Powered By Blogger

جمعرات, جولائی 20, 2023

عرب لیگ میں شام کی شمولیت ✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عرب لیگ میں شام کی شمولیت 
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عرب ممالک میں عرب لیگ اور تنظیم برائے تعاون اسلامی (OIC)کی بڑی اہمیت ہے، عرب لیگ کا قیام ۱۹۴۵ میں ہوا تھا ، اس کا صدر دفتر مصر کی راجدھانی قاہرہ میںہے، بائیس (۲۲) عرب ممالک اس کے ممبر ہیں، شام کے صدر بشار الاسد نے روس کے صدر ولادیمیرپوتین کی حمایت او راپنے ہی شہریوں پر مہلک ترین اور خطرناک کیمیاوی ہتھیار استعمال کرکے ظلم وستم کی نئی مثال قائم کی تھی جس کے نتیجے میں شام کا بڑا علاقہ قبرستان میں بدل گیا تھا اور بہت سارے شہری موت کے گھاٹ اتر گئے تھے ان حالات میں عرب لیگ نے ۱۲؍نومبر ۲۰۱۱ئ؁ کو اس کی رکنیت کو معطل اور منجمد کر دیا تھا، اس کے فوراً بعد تنظیم برائے تعاون اسلامی (OIC)نے شام کے بارے میں عرب لیگ کی تائید کرتے ہوئے اپنی تنظیم سے بھی دور کردیا تھا، لیکن اب حالات بدل گیے ہیں ۔ ترکی ، سعودی عرب ، مصر، تیونس ،عمان،  اردن وغیرہ شام کی عرب لیگ میں شمولیت کے حق میں تھے،یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ لیبیا، شام لبنان ، عراق اور یمن سب کے احوال اس قدر خراب ہیں کہ بغیر اجتماعی آواز کے ان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے پرانے گلے شکوے بھلا کر عرب لیگ نے اس کی رکنیت ۷؍ مئی ۲۰۲۳ء کو بحال کر دی ہے، اس عمل سے شام کی قوت میں اضافہ ہوگا اور بہت سارے کام اس کے سہارے کئے جا سکیں گے ، آگے بڑھنے کے لیے کبھی کبھی مضی مامضی یعنی جو گذر گیا وہ گذر گیاپر عمل کرنا ہوتا ہے اور سارے گلے شکوے بھلا کر ملنا ہوتا ہے، جیسا کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین پہلے ہو چکا ہے۔

یکساں سول کوڈ (uniform civil code) مفید یا مضر ؟🖋️🖋️ اسرار عالم قاسمی، کشن گنج، بہار

یکساں سول کوڈ (uniform civil code) مفید یا مضر ؟
اردودنیانیوز۷۲ 
🖋️🖋️ اسرار عالم قاسمی، کشن گنج، بہار

ہندوستان کے قوانین (سمودھان) میں یہاں کے رہنے والے تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہبی پرسنل لا پر عمل کرنے کی کُھلی آزادی ہے، وہ اپنے دین و مذہب پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نشر و اشاعت بھی کر سکتے ہیں۔
ایک زمانے سے برادرانِ وطن میں سے کچھ شر پسند عناصر موقع موقع سے شور مچاتے رہے ہیں اور ہنگامہ آرائی کرتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے خواہ ہندو ہوں یا مسلمان، سکھ ہوں یا عیسائی، بدھ مت کے ماننے والے ہوں یا جینی حضرات، تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کے لیے صرف اور صرف ایک ہی قانون ہونا چاہیے، جسے (uniform civil code) کہتے ہیں؟ اب حکومت بھی اس سلسلے میں بہت متحرک ہوگئی ہے، لا کمیشن نے عوام و خواص سے اس سلسلے میں ایک ماہ  کے اندر 13/جولائی 2023ء تک اپنی اپنی رائے پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔
محترم قارئین! میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اس سے واقف ہو، اور اس سے بچنے کے جو بھی مؤثر اسباب ہوں انہیں اختیار کیا جائے۔
سب سے پہلے تو یکساں سول کوڈ (uniform civil law) کیا ہے؟ اسے سمجھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کے لیے ایسے قوانین بنائے گی، جو تمام لوگوں کے لیے یکساں ہو؛ حالاں کہ ملک کے موجودہ دستور نے تمام باشندوں کو اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔
"یکساں سول کوڈ" کو ان مثالوں سے بھی بآسانی سمجھا جاسکتا ہے، جیسے کہ قرآن مجید کا صریح حکم ہے "لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظّ الْأُنْثَیَیْنِ" کہ مؤنث (بیٹی) کو میت کے متروکہ مال میں مذکر (لڑکے) کا نصف ملے گا، اب اگر ہندوستان میں یکساں شہری قانون کے طور پر یہ قانون بنادیا جائے کہ وراثت میں سب کو برابر ملے گا، کوئی کمی بیشی نہیں، تو یہ قرآن کے صریح حکم کے خلاف ہوگا۔ یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے، ایسی سینکڑوں مثالیں بن سکتی ہیں، متبنی کا مسئلہ، طلاق ثلاثہ کا مسئلہ، 18 سال سے پہلے بچے اور بچیوں کو بالغ نہ ماننا، اور ولی کو شادی کروانے کا حق نہ ہونا وغیرہ، کورٹ کے یہ سب فیصلے، جو ہمارے عائلی قوانین میں دخل اندازی ہے، یکساں سول کوڈ ہی کی طرف بڑھتے قدم ہیں۔
یاد رکھیے! ہر جگہ کے قوانین دو طرح کے ہوتے ہیں:  (١) سول کوڈ: سول کوڈ شہری قوانین کو کہتے ہیں، اور(٢) کرمنل کوڈ: کرمنل کوڈ فوجداری قوانین کو کہتے ہیں۔ سِوِل کوڈ میں شہریوں کو اپنے اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کی مکمل آزادی ہے۔ ہاں! فوجداری قوانین میں کسی بھی دین و مذہب کو دخل نہیں ہے، وہ ملک کے سیکولر نظام‌کے مطابق ہی چلے گا۔
ہندوستان کے قوانین کی ایک اور تقسیم ہے؛(۱) بنیادی اصول، اور (۲) رہنمایانہ اصول۔ رہنمایانہ اصول میں سے آرٹیکل نمبر:44 کہتا ہے کہ ملک کی حکومت یہ کوشش کرے گی کہ تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون ہو۔ اور بنیادی حقوق میں آرٹیکل نمبر: 25،جس کو (fundamental rights) کہتے ہیں، یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے آئینی قوانین پر عمل کرنے کی کلیتاً اجازت ہے۔ یہ قوانین بن کر لوگوں کے سامنے جب آئے تھے، اس وقت بھی ہمارے علمائے کرام نے اس کے خلاف احتجاج درج کرایا تھا کہ ان دونوں آرٹیکلس کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ ہو رہا ہے؛ لیکن پھر بھی یہ بل پاس ہو گیا۔
ان قانونی دفعات میں ایک بات یہ بھی لکھی ہوئی ہے کہ: اگر رہنمایانہ اصول اور بنیادی حقوق کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ ہو جائے، تو اس وقت بنیادی حقوق کو ترجیح دی جائے گی، اور بنیادی حق یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے اپنے دینی و مذہبی عائلی قوانین پر عمل کرسکتا ہے، اسے عمل کی مکمل اجازت ہے۔
یہ بات بھی آپ کے ذہن نشیں رہے کہ "یونیفارم سول کوڈ" کا مخالف ہر شہری کو ہونا چاہیے، یہ سبہوں کی دینی روایات، سماجی پرمپرا اور ملکی سمودھان کے خلاف ہے؛ تاہم ایسا لگتا ہے کہ "یکساں سول کوڈ" کی مخالفت سب سے زیادہ مسلمان ہی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دین اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ ہے، اس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے، اور اس کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ دیگر ادیان و مذاھب میں اتنی پختگی نہیں ہے، ان میں سے اکثر کا تعلق "ادیانِ وضعیہ" سے ہے، بعض کا تعلق "ادیانِ سماویہ" سے ہے؛ لیکن ان کے اندر اتنی تبدیلیاں آگئی ہیں کہ صحیح اور غلط کا امتیاز انتہائی مشکل ہو گیا ہے، وہ ادیان اپنی اصلی حالت پر نہیں ہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ "یکساں سول کوڈ" یعنی ایک جیسے شہری قوانین کے نفاذ سے ملک میں امن و سکون کا ماحول ہو گا؛ حالاں کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ سنہ1914ء سے 1918ء تک عالمی جنگ ہوئی، جس کو عالمی جنگ عظیم اول کہتے ہیں، اور سنہ1939ء سے سنہ 1945ء تک جنگ ہوئی، جس کو عالمی جنگ عظیم ثانی کہتے ہیں، ان دونوں جنگوں میں جو ممالک لیڈنگ کر رہے تھے، یعنی قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے، وہ سب عیسائی مذہب کے تھے، پوری دنیا تقریباً دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی، صرف جنگ عظیم اول میں تقریباً تین کروڑ لوگ مارے گئے تھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملک کا قانون ایک ہوگا تو امن وامان ہوگا، یہاں بھی تو دونوں جانب عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے، ان کے قوانین کی یکسانیت ان کی جان نہیں بچاسکی۔ ہمارے ملکِ ہندوستان میں کورو اور پانڈو نام کے بادشاہ گزرے ہیں، ایک ہی دین اور ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے تھے؛ لیکن ان میں ایسی شدید لڑائی ہوئی کہ دنیا اسے "مہا بھارت" کے نام سے جانتی ہے۔
قانون ایک ہونے سے ملک میں امن و سکون اور احترامِ انسانیت نہیں ہوسکتا، امن و سکون کے لیے  اللہ کا خوف، اس کی خشیت، دین و شریعت کا پاس و لحاظ انتہائی ضروری ہے۔
ہر شہری کے لیے ضروری ہے کہ "یونیفارم‌ سول کوڈ" کے نفاذ کی مخالفت کرے اور اپنا احتجاج درج کروائے۔ الحمد للّٰہ مسلم تنظیمیں اس پر کام کر رہی ہیں، آپ بھی ڈٹے رہیں، ان شاءاللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ آخر میں بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہوں کہ: اے الہٰ العالمین! ہم سب کو امن و سکون اور عافیت کے ساتھ دین و شریعت پر عمل کرنے والا بنا، دشمنان اسلام کے لیے اگر ہدایت مقدر  ہو، تو انہیں ہدایت نصیب فرمادے، ورنہ تو ان سے اپنی زمین کو پاک کردے، آمین ثم آمین
********** _________ **********

مسلمانو ! اپنی شکل وصورت محمدی بناؤشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

مسلمانو !  اپنی شکل وصورت محمدی بناؤ
اردودنیانیوز۷۲ 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

سچ یہ ہے انسان کو یورپ نے ہلکا کر دیا 
ابتدا ڈاڑھی سے کی اور انتہاء میں مونچھ لی ۔
ڈاڑھی کبھی عورت کے چہرے پر نہیں آتی جب بھی آتی ہے مرد کے چہرے پر آتی ہے صرف یہ بتانے کے لئے کہ تم مرد ہو اور مرد ڈاڑھی منڈواکر کہتا ہے نہیں بھائی تم غلط فہمی میں مبتلا ہو میں وہ نہیں ہوں جو تم سمجھ رہے ہو ۔
فرمان رسول ﷺ  
اپنی مونچھیں کترواتے رہو اپنی ڈاڑھیاں بڑھاؤ   (طبرانی )
ہر لشکر کی ایک وردی ہوتی ہے جس سے وہ لشکر پہچانا جاتا ہے اسی طرح ہر مذہب کے کچھ ظاہری احکام بھی ہوتے ہیں جن سے صاحب مذہب کی پہچان ہو جاتی ہے محمدی لشکر اور اہل اسلام کی وردی اور ظاہری پہچان جو شریعت اور بانئ شریعت نے مقرر کی ہے وہ جن لوگوں پر نظر آئے گی بظاہر وہ ہی اس میں شمار کئے جائیں گے اور مومن و مسلم ہونے کا انہیں کے سر سہرا بندھے گا دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جس کسی شخص کو کوئی زیادہ محبوب ہوتا ہے اور جس کو وہ اپنا سچا خیر خواہ سمجھتا ہے اس کی باتوں کا ماننا وہ اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے اس کے خلاف کو اپنے حق میں سم قاتل سمجھتا ہے اور اس سے کوسوں دور رہتا ہے
یاد رکھیں نشان اسلام اور تمغۂ محمدی داڑھی کا بڑھانا مونچھوں کا پست کرنا ہے رسول اللہ ﷺ  فرماتے ہیں مشرکوں کا خلاف کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں بہت ہی پست کراؤ  (بخاری و مسلم ) 
مجھے ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ڈاڑھیاں بڑھائیں اور مونچھیں بہت کم کرا ئیں اور کسریٰ کو ماننے والے اس کا خلاف کریں یعنی مونچھیں بڑھائیں اور داڑھیاں منڈوائیں  ہمارا طریقہ ان کے خلاف ہے ( دیلمی)
 ایک مرسل حدیث میں ہے کہ لوطیوں کی بستیاں الٹ دینے کے جو اسباب پیدا ہوئے تھے ان میں ڈاڑھیوں کا منڈوانا اور  مونچھوں کا بڑھانا بھی تھا (ابنِ عساکر )
آپ فرماتے ہیں ڈاڑھیوں کو منڈوانے اور زیادہ کتروانے والوں کی اللہ تعالی دعا قبول نہیں کرتا اور نہ ان پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور فرشتے ان کو ملعون کہتے ہیں اور وہ خدا کے نزدیک یہود و نصاریٰ کے برابر ہیں  (طحاوی) 
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ڈاڑھیوں کو کبوتروں کی دموں کی طرح کتروانے والوں کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں اسی طرح اخروی نعمتوں سے بھی محروم ہیں ( احیاء العلوم) 
سارے انبیاء علیہم السلام کی سنت یہی ہے کہ وہ ڈاڑھیاں بڑھاتے تھے اور مونچھیں کم کراتے تھے یہ علامت ہے اسلام کی اور اس کا خلاف کرنے والا کل انبیاء علیہم السلام کا مخالف ہے ( مسند احمد) 
خود رسول اللہ ﷺ  کی ڈاڑھی مبارک گھنی اور بہت زیادہ بالوں والی تھی ( مسلم ، ترمذی ، نوی) 
افسوس آج کل مسلمانوں کو ان شکلوں سے کیوں نفرت ہے وہ آپ کے اور صحابہ کرام کے طریقہ کو کیوں نا پسند کرتے ہیں ایسی شکلیں صورتیں بنا لیتے ہیں کہ بعض وقت تو مسلم و غیر مسلم میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔  نوجوانوں میں یہ بیماری عام طور پر پھیل گئی ہے حدیث میں ہے جس صورت پر مرو گے اسی صورت پر قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے منڈی ہوئی داڑھی اوربڑی ہوئی مونچھوں سے خدا کے اور اس کے رسول ﷺ  کے سامنے جانے سے کیا آپ کو شرم معلوم نہیں ہوگی۔  سکھوں کو دیکھو ان کے گرو کا حکم ہے کہ جسم کے کسی حصے کے بال نہ لیں وہ کس طرح اپنے مذہب کا احترام کرتے ہیں کہ ناپاک بال بھی نہیں لیتے پھر تعجب ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں اپنے رسول اللہ ﷺ  کی تعلیم کی ذرہ بھر بھی قدر نہ ہو بلکہ وہ بڑھی ہوئی ڈاڑھی اور پست مونچھ پر پھبتیاں اڑائیں آوازے کسیں ۔  طب کی رو سے بھی ڈاڑھی منہ کی اور گلے کی بیماریوں سے بچا لیتی ہے قوت قائم رکھتی ہے وغیرہ ۔ اپنے ہاتھوں سے اسلام کے نشان کو گرانا اپنے آپ محمدی صورت سے نفرت رکھنا پیسے دے کر سنت کو مارنا یہ انسان کی کون سی شرافت ہے ۔ 
مسلمانو ! لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔  تمہارے لئے تو اچھا نمونہ رسول اللہ ﷺ ہی ہیں تمہیں نہیں چاہیے کہ آپ کی مخالفت اور مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی موافقت کرو آپ فرماتے ہیں جو شخص جس قوم کی مشابہت کرے گا قیامت کے دن اس کا حشر انہی کے ساتھ ہوگا (ابوداؤد) 
مرد ہو کر عورتوں کی مشابہت کرنی نہایت بے شرمی کی بات ہے صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ  فرماتے ہیں اللہ کی لعنت ہے اس مرد پر جو عورتوں کی مشابہت کرے مرد کو داڑھی کا منڈانا ایسا ہی برا ہے جیسے کہ عورت کا سر منڈوانا بلکہ اس سے بھی بد اور بدتر باوجود اس قدر وعید شدید کے پھر بھی اکثر مسلمان اپنی شکلوں صورتوں  کو شریعت کے مطابق نہیں رکھتے اکثر تو صفا چٹ کر اتے ہیں اور بہت سے برائے نام کچھ بال لگے رہنے دیتے ہیں پھر بعض کے انچ پھر بعض کے دو انچ  اور بعض فرنچ فیشن دمدار ڈاڑھی رکھوا تے ہیں یہ سب کے سب سنت کے خلاف ہیں ۔ 
جس طرح صحابہ نے جاہلیت کی رسمیں چھوڑ دیں جس طرح عہد اول کے لوگوں نے ڈاکہ زنی،  شراب خوری،  زناکاری،  چوری،  بت پرستی،  حرام خوری،  صدیوں کی عادتیں ترک کردیں۔  اگر ہم بھی مسلمان ہیں تو کیا ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ قبروں کی پوجا پاٹ ہم بھی چھوڑ دیں تجارتوں کی برائیاں ہم بھی نکال دیں ڈاڑھیاں منڈوا نے اور خلاف شرع لباس پہننے کی عادت کو ہم بھی ترک کر دیں ۔
مسلمانو ! کسی سنت کو ہلکی نہ سمجھو کسی فرمان رسول کی بے ادبی نہ کرو اپنی شکل و صورت محمدی بنا ؤ اللہ ہمیں نیک صورت خوش سیرت بنائے ہمارا ظاہر وباطن سنوار دے آمین ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...