Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 02, 2022

اشرف استھانوی:یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے**ڈاکٹر نورالسلام ندوی،پٹنہ*

*اشرف استھانوی:یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے*
اردو دنیا نیوز ٧٢

*ڈاکٹر نورالسلام ندوی،پٹنہ* 

*رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی* 
*تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی*

آہ !اشرف استھانوی بھی گذرگئے،15؍نومبر2022بروزمنگل کودفترسے پٹنہ واپس آرہاتھاکہ راستے میں ان کے انتقال کی خبرملی اورخرمن سکون وچین کوخاکسترکرگئی۔وہ عمررسیدہ نہیں تھے ،لیکن جس بیماری سے دوچارتھے ایسی خبرغیرمتوقع نہیں تھی۔وہ گذشتہ کئی سالوں سے قوت گویائی کے مرض میں مبتلا تھے،اور جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا،زندگی کے آخری ایام میں نہایت کمزور، نحیف اور لاغرہو گئے تھے،چونکہ وہ سوشل میڈیا پر نہایت فعال رہا کرتے تھے، اس لیے ہر ایک کو اس کا علم نہیں تھا کہ وہ قوت گویائی سے محروم ہیں اور نہایت کشمکش کی زندگی گذار رہے ہیں،اس وقت ان کی حیثیت بہارکے اردوصحافتی منظرنامہ پرایک آفتاب کے مانند تھی۔ آفتاب صحافت کے غروب ہونے پر آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا،دل کوچوٹ لگی اورکافی صدمہ پہنچا۔ نگاہوں میں ان کاسراپادیرتک گھومتارہا۔سنیئر اور مشہور صحافی جناب اشرف استھانوی صاحب ایک زندہ دل انسان تھے اورانسانی زندگی کے مسائل اوراتارچڑھائوسے جینے کاہنرسیکھاتے رہے۔انہوں نے پوری زندگی قلم وقرطاس کی آبلہ پائی میں گذاردی۔ایک صحافی ،مضمون نگار،کالم نگاراورمصنف کی حیثیت سے اپنی جداگانہ شناخت وامتیازرکھتے تھے۔

*سراپا*
اوسط سے کچھ نکلتاقد،چوری پیشانی،چہرے پرہلکی داڑھی،بڑی بڑی آنکھیں اوراس پربڑے سائزکالال رنگ کاچشمہ چہرے کوپرنوراوربارعب بنادیتاتھا، کبھی شرٹ پینٹ اورکبھی کرتاپائے جامہ زیب تن کرتے۔وضع داری اورحلم وبردباری ان کے چال ڈھال سے عیاں تھی ،تواضع،خوداری،نفاست پسندی،خاکساری اورعلماء کی قدردانی جیسے اوصاف سے متصف تھے، جس کے سبب ملاقاتی ان کی طرف کھینچتے تھے۔اورجدھرنکلتے لوگوں کی نگاہ ان کی طرف اٹھ جاتی۔

*میرے تعلقات*
 ان سے میرے تعلقات ڈیڑھ دہائی پرمحیط تھے۔ان کا مجھ سے برادرانہ ،عزیزانہ اور مشفقانہ تعلق تھا۔میری ان سے پہلی ملاقات 2008 میں بہاراردواکادمی کے ایک پروگرام میں ہوئی،انہوں نے مجھ سے کہاکہ میں آپ کواردوکے پروگراموں میں پابندی سے شرکت کرتے ہوئے دیکھتاہوں، اس لئے آپ سے ملنے کی خواہش ہوئی،آپ نہایت مہذب اور شریف نوجوان معلوم ہوتے ہیں، مجھے آپ سے بہت الفت ہے، اس کے بعد ملاقات بات کاسلسلہ شروع ہوگیااورتقریباًروزہی ملاقات ہوتی۔اگرکبھی ملاقات نہیں ہوتی توفون کرکے خیریت دریافت کرتے یاپھرچائے پرمدعوکرلیتے۔وہ مجھ سے بہت مانوس تھے، میری ترقی اور کامیابی پر دل کھول کر خوشی کا اظہار کرتے،دوسروں کے سامنے بڑے اونچے الفاظ میں میرا تعارف کراتے،میرے عزم وحوصلہ کو پروان چڑھاتے، سال 2011میں جب میں پٹنہ یونیورسٹی میں ایم اے اردوکاٹاپرہواتوانہوں نے بڑی حوصلہ افرائی کی ،دعاوں سے نوازااورمیرے اعزازمیں بہاراردواکادمی پٹنہ میں ایک اعزازیہ تقریب منعقدکی۔جس کی صدارت جسٹس نیرحسین نے کی تھی۔اس موقع پرانہوں نے میرے والد گرامی جناب عبد السلام صاحب کو بطورخاص مدعوکیااوران کی بھی عزت افزائی کی۔
5نومبر 2015 کو میرے نکاح کی تقریب میں میری دلداری میں میرے وطن جمالپور ضلع دربھنگہ تشریف لائے،اور اس موقع پر مترنم آواز میں اپنا لکھا ہواسہرا پڑھ کر سامعین کو محظوظ کیا، نیز سہرا فریم کروا کر بطور تحفہ مجھے پیش کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کومجھ سے والہانہ محبت تھی،ہرخوشی اورغم میں میرے ساتھ شریک رہتے ،اکثرمسائل ومعاملات میں وہ مجھ سے مشورہ کرتے۔ملی و سیاسی موضوعات پر خاصی گفتگو ہوتی ،میرے محسن تھےوہ، جہاں محسوس کرتے بلاجھجک مجھے مشورہ دیتے۔ بہاراسٹاف سلیکشن کمیشن کے ذریعہ جب اردومترجم کیلئے میرا سلیکشن ہوا توانہوں نے مجھے مبارکبادی کا پیغام بھیجا، جس میں انہوں نے تحریر کیا کہ’’ آپ کو میں کالج کا لکچرر دیکھنا چاہتا ہوں، پھر بھی اردو مترجم کا جو رزلٹ آیا ہے وہ بہتر ہے، کوشش کیجئے کہ پٹنہ ہی میں پوسٹنگ ہو ۔پٹنہ کو خیر آباد نہیں کرنا ہے بلکہ فیملی کے ساتھ راجدھانی پٹنہ میں ہی رہنا ہے، اس سے آپ کی شناخت بنی رہے گی انشااللہ‘‘۔

*ابتدائی حالات*
 اشرف استھانوی کی پیدائش 2فروری 1967 کو بہار کے مردم خیز قصبہ استھانواں ضلع نالندہ میں ہوئی، آپ کا اصل نام ضیاء الاشرف ہے، لیکن قلمی اور علمی دنیا میں اشرف علی تھانوی کے نام سے شہرت پائی۔ والد محترم کا نام نعیم احمد اور دادا کا نام سعید احمد ہے،والد کا سایہ کم عمری میں سر سے اٹھ گیا، آپ کی پرورش و پرداخت میں مولانا سید رضا کریم نے اہم رول ادا کیا، وہ رشتہ میں آپ کے خالو تھے،ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی، پھر جامعہ محمدیہ میں شعبہ حفظ میں داخلہ لیا، اور حفظ کی تعلیم مکمل کی،نالندہ کالج سے انٹر کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد پٹنہ آگئے اور 1984 میں پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن پاس کیا۔

 *صحافتی خدمات*
 آپ نے زمانہ طالب علمی میں ہی وادی صحافت میں قدم رکھ دیا تھااور صحافت کا آغازپٹنہ سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامہ سرچ لائٹ سے مراسلہ کے ذریعہ کیا۔ پھر نالندہ میں روزنامہ قومی آواز سمیت دیگر اردو روز ناموں کی نمائندگی کی، پٹنہ میں جب گریجویشن کر رہے تھے تو اسی وقت اردو روزنامہ قومی آواز میں جرائم کی رپورٹنگ کی خدمت انجام دی، اس کے بعد سے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 35 سالہ صحافتی زندگی میں انہوں نے ہفتہ وار بلٹز ممبئی سے لے کر قومی آواز، انقلاب جدید، سیکولر بہار، قومی تنظیم اور چوتھی دنیا تک میں اپنی خدمات انجام دیں۔سات سالوں تک پٹنہ سے شائع ہونے والے مقبول عام اردو روزنامہ قومی تنظیم کے چیف رپورٹر رہے، روز نامہ انقلاب جدید پٹنہ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کی، حالانکہ روزنامہ ہمارا نعرہ،پٹنہ سے ان کا اکریڈیشن کارڈ جاری ہوا تھا۔کچھ سالوں تک بہار کے گورنر کے پریس صلاح کارکی حیثیت سے عہدے کو وقار بخشا،پندرہ نکاتی پروگرام کے وائس چیئرمین رہے، حکومت کے گلیاروں سے کافی قربت تھی،باوجود اس کے حق بات کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے،
 اشرف استھانوی سیاست حاضرہ پر بہت عمدہ تجزیہ کیا کرتے تھے، ان کی تحریروں میں سنجیدگی، معروضیت، ایمانداری جیسے اوصاف پائے جاتے ہیں، جو کسی بھی تحریر میں اثر انگیزی اور زندگی پیدا کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی نئے صحافیوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، کیونکہ صحافت محض پیشہ نہیں بلکہ معاشرت اور سیاست کی سچی اور حقیقی ترجمانی کا نام ہے۔
انہوں نے عام اخبارات اور صحافیوں سے الگ ہٹ کر اردو صحافت میں تازگی پیدا کی، تنقیدی صحافت کا نمونہ پیش کیا، حکومت اور اس کے اعلی افسران کے خلاف سچ بولنے اور لکھنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کیا، بے باکی اور حق گوئی کی پاداش میں کئی بار غیروں اور اپنوں کے عتاب کا شکار بھی ہوئے، مگر اس مرد مجاہد نے کبھی بھی اپنے اصول سے انحراف نہیں کیا، معاملہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کا ہو یا مشترکہ تہذیب وثقافت کی حفاظت کا، اردو زبان کی بقاء کا مسئلہ ہو یا مظلوموں و کمزوروں کو انصاف دلانے کا، بات اہل اقتدارکی ہو یا کسی ساہوکار کی انہوں نے وہی لکھا اور وہی کہا جوحقیقت تھی، کسی سے دب کر یا سچائی سے منہ موڑ کر کبھی کچھ نہیں لکھا اور ہمیشہ یہی پیغام دیا:
*زمانہ لاکھ ڈراتا رہا مگر ہم نے*
*جو بات کی ہے زمانہ کی روبرو کی ہے*
بے باک صحافی اشرف استھانوی نے ہمیشہ اپنی فکر انگیز تحریروں کے ذریعے ملک و قوم کی رہنمائی کی، ان کے بے لاگ تبصرے وتجزیے، سلگتے مسائل پر کالم و مضامین ملک وسماج کو آئینہ دکھانے کا کام کیا، ملک کے مختلف اخبارات، رسائل اور جرائد میں ان کی علمی، تحقیقی اور تفتیشی رپورٹیں اور مضامین بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نیوز چینلوں پرحساس موضوعات پر بے باک تبصرے اور مباحثے عوام میں کافی پسند کیے جاتے رہے ہیں۔

*ہندی صحافت* 
صحافت کے میدان میں انہوں نے اپنے آپ کو صرف اردو صحافت تک محدود نہیں رکھا، بلکہ ہندی اخبارات و رسائل میں بھی برابر لکھتے رہے، اردو ہی کی طرح ہندی زبان پر بھی ان کو مکمل عبور حاصل تھا، پٹنہ سے شائع ہونے والے ہندی ماہنامہ ’’سیکولر بہار‘‘ کے برسوں ایڈیٹر رہے، اور اپنے بے لاگ اداریے اور تبصرے سے ریاست اور ملک وقوم کو جھنجھوڑتے رہے۔دہلی سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت اردو اور ہندی ہفت روزہ ’’چوتھی دنیا‘‘ اور ماہنامہ’’ مسلم ٹوڈے ‘‘کے ہندی ایڈیشن کے بہار اور جھارکھنڈ کے بیورو چیف بھی رہے۔

*اردو کے عملی نفاذ کے لیے جدوجہد*
 اشرف استھانوی کی خدمات کا دائرہ صرف صحافت تک ہی سمٹ کر نہیں رہ جاتا ہے بلکہ ملک کی مشترکہ تہذیب اور بہار کی دوسری سرکاری زبان اردو کے فروغ نیزسرکاری سطح پر اس کے عملی نفاذ کے لئے آپ مسلسل کوشاں رہے، اس کے لیے تحریک بھی چلائی،اردو آبادی کو اردو اخبارات اور رسائل و جرائد خریدنے، پڑھنے اور اردو زبان میں گفتگو کرنے کے لئے آمادہ کرنا، حکومت کو اردو کے مسائل سے واقف کرانا، اردو داں طبقے کے لیے روزگار کے وسائل مہیا کرانا، اس کے عملی نفاذ کے لیے ٹھوس حکمت عملی طے کرنا، سرکاری دفاتر میں ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کا بورڈ آویزاں کرانا جیسے مسئلہ پرآپ ہمیشہ اردو کی بقا کی جنگ لڑتے رہے۔ان کا کہنا تھا کہ اردو زبان کی حفاظت ہماری تہذیبی او ر ثقافتی قدروں کی حفاظت ہے۔

*گمنام ادیبوں اور صحافیوں کی پذیرائی*
ان کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ لسانی تنظیم عوامی اردو نفاذ کمیٹی بہار کے چیف کنوینر کی حیثیت سے اردو کےبےلوث اور خاموش طریقے پر خدمت انجام دینے والے ادیبوں، شاعروں، قلم کاروں اور صحافیوں کو اعزازات سے نوازا کر ان کی پزیرائی کی، مشہور و معروف شخصیات کو نوازنا کوئی بڑی بات نہیں،بڑی بات تو یہ ہے کہ گمنام اور بے لوث خدام کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نوازا جائے۔ راقم الحروف کو بہت قریب سے ان کی زندگی کو جھانکنے اور دیکھنے کا موقع ملا ہے بغیر کسی تردد کے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کوقوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔

*تصنیف وتالیف*
 اشرف استھانوی کو تصنیف و تالیف کا عمدہ ذوق ملا تھا۔گرچہ وہ بنیادی طور پر صحافی تھے اور صحافت ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا، لیکن ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا کام جاری رکھا۔ ان کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہو چکی ہیں:فاربس گنج کا سچ (2011)عظیم مجاہد آزادی اور بہارکے معمار پروفیسر عبدالباری(2012) مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ:ایک تعارف(2012) ولایت کے تاجدار اور انسانیت کے علمبردار حضرت شیخ شرف الدین یحیی منیری(2013) ٹوٹی سلیٹ آدھی پنسل سے وزیر اعلی کی کرسی تک جیتن رام مانجھی (2014) مجھے بولنے دو سے مجھے چپ رہنے دو تک رضوان احمد(2015)صدائے جرس بہار کے لعل و گہر(2016)حق پسند صحافی عبدالرافع(2017) ۔ ان کی ایک کتاب ’’آئینہ قانون سازیہ ‘‘زیر طباعت ہے، بیماری ہی کی حالت میں کافی دنوں سے اس پر کام کر رہے تھے۔انہوں نے مسودہ مجھے دکھلایا تھا اور کہا تھا کہ عنقریب کتاب منظر عام پر آنے والی ہے،اس کا اجرا وہ گورنر بہار سے کرانے کا ارادہ رکھتے تھے،لیکن زندگی نے مہلت نہ دی اور وہ راہی عدم ہو گئے۔اشرف استھانوی متنوع موضوعات پر لکھنے کی قدرت و صلاحیت رکھتے تھے، زبان و بیان کو برتنے کا بہترین سلیقہ تھا۔ ان کی بعض کتابوں کی کافی پذیرائی ہوئی، کتابوں کی زبان سادہ، سہل اور سلیس ہے، جس کے سبب فائدہ اٹھانا نسبتاً آسان ہے۔

*شعری وادبی ذوق*
 اشرف علی تھانوی کا شعری ذوق بھی بہت عمدہ اور نفیس تھا، مختلف شعراء کے بہت سے اشعار ان کو یاد تھے اور موقع مناسبت سے پڑھا کرتے تھے۔کبھی کبھی تنہائی میں کوئی غزل یا شعر گنگنا تے،انہوں نے بہت سے اشعار اور نعت لکھے، کئی پروگراموں میں ان کو اپنی لکھی ہوئی نعت پڑھتے ہوئے میں نے سنا اور مترنم آواز میں عشق نبوی سے سرشار ہو کر نعت پڑھتے،بسا اوقات پڑھتے پڑھتے آبدیدہ ہو جاتے۔ ان کے اندر شعر گوئی کی اچھی صلاحیت تھی، یہ اور بات ہے کہ صحافت اور دوسری مصروفیات نے ان کو انہماک کے ساتھ شاعری کی طرف متوجہ ہونے یا اس فن کو اختیار کرنے کا موقع نہیں دیا۔نعت پاک کے یہ اشعار دیکھئے:
تمام نبیوں کا تو محمد جہاں میں بن کر امام آیا
 ملائکہ نے درود بھیجا خدا کا تجھ پر سلام آیا 
اے فخر عالم تری بدولت خدا کی وحدت کو ہم نے جانا
 تری توسط سے یا محمد خدا کا ہم تک کلام آیا
 ملے گی ہم عاصیوں کو اشرف شفاعت ان کی جو روز محشر
 تو سب کہیں گے یا محمد تو ہی مصیبت میں کام آیا
نعت پاک کا ایک مصرعہ اور ملاحظہ کیجئے :
سویرے اٹھ کے زباں سے یہ کام لیتا ہوں
 خدا کے بعد محمد کا نام لیتا ہوں
انہیں اردو سے عشق تھا،مادری زبان اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے ہمیشہ جدو جہد کرتے رہے۔دھیرے دھیرے اردو کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے،اس تعلق سے انہوں نے اپنی فکر مندی کا اظہار ایک رباعی میں اس طرح کیا ہے۔ملاحظہ ہو:
 اب کہاں ہے رواج اردو کا
 بکھر گیا ہے سماج اردو کا 
سر پہ بوجھ کا تصور ہے 
کون رکھے گا تاج اردو کا 
اسی طرح صحافیوں اور قلم کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے چار مصرعے میں اپنی بات کہی ہے:
قلم کارو قلم کا تاج رکھو
ضرورت ہے تمہاری آج رکھو 
قلم تلوار پر بھاری پڑے گا 
قلم کارو قلم کی لاج رکھو
انہوں نے حوصلہ اور امید سے بھر پور اشعار بھی کہے، دو شعر دیکھئے:
جاگتے رہنا مقدر ضرور بدلے گا 
ہمیں یقین ہے منظر ضرور بدلے گا 
اندھیری رات ہے تاریکیوں کے پردے سے
اندھیرا چیر کے سورج ضرور نکلے گا
 ایک شعر میں اپنا روداد غم اس طرح بیان کیا ہے:
*روداد غم سنوگے تو رو کر کہو گے تم*
*اشرف سیہ نصیب کا دل چور چور ہے*
ان اشعار سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر شعر گوئی کی اچھی صلاحیت تھی اور وہ بہترین اشعار اور نعت کہا کرتے تھے، یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اس فن کو اختیار نہیں کیا، البتہ جب طبیعت آمادہ ہوتی تو اشعار موزوں کر لیتے۔

*نئ نسل کی آبیاری اور حوصلہ افزائی*
 اشرف تھانوی کو نئی نسل کی آبیاری اور ترقی کی فکردامن گیر رہی۔ وہ نئی نسل کو مستقبل کا معمار سمجھتے تھے،ان کی اصلاح بھی کرتے اور حوصلہ افزائی بھی، نئے لکھنے پڑھنے والوں سے ان کو بڑی محبت تھی، ان کی رہنمائی کرنا، ان کے کام آنا، ان کا خیال رکھنا، ان کو خوش دیکھنا،ان کی ترقی کے لیے بے چین رہنا ان کے مزاج کا خاصہ تھا۔وہ ان کی ہمت افزائی میں کبھی بھی بخالت سے کام نہیں لیتے، ان کی عملی زندگی کے لیے مفید مشورے دیتے۔ ایسے نوجوانوں کو تلاش کرتے اور ان کی قلمی آبیاری کرتے،ان کے لیے اپنا دست تعاون ہمیشہ دراز رکھتے، وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ ملنے جلنے میں کبھی کسی طرح کا تکلف نہیں برتتے تھے، حالانکہ وہ بارعب انسان تھے، باوجود اس کے وہ بہت سادگی اور محبت سے ملتے تاکہ اپنے عزیزوں کو کسی طرح کا حجاب نہ ہو، میں نے خود مشاہدہ کیا کہ وہ اپنے عزیزوں سے بہت محبت و شفقت سے ملتے تھے، خرد نوازی ان کی فطرت تھی، غالباً یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کے لکھنے پڑھنے والوں کا ایک بڑا طبقہ نہ صرف یہ کہ ان سے متاثر تھا بلکہ ان کا قدر دان تھا۔

 *علماء سے تعلق*
 موصوف یوں تو اہل علم کی بہت قدر کرتے تھے، تاہم علماء کرام کا بہت احترام کرتے تھے، علماء کی صحبت میں بیٹھتے اور مجلسی آداب کا پورا خیال رکھتے،اسی طرح مدرسہ کے طلباء پر بڑی شفقت کی نظر رکھتے، علماء اور اہل اللہ کی خدمت اپنی سعادت سمجھتے تھے،اسلاف اور بزرگان دین سے محبت ہی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی سیرت پر کتاب تحریر کی۔

*چند مخصوص عادات و خصائل*
 ہر آدمی کے کچھ مخصوص عادات وخصائل ہوتے ہیں، اللہ تعالی نے ہر انسان کو متنوع خصائل و خصوصیات کا حامل بنایا ہے، اشرف استھانوی بھی اس کلیہ سے پاک نہیں تھے، ان کو اپنی یادگار تصاویر سجانے کا بڑا شوق تھا، وہ ہر یادگار مواقع اور اہم تقریبات کی تصاویر فریم کرواتے اور اس کو نمایاں جگہ پر لگا کر رکھے تھے، وہ اپنے روم میں چاروں طرف ایسی تصاویر اور مومنٹوسجا کر رکھے ہوئے تھے، انہوں نے میری بھی کئی تصاویر فریم کروا کر عنایت فرمایا۔اسی طرح سوشل میڈیا پر بہت سرگرم رہا کرتے تھے، ہر روز نئ نئ پوسٹ شیئر کیا کرتے تھے، وہ اپنے چاہنے والوں سے امید رکھتے تھے کہ وہ اس پر کمنٹ کریں، وہ کمنٹ کا پرنٹ نکلواکر رکھا کرتے تھے، میں نے ان سے متعدد بار کہا کہ میری نظر میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، میں کمنٹ پر زیادہ توجہ نہیں دیتا ہوں، تو انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے،میں تو کمنٹ کا پرنٹ نکلوا کر رکھتاہوں، یہ بھی کام کی چیز ہے۔
مرحوم مختصر چیزوں پر قناعت کرنے والے تھے، ان کی شخصیت ایسی تھی وہ بڑی دولت حاصل کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے نہ تو اپنے لیے کچھ کیا اور نہ ہی گھر والوں کے لئے۔ان کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل تھے، اگر وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں نہیں پرتے تو بڑے بڑے مقاصد حاصل کر سکتے تھے، بڑے مقاصد کو حقیر چیزوں پر انہوں نے قربان کر دیا۔ وہ خلوص و وفا کے پیکر تھے،ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی،پر کشش شخصیت کے مالک تھے وہ، ان کا مزاج و انداز متاثر کرنے والا تھا، بقول ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی: 
’’اشرف استھانوی کی شخصیت میں سادگی اور بے دریغ پہلو نمایاں ہیں،خفیف مسکراہٹ میں ڈوبے ہوئے نرم لہجےاور ہیر پھیر سے پاک طرزِ گفتگواور ان کے پر خلوص انداز سے متاثر ہونا ہی پڑتا ہے۔ خوبیاں ان کی ذات میں اس طرح مدغم ہیں کہ ان کی شخصیت کا نمایاں حصہ بن گئی ہیں‘‘۔
اشرف استھانوی نہ فرشتہ تھے اور نہ ہی متقی ہونے کا دعویٰ تھا، وہ بھی ایک بشر تھے، لہٰذا ان کی زندگی بھی بشری کمزوریوں اور خامیوں سے پاک نہیں تھی۔

*اعزاز وایوارڈ*
 ان کی علمی، ادبی، صحافتی اور تصنیفی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے درجنوں اکادمیوں اور تنظیموں نے انہیں اعزازات سے نوازا، سال 2011 میں غلام سرور ایوارڈ برائے صحافت، 2008 میں راج بھاشا سامان ایوارڈ، 2013 میں غالب اکیڈمی ایوارڈ، رفیق اردوایواڈ،آفتاب صحافت ایوارڈ، مین آف دی ایئر ایوارڈ، اکبر رضاجمشید صحافت ایوارڈ، 2015 میں ایوان اردو مجلس، پٹنہ نے ان کے گراں قدر صحافتی، تصنیفی اور اردو کےفروغ کے لیے بیش بہا خدمات کے اعتراف میں لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے نوازا۔ سہ ماہی مکمل انقلاب نے 2016 میں اردو صحافت کے دوسو سال مکمل ہونے پر خصوصی شمارہ حق گو صحافی اشرف استھانوی نمبر شائع کر کے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔32 صفحات پر مشتمل یہ خصوصی شمارہ اشرف استھانوی کی خدمات کا اعتراف ہے۔

*خاتمہ*
 اشرف استھانوی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ،لیکن وہ ہمیں یاد آتے رہیں گے،ان کے کارنامے تادیر زندہ رہیں گے۔ان کے جنازہ کی پہلی نماز 16 نومبر۲۰۲۲ کو صبح ساڑھے آٹھ بجے فقیر باڑہ مسجد ،پٹنہ سے متصل ادا کی گئی، نمازجنازہ فقیر باڑہ مسجد کے امام مولانا عتیق اللہ قاسمی نے پڑھائی، اس کے بعد میت کو ان کے آبائی وطن استھانواں لے جایا گیا، جہاں مدرسہ محمد یہ کے احاطہ میں بعد نماز ظہر دوسری مرتبہ جنازہ کی نماز ادا کی گئی،یہاں نماز جنازہ مدرسہ محمدیہ کے پرنسپل مولانا حشمت علی نے پڑھائی،اور مقامی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔

*مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا*
*نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا*



Dr Noorus  Salam  Nadvi
Vill+Post Jamalpur,
Via Biraul Dist Darbhanga
Bihar, Pin Code 847203
E-mail: nsnadvi@gmail.com

پروفیسر معراج الحق برق کا انتقال عظیم علمی خسارہ۔مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

پروفیسر معراج الحق برق کا انتقال عظیم علمی خسارہ۔مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
اردو دنیا نیوز
مظفر پور 2 دسمبر (پریس ریلیز) یہ خبر انتہائی افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ اردو اور فارسی کے عظیم اسکالر ، ادیب و شاعر پروفیسر معراج الحق برق کا بہار شریف واقع ان کے آبائی گاؤں میں آج عصر سے قبل انتقال ہوگیا ، انہوں نے ایک زمانہ تک آر ڈی ایس کالج مظفر پور میں اردو فارسی کے صدر شعبہ کی حیثیت سے کام کیا، جس زمانہ میں ان کا قیام زاہدہ منزل سعد پورہ پوکھریاپیرمظفر پور کے قریب تھا اس زمانہ میں تراویح میں وہ میرے مقتدی ہوا کرتے تھے ، پھر انہوں نے زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور میں اپنا مکان تعمیر کیا اور وہیں مستقل قیام پذیر ہو گئے ان کا مزاج انتہائی شرعی تھا، وہ صوم و صلوٰۃ کے انتہائی پابند تھے، ان کی پابندی کی وجہ سے ہی زکریا کالونی مسجد میں جب کبھی امام رخصت پر ہوتے تو معمولاً امامت کے فرائض وہی انجام دیتے تھے، وہ تکبیر اولیٰ سے نماز پڑھنے کے عادی تھے اور یہ معمول ان کا آخری عمر تک باقی رہا، بعد میں جب گھٹنے اور کمر کی درد کی تکلیف ہوئی تو بھی وہ کرسی پر بیٹھ کر پہلی صف میں نماز پڑھتے ، ان کے اخلاق و عادات بہت اچھے تھے ، میرے چھوٹے بھائی محمد رضاء الہدیٰ رحمانی کی لڑکی ان کے لڑکے سرور حیات کے نکاح میں ہیں اس لیے وہ میرے سمدھی تھے وہ مجھ سے غیر معمولی محبت کرتے تھے اور جب کسی مسٔلے  میں انہیں کچھ دریافت کرنا ہوتا تو وہ مجھے فون کرتے، امارت شرعیہ سے ان کا تعلق قدیم مضبوط اور گہرا تھا وہ اکابرین امارت شرعیہ سے مخلصانہ تعلق رکھتے ا ور اس کی خدمات سے واقفیت رکھنے کی کوشش کرتے، ان کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا محمد شمس الہدیٰ صاحب راجوی دامت برکاتہم العالیہ سے تھا ، ان کی تعلیمات کے مطابق جب وہ مظفر پور میں ہوتے حضرت کے حلقہ ارادت کے لوگوں کی مراقبہ اور ذکر کی مجلس ان کے دولت کدہ پر لگتی تھی، وہ خاموش طبع انسان تھے لیکن اردو فارسی کے بڑے محقق اور اچھے استاد تھے، ڈاکٹر امام اعظم نے تمثیل نو کے تازہ شمارہ میں ان کے کئی منظوم خطوط جو پروفیسر ثوبان فاروقی حاجی پور کے نام ہے شائع کیا ہے جس سے ان کی قادر الکلامی ، شاعرانہ امتیاز ، رفعتِ تخیل اور ندرت فکر کا پتہ چلتا ہے۔میری چچا زاد بہن ڈاکٹر زینت آرا نے ان کی نگرانی میں عارف ماہر آروی کی شخصیت اور فن پر ان کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ڈاکٹر زینت آرا میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر نداء الہدیٰ ندا کی نکاح میں ہیں، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ کے نائب ناظم ، وفاق المدارس اسلامیہ کے ناظم، کاروان ادب حاجی پور کے صدر اور اردو کارواں امارت شرعیہ کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے اخباری تعزیتی بیان میں کیا، مفتی صاحب نے فرمایا کہ پروفیسر معراج الحق برق کا انتقال علمی، ادبی اور تحقیقی دنیا کا عظیم خسارہ ہے، انہوں نے پروفیسر صاحب کے وارثان ، متعلقین ، محبین ، اور خصوصاً زکریا کالونی کے باشندوں سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے صبر کی تلقین کی اور مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کیا اور عام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

ناشر/پبلشر: کریٹیواسٹار پیلی کیشنز نئی دہلی ملنے کے پتے : دارالاشاعت خانقاہ مونگیر ،سبحانی منزل حضرت گنج خانقاہ روڈ مونگیر، معد عائشہ الصدیقہ کھاتو پور بیگو سرائے، محمد عتیق الرحمن وانیس الرحمن بک سیلر رحمانی کالونی حضرت گنج مونگیر ۔

نام کتاب:      افادات سبحانی 
اردو دنیا نیوز

مصنف :        مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی 
مرتب :          فضل رحمن رحمانی 
 صفحات :            (132)
نظر ثانی :            مفتی عین الحق امینی قاسمی بیگو سرائے 
سالِ اشاعت:               2022 
                        
     قیمت:                      250
                    

  ناشر/پبلشر:         کریٹیواسٹار پیلی کیشنز نئی دہلی 
ملنے کے پتے :       دارالاشاعت خانقاہ مونگیر ،سبحانی منزل حضرت گنج خانقاہ روڈ مونگیر، معد عائشہ الصدیقہ کھاتو پور بیگو سرائے، محمد عتیق الرحمن وانیس الرحمن بک سیلر رحمانی کالونی حضرت گنج مونگیر ۔

    مبصر :     محمد ضیاء العظیم رحمانی وقاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ

مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی استاذ حدیث جامعہ رحمانی  محتاج تعارف نہیں ہیں، آپ ایک باوقار عالم دین، نیک سیرت، خوش کلام، دور اندیش، قوم وملت کا درد مند، غریب پرور کے ساتھ ساتھ ایک ماہر استاذ ونباض ہیں، آپ اس قدر محبت کرنے والے ہیں کہ جو بھی آپ سے ملے وہ آپ کا دلدادہ ہو جائے، آپ اکابرین کے پروردہ قوم وملت کاایک  عظیم سرمایہ ہیں، آپ کی تصنیف افادات سبحانی جو کہ سابق امیر شریعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ وسجادہ نشین جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رح کے حکم کی تعمیل میں لکھی گئی ایک شاہکار تصنیف ہے،اس سے قبل آپ کی ایک تصنیف خطبات سبحانی (مجموعہ تقارير)2018 میں منظر عام پر آچکی ہے جسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی، خصوصاً علماء وائمہ طبقے نے کافی سراہا تھا، افادات سبحانی اس تصنیف کو بھی دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ یقیناً اللہ رب العزت کا اپنے مخصوص بندوں پر خاص فضل ہوا کرتا ہے، آپ کی اس تصنیف نے آپ کو مزید سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے ، افادات سبحانی دعا کی اہمیت وافادیت اوراوقات دعا کے موضوع پر ایک خوبصورت تصنیف ہے، جس میں حضرت مولانا نے بڑے جامع انداز میں دعا سے متعلق ہر پہلوؤں پر باتیں کی ہیں ، دعا کی ضرورت ،دعا کے آداب واطوار واوقات ان سب کو جمع کیا ہے،
یہ کتاب 134 صفحات پر مشتمل ایک شاہکار تصنیف ہے، اس کتاب کی شروعات دو منظوم کلام سے ہے، اس کے بعد مرتب کتاب مشہور ومعروف صحافی فضل رحمن رحمانی نے  کتاب کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، پھر موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے اس کتاب اور دعا کے حوالے سے اپنے تاثرات سے نواز کر اس کتاب کو زینت بخشی، مفتی عین الحق امینی قاسمی صاحب نے اس کتاب پر نظر ثانی کی، اور اس کتاب  میں شامل مضامین ومفاہیم کا بہت ہی خوبصورت اور جامع انداز میں تعارف کرایا ، بعدہ صاحب کتاب حضرت مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی نے اس کتاب کی تصنیف وتالیف کی وجہ، تاریخی پس منظر، اور اپنے احساسات وجذبات جو کہ اس کتاب کے حوالے سے ہے اپنے مخصوص انداز میں متعارف کرایا۔
  شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو ایک خاص مقام حاصل ہے او رتمام مذاہب وادیان میں دعا کا ثبوت ملتا ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے جو تقدیر بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالک اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اس کے لئے تب ہی سود مند ثابت ہو سکتی ہے  جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کے دائرے کو ملحوظ رکھے۔دعاؤں کے حوالے سے بہت سے کتابیں موجود ہیں جن میں علماء کرام نے مختلف انداز میں میں دعاؤں کے آداب طریقہ اور اوقات جمع کئے ہیں ۔زیرتبصرہ کتاب ''افادات سبحانی '' مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی استاذ حدیث جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کی تصنیف ہے  ۔اس کتاب میں ایک خوبصورت انداز وبیان میں مکمل حوالے کے ساتھ دعا کے آداب واطوار واوقات ۔دعاؤں کی فضیلت  ان کے فوائد کےحوالے سے جو باتیں کہیں گئ ہیں وہ کتاب وسنت سے ثابت ہے جس  کی وضاحت بھی انہوں نے کی ہے ۔
دعا اللہ کو رب تسلیم کرتے ہوئے عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنے مطالبات رکھنے کا نام ہے ،دعا مومن کے لئے رب کی طرف سے عطا کردہ ایک بڑی نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں کیوں کہ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لَیْسَ شَیْءٌ أکْرَمَ عَلَی اللہِ عَزَّ وَجّلَّ مِنَ الدُّعاء (دعا سے بڑھ کر اللہ تعالی کے یہاں کوئی چیز باعزت نہیں ہے ) دعا اللہ تعالی کے یہاں بہت ہی مقبول ومحبوب عمل ہے ، سَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہ فَانَّہ یُحِبُّ أنْ یُسْأَلَ (اللہ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اپنے سے مانگنے کو پسند کرتاہے ) دعا سے دل کا زنگ دور ہوتا ہے،دعا عبادات کو شرف قبولیت بخشنے میں معاونت کرتی ہے ، دعا عبادات کا مغز ہے، دعا سے اللہ تعالیٰ کا غضب وغصہ ختم ہوتا ہے ،ان سب کے باوجود دعا انبیاء علیہم السلام کی اوصاف حمیدہ میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ انبیاء کرام پر بھی جب جب کوئی آزمائش ومصائب آئیں تو انہوں نے دعا کے ذریعہ ہی اللہ سے مدد مانگی،اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دعا آفت و مصیبت کی روک تھام کا مضبوط وسیلہ ہے، بلاشبہ دعا اپنی اثر انگیزی اور تاثیر کے لحاظ سے مومن کا ہتھیار ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلدُّعَاءُ سِلاَحُ الْمُؤمِنِ وَعِمَادُ الدِّیْنِ وَنُوْرُ السَّمٰواتِ وَالأرْضِ (دعا موٴمن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کی روشنی ہے ، اللہ نے اپنے بندوں کو دعا کی تاکید کی ہے ، اس کی قبولیت کا وعدہ کیاہے نیز اس پر انبیاء کرام علیہم السلام اور رسولوں کی تعریف کی ہے ، اللہ کا ارشاد ہے: إنَّھُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَرَھَبًا وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِیْن (بے شک وہ سب نیک کاموں میں جلدی کرنے والے تھے اور وہ ہمیں امید اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے)اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صاف صاف اعلان کیا : وَإذَا سَألَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَإنِّي قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ(جب میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں ، تو میں قریب ہوں ، دعا کرنے والاجب مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، انہیں باتوں کو مکمل مفصل ومدلل اور سہیل انداز میں اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے،جو ہر مسلمان کی اشد ضرورت ہے ۔ اس تصنیف کے ذریعہ مولانا موصوف کو بہت قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے، یہ چندمختصر پہلو ہیں جنہیں ہم نے اپنے تبصرے میں پیش کیا،مزید سمجھنے اور جاننے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ کریں، اس سے استفادہ کریں،مولانا محترم سے براہ راست ملاقات کرسکتے ہیں،ان سے دعائیں لینے کا اچھا موقع ہے ۔ہم اپنی جانب سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مولانا موصوف کو اور پوری ٹیم کو جو اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون پیش کیا انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں، اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اپنی شایان شان جزا وبدلہ عطا فرمائے، آمین ثم آمین،

بُلڈوزر کا استعمال غیر قانونی؟ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بُلڈوزر کا استعمال غیر قانونی؟  
اردو دنیا نیوز
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
گذشتہ چند سالوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے بغیر ملزمین کے گھروں پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے، یہ کام اس کثرت سے کیا جا رہا ہے کہ کئی لوگ اسے بلڈوزر کلچر کا نام دیتے ہیں، گھروں کا انہدام یہ سزا ہے اور سزا کا اختیار ہندوستان میں صرف عدلیہ کو ہے، پولیس محکمہ کو نہیں، اس لیے کہ پولس اگر بغیر سنوائی کے سزا دینے لگے تو یہ ظلم کے مترادف ہوگا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے ، اس کے علاوہ پولیس کے ذریعہ کی گئی کارروائی کے بعد عدالت کے فیصلے کا کوئی معنی مطلب نہیں رہ جائے گا، عدالت دو بارہ مکان تعمیر کا فیصلہ سنا دے تو بھی حکمراں اسے قانونی داؤ پیچ میں پھنسا کر فیصلہ کی تنفیذ نہیں ہونے دیتے ، افسران جواز کے لیے دو ر دراز کے حیلے تلاش کرتے رہتے ہیں اور عوام پر خوف ودہشت کا جو اثر ہوتا ہے وہ الگ ہے، اس سے آدمی نفسیاتی طور پر کمزور ہوجاتا ہے ۔
 ایسا ہی ایک معاملہ آسام میں پیش آیا ، ایک تھانہ کو آگ لگانے کے الزام میں پولیس نے پانچ ملزمین کے گھر کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا، گوہاٹی ہائی کورٹ نے اس کا از خود نوٹس لیا اور حکومت کے اس طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے اور جواب طلب کیا کہ آخر بلڈوزر کی یہ کارروائی کس قانون کے تحت کی گئی ہے، چیف جسٹس آر ایم چھاپا نے حکومت کے وکیل کو کوئی ایسا فوجداری قانون دکھانے کو کہا جس کے تحت بغیر اجازت کے کسی کا گھر منہدم کر دیا جائے، چیف جسٹس نے بہت سخت لہجہ میں حکومت کے کارندوں کو بتایا کہ آپ ایس پی ہو سکتے ہیں، لیکن آپ کے کام کا دائرہ اور طریقہ کار قانون کے دائرہ سے باہر نہیں ہے، اگر اسی طرح کارروائی کی جاتی رہی تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، جب وکیل نے بتایا کہ سرچ وارنٹ کی اجازت لی گئی تھی تو جج صاحب نے کہا کہ میں نے اپنے محدود مدت کار میں ایسا کوئی معاملہ نہیں سنا ، جس میں سرچ وارنٹ کی اجازت لے کر گھر منہدم کر دیاجائے ، چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کو یہ واضح کر نا چاہیے کہ یہ گینگ وار ہے یا پولیس کی کارروائی؟چیف جسٹس کے اس تبصرہ کی حیثیت محض تبصرہ ہی کی ہے، لیکن اندازہ لگتا ہے کہ پولیس کے ذریعہ کی جانے والی انہدامی کارروائی کو کم از کم گوہاٹی ہائی کورٹ غیر قانونی سمجھتی ہے۔
 یقینا جن لوگوں نے سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر مکانات بنا رکھے ہیں یا کسی جرم میں ان کے مکان کو منہدم کرنا ضروری ہے تو حکومت یہ کام کر واسکتی ہے، لیکن ہندوستانی قانون کی رو سے اسے ملزمین کے خلاف مقدمہ کرنا چاہیے، ان لوگوں کو بھی مدعیٰ علیہ بنانا چاہیے، جن کی موجودگی میں غیر قانونی تعمیرات کا کام انجام پایا، عدالت میں اس کی سماعت ہو اور جب عدالت فیصلہ کر دے تو اس پر عمل کیا جائے یہ طریقہ جمہوری بھی ہے اورقانونی طور پر صحیح بھی، اب جب کہ گوہاٹی ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں اپنی رائے دیدی ہے تو اس کوقانونی حیثیت دے کر عوام کو بلڈوزر کا رروائی کی وحشت اور دہشت سے نجات دلوانی چاہیے۔

ظلم عظیم __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ظلم عظیم  __اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
قرآن کریم میں اللہ رب ا لعزت نے شرک کو ظلم عظیم فرمایا ہے اور اعلان کر دیا ہے کہ وہ شرک کو معاف نہیں کرے گا ، بقیہ جس گناہ کو وہ چاہے گا معاف کر دے گا ، شرک ہے کیا ؟ شرک اللہ کی ذات وصفات میں دوسرے کو شریک کرنا ہے، اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے جبین نیاز جھکانا ہے اور قادر مطلق کے علاوہ کسی اور کو کارساز حقیقی ماننا ہے، صوفیاء کرام کے یہاں کسی چیز کی نسبت ظاہری اسباب کی طرف کرنا بھی شرک خفی ہے، مثلا پیٹ میں تکلیف ہو رہی ہے تو یہ کہنا کہ کچی روٹی کھانے کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے، ان کے نزدیک توحید کے منافی ہے، کیوں کہ تکلیف بھی اللہ دیتا ہے اور دور بھی وہی کرتا ہے، دوائیاں اسباب کے درجہ میں بیماری دور کرنے کے لیے کھائی جاتی ہیں، لیکن ہم دوا کو شفا دینے والا نہیں کہہ سکتے ، شفا دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ۔
 یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شرک کو ظلم عظیم کیوں کہا گیا ؟ وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت بڑا غیور ہے، جب اس کی کٹ گیری اور گروپ کا دوسرا کوئی نہیں ہے تو بھلا دوسرے گروپ کے کسی کو خواہ وہ جیسا ہو ، اللہ کے ساتھ کس طرح شریک کیا جا سکتا ہے، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارا جسم دوسرے گروپ کے خون تک قبول کرنے کو تیار نہیں ، اگر بغیر گروپ ملائے کسی کا خون جسم میں داخل کیا گیا تو آدمی کی جا ن جا سکتی ہے۔
 اللہ کہتے ہیں کہ اس کائنات میں دوہی گروپ ہے، ایک گروپ اللہ کا ہے، جو بے نیاز ہے، جسے کسی چیز کی حاجت نہیں، وہ نہ تو کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ سوتا ہے، نہ اسے ہوا کی ضرورت ہے اور نہ ہی حیات کی بقا کے لیے کسی اور چیز کی ،و ہ ہر چیز سے بے نیاز ہے، مستغنی ہے، بقیہ ساری دنیا کے لوگ فقیر ہیں، محتاج ہیں، ضرورت مند ہیں، اور ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے خالق کائنات کے دست نگر ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے (انسانوں کی طرح ) کسی کو پیدا کیا اور اس کا ہم سر کوئی نہیں۔
 جب اس کا ہم سر کوئی نہیں، گروپ کا کوئی نہیں، تو شرکت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، اور جس طرح بغیر گروپ ملائے مریض کو خون چڑھا دیا جائے تو مریض کے مرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے تو ایمان مر جاتا ہے، اس لیے اللہ اس جرم کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ 
اللہ کی غیرت کے سامنے انسانوں کی حیثیت ہی کیا ہے، آپ کا چمڑا آپ کے بچے کو راس نہیں آتا ہے، آپریشن ہوتا ہے اور زخم جلد بھرنے کے لیے الگ سے چمڑہ لگا نے کی ضرورت ہوتی ہے ، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ مریض کے جسم کے دوسرے حصے سے چمڑہ کاٹ کر زخم پر لگایا جاتا ہے، اب کوئی باپ ڈاکٹر سے یہ کہے کہ میرے بچے کو تو ایک زخم پہلے ہی ہے، دوسرا زخم اس کو مت لگاؤ ، چمڑے کی ضرورت ہے تو میرے جسم کا چمڑہ لے لو ، توڈاکٹر کہے گا کہ تم اپنے دماغ کا علاج کراؤ ، تمہارا چمڑہ تمہارے لڑکا کا جسم قبول نہیں کرے گا ، اس لیے اسے دوسرا زخم لگانا ہی ہوگا، تاکہ پہلا زخم جلد بھر جائے ، حالاں کہ دونوں کا ’’ڈی ان اے‘‘ ایک ہے اور سائنسی اعتبار سے ’’جینٹک‘‘ بھی ایک دوسرے کا مماثل ہے، لیکن اس کے با وجود چمڑہ دوسرے کے جسم کا کوئی جسم قبول نہیں کرتا۔
 ایک مثال اور لیں، گردہ تبدیل کرنا ہو اور کوئی دوسرا آدمی گردہ عطیہ کرنے کو تیار ہو تو کیا بغیر خلیات اور ٹیشوز ملائے گردہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں، اس لیے کہ اگر ٹشوز اور خلیات نہیں ملے تو دوسرا گردہ بھی جسم میں جا کر معطل ہو جائے گا، اور بہت ممکن ہے کہ انفکشن کی وجہ سے جان کے لالے پڑ جائیں۔
جب ہمارا یہ حال ہے تو بھلا خدا کی غیرت کا کیا پوچھنا ، اس لیے ہر وقت اور ہر سطح پر یہ خیال رہنا چاہیے کہ اللہ کا کوئی ہم سر نہیں ہے، اس کا گروپ بندوں کے گروپ سے بالکل الگ تھلگ ہے، جس میں کوئی دوسرا شریک ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے شرک جلی اور خفی دونوں سے پر ہیز کرنا چاہیے، نہ اللہ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرانا چاہیے اور نہ ہی اللہ کی صفات میں ، اس لیے کہ اللہ جب تک نہ چاہے کسی سے کچھ نہیں ہوتا ، کار ساز مطلق وہی ہے جو ہماری ضرورت کی تکمیل کے لیے کافی ہے، جس نے اس نکتہ کو سمجھ لیا اور اس حقیقت کو پا لیا ، اس کے لیے دنیا وآخرت کی بھلائی ہے اور جس نے اللہ کے علاوہ کسی کو حقیقی کار ساز سمجھا وہ دنیا وآخرت دونوں میں خسارے میں ہوگا۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...