Powered By Blogger

پیر, فروری 14, 2022

معاشی استحکام کے لئے پیشہ وارانہ تعلیم ضروری_مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اڈیشہ کے پانچ روزہ دورہ کے آخری دن نائب ناظم صاحب نے کئی اداروں کاجائزہ لیا

معاشی استحکام کے لئے پیشہ وارانہ تعلیم ضروری_مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
اڈیشہ کے پانچ روزہ دورہ کے آخری دن نائب ناظم صاحب نے کئی اداروں کاجائزہ لیا
 اڈیسہ 14 فروری( پریس ریلیز)  امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈکے نائب ناظم،وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردوکاروں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اڈیشہ دورے کے پانچویں دن امارت عمرٹکنیکل انسٹی چیوٹ بسراکاجائزہ لیا،اس موقع سے امارت شرعیہ راورکیلا کے ذمہ دار جناب محمدعرفان ،ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کے ذمہ دار جناب رشیداسلم ،امارت شرعیہ کے قاضی جناب مفتی عبدالودودقاسمی،معلمین مولاناکرامت حسین اورمولاناعتیق الرحمان کے علاوہ ٹینیکل انسٹی چیوٹ کے اساتذہ و طلبہ موجودتھے، اس موقع سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  نے فرمایاکہ معاشی استحکام کے لئے پیشہ وارانہ تعلیم کاحصول ضروری ہے،یہ پیغمبر اسلام حضرت داوود علیہ السلام کی سنت بھی ہے، اللّٰہ رب العزت نے ان کے ہاتھوں میں لوہاکونرم کردیاتھا،اس لئے ہمارے نوجوانوں کو پیشہ وارانہ تعلیم میں مہارت پیداکرنی چاہئے،اوریادرکھناچاہئے کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن میں تھیوری سے زیادہ عملی طورپرکام کاجانناضروری ہوتاہے،اگرآپ نے عملی طورپرمہارت نہیں پیداکی توآپ کی سندکاکوئی فائدہ نہیں ہوگا،اسی وجہ سے امارت شرعیہ کے اداروں میں امتحان میں شرکت کے لئے بھی حاضری کاتناسب دوسرے کالجز سے زیادہ ہے،ہمیں امیدہے کہ ادارہ ان خطوط پرکام کرتارہے گا جو بڑوں نے ہمیں بتایاہے،اس سے قبل بسراپہونچنے پرانسٹی چیوٹ کی انتظامیہ،معلمین اور طلبہ کی طرف سے مفتی صاحب کاوالہانہ استقبال کیاگیا،امارت شرعیہ راورکیلا کے رکن اور جامعہ امینہ ہارون للبنات اور تحفیظ القرآن کے ناظم جناب شکیل احمدصاحب کی دعوت پرمفتی صاحب جامعہ تحفیظ القرآن تشریف لے گئے اوریہاں طلبہ کے ختم قرآن کی تقریب میں شرکت فرمائی،مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مفتی صاحب نے عظمت قرآن،تلاوت قرآن،حفظ قرآن کی اہمیت بیان کی اور صحت کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے پرزوردیا،انہوں نے قرآن کریم کی خدمت کے حوالے سے جامعہ تحفیظ القران اورحاجی شکیل احمدصاحب کی خدمت کوسراہا ،مفتی صاحب نے امارت شرعیہ کے ذریعہ چلائے جارہے مکاتب کاتعلیمی جائزہ بھی لیااورفرمایاکہ اس قسم کے مکاتب کارول دینی تعلیم کے فروغ میں انتہائی اہم ہے،اورکہناچاہئے کہ یہیں وہ اینٹ رکھی جاتی ہے جہاں سے مسلمانوں کوپوری زندگی دین پرقائم رکھنے اورضروریات دین کوبرتنے کاسلیقہ ملتاہے،نائب ناظم امارت شرعیہ نے سیکٹر۵۱ کی جامع مسجد میں مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع سے خطاب کیااورکہاکہ جھگڑے مت کیجئے اگرہوہی جائیں تودارالقضاء لے جائیے اورقاضی شریعت جوفیصلہ دیں اس کوبلاکسی تامل کے مان لیجئیے کیونکہ یہ فیصلہ خدااوررسول کے احکام وہدایت کے مطابق ہے،اس سے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضائ ملے گی اور اللّٰہ کی رضائ ہی مومن کامطلوب ومقصودہے،انہوں نے فرمایاکہ جوتکلیف دہ باتیں دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرف سے آپ تک پہونچتی ہیں اس کامقابلہ جوش وجذباتیت سے نہیں ،عقل وہوش،صبروتحمل کے ساتھ کیجئیے،یہی قرآنی ہدایت ہے اوریہی اولوالعزم لوگوں کاطریقہ رہاہے،سامعین کااحساس تھاکہ اس وقت کے حالات کے اعتبارسے یہ بیان بڑی اہمیت کاحامل ہے،اڈیشہ کے پانچ روزے دورے کی تکمیل کے بعدمفتی صاحب جھارکھنڈ کے چارروزہ دورے پرروانہ ہوگئے،ان کی پہلی منزل جمشیدپور ہے،جہاں سے وہ رانچی کے لئے روانہ ہوجائیں گے،یہ اطلا ع ذیلی دفتر امارت شرعیہ راورکیلاکے قاضی شریعت جناب مولانامفتی عبدالودود قاسمی صاحب نے دی ۔

عدم رواداری کا احساس مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عدم رواداری کا احساس 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 پورا ہندوستان اس وقت محسوس کر رہا ہے کہ ہندوستان میں عدم رواداری کا ماحول تیزی سے بڑھا ہے، اس کا آغاز تو حامد انصاری کے نائب صدر ہونے سے بہت پہلے ہو چکا تھا، لیکن حامد انصاری صاحب جب اقتدار میں تھے تو ان کی زبان اس قسم کے موضوعات ومسائل پر گُنگ رہا کرتی تھی، پہلی بار انہوں نے اپنی الوداعیہ تقریر میں اس موضوع پر زبان کھولا، سبکدوشی کے بعد ان کا یہ زبان کھولنا مؤثر تو نہیں ہوا، البتہ انہیں فرقہ پرستوں کی طرف سے نشانہ بنایا گیا اور ان کی پوری زندگی کی خدمت کا تجزیہ اسی حیثیت سے کیا جانے لگا۔
 انہوں نے اپنی آپ بیتی میں بھی مسلمانوں میں عد م تحفظ پر تشویش کا اظہار کیا تو یہ مسئلہ پھر سے جاگ گیا اور فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں نے ان کی پوری خبر لے ڈالی، اب ان کا تازہ بیان انڈین امریکن مسلم کاؤنسل کے ورچوئل پروگرام میں سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے مسلمانوں کے سلسلے میں عدم رواداری کے احساس کا اعادہ کیا ہے۔
 سابق نائب صدر حامد انصاری نے ورچوئل مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ملک اپنے آئینی اقدار سے دور ہوتا جا رہا ہے، حالیہ برسوں میں ہم نے ایسے رجحانات اور طرز عمل کو اُبھرتے ہوئے دیکھا ہے جو ملک کو ثقافتی قوم پرستی کے خیالی نظام کو نافذ کرنے کی طرف لے جا رہا ہے، انہوں نے ایسے معاملات میں سیاسی اور قانونی چیلنج کا بھی مشورہ دیا‘‘۔
 حامد انصاری صاحب نے جو کچھ کہا وہ صد فی صد صحیح ہے، اس سے زیادہ اس ملک میں مسلمانوں کو عدم تحفظ اور عدم رواداری کا احساس ہے، اس ملک کو بچانا ہے تو ان حالات سے نبرد آزما ہونا ہی پڑے گا، یہ نبرد آزمائی تشدد کا جواب تشدد سے دے کر نہیں ، سیاسی اور قانونی لڑائی لڑ کر دی جا سکتی ہے، اس کی روپ ریکھا اور خد وخال کیا ہوں گے اس پر امت مسلمہ کو متحد ہو کر غور کرنے کی ضرورت ہے، اللہ کی نصرت ومدد اپنی جگہ یقینی ہے، لیکن ابابیلوں کے لشکر شاید اب نہیں آئیں گے، اب اللہ کی نصرت کے حصول کا ذریعہ انابت الی اللہ ، دعاء سحر گاہی، آہ نیم شبی کے ساتھ انسانی تدبیر بھی ہے، دنیا مسبب الاسباب ہے، اس لیے ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے نہیں رہنا چاہیے، اس کے بغیر ہندوستان سے عدم تحفظ کے احساس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیمدفن کی چادر چھوٹی پڑگئیاز : مفتی ہمایوں اقبال ندویگیاری ، ارریہ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

دفن کی چادر چھوٹی پڑگئی

از : مفتی ہمایوں اقبال ندوی
گیاری ، ارریہ


ایک واقعہ جومولانا عابد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین کے وقت رونما ہوا وہ معمولی نہیں ہے،فکر کی نظر سے دیکھنے پر صحابی رسول حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی سنت کی پیروی معلوم ہوتی ہے۔آپ کی زندگی بھی اسی کے نقش پا کو حاصل کرنے کی کوشش سے عبارت رہی ہے اور موت سے بھی آپ کی زاہدانہ زندگی کی ہمیں دلیل ملتی ہے۔ 
مولانا عابد صاحب رحمۃ اللہ دارالعلوم رحمانی منور نگر زیرو مائل کے بانی اساتذہ میں ہیں۔
وفات مورخہ ۱۰/فروری بروز جمعرات ۲۰۲۲ءزیرسایہ مسجد حسینیہ دارالعلوم رحمانی منور نگر زیرو مائل میں  ہوئی ہے اور تدفین مذکورہ تاریخ ہی کو اپنے آبائی گاؤں پورنداہا میں ہوئی ہے۔
عین تدفین کے وقت واقعہ یہ پیش آیا کہ قبر میں مولانا مرحوم کو اتارنے کے بعد اوپر ڈالنے والی چٹائی کہیں رہ گئی، ایک چادر دستیاب تھی، اسے ڈالاگیا تو وہ پوری قبر کو احاطہ نہ کرسکی،موجود لوگوں نے اپنا عربی رومال پیش کیا، اسے جوڑدیا گیا ،اس کے اوپر مٹی ڈالی گئی۔
یہ اتفاقی واقعہ میں بھی مولانا مرحوم کی پوری زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔
اپنی زندگی میں مولانا مرحوم دعوتی خطاب میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے واقعہ بکثرت بیان کرتے اور ان کی سیرت پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے،صحابی جلیل کی سابقہ پرتعیش زندگی اور اسلام کے بعد کی ان کے زہدوتقوی اور عسرت بھری زندگی پرروشنی ڈالتے، اپنے گھر والوں سے چھپ کران کےاسلام لانے کا واقعہ ، پھر گھر والوں کی طرف سے دی جانے والی قید وبند کی صعوبتوں کا تذکرہ اور دردناک تکالیف کی روداد پیش کرتے، دین کی خاطر حبشہ کی ہجرت کو موضوع سخن بنایا کرتے۔بالخصوص پہلی جماعت مدینہ کی جو مسلمان ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کو ان کےساتھ مدینہ روانہ فرمایا۔مدینہ کے پہلے داعی اور مبلغ ہونے کاشرف انہیں حاصل ہوا،لوگ انہیں مقرئی اور مدرس کہا کرتے ،اس عنوان پر مولانا عابد صاحب خوب خوب گفتگو کرتے۔ایسا محسوس ہوتا کہ اپنا آئیڈیل انہیں محسوس کرتے ہوں۔
مولانا عابد رحمۃ کی زندگی کا سرسری مطالعہ کرنے سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ نے بھی مذکورہ صحابی رسول کی اپنی زندگی میں بھی پیروی کی کوشش کی ہے۔
آپ کے گھر والوں نے آپ کوایک عصری ادارہ میں داخل کیا، اس کا مقصد دنیاوی ترقی تھا،لیکن آپ نے اپنے گھر والوں کے منشا کے خلاف کیا،سرکاری نوکری کو بھی لات ماردی،اور دینی ترقی کے لیے جامعہ مظاہر علوم کا سفر کیا، شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ سے مرید ہوگئے، وطن واپس ہوئے، گیاری گاؤں کے الحاج ابوثاقب صاحب کےدروازے پر درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔اللہ نے آپ کے حق میں بھی دارالعلوم رحمانی کے پہلے مدرس ہونے کا شرف رکھا تھا، حضرت مولانا منور حسین صاحب رحمۃ کا کثرت سے گیاری آنا جانا تھا، لوگ زیرومائل ارریہ میں ایک عالیشان مسجد بنانا چاہتے تھے ،حضرت نے کہا کہ مسجد آباد کرنے کے لیے ایک ادارہ کی بھی ضرورت ہے، چنانچہ ادارہ بنا  مولانا عابد صاحب کو اس مدرسہ کا معلم بنا کر بھیجا گیا، تا حیات معلم ومدرس رہےاور اس مسجد کی آبادی کا ذریعہ بن گئے،دعوت وتبلیغ کا فرض پوری عمر بھی نبھاتے رہے۔سینکڑوں ہزاروں لوگوں کی اصلاح وتربیت کا کارنامہ آپ نے انجام دیا۔ایک موقع سے ایک ٹانگ ٹوٹ گئی، مسجد ہی میں معتکف ہوگئے، چند برتن اور لوٹے پاس ہوتے، یہ سرمایہ آپ کے پاس تھا،ویل چیئر پر بیٹھ کر بازاروں میں گشت کرتے اور دعوت کا فریضہ انجام دیتے، 
گویا جس امید کے ساتھ حضرت مولانا منور حسین صاحب نے آپ کو دارالعلوم رحمانی بھیجا، اس پر آپ کھرے اترے اور تاحیات گامزن رہے، یہی نہیں بلکہ آپ نے پہلے معلم اور مبلغ کا حق بھی ادا کیا، اس معاملہ میں بھی آپ نے صحابی رسول حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی پیروی کی کوشش کی ہے۔شاید یہی بات ہے کہ اللہ نے مرنے کے بعد تدفین کے وقت بھی مولانا مرحوم کو حضرت مصعب کے نقش پا کے غبار کو چھولینے کی سعادت مرحمت کی ہے۔
"وما ذالك علی بعزیز"

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...