Powered By Blogger

جمعرات, مئی 26, 2022

اب منگلور میں تنازعہ ، مسجد کے نیچے مندر کی علامات ملنے کا دعوی ، ہندو تنظیموں نے مسجد کے باہر پوجا کرکے ماحول میں زہر گھولنے کی کوشش

اب منگلور میں تنازعہ ، مسجد کے نیچے مندر کی علامات ملنے کا دعوی ، ہندو تنظیموں نے مسجد کے باہر پوجا کرکے ماحول میں زہر گھولنے کی کوششاتر پردیش کے گیان واپی سے شروع ہوا مندر مسجد تنازعہ اب کرناٹک تک پہنچ گیا ہے۔ کرناٹک کے منگلور میں ملالی جامع مسجد کے نیچے مبینہ طورپر مندر جیسی شکل ملنے کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے مسجد کے باہر پوجا کرکے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی۔ مقامی انتظامیہ نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے یہاں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔یہ منگلور کے مضافات میں واقع گروپرا تعلقہ کی ایک پرانی مسجد ہے۔ یہاں ملالی مارکیٹ میں مسجد کے احاطے میں مرمت کا کام چل رہا تھا۔ مسجد کا ایک حصہ پہلے ہی منہدم ہو چکا تھا۔ 21 مئی کو کام کے دوران جب مسجد کا ملبہ ہٹایا جا رہا تھا تو مبینہ طورپر یہاں مندر جیسا ڈھانچہ نظر آیا۔ ہندو تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ انہیں ان کا مندر کا حصہ واپس کیا جائے، انتظامیہ نے مسجد کی اراضی سے متعلق دستاویزات جمع کروائی ہیں تاکہ علاقے میں کشیدگی نہ بڑھے۔ فی الحال یہ معاملہ مقامی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ جب تک یہ واضح نہیں ہوتا ہے کہ زمین پر مسجد تھی یا یہاں مندر تھا، عدالت نے مسجد کی مرمت پر روک لگا دی ہے۔منگلور میں مبینہ طور پر مسجد کے نیچے ہندو مندر کا ڈیزائن ملنے کے بعد بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) سے سروے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سروے میں آئینے کی طرح صاف ہو جائے گا کہ وہاں مندر تھا یا نہیں۔

تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے تحریک چلائے گا ایوان سرسید

تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے تحریک چلائے گا ایوان سرسید

ایم مشرا/ لکھنؤ

اتر پردیش میں اقلیتی تعلیمی نظام کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جو خیالات ظاہر کیے جا رہے ہیں، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اگر مسلم معاشرہ مستقبل میں بہتر تعلیمی ادارے قائم نہیں کرتا ہے تو اس سے مسائل مزید گہرے ہوں گے۔ اس سے ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے لیے ذاتی شناخت کی حفاظت خطرے میں پڑ جائے گی۔

نئے مدارس کو گرانٹ نہ دینے کے اتر پردیش حکومت کے حالیہ فیصلے سے لوگ پریشان ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن (امیبا) نے لکھنؤ میں مختلف وجوہات کی وجہ سے تعطل کا شکار تعلیمی اور سماجی تحریکوں کو بحال کرنے کے لیے ایوانِ سر سید کے قیام کا اعلان کیا ہے۔

اس مسئلہ پر یہاں مسلم دانشوروں کا اجلاس منعقد ہوا۔ امیبا کے صدر، معروف معالج اور سماجی کارکن پروفیسر شکیل قدوی کے ساتھ ساتھ کئی ذمہ داران نے کہا کہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے جس جوش و جذبے کی ضرورت ہے،اس سے کام نہیں لیا گیا۔

درگاہ شاہ مینا کے معروف سماجی کارکنوں راشد مینائی اور سید بلال نورانی نے کہا کہ ایوانِ سرسید کسی لالچ یا بھیک کے لیے نہیں بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں وہی مشن اور تحریک اپنانے کی ضرورت ہے جسے سرسید نے اپنایا تھا۔ خرچ بھی کریں گے اور عوام سے عطیات بھی لیں گے اور ساتھ ہی حکومتی سطح پر مراعات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن کسی نہ کسی طرح یہ مشن پورا ہو جائے گا۔

اس حوالے سے مشہور سماجی کارکن اور کئی مدارس کی منتظم طاہرہ رضوی کہتی ہیں کہ سرسید کے نقش قدم پر چلنا آسان نہیں ہے لیکن موجودہ دور میں تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے ایوان سرسید کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت ہے۔

ممتاز سماجی کارکن ڈاکٹر سلمان خالد کا کہنا ہے کہ لوگوں کے حوصلے ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے اور محدود وسائل کے باوجود تمام مذاہب کے پسماندہ، استحصال زدہ اور غریب لوگوں کی مدد کے لیے بہت کام کیا جائے گا۔

عوام کو زندگی کی بنیادی اور ضروری سہولتیں فراہم کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دینی مدارس سے وابستہ لوگوں کی مایوسی اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ مالی مشکلات کو دور کرنے کے لیے بھی خصوصی تحریک چلائی جائے۔ ان مدارس کے لیے بھی ایک منظم حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...