Powered By Blogger

بدھ, فروری 16, 2022

*ادب اسلامی انداز میں* ایک ڈاکٹر تھے اکثر ایسا ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لئے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینےاور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئے؟

*ادب اسلامی انداز میں*
 
ایک ڈاکٹر تھے اکثر ایسا ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لئے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے
اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر 
صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئے؟ 
تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ھے۔
کہ جس کا نام ابوبکر ھو، عمر ھو، عثمان ھو، علی ھو یا خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ ھو 
تو میں اس سے پیسے لوں۔
ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدینؓ، امہات المومنینؓ
اور بنات رسولﷺ کے ھم نام لوگوں سے پیسے نہ لیئے۔ 
یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔

امام احمد بن حنبل رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نہر پر وضو فرما رھے تھے 
کہ انکا شاگرد بھی وضو کرنے آن پہنچا، 
لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ھوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔
پوچھنے پر کہا 
کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ھے۔
مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔

اپنے سگے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا 
کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟ (عمر پوچھنا مقصود تھا) 
کہا یارسول اللہﷺ بڑے تو آپ ھی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ھے۔

مجدد الف ثانی رات کو سوتے ھوئے یہ احتیاط بھی کرتے 
کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ھوں 
اور بیت الخلا جاتے ھوئے یہ احتیاط کرتے 
کہ جس قلم سے لکھ رہا ھوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔

ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ھے 
اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ھی خاص نہ تھا 
بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ھوئی 
جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اھمیت حاصل تھی 
کیونکہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا 
کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ھم میں سے نہیں۔

ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا 
کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، 
انکے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے 
اور اُنکے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ 
اس کے صدقے اللہﷻ انہیں نوازتا بھی تھا۔ 
اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی 
کہ جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے رزق میں اضافہ کرے 
وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔
اور جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔

ایک دوست کہتے ہیں کہ 
میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا 
کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ھے 
یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔ 
حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔ 
اس (دوست) کا کہنا ھے کہ 
عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ھے 
مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ھے، 
اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے، 
چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔ 
کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ھوئے 
اور انہی کی دعا کا صدقہ ھے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں 
جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ھے۔

والدین کی طرح 
استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی 
اور اس کا تسلسل بھی صحابہؓ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔

حضورﷺ کے چچا کے بیٹے عبد اللہ ابن عباسؓ 
کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہںتے۔ 
اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے 
اور جب وہ صحابیؓ خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے 
تو ان سے حدیث پوچھتے 
اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہںتا، لو چلتی رہںتی 
اور یہ برداشت کرتے رہںتے۔ 
وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے 
کہ آپؓ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا 
تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں 
اور اپنے کام کیلئے آپ کو تکلیف نہ دوں۔

کتنی ھی مدت ھمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا 
(بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ھے) 
کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ھوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے 
جب کہ اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں 
اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ھے۔

مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ھی محدود نہ تھا 
بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ھی احتیاط کی جاتی تھی۔ 
وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ 
چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ھی رہتا تھا۔

ابن عمرؓ جا رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ 
سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ کسی نے کہا کہ 
یہ بدو ھے تھوڑے پہ بھی راضی ھو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔ 
فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا 
تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔

اسلامی تہذیب کمزور ھوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اھمیت کھو بیٹھی۔ 
اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ھوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔ 
جس سے وہ سار ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔

اسلام اس مساوات کا ھرگز قائل نہیں کہ جس میں ابوبکرؓ اور ابوجہل برابر ھو جائیں۔ 
ابو بکرؓ ابوبکرؓ رہیں گے اور ابو جہل ابو جہل رھے گا۔
اسی طرح استاد، استاد رھے گا اور شاگرد، شاگرد۔ 
والد، والد رھے گا اور بیٹا، بیٹا۔ 
سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ھے اُنکو اُنکے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترام دینا ھی تہذیب کا حسن ھے۔

مغربی تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار (شاید) اسی راستے سے ھوا ھے 
جب کہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سمجھ رھے ہیں۔ عریانی اور فحاشی کا برا ھونا سب کو سمجھ میں آتا ھے 
اس لیئے اس کے خلاف عمل کرنانسبتا آسان ھے جب کہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اھمیت کا سمجھ آنا مشکل ھے 
اس لیئے یہ قدر تیزی سے رُو بہ زوال ھے. اللہ کریم ھم سب کو صحیح سمجھ اور خالص عمل کی توفیق عطا  فرمائے... امین

*علی معاویہ میمن سادات*

اتحاد امت، تعلیم اورخدمت خلق امارت شرعیہ کی ترجیحات__ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

اتحاد امت، تعلیم اورخدمت خلق امارت شرعیہ کی ترجیحات__ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

جمشیدپور۔ 16/ فروری (پریس ریلیز) موجودہ حالات کے پیش نظر مسلم معاشرہ کی اصلاح ، خواتین میں دینی بیداری ،نئی نسل کے دین وایمان کی حفاظت کرنا، اسلامی تہذیب وتمدن اور ملت اسلامیہ کی دینی تشخص کو برقرار رکھنا ہم علماء ودانشوارن کی اہم ذمہ داری ہے، جیسا کہ قرآن مقدس کا بھی حکم ہے کہ‘‘ آپ میں ایک جماعت ایسی ہو،جو اچھائی کی طرف بلائے اور برائی سے روکے، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم ، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدرحضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے کیا، وہ جمشیدپور کے علماء ودانشوران خصوصاََ مولانا مفتی امیر الحسن قاسمی امام وخطیب جامع مسجددھتکیڈیہہ، جمشیدپور، مولانا مفتی نشاط احمد مظاہری مہتمم مدرسہ فیض القرآن کپالی، جمشیدپور، اور شہر کے معروف مضمون نگار محترم حافظ ہاشم قادری مصباحی امارت ہاسپیٹل جمشیدپور کے انتہائی متحرک اور فعال شخصیت جناب ریاض شریف سے تبادلہ خیال کے دوران کیا،مفتی صاحب نے فرمایا کہ کلمہ کی بنیاد پر امت کا اتحاد ، تعلیم اور خدمت خلق امارت شرعیہ کی ترجیحات میں شامل ہے، اتحاد امت سے اجتماعی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، تعلیم سے دل اور خدمت خلق سے دماغ پر قبضہ ہوتا ہے،محبت کی فضاقائم ہوتی ہے، اور زندگی کی شاہ راہ پر انسان ترقیات کے منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھتاہے،حضرت نے تنظیم ائمہ مساجدکا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امت کے ہر فرد تک دینی وملی اور سماجی پیغام پہونچانے کے لئے منبرو محراب ،مساجد کے جمعہ کے خطاب کا کوئی بدل نہیں ہے، اور نہ اس سے بہتر نظام امت کو مل سکتاہے، مساجد کے یہ منبرو محراب اس امت کو   اللّٰہ کی جانب سے عطاکردہ ایک عظیم اور بے مثال ونایاب نبوی تحفہ ہیں ، حضرت نے فرمایا کہ جس طرح مرد حضرات کومساجد کے پلیٹ فارم سے جوڑنا ضروری ہے اسی طرح اس پر فتن دور میں مستورات کے لئے دینی اجتماع قائم کرنا ،اور اس میں دینی بیداری پیدا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے نائب ناظم صاحب کے تما م پروگرام میں قاضی شریعت مولانا قاضی محمدسعود عالم قاسمی ومعاون قاضی شریعت مولانا قاری افروز سلیمی القاسمی بھی ساتھ ساتھ رہے ، مفتی صاحب کی آمد پرشہر کی معروف شخصیت ، ٹاٹا اسٹیل کمپنی اسپورٹ کے ہیڈکوچ محترم ڈاکٹر حسن اما م ملک نے حضرت نائب ناظم صاحب کو شال اڑھاکر ان کا استقبال کیا۔
واضح رہے کہ اس وقت امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم حضرت مولانامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب جھارکھنڈ کے شہر آہن جمشیدپور کے دفتری جائزہ کے سفر پرہیں ، آج ان کے سفر کا دوسرا دن تھا، حضرت کی روانگی رانچی کے لئے ہوچکی ہے، جہاں وہ دفتری جائزہ کے ساتھ امارت پبلک اسکول ، پسکا نگری رانچی کا تعلیمی جائزہ لیں گے، ہندپیڑھی اور اربا میں تعلیم کے آغاز اور اس کے امکانات کے سلسلہ میں عمائدین شہر اور مقامی کمیٹی کے افراد سے تبادلہ خیال کریں گے اس سے قبل حضرت کا پانچ روزہ دورہ اڈیشہ میں تھا امیرشریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم وہدایت کی روشنی میں امارت شرعیہ کے کاموں کورفتار دینے کی غرض سے یہ اسفار ہورہے ہے، یہ رپورٹ دفتر دار القضاء امارت شرعیہ جمشیدپور سے معاون قاضی افروز سلیمی القاسمی نے دی ہے۔

اویسی پر حملہ __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اویسی پر حملہ __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
گذشتہ دنوں ایم آئی ایم کے سربراہ جناب اسد الدین اویسی پر اترپردیش میں ہوئے قاتلانہ حملہ نے پورے ملک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، پارلیامنٹ کے ارکان اور اسپیکر نے بھی اس بزدلانہ حملہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے، خبروں کے مطابق وہ ہاپوڑ سے انتخابی جلسہ کرکے دہلی واپس ہو رہے تھے تو ایک ٹول پلازہ پر صرف چھ فٹ کی دوری سے چار گولیاں چلائی گئیں، مجرمین دو تھے ایک کو اویسی کے ساتھیوں نے پکڑ لیا اور دوسرا سی سی کیمرے کی زد میں تھا اس لئے اس کی شناخت آسانی سے ہو گئی اور اسے دھر دبوچا گیا، دونوں مجرم اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
اس حادثہ کے بعد مرکزی حکومت نے جناب اسد الدین اویسی کو زیڈپلس سیکورٹی فراہم کرنے کا اعلان کیا، لیکن اسد الدین اویسی نے اسے لینے سے انکار کردیا، ان کا کہنا تھا کہ موت ایک بار ہی آتی ہے، اتنے قریب سے گولی چلنے پر  اللّٰہ نے ہمیں بچا لیا، وہ جب تک مجھ سے کام لینا چاہے گا، لے گا اور پھر واپس اپنے پاس بلا لے گا، اس لئے ہمیں سیکورٹی نہیں چاہئے، جن لوگوں نے یہ حرکت کی اس پر یو اے پی اے لگائیے اور مسلمانوں کو اے کٹیگری کا شہری بنایئے، جو لوگ نفرت پھیلا رہے ہیں ان پر پابندی لگایئے۔میری جان اخلاق اور پہلو خان سے زیادہ قیمتی نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے ہتھیار بند لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے گھٹن محسوس ہوتی ہے، وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی جان کے تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے زیڈ پلس سیکوریٹی قبول کر لیں، لیکن اویسی اپنی ضد پر قائم ہیں کہ انہیں سیکوریٹی نہیں چاہیے۔
پالیامنٹ میں اسد الدین اویسی کی اس ولولہ انگیز تقریر اور یقین محکم نے پورے ہندوستان کا دل جیت لیا، ایک وہ منظر تھا کہ پارلیامنٹ میں جب یوگی آدتیہ ناتھ اپنے خلاف ہوئے معمولی حملہ پر زار وقطار رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اگر ہمیں تحفظ نہیں دیا گیا تو پارلیامنٹ کی رکنیت سے ہم استعفیٰ دیدیں گے، پارلیامنٹ کے ارکان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایم آئی ایم کے سربراہ نے رونے کے بجائے زیڈسیکورٹی تک واپس کرنے کا اعلان کیا ہے، ان کے اس رویہ اور پارلیامنٹ میں ان کی دانشمندانہ اور جرأت مندانہ تقریر سن کر کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اترپردیش میں ان کی فتح شروع ہو گئی ہے، اسمبلی میں سیٹیں جتنی بھی آویں یا نہ آویں، لیکن ان کی اخلاقی فتح تاریخ کا حصہ بن گئی ہے جسے ان سے اب کوئی چھین نہیں سکتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...