Powered By Blogger

ہفتہ, اگست 14, 2021

بڑی خبر : آب مدھیہ پردیش میں سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو کی تعليم کرسکیں گے حاصل

بڑی خبر : آب مدھیہ پردیش میں سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو کی تعليم کرسکیں گے حاصل

(اردو اخبار دنیا)بھوپال : مدھیہ پردیش محکمہ تعلیم نے ریاست کے کالجوں میں اردو تعلیم کو لے کر بڑا فیصلہ کیا ہے ۔ محکمہ تعلیم کے نئے فیصلہ سے اب سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی اختیاری مضمون کے تحت اپنی شیریں زبان اردو کی تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔ ریاست میں بھی تک صرف آرٹس کے طلبہ کو ہی اردو تعلیم حاصل کرنے کا حق تھا اور سائنس و کامرس کے طلبہ چاہتے ہوئے بھی اردو تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے تھے۔ حکومت کے فیصلہ کا بزم ضیا نے خیر مقدم کیا ہے ۔ واضح رہے کہ مدھیہ پردیش بزم ضیا سرونج کے ذریعہ تین سال قبل آرٹس کے علاوہ سائنس اور کامرس کے طلبہ کو بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو تعلیم دینے کے مطالبہ کو لیکر تحریک شروع کی گئی تھی جس پر حکومت نے اب مہر لگائی ہے ۔

بزم ضیا سرونج کے صدر فرمان اللہ خان فرمان ضیائی کہتے ہیں کہ یقینا اردو کو لیکر مدھیہ پردیش حکومت نے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا ہے اور حکومت کے اس فیصلہ کا ہم دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کرتے ہیں ۔ اس فیصلہ سے صرف ہمارا دیرینہ مطالبہ پورا ہے ۔ نیوز 18 اردواس بات کا گواہ ہے کہ ہم نے تین سال قبل جب اس بات کو لیکر تحریک شروع کی تھی کہ آرٹس کے طلبہ کی طرح سائنس کے طلبہ کو بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے ، اس وقت لوگ ہمارے مطالبے پر ہنستے تھے اور یہ کہتے تھے کہ دیوانہ کا خواب کبھی پورا نہیں ہونے والا ہے ۔ اب جب حکومت نے احکام جاری کردیا ہے تویہی لوگ حیرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا ۔ حکومت نے تو اپنا کام کردیا ہے اب سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی کالج کی سطح پر اختیاری مضمون کے تحت اپنی شیریں زبان اردو کی تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔

وہیں طالب علم سرفراز کہتے ہیں کہ حکومت نے سائنس اور کامرس کے طلبہ کے حق میں اردو کو لے کر بہت بڑا فیصلہ کیا ہے ۔ سائنس اور کامرس کے طلبہ ابھی تک اردو کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے تھے اور ان کی اسٹریم اردو زبان کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں مانع آتی تھی ، اب حکومت نے آرٹس کے طلبہ ہوں یا کامرس سبھی اپنی خواہش کے مطابق اردو زبان کی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔


بزم ضیا کے سکریٹری محمد حامد کہتے ہیں کہ حکومت نے تو اپنا کام کردیا ہے ۔ اب اردو والوں کو اپنی بیداری کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ طلبہ سائنس اور کامرس کے ساتھ اردو کی تعلیم حاصل کریں ، اس کو لے کر تنظیم کی جانب سے ریاست گیر سطح پر تحریک چلائی جائے گی ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ حکومت کے اقدام سے استفادہ کرسکیں

ہاں ! میں ہندوستان ہوں ۔ نازش ہما قاسمی

(اردو اخبار دنیا)ہاں! میں ہندوستان ہوں۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام نے اپناقدم مبارک رکھا۔مجھے ہزاروں سال پرانا ملک ہونے کاشرف حاصل ہے۔۔۔یہاں قبل مسیح اشوک بادشاہ سے لے کر مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر تک نے مجھ پر حکومت کی، کبھی میں ظالم حکمرانوں کے زیر دست رہا تو کبھی نیک دل اور عادل ومنصف فرماں رواؤوں نے مجھ پر عادلانہ ومنصفانہ حکومت کی۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں راجہ داہر جیسا ظالم، عہدو پیمان توڑنے والا بادشاہ گزرا تو وہیں اس کے غرور کو خاک میں ملانے کے لیے محمد بن قاسم جیسارحم دل جرنیل آیا، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں اکبر نے دین اکبری کی بنیاد ڈالی تواس کے دین اکبری کاپردہ چاک کرنے کے لئے مجددالف ثانی نے علم جہادبلندکیا، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں عالم گیر جیسے نیک دل بادشاہ نے حکومت کی، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جسے شاہجہاں نے ایک حسین تاج محل دیا، پر شکوہ لال قلعہ دیا۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں صوفی سنت آباد ہوئے، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں تاج محل، قطب میناراور لال قلعہ ہندوستان کی عظمت رفتہ کا شاہد و گواہ اور آزادی ہند کی خونچکاں المناک تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ایستادہ ہے۔ ہاں!میں وہی ہندوستان ہوں جو کبھی سونے کی چڑیا کہلاتا تھالیکن اب لٹیرے وگھوٹالے بازوں کی وجہ سے کنگال و بھکمری کا شکارہے۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جس چڑیے کو حاصل کرنے کیلیے انگریزوں نے یہاں اپناآہنی تسلط قائم کیا، یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا، دو سو سال تک میری ہی دھرتی پرظالمانہ حکومت کرکے مجھے کھوکھلا کردیا، پھر میری دھرتی پر رہنے والے غیور ہندوستانیوں نے متحدہ ہندوستان کابل سے سری لنکا تک کو آزاد کرانے کی ٹھانی ،میرے لیے قربانیاں دیں، سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف مسلمانوں نےہی علمِ جہاد بلند کیا۔ ہاں!میں وہی ہندوستان ہوں جہاں ٹیپو سلطان جیسا شیر میسور پیدا ہوا، جس کی موت پر انگریزوں نے فخریہ کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔ ہاں! میں وہی ہندوستان ہوں جس کے لیے علما ء حق نے شاملی کے میدان کو آبادکیا، لاہور سے دہلی تک کے درختوں کو اپنے جان کی قربانی دے کر آباد کیا، دریائے راوی میں بہے، لاہوری جامع مسجد میں لٹکائے گئے ۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جس کی آزادی کے لیے لاہور کے کوات لکھپت جیل میں بگھت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما، منگل پانڈے نے بغاوت کی، شہید اشفاق اللہ خان نے جام شہادت نوش کیا، اور ایک دن ان مجاہدین آزادی کےخون نے اثر دکھایا اور میں 1947میں ملک آزاد ہوگیا ۔آزادکیاہوا؛ بلکہ یہ کہنازیادہ صحیح ہوگا کہ میری چھاتی کو دو حصوں میں چیرکر ایک ہی ماں باپ سے پیداہونے والے بھائیوں اوربہنوں کوالگ الگ ملک کاباشندہ بناکر ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے خون کاپیاسابنادیا۔ برسوں شیروشکر کی طرح ایک ساتھ رہنے والے بھولے بھالے انسان انگریز کے جال میں پھنس گئے، گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور انیس سو سینتالیس میں میری تقسیم کے وقت وہ خون خرابہ ہوا کہ شیطان بھی شرمندہ ہوگیا ،انسانیت کانپ اٹھی، ہر جگہ مہاجرین کی لاشیں نظر آنے لگیں، پنجاب کا گروداس پور خون سے سرخ ہوگیا، انسانی لاشیں تدفین کی منتظر مہینوں سڑکوں پر نظر آرہی تھیں ، تعفن زدہ ماحول قائم تھا، لیکن لوگ خوش تھے کہ انگریز ہندوستان سے چلے گئے، ملک آزاد ہوگیا، ہم آزادہوگئے؛ لیکن شاید دونوں طرف کے رہنے والے باشندوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ہم تورسما آزاد ہوئے ہیں، جمہوریت کا نام نہاد طوق گلے میں لٹکا دیا گیا ہے جہاں مجبور محض ہوکر زندگی گزارنی پڑے گی، عوام کے پاس طاقت نہیں ہوگی ،عوام محض مفلوک الحال ہوں گے، خیر کسی نہ کسی طرح ۱۹۴۷ کا طوفان گزر گیا، عوام خوش رہے کہ آزادہیں اورخدا کا شکر ہے کہ آزاد ہیں، لیکن آزادی کے بعد سے ہی جس قوم نےمیری آزادی کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دیں، جہادِ آزادی کا فتوی دیا، اسے نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا، کانگریس نے اسے اپنے ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنا شروع کیا تو بھگوادھاری اور زعفرانی پارٹیوں نے اسے ڈرا دھمکاکر رکھا اور ایک دن ایساآیا کہ میں شرمندہ ہوگیا، مجھے آزاد ہونے پر افسوس ہونے لگا، کانگریس کی چپی اور انگریزوں کے تلوے چاٹنے والی فرقہ پرست پارٹیوں نے تاریخی بابری مسجد کو آئین ہند بنانے والے بابا صاحب امبیڈکر کی یوم پیدائش پر شہیدکرکے یہ پیغام دے دیا کہ مسلمان جمہوریت پر یقین رکھیں،!!!.. ہمیں نہیں رکھنا، ہم ان کی مساجد وعبادت گاہوں کو مسمار کردیں گے، فسادات کے ذریعے ان کی املاک تباہ کردیں گے اور ۱۹۹۲ کے بعد کا نہ تھمنے والا ایساسلسلہ جاری ہوا جو ممبئی، بھیونڈی، ملیانہ، مرادآباد، اورنگ آباد ،نالندہ، بکسر، گجرات کے خونی ماحول سے ہوتا ہوا مظفر نگر تک پہنچا جہاں صرف ایک ہی قوم کو نشانہ بنایا گیا، اس کی معیشت کو تباہ کیا گیا، ان کی ہی ماؤں بہنوں کی عصمت لو ٹی گئی اور ستم بالائے ستم تو یہ ہوا کہ ان ہی سے حب الوطنی کا ثبوت بھی مانگا جانے لگا۔ اب میرا حال یہ ہے کہ مجھ پر جو میری آزادی کیلیے کبھی نہیں لڑے ان کی حکومت ہے اور جنہوں نے آزادیءِ ہند کے ذریعے مجھے اپنے خون سے سیراب کیا وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں، ان کا ملک میں جینا دوبھر ہے، عدلیہ ،مقننہ، حکومت، صحافت سب ان کے خلاف ہیں، پھر کاہے کا میں جمہوری ہندوستان؟ ، اب میں جمہوری ہندوستان نہ رہا، کچھ دن بعدسب لوگ جشن جمہوریت منائیں گے، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جوسچے دل سے مجھے جمہوری ملک تسلیم کرتے ہیں، میرے جمہوری دستورپریقین رکھتے ہیں اورملک میں امن وشانتی اورقومی یکجہتی کاپیغام عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورمیری جمہوریت کاجشن وہ لوگ بھی منائیں گے جنہوں نے میری جمہوریت اورمیرے دستورکامذاق اڑایا، اتناہی نہیں؛ بلکہ وہ لوگ ہرلمحہ اورہرپل میرے آئین اور دستور کو ختم کرکے میری سیکولرحیثیت کوچھین کرمجھے ہندوراشٹرمیں بدلناچاہتے ہیں؛ لیکن میں سوچ رہا ہوں کاش وہ عادل حکمراں پھر آجاویں جنہوں نے ہزاروں سال سال تک مجھ پر حکومت کی؛ لیکن کبھی ان کے دورِ حکومت میں فسادنہ ہوا، کبھی ملکی معیشت بے شرموں کی طرح نہ گری، اس دور میں میں سونے کی چڑیا تھا، کاش اے کاش! وہ عادل ومنصف حکمراں مجھے پھر نصیب ہوجائیں؛ تاکہ ہزاروں سال پرانی روایت باقی رہے اور ملک کے عوام سمیت میں خوشحال رہوں، میرے سینے پر بھگوا دھاری نفرت کے نعرے نہ بلند کریں؛ بلکہ ہندومسلم سکھ عیسائی سبھی آپسی محبت و بھائی چارگی کے ساتھ محبت کے زمزمے گائیں

جنگ آزادی اور مسلمان - معصوم مراد آبادی -

(اردو اخبار دنیا)جنگ آزادی کے عظیم ہیروٹیپو سلطان شہید پر شہرۂ آفاق ناول لکھنے والے بھگوان گڈوانی کا بیان ہے کہ انہیں یہ ناول لکھنے کی ترغیب اس اجنبی فرانسیسی نوجوان نے دلائی تھی' جو لندن میں برٹش میوزیم سے نکلتے ہوئے چند لمحوں کے لئے ان کا ہم سفر ہوا تھا ۔اس نوجوان کو بارش سے بچنے کے لئے گڈوانی نے اپنی چھتری میں پناہ دی اور وہ اس کے ساتھ کافی ہاوس چلے گئے ۔باتوں باتوں میں اس نے بتایاکہ'' وہ ان بادشاہوں پر ریسرچ کررہا ہے جنہوں نے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا 'لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ پوری دنیا میں ٹیپو سلطان کے علاوہ ابھی تک کوئی ایسا بادشاہ نہیں ملا جس نے جنگ کے میدان میں لڑتے ہوئے شہادت پائی ہو۔بیشتر بادشاہ یا تو بھاگ گئے یا پکڑے گئے یا ہتھیار ڈالے اور مارے گئے ۔''اس بات سے بھگوان گڈوانی اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے ٹیپو سلطان پر ریسرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا کی کئی بڑی لائبریریوں اور آرکائیوز کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک انتہائی لا جواب ناول ''دی سورڈ آف ٹیپو سلطان ''تخلیق کیا ۔ بھگوان گڈوانی نے یہ باتیں مجھے ایک انٹرویو کے دوران جنوری 1990میں اس وقت بتائی تھیں جب ان کے ناول پر سنجے خان نے ایک انتہائی متاثر کن ٹی وی سیریل بنایا تھا ۔کچھ فرقہ پرست عناصر اس سیریل کو دوردرشن پر ٹیلی کاسٹ کئے جانے کے خلاف تھے اور انہوں نے اس سیریل کے خلاف طوفان برپا کررکھا تھا ۔حالانکہ بھگوان گڈوانی کے ناول کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور اس کی ڈھائی لاکھ کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں ۔ٹیپو سلطان کی مخالفت آج بھی جاری ہے ۔ شیر میسور ٹیپو سلطان نے 4مئی 1799کو سرنگا پٹنم کے مقام پر انگریزوں سے لوہا لیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا ۔انہوں نے انگریز سپا ہ کا مقابلہ اتنی بہادری اور جرأت کے ساتھ کیا کہ ان سے لوہا لینے والی فوج کے انگریز کمانڈر نے کہا تھا کہ ''ٹیپو سلطان نے ایک شیر کی طرح جنگ کی ۔'' جام شہادت نوش کرنے کے بعد بھی انگریز سپاہیوں پر ٹیپوسلطان کا رعب اتنا زبردست تھا کہ وہ ان کی لاش کے قریب جاتے ہوئے ڈرتے تھے ۔کسی طرح ہمت پیدا کرکے وہ وہاں پہنچے اور ان کے سینے پر پاوں رکھ کر کہا کہ ''آج ہندوستان ہمارا ہے ۔'' ٹیپو سلطان کا یہ قول آج بھی تاریخی کتابوں میں سنہرے لفظوں سے لکھا ہوا ہے کہ ''گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہوتی ہے ۔'' مادر وطن کی حفاظت کے لئے غیر معمولی جرأت اور بہادری کی مثال صرف ٹیپو سلطان نے ہی پیش نہیں کی بلکہ ایسے ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں جن میں مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بے مثال قربانیاں دیں اور جذبہ ٔحریت کی مثالیں قائم کیں ۔1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے دہلی میں وحشیانہ قتل عام کیا اور ہر درخت پر حریت پسندوں کی لاشیں لٹکا دیں ۔اسی دوران آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کر لیا گیا ۔انگریزوں نے ان کے بیٹوں اور پوتوں کے سر قلم کرکے ایک طشتری میں سجا کر انہیں پیش کئے ۔اپنے جگر پاروں کے کٹے ہوئے سر دیکھ کر بہادر شاہ ظفر نے اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''خاندان تیموریہ کے فرزند ایسے ہی سرخرو ہوکر پیش ہوتے ہیں ۔'' دنیا میں جدوجہد آزادی کی کوئی تاریخ جذبہ حریت کی ایسی لازوال مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ تحریک خلافت کے رہنما اور عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کی قربانیوں سے کون واقف نہیں ۔انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کی اور انگریزوں کی غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا ۔لندن کی گول میز کانفرنس میں انگریز سامراج کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ''میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جا سکتا ہوں جبکہ میرے ہاتھوں میں آزادی کا پروانہ ہوگا ۔اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دینی پڑے گی ۔'' اپنے اس انقلابی بیان کی لاج مولانا محمد علی جوہر نے ایسے رکھی کہ وہ ہندوستان واپس نہیں آئے اور انہوں نے 4جنوری 1931کو لندن میں اپنی جان جان ِآفریں کے سپرد کردی ۔مولانا محمد علی جوہر ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایسے سپاہی تھے جن کی مثال مشکل سے ملے گی ۔آج بھی فلسطین میں مولانا محمد علی کی قبر پر جو کتبہ لگا ہوا ہے اس پر جلی حرفوں میں لکھا ہے ۔'محمد علی الہندی '۔مولانا محمد علی جوہر نے جنگ آزادی کے دوران پوری قوم کو جگانے کے لئے یہ پیغام دیا تھا: خاک جینا ہے' اگر موت سے ڈرنا ہے یہی ہوس ِزیست ہو اِس درجہ تو مرنا ہے یہی نقد جاں نذ ر کروسوچتے کیا ہو جوہر ؔ کام کرنے کا یہی ہے 'تمہیں کرنا ہے یہی پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے کہ " مولانا محمد علی نے ایک سوتی ہوئی قوم کو ابھار کر ایک قوت بنا دیا تھا ۔انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی ۔مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ ''وہ شکست خوردہ قوم کا آخری سپاہی تھا جو اعداء کے نرغے میں تنہا لڑرہا تھا۔آخر کار زخموں سے چور ہوکر ایسا گرا کہ پھر کھڑا نہ ہوسکا ۔'' یوں تو ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہزاروں متوالوں نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور وطن پر اپنی جان نچھاور کردی لیکن ان میں ایک نام ایسا بھی ہے جسے اپنے وطن پر جان قربان کرنے والوں میں بڑی قدر و منزلت حاصل ہے ۔یہ تھے شہید وطن اشفاق اللہ خاں جنہوں نے 27برس کی عمر میں تختہ دار کو بوسہ دینے سے قبل اپنی ماں کو جو آخری خط لکھا تھا' وہ وطن کے لئے ان کی بے پناہ محبت کا آئینہ دار ہے ۔انہوں نے لکھا تھا کہ: ''اگر مجھے ہزار بار پھانسی دی جائے اور میں ایک ہزار دفعہ مرمر کے دوبارہ پیدا ہوں تو بھی وطن کے لئے مر مٹنے کا میرا جذبہ اسی طرح تروتازہ رہے گا ۔'' مشہور زمانہ کا کوری کیس میں 6 اپریل 1927کو سیشن جج ہملٹن نے اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی ۔ان پر پانچ دفعات لگائی گئی تھیں جن میں دو دفعات کے تحت تاعمر کالا پانی کی سزا اور تین دفعات کے تحت سزائے موت دی گئی تھی ۔پھانسی کا فیصلہ سننے کے باوجود ان کے اطمینان اور سکون میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا ۔جیل کے ریکارڈ کے مطابق ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی موت کے مہمان کا وزن بڑھ جائے ۔جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی' اس وقت ان کا وزن 178پونڈ تھا اور اس کے بعد جب پھانسی دی جانے والی تھی تو ان کا وزن 203پونڈ ہوچکا تھا ۔وزن میں یہ اضافہ وطن پر قربان ہونے کی خوشی میں ہوا تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی والدہ کے نام خط میں بھی کیا تھا ۔تختہ دار پر جب جلاّد نے ان سے آخری خواہش پوچھی تو اشفاق اللہ خاں نے اپنا ہی یہ شعر پڑھا تھا: کوئی آرزو نہیں ہے' بس آرزو یہی ہے رکھ دے کوئی ذراسی خاکِ وطن کفن

وقف بورڈ کی رقم ہڑپنے والے دو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج

وقف املاک میں کسی بھی قسم کی خرد برد کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا: نواب ملک

ممبئی: وقف کی رقم ہڑپنے والے دو افراد کے خلاف پونے کے بنڈ گارڈن پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے خود کو وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈایک ٹرسٹ کا ٹرسٹی وسکریٹری بتاکر حکومت کی جانب سے ٹرسٹ کو اداکیے گئے تقریباً پونے آٹھ کروڑ روپئے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروالیے۔ بنڈگارڈن پولیس اسٹیشن ان افراد کی تلاش کررہی ہے۔اطلاعات کے مطابق مان، تعلقہ مولشی، ضلع پونے میں تابوت انعام انڈومنٹ ٹرسٹ کی تقریباً ساڑھے ۸ ہیکٹر زمین تھی جس میں سے ۵ ہیکٹر 51زمین کو ریاستی حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں مہاراشٹر انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کے قانون کے تحت ایکوائر کرلیا تھا اور اس کے بدلے ریاستی حکومت نے 09,64,42,500روپئے ادا کرنا منظور کیا تھا۔ لیکن یہ رقم بجائے ٹرسٹ کو ملنے کے درمیان میں ہی دو افراد امتیاز محمد حسین شیخ اور چاند ملانی نے خود کو ٹرسٹ کا صدر وسکریٹی بتاکر 07,76,98,250روپئے کا ڈیمانڈ ڈرافٹ وصول کرکے اپنے اکاؤنٹ میں کیش کروالیا۔اس دھوکہ دہی کی اطلاع ملتے ہی پونے کے ریاستی وقف افسر خسرو خان نے نے پونے کے بنڈگارڈن پولیس اسٹیشن میں امتیاز محمدحسین شیخ اور چاند ملانی کے خلاف شکایت درج کرائی اور پولیس نے ریاستی وقف آفیسر کی شکایت کی بنیاد پر مذکورہ دونوں ملزمین کے خلاف تعزیراتِ ہندکی دفعہ 420, 406, 464, 467, 472 ؍اور دفعہ 34کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے ملزمین کی تلاش شروع کردی ہے۔

محکمہ اوقاف سے ملی اطلاع کے مطابق ان ملزمین نے ڈپٹی ضلع کلکٹر سے ریاستی حکومت کی جانب سے ایکوائر زمین کے بدلے میں منظور شدہ رقم حاصل کرنے کے لئے اورنگ آباد وقف بورڈ کے دفتر کی جانب سے جعلی این اوسی تک بناکر پیش کی تھی، جس کی بنیاد پر ڈپٹی کلکٹر نے رقم کا ڈیمانڈ ڈرافٹ انہیں سونپ دیا تھا۔ پولیس کے پاس درج کرائے گئے وقف آفیسر خسروخان کے بیان کے مطابق جب ہمیں اس دھوکہ دہی کا علم ہوا تو ہم نے ڈپٹی کلکٹر کے پاس اس کی شکایت کی جس پر 13/جولائی 2021کو ڈپٹی کلکٹر نے سماعت کرتے ہوئے ملزمین کی جانب سے پیش کئے گئے کاغذات کی بنیاد پر وقف بورڈ کی شکایت کوخارج کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملزمین نے ڈپٹی کلکٹر سے ایک رقم کا ڈیمانڈڈرافٹ دوبار حاصل کیا۔ پہلی بار جب یہ ڈیمانڈڈرافٹ جمع کرایا گیا توکچھ تکینکی دشواریوں کے سبب یہ ڈیمانڈڈرافٹ واپس ہوگیا جس کے بعد ڈپٹی کلکٹر نے دوسری بار یہی ڈیمانڈڈرافٹ جاری کیا۔

 

اس ضمن میں بات کرتے ہوئے وقف بورڈ کے وزیر نواب ملک نے کہا کہ یہ وزارت جب سے میرے پاس آئی ہے، میری حتی الممکن کوشش ہے کہ وقف املاک کا نہ صرف تحفظ کیا جائے بلکہ اس میں کسی بھی قسم کا خردبرد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ وقف آفیسرس کو ہماری وزارت کی جانب سے واضح ہدایت دی جاچکی ہے کہ وقف املاک میں کسی بھی قسم کی دھاندھلی،دھوکہ دہی وخردبرد کسی طور برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس سے قبل بیڑ میں بھی ایک ایف آئی آر درج ہوچکی۔ نواب ملک نے کہا کہ وقف املاک کی حفاظت کرنا محکمہ اوقفاف کی اولین ذمہ داری ہے اور اسی ذمہ داری کے تحت ہم نے تمام وقف آفیسران کو سخت تاکید کی ہے کہ اگروقف املاک میں کوئی بھی کسی بھی قسم کا خرد بردکرتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور اسے کسی بھی صورت بخشا نہیں جائے گا۔

مہاراشٹر کے بعد پنجاب میں بھی داخلہ کے لیے کورونا کے دونوں ٹیکہ لازمی

  • (اردو اخبار دنیا)

ہندوستان میں کورونا کے ڈیلٹا پلس ویریئنٹ کے بڑھتے معاملے کے درمیان مہاراشٹر کے بعد پنجاب حکومت نے بھی سخت اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے کہا ہے کہ پیر کے روز سے صرف انہی لوگوں کو پنجاب میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی جنھوں نے کورونا ویکسین کی دونوں خوراک لے لی ہیں، یا جن کے پاس نگیٹو آر ٹی پی سی آر رپورٹ ہو۔

پڑوسی ریاستوں ہماچل پردیش اور جموں سے آنے والے لوگوں پر سخت نگرانی رکھے جانے کا فیصلہ بھی لیا گیا ہے۔میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق پنجاب کے اسکولوں اور کالجوں میں صرف مکمل ٹیکہ لے چکے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کو ہی داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ طلبا کے لیے آن لائن کلاس لینے کا بھی متبادل رہے گا۔ وزیر اعلیٰ امریندر چاہتے ہیں کہ اسپیشل کیمپ لگا کر ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کو ترجیحی بنیاد پر کورونا ویکسین دی جائے۔ اسی درمیان ریاست کے وزیر صحت نے اساتذہ اور اسکول ملازمین کے لیے دوسری خوراک کو ترجیح کے ساتھ دینے کے لیے دونوں خوراک کے درمیان فرق کم کرنے پر زور دیا ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب میں جمعہ کو کورونا وائرس کے 88 نئے معاملے سامنے آئے تھے اور کسی کی بھی موت نہیں ہوئی تھی۔ ریاست میں مجموعی طور پر تقریباً 6 لاکھ معاملے پہنچ گئے ہیں۔ پنجاب میں اسکول پھر سے کھلنے کے بعد کورونا وائرس ٹیسٹنگ کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے روزانہ اسکولوں سے کم از کم 10 ہزار آر ٹی پی سی آر جانچ کرنے کا فیصلہ لیا ہے

آسام: اسکول میں دھماکہ سے حالات کشیدہ، آسام-میزورم سرحد پر حالات ناگفتہ بہ

  • (اردو اخبار دنیا)

آسام اور میزورم کے درمیان سرحدی تنازعہ کو لے کر ابھی بات چیت جاری ہی تھی کہ آسام واقع ایک اسکول میں زبردست دھماکہ سے ایک بار پھر آسام-میزورم سرحد پر حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ دونوں ریاستوں کی حکومت کی کوششوں سے سرحد پر امن بحال ہو بھی چکا تھا، لیکن نامعلوم شرپسندوں نے جمعہ کی شب میزورم کی سرحد کے قریب آسام کے ایک اسکول میں جو دھماکہ کیا، اس نے ناگفتہ بہ حالت کی بنیاد ڈال دی ہے۔ یہ واقعہ آسام کی کچھ شہری تنظیموں کے ذریعہ لگائی گئی ایک ہفتہ سے زیادہ مدت سے چلی آ رہی معاشی ناکہ بندی کے بعد سرحد پر امن بحال ہونے کے کچھ دنوں بعد پیش آیا ہے۔

میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق ہیلاکانڈی ضلع کے گٹگٹی علاقے میں جمعہ کی شب پاکوا پنجی ایل پی اسکول میں دھماکہ ہوا۔ اس دھماکہ سے عمارت کو نقصان پہنچنے کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب مقامی لوگوں نے اسکول میں دھماکہ کی آواز سنی۔ پولیس کے مطابق یہ اسکول سرحد سے تقریباً 500 میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ فروری میں اسی ضلع کے ملیوالا لووَر پرائمری اسکول میں بدمعاشوں نے دو دھماکے کیے تھے۔ اس سے قبل پڑوسی کچھار ضلع کے دو اسکولوں میں بھی بمباری کی گئی تھی۔

 

گزشتہ سال اکتوبر سے سرحد پر نظامِ قانون سے متعلق واقعات کا ایک سلسلہ میزورم پولیس کی گولی باری پر ختم ہوا، جس میں 26 جولائی کو آسام پولیس کے چھ جوان مارے گئے۔ جوابی کارروائی میں آسام میں کچھ شہری تنظیموں نے ایک ناکہ بندی لگائی، جس کے لیے میزورم میں گاڑیوں کی آمد و رفت کی اجازت نہیں تھی۔

کچھ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہیلاکانڈی ضلع کے کتلی چیرا واقع بلائی پور علاقے میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی جب میزورم کے کچھ لوگ مبینہ طور سے سڑک بنانے کے لیے جدید اسلحہ لے کر پہنچے تھے۔ وہ ایک ’اَرتھ موور‘ بھی ساتھ لائے تھے۔ مسلح افراد کو دیکھ کر مقامی باشندے وہاں سے فرار ہو گئے۔ کتلی چیرا کے رکن اسمبلی سجم الدین لسکر نے ریاست کے پولیس ڈائریکٹر جنرل کو اس واقعہ سے مطلع کرایا ہے اور ان سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ تقریباً 165 کلو میٹر طویل سرحد کو لے کر آسام اور میزورم کے دریان طویل مدت سے تنازعہ چل رہا ہے۔ دونوں ریاستوں نے 26 جولائی کے خونی کھیل کے بعد ایک خیر سگالی پر مبنی حل تلاش کرنے کی کوشش کے لیے پھر سے بات چیت شروع کی ہے۔

رات میں شوہر قضائے حاجت کیلئے گیا باہر تو بیوی نے بلالیا عاشق ، پھر ہوا کچھ ایسا ، رہ جائیں گے حیران

(اردو اخبار دنیا)گڑھوا: جھارکھنڈ کے گڑھوا میں میاں بیوی اور وہ کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ دراصل شوہر قضائے حاجت کیلئے گھر سے باہر گیا تو بیوی نے عاشق کو بلاکر اس کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے لگی ۔ اسی درمیان شوہر گھر لوٹ آیا اور دونوں کو قابل اعتراض حالت میں پکڑ لیا ۔ اس کے بعد مقامی لوگوں کی مدد سے عاشق کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا ۔ عاشق نے بتایا کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے خاتون کے رابطے میں تھا ۔

ضلع کے صدر تھانہ حلقہ کے سنگرہے گاوں میں شوہر دیر رات قضائے حاجت کیلئے گھر سے باہر گیا ۔ اسی درمیان بیوی نے اپنے عاشق کو فون کرکے گھر بلالیا اور اس کے ساتھ ناجائز تعلقات بنانے لگی ۔ اسی درمیان شوہر وہاں پہنچ گیا اور بیوی کو کسی کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔ جائے واقع پر ہنگامہ سن کر گاوں والوں کی بھیڑ جمع ہوگئی ۔ مقامی لوگوں نے عاشق کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا ۔

شوہر نے بتایا کہ وہ رات کو قضائے حالت کیلئے گھر سے باہر گیا تھا ۔ اسی دوران بیوی نے اپنے عاشق کو اس کے گھر بلالیا اور ناجائز تعلقات بنانے لگی ۔ وہ لوٹا تو دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔ عاشق نے بتایا کہ وہ پرساد لینے کیلئے خاتون کے گھر آیا تھا اور خاتون کے کہنے پر رہ ناجائز تعلقات بنانے لگا ۔


عاشق کے مطابق گزشتہ دو ماہ سے وہ خاتون کے رابطے میں تھا ۔ پولیس نے ملزم عاشق کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے ۔

تاریخ جدوجہدآزادی: 1857ء سے پہلے

تاریخ جدوجہدآزادی: 1857ء سے پہلے

History of the Struggle for Independence Before 1857
(اردو اخبار دنیا)محمدشارب ضیاء رحمانی
اورنگ #زیبؒ کی وفات کے بعدیورپ کی وہی سفیدفام طاقتیں جن پرعالمگیرکے دادانے شاہانہ عنایات کی بارش کی تھیں،جن کوشاہ جہاں نے شکنجۂ تادیب میں کساتھااورخودعالمگیرنے جنہیں پہلے ملک بدرکیا،پھرمعاف کرکے تجارت کی اجازت دی تھی،ابھی چندبرس ہی گذرے تھے کہ اورنگ زیب کی راجدھانی پران غیرملکی طاقتوں کاتسلط ہوگیا،صوبوں کے گورنرخودمختارہوگئے اورمغل #شہنشاہ ایک ’دعاء گومرشد‘ بن کررہ گیا۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جنہوں نے سب سے پہلے ’آزادی‘ کاخواب دیکھا،غلط نظام کوتوڑنے کی بات کہی اورعوام وخواص کی سب سے پہلے ذہن سازی کی وہ حضر ت شاہ ولی اللہ صاحب #محدث #دہلوی ؒ ہیں۔بعدمیں آپ کے تلامذہ ،شاگردوں اورمریدوں نے اپنے راہنماکے #اصولوں کی روشنی میں آزادی کی اہم تحریکیں چلائیں۔
شاہ صاحبؒ کے قلب حساس میں ایک طرف بربادی وطن کادردتھا،تو دوسری طرف آپ کا مغزبیدار،اسباب کی تلاش اور فکر علاج میں مشغول تھا۔ اس اضطراب میں آپ نے اصلاحی جدوجہدشروع کی اور ذہنی آزادی کا بگل بجایا۔1728ء میں آپ نے حجازمقدس کاسفرکیااورروحانی مشاغل کے ساتھ ساتھ یورپ اورایشیاء کے لوگوں سے ان ممالک سے متعلق پوری تفصیلات حاصل کیں۔
اس سفرمیں ضمیرکی آوازنے یہ فیصلہ بھی سنادیاکہ ان تباہیوں کا واحد علاج’فک کل نظام‘ہے۔چنانچہ آپ نے اصلاحی نظریات مرتب کیے اوراپنے عملی واصلاحی پروگرام میں’جہاد‘ کالفظ استعمال کیا۔ممکن تھاکہ اس زمانہ کے جنگجو سرداروں کی طرح آپ بھی تلوارہاتھ میں لے لیتے ،مگراس طرح وہ ہمہ گیر انقلاب جوآپ کانصب العین تھا،پوانہ ہوتا۔اس مقصدکی تکمیل اسی وقت ہو سکتی تھی کہ رائے عامہ آپ کے اصلاحی نظریات کواپنالیتی۔اس کے لیے تعلیم وتربیت کی ضرورت اولین تھی۔چنانچہ تعلیم وتربیت کاانتظام جدوجہدآزادی کا مقدمہ اور پہلا پروگرام طے پایا۔(علماء ہندکاشاندارماضی:۲،ص۶۲)
سلاطین #مغلیہ میں #عالمگیر سے لے کرگیارہویں تاجدارشاہ عالم کازمانہ شاہ صاحب کی نظروں کے سامنے گذراہے۔کم وبیش ہندوستان پر ابدالی کے سات حملے آپ کی زندگی میں ہوئے۔گہرائی سے جائزہ لیں توکہاجاسکتاہے کہ احمدشاہ ابدالی کاہندوستان آنااورنجیب الدولہ کاامیرالامراء ہوجانایہ سب کچھ حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی سیاسی بصیرت کاہی نتیجہ تھا۔
اس کے علاوہ پانی پت کامیدان کارزارحقیقت میں شاہ صاحب کاہی سجاسجایاتھا۔اگرسلطنت مغلیہ میں تھوڑی بھی جان ہوتی توپانی پت کے نتائج سے فائدہ اٹھاکراپنے اقتدارکوقائم کرنے کی کوشش کرتی۔اس کے ساتھ ہی بہارسے شاہ عالم ثانی کوآپ نے دہلی اسی لیے بلایا تھاکہ وہ #انگریزوں کے اثرسے نکل آئیں اوردہلی آکراپنی طاقت کااستحکام کرلیں۔(دیباچہ مکتوبات شیخ الاسلام)
شاہ صاحبؒ کے بعداس تحریک کی ذمہ داری آپ کے خلف اکبرحضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے سرآئی۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے زمانہ میں دہلی کے حالات مزیدابترہوگئے،انگریزوں کااقتداراوران کاظلم وستم مزیدبڑھتاگیا۔ایسے نازک حالات میں حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ نے جوخدمات انجام دی ہیں وہ یقیناتاریخ جدوجہدآزادی کا گراں قدرباب ہے۔
فک کل نظام اورہمہ گیرانقلاب کاتصورجوحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی وفات تک چندذہنوں میں مخصوص امانت کی حیثیت سے موجودتھا،اب ملک کاعام جذبہ بن گیاتھااوراس تحریک کی آوازہندوستان سے گذر کر ایشیاء کے دورددرازعلاقوں تک پہونچ چکی تھی۔چنانچہ آپ کی فکری اورتعلیمی تربیت کااثرسیداحمدشہیدؒ اورشاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک #جدوجہدآزادی کی شکل میں ظاہرہوا۔
شاہ صاحبؒ نے ہندوستان کو ’دارالحرب‘ قراردے کرانگریزوں کے خلاف پہلافتویٰ دیا۔آپ کایہ #فتوی ٰ فتاویٰ عزیزی ج۱، ص۵۰۱ پر موجود ہے۔ فتویٰ کی زبان گوکہ مذہبی ہے،مگر روح سیاسی ہے۔اس کامفہوم یہ ہے کہ’’ چونکہ قانون سازی کے سارے اختیارات عیسائیوں کے ہاتھوں میں ہیں،مذہب کا احترام ختم ہے اورشہری آزادی سلب کرلی گئی ہے لہٰذاہرمحب وطن کافرض ہے کہ وہ اس اجنبی طاقت کے خلاف اعلان جنگ کرے اورجب تک اس کوملک بدر نہ کردے ،اس وقت تک زندہ رہناحرام جانے۔
‘‘اس فتوی سے صاف ظاہرہے کہ شاہ صاحب ،انگریزوں کے مظالم سے بلاتفریق مذہب وملت ہرایک کو آزادی دلاناچاہتے تھے۔لہٰذا شاہ صاحبؒ نے اپنے لوگوں کوسیداحمدکے ساتھ نواب امیرعلی خاں کی فوج میں بھرتی کراکے اپنے فتوی کی عملی شکل بھی پیش کردی ۔( علمائے ہندکاشاندارماضی ص۳۹/نقش حیات ج۲،ص۱۱)
شاہ صاحب نے دوجماعتیں تشکیل کیں۔ایک کے میرکارواں سیداحمدشہیدؒ ہوئے جن کے مشیراوراہم رکن مولاناعبدالحیؒ اورشاہ اسماعیل شہیدؒ قرارپائے۔اس جماعت کودیگرممالک سے رابطہ کرنے اورعسکری تربیت کی ذمہ داری دی گئی۔دوسری جماعت شاہ اسحاق دہلویؒ،شاہ محمدیعقوب دہلویؒ، مفتی رشیدالدینؒ ،مفتی صدرالدینؒ ،مولاناحسن علی لکھنویؒ ،مولاناحسین احمدملیح آبادیؒ اورشاہ عبدالغنیؒ جیسے اصحاب علم وفن پرمشتمل تھی جنہیں تعلیمی میدان میں خدمات انجام دینے کے لیے منتخب کیاگیا۔آزادی کے متوالوں کایہ قافلہ1818ء میںدہلی سے روانہ ہوااورپورے ملک میں ان رہنماؤں کے ذریعہ اصلاحی خدمات کے سات ساتھ سپاہیانہ ورزشیں بھی کرائی جانے لگیں۔
اس لیے یہ کہاجاسکتاہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کی تحریک کی جڑیں نظریاتی ،مذہبی اورعلمی اعتبارسے مضبوط بنیادوں پرقائم ہیں جن کو ہندوستان کاسیاسی انقلاب اپنی جگہ سے ہلانہ سکا۔جولوگ یہ کہتے ہیں کہ شاہ صاحبؒ یاسیداحمدشہیدؒ کی تحریک سیاسی حیثیت سے ناکام رہی ،میں سمجھتاہوں کہ انہوں نے یہ بات نیندمیں کہہ دی ہے۔ناکامی کی وجہ، اصول کی خرابی ہوتی ہے۔جب اصول صحیح ہیں توپھرناکامی اورشکست کے کیامعنیٰ؟۔صحیح اصولوں کونہ تو تاریخ میں کبھی شکست ہوئی ہے اورنہ ہوگی کیونکہ جوانقلاب صحیح علم کے بعدلایاجاتاہے ،وہ بہت پائیداراورناقابل تسخیرہوتاہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ تاریخی حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ حضرت سیداحمدشہیدؒ کامقصدجہاد،ملک کے ہندواورمسلمانوں کوکمپنی بہادرکے اقتدارسے نجات دلاناتھامگریہ ہندوستان کی بدقسمتی تھی کہ پنجاب کے مسلمانوں کی زبوں حالی سے رنجیت سنگھ سے مقابلہ کرناپڑااوربالاکورٹ میں ہی مجاہدین کوحیات جاودانی نصیب ہوگئی ، مگراس نے ملک کے اندرانقلابی روح پھونک دی اورایک ایسی بنیادقائم کردی جس پرتحریک آزادی کی عمارت کھڑی کی جاسکی۔سیدصاحب کے مقصدکونہ سمجھنے کی بناء پربعض مدعیان اصلاح وتجدیدکو دھوکہ ہوگیا اوراس تحریک کوجہادآزادی سے الگ سمجھاجانے لگا۔
سیدصاحب کااصل مقصدچونکہ صرف اورصرف ہندوستان سے انگریزی تسلط کاقلع قمع تھا،اسی بناء پرآپ نے اپنے ساتھ ہندؤں کوبھی شرکت کی دعوت دی اورصاف صاف یہ بتادیاکہ آزادی کے بعد حکومت کس کی ہوگی،اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے چنانچہ اس حوالہ سے گوالیارکے مہاراج دولت رائے اورراجہ بندورائے کوآپ نے جوخط تحریر فرمایا ہے،اسے غورسے پڑھناچاہیے۔
ادھرصادق پورپٹنہ میں سیداحمدشہیدؒکی تحریک سے متاثرہوکرمولاناولایت علیؒ،مولاناعنایت علیؒ،مولانافرحت علیؒ ،مولانااحمداللہؒ اورمولانایحیٰ علیؒ علمائے صادق پورنے پورے انہماک کے ساتھ اس تحریک کوآگے بڑھایاجس کے نتیجہ میں ان حضرات پرسازش کامقدمہ چلایاگیا۔تاریخ آزادی کے صفحات میں ان علمائے صادق پورکی قربانیاں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
1857 ء سے پہلے کی جدوجہدآزادی میں تحریک شاہ ولی اللہی کے جانبازوں کے علاوہ ایک اہم نام حافظ الملک رحمت خاں کاہے۔حافظ الملک رحمت خاں نے نواب سعداللہ خاں کے انتقال اورروہیل کھنڈکے حاکم بننے کے بعدملک دشمن طاقتوں کے خلاف خوب لوہالیااورانگریزوں کے ناکوں چنے چبوائے۔آپ کی فوج میں علماء ومشائخ کی بڑی تعدادتھی جن میں سب سے مشہورمولاناسیداحمدکی ذات گرامی تھی ،ان کاعرفی نام ’شاہ جی بابا‘تھا۔
1749ء میں حافظ الملک نے آپ کونوا ب قائم خاں کے پاس سفیربناکربھیجاتھا،اسی طرح حافظ الملک کی فوج کے حافظ جمال اللہ کانام1774ء کی جنگ کے سپاہیوں میں سرفہرست ہے۔ ان کے علاوہ مولاناغلام جیلانی بہادرنے 1781ء میں انگریزو ں کے خلاف جنگ میں فیض اللہ خاں کے سپاہیوں کی قیادت فرمائی۔(اخبارالصنادید،ج۱،ص۳۸۵)
ان کے علاوہ سینکڑوں علماء حافظ الملک رحمت خاں کے ساتھ محاذپررہتے۔1774ء کی جنگ میں توبہت سار ے علماء کوگرفتارکرکے لے جایاگیاجن میں قاضی محمدسعیدخاں بھی شامل تھے۔جنگ دوجوڑہ ،تحریک آزادی میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے یہ جنگ 1857ء سے بہت پہلے 24 اکتوبر 1794ء کولڑی گئی جس میں ملاعبدالرحیم رامپوری اورمولاناغلام جیلانی نے روہیلیوں کے ساتھ مل کرانگریزوں کے خلاف پیش قدمی کی تھی۔اس کے علاوہ 1844ء میں مولاناشریعت اللہ نے فرائضی تحریک چلائی۔اس تحریک نے تقریباََساٹھ برسوں تک اپنی جدوجہدکوجاری رکھایہاں تک کہ انگریزوں کامکمل بائیکاٹ کرکے ایک نوع کی متوازی حکومت قائم کردی تھی۔(سرگذشت مجاہدین ،ص۶۱۲)
کیرالہ میں جوجنگیں انگریزوں کے خلاف لڑی گئیں وہ بھی تو1857ء سے پہلے کی ہی تاریخ کاحصہ ہیں۔1836ء سے1840ء تک علماء کیرالہ نے کئی معرکے انگریزوں کے خلاف سرکیے۔(المسلمون فی کیرالہ،ص۵۹)مجاہدین آزادی کی اس فہرست میں ایک اہم نام مولانااحمداللہ شاہ کا ہے۔آپ جے پور،ٹونک ،دہلی،آگرہ اورگوالیارکادورہ کرکے انگریزوں کے خلاف بغاو ت کاعمومی جذبہ پیداکرتے رہے تاآنکہ اکتوبر1856میں لکھنو تشریف لائے اورفقیرانہ لباس میں اپناکام کرتے رہے،انگریزوں نے گرفتاری کے لیے مسلح دستہ روانہ کیا،یہ جنگ دس دنوں تک چلی ، پھر 8جون1857ء کوفیض آبادمیں زبردست بغاوت ہوئی،انگریزافسروں کوقیدکرلیاگیااورآپ جیل سے چھڑاکرانقلابیوں کے لیڈرمنتخب کیے گئے۔(محاربہ عظیم ،ص۴۵۳)
ان سب کے علاوہ 1857سے ٹھیک سوبرس پہلے 1757میں سراج الدولہ اورانگریزوں کے خلاف زبردست جنگ ہوئی ،پھر1763 میں بنگال کے نواب میرقاسم نے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی۔پھرایک سال بعدشجاع الدولہ کے ساتھ مل کرمیرقاسم نے بکسرکے مقام پر تاریخی جنگ لڑی۔ اس کے علاوہ 1799ء کی ٹیپو سلطان کی انگریزوں کے خلاف اس جنگ کوکون بھول سکتاہے جس میں اس مردمجاہد کی شہادت ہوئی اورشہادت کے بعدسینے پرپاؤں رکھ کرانگریزسپہ سالارنے کہاتھا’’آج ہندوستان ہماراہے‘‘۔انگریزوں کے خلاف ٹیپوسلطان کی زبردست محاذآرائی 1857ء کی بغاوت سے نصف صدی قبل کی ہے۔
یہ مختصرساخاکہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ 1857ء کے غدرکوپہلی جنگ آزادی قرارنہیںدیاجاسکتا۔اس سے قبل سوبرس پرمحیط جد و جہد آزادی کی وسیع تاریخ ہے جس کاانکارناممکن ہے۔ ان تمام تاریخی حقائق اور اتنی طویل تاریخ جنگ آزادی کے بعد1857ء کی بغاوت کوپہلی جنگ آزادی قرار دیناغلط ہے اوراس طرح تاریخی حقائق کوغلط طورپرپیش کرنااورگمراہ کن معلومات کوعام ذہن کے سامنے لانا وطن کی آزادی کی طویل تاریخ کو تدریجاََمٹادینے کی سازش کاممکنہ طورپرحصہ ہے۔حالانکہ
کس کس جگہ بیاض وطن سے تم مٹاؤگے ہرہرورق پہ مہروفاکرچکے ہیں ہم

کورونا بحران میں بیرون ملک سے عمرہ زائرین کا پہلا قافلہ سعودی عرب پہنچا

  • (اردو اخبار دنیا)

ریاض: سعودی عرب میں کورونا کے معاملے میں کمی اور رفتہ رفتہ تمام چیزیں کھولنے کے دوران کورونا عہدمیں بیرون ملک سے عمرہ زائرین کا پہلا کارواں سعودی عرب پہنچ گیا۔یہ بات حج وعمرہ کمیٹی نے کہی ہے۔تفصیلات کے مطابق عمرہ زائرین کا پہلا کارواں جمعہ کی رات9بجے نائجیریا سے جدہ ائیرپورٹ پہنچا۔

ائیرپورٹ سے ہوٹل اور مسجد الحرام لے جانے کے لئے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ زائرین کے ہرگروپ کو حرم شریف پہنچاکر خصوصی نگرانی میں عمرہ کرانے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔مدینہ منورہ اور مسجد نبویؐ میں زیارت کے لئے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ نئے عمرہ پروگرام کے تحت آن لائن مکمل عمرہ پیاکیج باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ 9 اگست سے عمرے کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔

پابندی کے شکار ملکوں کے علاوہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے غیرملکی عمرہ ادا کرسکیں گے ۔واضح رہیکہ سعودی عرب کی جانب سے جن ممالک کے عازمین پر عمرہ ادائیگی کی پابندی عائد کی گئی، اُن میں ہندوستان، پاکستان، انڈونیشیا، مصر، ترکی، ارجنٹائن، برازیل، جنوبی افریقہ اور لبنان شامل ہیں۔ہندوستان سے سعودی عرب کیلئے براہ راست پروازیں مارچ 2020ء سے مسلسل بند ہیں

آسام:مندر کے قریب گوشت کی خرید-فروخت پر پابندی

  • (اردو اخبار دنیا)

گوہاٹی۔:آسام اسمبلی نے آسام مویشی تحفظ بل، 2021 پاس کر دیا ہے۔ اب مندر کے 5 کلو میٹر کے دائرہ میں گائے کے گوشت کی خرید یا فروخت پر پابندی ہوگی۔

اس بل کو پاس کرانے کے لیے آسام کی بی جے پی حکومت کافی سرگرم نظر آ رہی تھی، لیکن اقلیتی طبقہ اس بل کے پاس ہونے سے خوش نہیں ہے۔

لال قلعہ کی فصیل سے ہوسکتا ہے کورونا سے مرنے والوں کے لئے معاوضے کا اعلان

نئی دہلی:(اردو اخبار دنیا) وزیراعظم نریندر مودی کورونا وبا سے ہوئی اموات کے لئے یوم آزادی پر لال قلعہ کی فصیل سے معاوضے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعے سے اپنے خطاب میں کورونا وبا کے سبب جان گنوانے والے لوگوں کے کنبوں کے لئے معاوضے کا اعلان کئے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے مرکزی وزارت داخلہ کو ایک رپورٹ سونپی ہے، جس میں کہا گیا ہے اتھارٹی کے پاس ڈیزاسٹر فنڈ میں 20 ہزار کروڑ روپے کی رقم ہے، جس کا استعمال آفت میں جان گنوانے والوں کے کنبوں کو ایکس گریشیا کے طور پر دینے میں کیا جاسکتا ہے۔ آفت کے سبب ہونے والی اموات کے لئے سال 2014 میں چار لاکھ روپے فی شخص رقم طے کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ کورونا وبا کے سبب جان گنوانے والے لوگوں کے کنبوں کو دیئے جانے والے معاوضے کے سلسلے میں کافی دنوں سے تنازع چل رہا ہے اور یہ معاملہ کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت سے 6 ہفتوں میں یہ بتانے کے لئے کہا ہے کہ وہ لوگوں کو کتنا معاوضہ، کب تک اور کیسے دے گی۔ حکومت نے عدالت کو پہلے بتایا تھا کہ وہ پہلے سے چلے آرہے انتظام کے مطابق وبا سے انتقال کرنے والے ہر شخص کے کنبے کو چار لاکھ روپے کا معاوضہ دے گی۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے میں اب وہ تاخیر کرنا نہیں چاہتی اس لئے ممکن ہے وزیراعظم یوم آزادی کے اپنے خطاب میں اس بارے میں اعلان کرسکتے ہیں۔

مرکزی وزیر پیوش گوئل نے ٹاٹا گروپ کے خلاف کیا کہا ، زلزلہ آگیا ، سی آئی آئی کو ویڈیو ہٹانا پڑی ۔

ممبئی / جمشید پور(اردو اخبار دنیا): مرکزی وزیر تجارت و صنعت پیوش گوئل نے سی آئی آئی کی سالانہ میٹنگ کانفرنس میں ٹاٹا گروپ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کہا کہ ہندوستانی صنعت کی کاروباری سرگرمیاں قوم کے مفادات کے خلاف ہیں۔

پرانے ٹاٹا گروپ پر اس طرح کا متنازعہ رد عمل دینے کے بعد پیوش گوئل بار بار اسے دل سےنکلی آواز بتا رہے ہیں۔ دوسری جانب جمعرات کو دیے گئے اس بیان نے حکومت کو الجھا دیا ہے۔ سی آئی آئی نے پہلے پیوش گوئل کی 19 منٹ کی تقریر کی ویڈیو کو یوٹیوب سے ہٹایا ، پھر جمعرات کی رات اس کا نظر ثانی شدہ ورژن اپ لوڈ کیا اور پھر جمعہ کی شام اسے یوٹیوب سے مکمل طور پر ہٹا دیا۔ ٹاٹا گروپ نے مرکزی وزیر کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق سی آئی آئی نے بھی ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
پیوش گوئل نے کانفرنس کے دوران کہا کہ ان کی وزارت کی جانب سے صارفین کی مدد کے لیے تیار کردہ قواعد کی ٹاٹا سنز نے مخالفت کی تھی۔ ہمیں ، میرا اور میری کمپنی کے تصور سے آگے نکلنا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پیوش گوئل وزارت ٹیکسٹائل ، صارفین کے امور اور خوراک اور پبلک ڈسٹری بیوشن کا چارج بھی رکھتے ہیں۔

پیوش گوئل یہاں نہیں رکے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے آپ جیسی کمپنی ، ایک یا دو ، آپ نے کوئی غیر ملکی کمپنی خریدی ہے ، اس کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے ، ملکی مفاد کم ہو گیا ہے۔ مسٹر گوئل نے وہی کہا جو انہوں نے چندرا ٹاٹا گروپ کے چیئرمین این چندر شیکرن سے کہا۔
. گھریلو صنعتی ترجیح اور ہندوستان کے تئیں وابستگی پر سوال اٹھاتے ہوئے پیوش گوئل نے ٹاٹا اسٹیل کو چیلنج کیا کہ کیا وہ جاپان اور کوریا میں اپنی مصنوعات فروخت کر سکتے ہیں۔ وہاں کی کمپنیاں ایک قوم پرست پالیسی پر عمل کرتی ہیں اور وہ درآمد شدہ سٹیل نہیں خریدتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی صنعت ، اس کے برعکس ، اگر وہ اپنی تیار شدہ مصنوعات میں اس سے 10 پیسے کا بھی منافع کماتے ہیں ، تو وہ درآمد شروع کردیتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں ، ایک لابی اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی میں رعایت حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم قوم پرستی کے جذبے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ ہمیں میڈیا میں راسخ العقیدہ کہتے ہیں ، پیچھے کی بات کرتے ہیں۔ جاپان ، کوریا میں کوئی پسماندہ نہیں کہتا۔ ایف ڈی آئی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ کم از کم ان غیر ملکی کمپنیوں کے مفادات کو روکیں۔ ایماندارانہ کاروبار کرنے میں خوش آمدید ہیں۔ لیکن غلطی نہ ہو جب میں نے پڑھا کہ وہ فالنا دھمکانہ کمپنی کے ساتھ شراکت میں آرہے ہے۔ ۔ انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا کہ کچھ کمپنیاں ابتدائی مرحلے میں اسٹارٹ اپس کو فنڈ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ بھی جب اس نے خود کوٹک کے عروج ، پون گوینکا ، ٹاٹا ، امبانی ، بجاج اور برلا سے اس کی تشہیر کے لیے بات کی۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کچھ پیسہ کمانے کے قابل نہیں ہیں ، تو آپ ملک کے لیے اتنی قربانیاں دے سکتے ہیں۔

دوسری جانب پیوش گوئل کے ان تبصروں کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے بھی ان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے کہا کہ ان کا بیان ون مین شو کے ذریعے پیدا ہونے والے کام کا دباؤ ظاہر کرتا ہے۔ شیو سینا کی رکن پارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے اسے شرمناک قرار دیا اور سی آئی آئی کو مشورہ دیا کہ وہ ویڈیو اتارنے کے بجائے پیوش گوئل سے معافی مانگیں۔ کانگریس لیڈر جیویر شیرگل نے کہا کہ پیوش گوئل کا یہ بیان وزیر اعظم کے 'بھارت میں کاروبار کرنے میں آسانی' کے نعرے کا مذاق اڑاتا ہے

لاک ڈاؤن کا قومی پرچم کے کاروبار پر اثر ، جھنڈا بنانے والے کاروباری نے بیان کیا اپنا درد

(اردو اخبار دنیا)کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے جہاں عام زندگی اور کاروبار کو متاثر کیا ہے۔ وہی اس کا قہر ان خاندان پر بھی برپا ہوا ہے۔ جو عوامی سطح پر حب الوطنی کے جذبے کے اظہار کیلئے قومی جھنڈے بنانے کا کام کرتے تھے۔ سال میں دو مرتبہ 26 جنوری اور 15 اگست کے موقع پرترنگے جھنڈےکے ذریعے لوگ ملک کے تئیں اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن کورونا وائرس اور لاک کی آفت سے یہ کاروبار بھی بچ نہیں سکا۔ ممبئی میں کئی ایسے خاندان ہیں جو اپنے گھروں میں قومی پرچم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں۔

لاک ڈاؤن نے اس گھریلو صنعت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ممبئی کے کرلا علاقے کے قریش نگر میں رہنے والی فرزانہ کا کہنا ہیکہ ہر سال تقریباً 20 لاکھ جھنڈوں کے آرڈر دستیاب ہوتے تھے لیکن گذشتہ سال سے جھنڈوں کی مانگ میں بھاری کمی آئی ہے۔ اس سال 20 لاکھ کی جگہ صرف بیس ہزار جھنڈے بنانے کا آرڈر ملا ہے۔ فرزانہ جیسے کئی خاندان کرلا اور ممبئی کے مختلف علاقوں میں قومی پرچم بنانے کا کام کرتے ہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے قومی پرچم کی مانگ میں گراوٹ کے سبب ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔واضح رہے کہ قومی پرچم بنانے والے یہ خاندان ممبئی کے بازاروں میں پرچم سپلائی کرتے ہیں اور اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔

لاک ڈاؤن نے اس گھریلو صنعت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔



فرزانہ کا کہنا ہیکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ممبئی اور مہاراشٹر میں اسکول اور کالج بند ہونے کی وجہ سے قومی پرچم کی فروخت میں گراوٹ درج کی گئی ہے اسکولوں اور کالج میں قومی تقریبات بھی منائی نہیں جارہی ہے اور بجے بھی اسکول نہیں جارہے ہیں۔ ایسے میں قومی پرچم کی فروخت میں زبردست گراوٹ درج کی گئی ہے۔ قومی پرچم کی فروخت میں آنے والی گراوٹ کا سیدھا اثر ان خاندان پر بڑا ہے جو سال میں دو مرتبہ قومی تہواروں کےموقعوں پر ترنگا جھنڈا بناتے اور فروخت کرتے ہیں ۔

پی ایم مودی کا اعلان ، 14 اگست کو ‏Partition Horrors Remembrance Day ‎منایا جائے گا

(اردو اخبار دنیا)نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے 14 اگست کو ملک بھر میں 'وبھاجن وبھیشیکا اسمرتی دیوس' Partition Horrors Remembrance Day منانے کا اعلان کیا ہے۔ سنیچر کو انہوں نے ٹویٹ کیا کہ یہ دن بنٹوارے کے دوران لوگوں کی جدوجہد اور قربانی کی یاد میں منایا جائے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس سے امتیازی سلوک اور بددیانتی کا زہر کم ہوگا۔ ملک میں 75 واں یوم آزادی 15 اگست کو منایا جائے گا۔


وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹویٹ کیا ، 'ملک کی تقسیم کے درد کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ نفرت اور تشدد کی وجہ سے ہمارے لاکھوں بہنوں اور بھائیوں کو بے گھر ہونا پڑا اور یہاں تک کہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ان لوگوں کی جدوجہد اور قربانی کی یاد میں 14 اگست کو ' Partition Horrors Remembrance Day' کے طور پر منانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔




وہیں ایک اور ٹویٹ میں ، وزیر اعظم نریندر مودی نے لکھا ، 'یہ دن نہ صرف ہمیں امتیازی سلوک ، دشمنی اور بددیانتی کے زہر کو ختم کرنے کی ترغیب دے گا بلکہ اس سے اتحاد ، سماجی ہم آہنگی اور انسانی جذبات کو بھی تقویت ملے گی۔'

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...