Powered By Blogger

پیر, اپریل 11, 2022

اکھلیش سے ناراض اعظم خان ایس پی چھوڑ سکتے ہیں

 

اکھلیش سے ناراض اعظم خان ایس پی چھوڑ سکتے ہیں

لکھنؤ: سماج وادی پارٹی (ایس پی) کو جلد ہی ایک اور بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے کیونکہ پارٹی کے سینئر لیڈر محمد اعظم خان کے پارٹی چھوڑنے اور ممکنہ طور پر اپنی پارٹی بنانے کی قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں۔

 اعظم خان کے میڈیا انچارج فصاحت خان شانو نے کہا ہے کہ "وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے درست کہا تھا کہ اکھلیش نہیں چاہتے کہ اعظم خان جیل سے باہر ہوں۔

فصاحت نے اتوار کی رات دیر گئے رام پور میں پارٹی دفتر میں خان کے حامیوں کی ایک میٹنگ میں یہ تبصرہ کیا۔

 ذرائع کے مطابق اعظم خان اس بات سے ناراض ہیں کہ اکھلیش ان سے سیتا پور جیل میں ایک بار کے علاوہ ملاقات نہیں کر سکے تھے جہاں وہ فروری 2020 سے بند ہیں۔

پرگتیشیل سماج وادی پارٹی-لوہیا (پی ایس پی-ایل) کے سربراہ شیو پال یادو کی اکھلیش کے ساتھ اختلافات اور ان کے حکمراں بی جے پی میں ممکنہ تبدیلی نے اعظم خان کے ایس پی چھوڑنے کی خبروں کو تقویت بخشی ہے۔

 اعظم خان نے 2022 کا اتر پردیش اسمبلی الیکشن لڑا اور سیتا پور جیل میں سلاخوں کے پیچھے سے 10ویں بار رام پور سیٹ جیتی۔

۔ فصاحت نے کہا کہ اعظم خان کے اشارے پر مسلمانوں نے نہ صرف رام پور بلکہ کئی اضلاع میں ایس پی کو ووٹ دیا۔ لیکن ایس پی کے قومی صدر نے مسلمانوں کا ساتھ نہیں لیا۔ اعظم خان دو سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں، لیکن ایس پی صدر صرف ایک بار جیل میں ان سے ملنے گئے۔ یہی نہیں پارٹی میں مسلمانوں کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ ۔

۔ فصاحت نے مزید کہا،اب اکھلیش یادو کو لگتا ہے کہ ہمارے کپڑوں سے بدبو آ رہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک دن پہلے ایس پی ایم پی شفیق الرحمان برق نے بھی الزام لگایا تھا کہ ایس پی مسلمانوں کے لیے کام نہیں کررہی ہے۔

سماج وادی پارٹی کے ریاستی ترجمان اور قومی سکریٹری راجندر چودھری نے کہا ہے کہ "میں ایسی کسی میٹنگ یا تبصرے سے واقف نہیں ہوں۔ اعظم خان ایس پی کے ساتھ ہیں اور ایس پی ان کے ساتھ ہے۔

 اعظم خان کی اہلیہ تزین فاطمہ سابق ایم ایل اے اور راجیہ سبھا کی سابق رکن ہیں جب کہ ان کے بیٹے عبداللہ اعظم خان نے رام پور کی سور اسمبلی سیٹ جیتی ہے۔

 اعظم خان 1980 سے رام پور سیٹ سے جیت رہے ہیں۔ وہ صرف 1996 میں کانگریس سے ہارے تھے۔ تزین فاطمہ نے رام پور سیٹ جیت لی جب انہوں نے 2019 میں رام پور لوک سبھا سیٹ جیتنے کے بعد اسے خالی کر دیا۔

۔ 22 مارچ کو اعظم خان نے اپنی اسمبلی سیٹ برقرار رکھنے کے لیے رام پور لوک سبھا کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ اسی دن کیا گیا تھا جس دن اکھلیش نے اپنی کرہل اسمبلی سیٹ کو برقرار رکھنے کے لئے ایس پی کے اعظم گڑھ لوک سبھا ممبر کی حیثیت سے استعفیٰ دیا تھا۔


روزہ اظہار عبدیت کا بہترین ذریعہساجد حسین ندوینیوکالج،چنئی

روزہ اظہار عبدیت کا بہترین ذریعہ
ساجد حسین ندوی
نیوکالج،چنئی
یوں تو اللہ بتارک وتعالیٰ نے امت مسلمہ پر نماز روزہ، حج، زکوٰۃ، وغیرہ جیسی بہت سی عبادتیں عطافرمائی ہیں، جن کے ذریعہ بندہ اپنے رب کی بڑائی بیان کرتاہے، اپنی نیاز خم کرکے عبدیت کا اظہارکرتاہے، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے یا اللہ توہی میرارب ہے میں تیرا بندہ ہوں۔ الغرض عبادت کی جتنی شکلیں اللہ تعالیٰ نے سکھلائی ہیں ان کو اختیار کرکے بندہ حق بندگی ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتاہے۔ کیوں کہ اللہ نے اس کوپیدااسی مقصد کے لئے کیاہے۔ جیسا خود اللہ نے اس کی وضاحت کی ”وماخلقت الانس والجن الا لیعبدون“  میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔(الذاریات:۶۵)۔
بندگی کیاہے؟  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی کے لئے پیدا کیاہے،اس کا کیامطلب؟ کیا اس کا مطلب صرف یہ ہیکہ بندہ دن میں پانچ  وقت کی نماز اداکرلیا، رمضان کے مہینے میں تیس دن روزے رکھ لیا اوراگر اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو سال میں زکوٰۃ اداکردی اسی طرح زندگی میں ایک مرتبہ حج کرلیاتو کیااس سے حق بندگی ادا ہوگئی؟ اور اب انسان اس کے بعد آزاد ہوگیا ہے؟ جو چاہے کرے؟ بندگی کا مقصدیہ نہیں ہے۔بلکہ بندگی کا مقصد یہ ہے کہ ان عبادتوں کے ذریعہ انسان کی تربیت ہواور اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے، خواہ جس کی حالت میں ہو، اسے ہروقت یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کا مالک اسے دیکھ رہاہے، اور مالک کے حکموں کے بنازندگی گزارنااپنے کو ہلاکت میں ڈالناہے۔
مذکورہ بالامیں عبادت کی جتنی شکلیں بیان کی گئی ہیں ان تمام شکلوں میں روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا حال خدااور بندے کے سوا کوئی نہیں جانتاہے، شاید اسی لئے حدیث قدسی میں روزہ کے انعام کے سلسلے میں حضور اکرم  ﷺ نے فرمایا ”آدمی کا ہرعمل خداکے یہاں کچھ نہ کچھ بڑھتاہے ایک نیکی دس گنی سے سات سو گنی تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگراللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ اس سے مستثنی ہے۔ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں اس کاجتنا چاہتاہوں بدلہ دیتاہوں“۔ (مسلم:۱۵۱۱)
اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشادہے ”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہاجاتاہے، روزہ دار قیامت کے دن اسی سے جنت میں داخل ہونگے، کوئی اور ان کے ساتھ داخل نہ ہوسکے گا، پوچھاجائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پھر اس سے داخل ہونگے اور جب آخری شخص داخل ہوجائے گا تواسے بند کردیاجائے گا اور پھر کوئی اس دروازہ سے داخل نہ ہوسکے گا “(مسلم: ۰۱۷۲)  
اس کے علاوہ جتنی عبادتیں ہیں کوئی عبادت کسی سے مخفی اور ڈھکی چھپی نہیں ہے، نماز کو عماد الدین کہاگیاہے، لیکن دل کی حضوری کے ساتھ جسم کے ایسے اعمال واظہار پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے جماعت ہی میں نہیں گھر کی چہار دیواری میں بھی اداکی جانے والی نماز کسی سے مخفی نہیں، ہر شخص اس کی عبادت سے واقف ہوتاہے۔
اسی طرح حج میں بندہ ایک لمبا سفر کرتاہے ہزاروں لاکھوں کے ساتھ ہوتاہے، گاؤں اور محلہ کا ہرشخص واقف ہوتاہے کہ فلاں صاحب حج کو تشریف لے جارہاہے اورجب فریضہ ئ حج اداکرکے اپنے وطن واپس آتاہے تو ہر خاص وعام اسے ’حاجی صاحب‘ نام سے جانتے ہیں۔ گویا یہ عبادت چھپانے سے بھی نہیں چھپ سکتی۔
اسی طرح صاحب نصاب مالدار اپنی زکوٰۃ کو کتناہی چھپا کراداکرے کم از کم لینے والا تو جانتاہے کہ فلاں شخص نے دیاہے چنانچہ یہ سب عبادتیں ایسی ہے کہ چھپائے بھی چھپ نہیں سکتی اگر آپ اداکرتے ہیں پھربھی لوگوں کو معلوم ہوجائے گا اور ادانہ کریں تب بھی لوگوں کوخبر ہوہی جائے گی۔اس کے برخلاف روزہ ہے جس کا گواہ صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہوتاہے اس کے سوا کسی کے سامنے اس کی حقیقت نہیں کھل سکتی۔ ایک شخص سب کے ساتھ مل بیٹھکر سحری کھاتاہے اور افطارتک ظاہر ی طور پر کچھ نہ کھائے مگر چھپ چھپا کر پانی پی لے، یا کچھ کھا لے تو اللہ کے سوا کسی کو اسکی خبر نہیں ہوسکتی، سارے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فلاں صاحب روزہ سے ہے، لیکن حقیقت میں وہ روزہ سے نہیں ہوتا۔ روزہ دارکو اللہ پر اور آخرت پر اس قدر یقین ہوتاہے کہ سخت گرمی میں بھی جب حلق خشک ہو جاتاہے، پیاس کی شدت اسے بے چین کرتی ہے، بھوک سے وہ تڑپتاہے اسی حالت میں اس کے سامنے انواع و اقسام کی چیزیں ہوتی ہیں اگر کھابھی لے تو کون اسے دیکھ رہاہے؟ لیکن اس کے باوجود وہ ان کو ہاتھ نہیں لگاتااور دل میں یہ کہتاہے کہ اگر مجھے اس بندکوٹھری میں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے، ہم اوروں کی نظروں سے اوجھل ہوسکتے ہیں لیکن اس کی نظروں سے کیسے بچ پائیں گے جو باریک بیں ہے، جس کی نگاہیں ہرچیز کو گھیرے ہوئی ہیں،اسی یقین کی بنیادپر اللہ کی حکموں کو بجالاتاہے سحرسے لیکر سورج کے ڈوبنے تک کھانے پینے اور خواہشات سے اپنے آپ کو روکتاہے صرف اس بنیاد پرکہ اس کا رب اس سے یہی چاہتاہے۔
 روزہ کا مقصد تقوی کی صفت سے اپنے آپ کو آراستہ کرناہے اور اللہ کا بندہ بننے او ر اس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے لئے بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کرنا،جائز خواہشات سے اجتناب کرناانسان کوتقویٰ کی نعمت سے مالامال کرتاہے، جو دنیا اورآخرت کی بھلائی کا ذریعہ ہے اور انسان کے اندراس کے ذریعہ ایسی صلاحتیں پیداہوتی ہیں جو انسان کو ہدایت سے فیض یاب ہونے میں معاون ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے سب سے پہلی شرط جو بیان کی ہے وہ تقویٰ ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”ھدی للمتقین“ ہدایت متقیوں کے لئے ہے (البقرہ:۲) اور روزہ انسان کے اندروہ تقوی پیداکرتاہے جو ہدایت ربانی کے لئے مطلوب ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ”لعلکم تتقون“ تم پر روزہ فرض کیاگیا تاکہ تم متقی وپرہیز گار بن جاؤ(البقرہ:۳۸۱)۔
چنانچہ جو روزہ کے مقصدکو سمجھے گا اور اس کے ذریعہ سے اصل مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تووہ تھوڑا یا بہت متقی ضرور بن جائے گا۔ لیکن جو مقصد کو نہ سمجھے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اس کے لئے بھوک پیاس رہنے کے سواکچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔
لہذاہمیں چاہئے کہ روزہ کے مقاصد کوسامنے رکھتے ہوئے روزہ رکھیں،اللہ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں، روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنے، غیبت اور چغل خوری سے اجتناب کریں، نیکیوں میں کثرت کریں نوافل اور قرآن کریم کی تلاوت کواپنامعمول بنائیں۔
 اللہ ہمیں رمضان سے صحیح طور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطافرمائے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...