Powered By Blogger

جمعہ, جولائی 01, 2022

قربانی: رسم سے آگےکامران غنی صباؔ

قربانی: رسم سے آگے
کامران غنی صباؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اردو دنیا نیوز۷۲)
اسلام کی کوئی بھی عبادت صرف رسم نہیں ہے۔ قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ افسوس کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یا تو ان حکمتوں کو سمجھتے نہیں یا سمجھتے بھی ہیں تو انہیں اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش نہیں کرتے۔
قربانی دراصل کسی کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنی رضا و خوشنودی کو ترک کر دینے کا نام ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے نور نظر، لخت جگر اسماعیل علیہ السلام کو راہِ خدا میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی ابتدا حضرت آدمؑ کے بیٹے قابیل اور ہابیل کی قربانیوں سے ہی ہو چکی تھی۔
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔المائدہ:۱۸۳
ترجمہ:۔”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
قربانی کا مادہ "قرب" ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد کسی کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنی خوشی کو چھوڑ دینا ہے۔ کسی انگریز مفکر کا قول ہے :
The greatest sacrifice is when you sacrifice your own happiness for the sake off someone else. 
قربانی رشتوں کو مستحکم کرتی ہے۔ اگر قربانی کسی فرد یا سماج کے لیے پیش کی جائے گی تو ہمارا رشتہ اُس فرد اور سماج سے مستحکم ہوگا۔ اسی طرح خدا کے لیے پیش کی جانے والی قربانی خدا سے ہمارے رشتوں کو مستحکم کرے گی۔ 
کسی نے بالکل صحیح کہا ہے :
A strong relationship starts with two brave people who are ready to sacrifice anything for one another.
جان کی قربانی تو قربانی کی معراج ہے۔ اگر ہم کسی کی محبت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سعادت سمجھتے ہیں خواہ وہ محبت خدا کی ہو، وطن کی ہو یا کسی اور کی تو پھر یقیناً چھوٹی موٹی قربانی ہمارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ 
قربانی کا تیوہار ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ ہم خدا اور بندگان خدا کے لیے اپنے تن، من، دھن کی قربانی پیش کرنے کو ہمہ وقت تیار رہیں۔ اگر ہمیں اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو ہم خدا کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنی دولت کا کچھ حصہ بندگان خدا کے لیے قربان کریں۔ اگر ہمیں علم کی دولت عطا کی گئی ہے تو ہم اپنے علم سے دوسروں کو فیضیاب کریں۔ اگر قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں اپنے عہدے و منصب سے دست بردار ہونے کی نوبت پیش آئے تو ہم اپنے مفاد پر قوم و ملت کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے عہدے و منصب سے دست بردار ہو جائیں۔ یہی قربانی کی اصل روح اور پیغام ہے۔
اللہ ہمیں قربانی کی اصل روح اور پیغام کو سمجھنے اور انہیں اپنی زندگی میں اتارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

صدارتی انتخاب ___

صدارتی انتخاب ___
( اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
 صدر رام ناتھ کووند کی مدت کار ختم ہو رہی ہے، چنانچہ انتخابی کمیشن نے نئے صدر کے انتخاب کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے ، اور سیاسی پارٹیوں میں سر گرمیاں تیز ہو گئی ہیں، ممتا بنرجی حزب مخالف کو متحد کرنے میں لگی ہوئی ہیں، ان کی دعوت پر سترہ چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں میٹنگ میں شریک ہوئیں اور شرد پوار ، فاروق عبد اللہ اورگوپال کرشن گاندھی میں سے کسی ایک کو متحدہ امیدوار بنانے کی تجویز آئی، شرد پوار نے تو مجلس میں ہی انکار کر دیا، فاروق عبد اللہ نے غور وفکر کرکے انکار کردیا، اور کشمیر کو ابھی ان کی ضرورت ہے کہہ کر اپنے کو امیدواری سے الگ کر لیا، یعنی وہ ابھی سر گرم سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوناچاہتے، آخر میں گوپال کرشن گاندھی نے بھی صدارتی امیدوار بننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم سے بہت اچھے لوگ اس عہدہ کے لیے دستیاب ہیں، شرد پوار نے اس پر دوبارہ میٹنگ بلائی جس میں حزب مخالف نے یشونت سنہا کے نام پر اتفاق کر لیا، انہوں نے ۱۹۶۲ء میں یوپی اس سی امتحان میں بارہوا رینک حاصل کیا تھا اور ڈی ایم بن گیے تھے، مہا مایا پرشاد کے زمانہ میں ان کے ایک وزیر کی بد تمیزی اور وزیر اعلیٰ کے بگڑ جانے پر انہوں نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ وزیر اعلیٰ تو آئی اے ایس نہیں بن سکتے، لیکن میں وزیر اعلیٰ بن سکتا ہوں، پھر انہوں نے سیاست شروع کی ،یشونت سنہا بھاجپا کے سابق ترجمان بھی رہے ہیں، ۱۹۹۶ء میں ان کو یہ عہدہ پارٹی نے دیا تھا، وہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۲ء تک باجپئی حکومت میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ بھاجپا سے ناطہ توڑ کر انہوں نے ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی، حزب مخالف کے مشترکہ امیدوار بنے کے بعد انہوں نے ترنمول کانگریس سے استعفا دیا ، انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ دروپدی سے میرا کوئی ذاتی اختلاف اور لڑائی نہیں ہے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ صدر جمہوریہ کی حیثیت سے ان سے زیادہ دستور کی حفاظت کر سکتا ہوں،یشونت سنہا کے نام کے اعلان کے بعد بھاجپا نے بھی اڈیشہ کی آدی باسی قبائلی خاتون دروپدی مرمو کو اپنی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے ، دروپدی مرمو نے اپنی زندگی کی شروعات کلرک کے طور پر کیا تھا، بعد میں وہ میور بھنج کی وارڈ کونسلر ، پھر وہاں کی نائب میئر بنیں، اڈیشہ حکومت میں وزیر کے طور پر بھی دو بار خدمت انجام دیا، شوہر اور دو بیٹیوں کے انتقال کے بعد ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا سماجی خدمت ہی رہا،وہ جھارکھنڈ میں پہلی آدیواسی گورنر کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت سوچ سمجھ کر یہ نام پیش کیا ہے ، بیجو جنتا دل کے نوین پٹنایک کہہ چکے تھے کہ کسی آدی واسی امیدوار کو ہی ہم سپورٹ کریں گے ، اس طرح درویدی مرمو کے حق میں بیجو جنتا دل کا جانا طے ہے ، نتیش کمار کی جدیو عاب، وائی اس آر کانگریس اور دوسری علاقائی پارٹیوں نے بھاجپا امیدوار کے ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، مرکزی حکومت نے جیت کے یقین کی وجہ سے ہی انہیں زیڈ سیکوریٹی بھی فراہم کر دی ہے، انصاف کا تقاضہ تھا کہ یشونت سنہاکو بھی سیکوریٹی فراہم کی جاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا، وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ ذمہ داری راج ناتھ سنگھ کو سونپی ہے کہ وہ اپنے امیدوار کے حق میں دوسری پارٹیوں کی آرا ہموار کریں، بظاہر یہ بہت مشکل بھی نہیں ہے، لیکن مشہور ہے کہ سیاست اور کرکٹ میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا، مہاراشٹرا کی مخلوط حکومت کا حشر ہمارے سامنے ہے، یقین تو یہی ہے کہ این ڈی اے امیدوار دروپدی مرمو جیت جائیں گی، وہ خاتون ہیں ، آدی باسی ہیں اور پارٹیاں ۲۰۲۴ء کے انتخاب کے پیش نظر ان کو نظر انداز نہیں کر سکیںگے گی، بھاجپا اور این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں کے ذریعہ دروپدی مرمو کا انتخاب یہ بتاتا ہے کہ آزادی کے پچھہتر سال کے بعد بھی ہمارے یہاں علاقائی اور طبقاتی ترجیحات دور غلامی کی طرح ہی ہے، تبھی تو بھاجپا کے صدر جے پی نڈا نے اس نام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انتخاب تین وجہ سے ہوا، وہ پورب کے علاقہ سے آتی ہیں، عورت ہیں اور آدی باسی ہیں، یعنی اس انتخاب میں علاقہ، قبیلہ اور صنفی جنس کا دھیان رکھا گیا ہے۔

سابق رکن پارلیمان عتیق احمد کے ساتھی حمزہ انصاری کو گرفتار کر لیا ہے۔

سابق رکن پارلیمان عتیق احمد کے ساتھی حمزہ انصاری کو گرفتار کر لیا ہے۔

(اردو دنیا نیوز۷۲)

سی بی آئی نے سابق رکن پارلیمان عتیق احمد کے ساتھی حمزہ انصاری کو گرفتار کر لیا ہے۔ حمزہ پر پراپرٹی ڈیلر موہت اگروال کے اغوا اور جیل میں مارپیٹ کا الزام ہے۔ Hamza Ansari Arrested In Prayagraj

ریاست اترپردیش کے ضلع پریاگ راج کے سابق رکن پارلیمان عتیق احمد کے ساتھی حمزہ انصاری کو سی بی آئی نے گرفتار کر لیا ہے۔ معلومات کے مطابق سی بی آئی کی لکھنؤ ٹیم نے حمزہ کو کریلی علاقے کے قبرستان کے قریب سے گرفتار کیا ہے۔ فی الحال سی بی آئی عتیق کے بیٹے عمر کی تلاش کر رہی ہے۔ CBI arrest hamza ansari in prayagrajذرائع کے مطابق حمزہ انصاری دیوریا جیل کیس میں مطلوب تھے۔ اس لیے سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بھی ان کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کیا تھا۔ ساتھ ہی حمزہ پر پراپرٹی ڈیلر موہت اگروال کے اغوا اور جیل میں مارپیٹ کا بھی الزام ہے۔ اس واقعہ کے بعد پراپرٹی ڈیلر موہت اگروال نے لکھنؤ میں عتیق احمد اور ان کے بیٹے عمر اور دیگر کے خلاف اغوا اور مارپیٹ کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ عدالت کے حکم پر کیس کی تفتیش سی بی آئی کو منتقل کر دی گئی۔ اس واقعے کے بعد سے ملزم حمزہ انصاری مفرور تھے۔ آخر کار سی بی آئی نے انہیں گرفتار کر لیا ہے۔


عتیق احمد کا بڑا بیٹا عمر بھی اسی کیس میں ملزم ہے۔ سی بی آئی نے عمر پر ایک لاکھ روپے کے انعام کا بھی اعلان کیا ہے۔ فی الحال وہ سی بی آئی کی گرفت سے باہر ہے۔ تفتیشی ادارہ عتیق احمد کے بیٹے عمر کی کافی عرصے سے تلاش میں مصروف ہ


مزید پڑھیں:۔ عتیق احمد کے رشتہ دار کو عدالتی حراست میں بھیجا گ

یاے۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...