت ٹھنڈک ہے،باوجود مرحوم کی محبت وعقیدت  میں سبھی کشاں کشاں چلے آرہے ہیں،محسوس یہ ہوتا ہے کہ موسم بھی اس ولی کامل کے انتقال پر ملال پر سوگوار ہےاور یہ بھی صدمہ میں اپنا مزاج بدل لیا ہے۔ضلع ارریہ ہی نہیں بلکہ خطہ سیمانچل اور نیپال سے بھی لوگ جنازہ میں شریک ہیں، واقعی جناب قاری سلیمان صاحب کے انتقال سے ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے،  دور دور تک سناٹا ہے، ایک بزرگ ترین شخصیت سے ہماری یہ بڑی ابادی خالی ہو گئی ہے، باری تعالی قاری صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کا نعم البدل نصیب کرے،آمین یارب العالمین ۔

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۱۹/جنوری ۲۰۲۴ء مطابق ۷/رجب المرجب ۱۴۴۵ھ بروز جمعہ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...