Powered By Blogger

منگل, فروری 15, 2022

قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا، پڑھانا دین کی بڑی ضرورت۔ مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی

قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا، پڑھانا دین کی بڑی ضرورت۔ مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی
جمشیدپور۔ 15/ فروری ( پریس ریلیز) بنیادی دینی تعلیم کا سب سے اہم حصہ قرآن کریم کا صحت کے ساتھ پڑھنا ، پڑھانا ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جن کاموں کاتذکرہ اللّٰہ رب العزت قرآن کریم میں کیاہے، ان میں تلاوت کتاب بھی ہے، اسی وجہ سے امارت شرعیہ نے ہر دور میں خصوصیت کے ساتھ مکتب کے قیام کو ترجیح دیا ، اور آج بھی امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم کے مطابق بڑی تعداد میں خود کفیل نظام ِمکاتب کے قیام پر توجہ دی جارہی ہے، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم ، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدرحضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے کیا، وہ مکتب امارت شرعیہ جمشیدپور کے جائزہ کے بعدامارت شرعیہ کے مقامی ذمہ داروں سے تبادلہ خیال کررہے تھے ، انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیاکہ جمشیدپورمیں تنظیم ائمہ مساجد بھی اس کام کے لئے سرگرم عمل ہے،اس نے مستورات میں بھی کام کا ایک خاکہ بنایاہے، اور اس پر کام بھی شروع ہوگیا ہے، یہ ایک اچھی اور قابل تحسین پیش رفت ہے، جس کا قیام حال ہی میں امارت شرعیہ کی کوششوں سے عمل میں آیاہے، مفتی صاحب نے فرمایا کہ جمشید پور میں ہیلتھ کئیرسینٹر کی عمارت کی تعمیر کاکام بھی جلدشروع ہوگا، اس  کے لئے ضروری تیاری چل رہی ہے، حضرت امیر شریعت کے حکم وہدایت کی روشنی میں کام کو آگے بڑھایاجائے گا۔
حضرت مفتی صاحب نے شہر جمشیدپور کی دھتکیڈیہہ جامع مسجد میں مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں حالات کی بدتری سے پریشان ہونے کے بجائے اللّٰہ رب العزت کی قدرت کاملہ پر اعتماد رکھنا چاہئے، اور خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ حالات حکمرانوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے، اعمال کے بدلنے سے بدلتے ہیں، ہم نے دین سے دوری اختیار کی، اللّٰہ سے تعلق میں کمی آئی، شریعت پر عمل کرنے کا مزاج جاتارہا، تو مصیبتیں آنے لگیں، اس کاحل شریعت پر عمل اور اللّٰہ سے تعلق کو مضبوط کرناہے، علامہ اقبال ؒ کے لفظوں میں کہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ‘‘ اور ہم خوار ہوئے تاریک قرآن ہوکر،، تدبیریں ہر دور میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف ہوتی رہی ہیں، لیکن اچھی اور غالب تدبیر اللّٰہ کی ہے، حضرت مفتی صاحب نے اپنے خطاب میں قرآن واحادیث اور سیروتاریخ کے حوالہ سے کئی مثالیں دے کر اپنی بات کو واضح کیا، اور بتایا کہ ہم ہی غالب رہیں گے اگر ہم مومن ہیں، آزمائش کے اس موقع سے دین پر سختی سے قائم رہنا اور شریعت کے مطابق زندگی گذارنا ہماری اولین ترجیحات ہونی چاہیے۔
پروگرام سے  قبل نائب ناظم امارت شرعیہ جھارکھنڈ کے چارروزہ دورہ کے پہلے دن جمشیدپور پہونچنے پر امارت شرعیہ کے ذمہ داروں خصوصاََ قاضی شریعت مولانا قاضی محمدسعود عالم قاسمی ومعاون قاضی شریعت مولانا افروز سلیمی القاسمی نے استقبال کیا، حضرت مفتی صاحب نے امارت شرعیہ کے مختلف کاموں کاجائزہ لیا اور ضروری مشورے دیئے، مختلف مجلسوں میں حضرف مفتی صاحب نے امارت شرعیہ کی اہمیت وضرورت ، اس کے مقاصد اور اہداف پر بھی روشنی ڈالی، شہر جمشیدپور کی معروف عصری تعلیم گاہ کریم سیٹی کالج کے کئی پروفیسران سے بھی مولانا عبداللہ قاسمی کے دولت کدہ پر عشائیہ کے موقع پرملاقات ہوئی، مفتی صاحب نے امارت شرعیہ جمشیدپور کے معلم مولانا اظہر القاسمی کی نانی کے انتقال پر ان سے تعزیت کرنے کے بعد دعائے مغفرت فرمائی،نائب ناظم صاحب کے تمام پروگرام میں قاضی شریعت مولانا قاضی محمدسعود عالم قاسمی ومعاون قاضی شریعت مولانا قاری افروز سلیمی القاسمی بھی ساتھ ساتھ کریک رہے ،واضح رہے کہ حضرت نائب ناظم صاحب کا جھارکھنڈ کایہ دورہ دفتری جائزہ اور امارت شرعیہ کے کاموں کو رفتاردینے کی غرض سے ہو رہاہے جو ابھی جار ی رہے گایہ رپورٹ دفتر دار القضاء امارت شرعیہ جمشیدپور سے معاون قاضی افروز سلیمی القاسمی نے دی ہے۔

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی _____ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی _____
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
ماہنامہ الفرقان اور ندائے ملت کے سابق مدیر ، انڈین مسلم فیڈریشن یو کے کے سرگرم رکن، اسلامک ڈیفینس لیگ یوکے کے بانی، حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بن حضرت مولانا منظور احمد نعمانی بن صوفی احمد حسین (م رمضان ۱۳۶۸ھ) کا پنچانوے سال کی عمر میں دہلی میں مقیم ان کے صاحب زادہ مولانا عبید الرحمن سنبھلی کے گھر انتقال ہو گیا، انہوں نے ۲۳؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو عشاء کی نماز سے قبل آٹھ بج کر دس منٹ پر آخری سانس لی، وہ کافی عرصہ سے بیمار چل رہے تھے، جنازہ ان کے آبائی شہرسنبھل لے جایا گیا، جہاں بعد نماز ظہر اگلے دن مفتی محمد سلمان منصور پوری استاذ حدیث مدرسہ شاہی مراد آباد نے جنازہ کی نماز مدرسہ انجمن سنبھل میں پڑھائی، اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا اہلیہ پہلے انتقال کر چکی تھیں۔
حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۶ء کو اتر پردیش کے قصبہ سنبھل میں آنکھیں کھولیں وہ مولانا منظور نعمانی علیہ الرحمہ کے سب سے بڑے فرزند تھے، ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا، وہاں وہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی اور حضرت مولانا محمد اسعد مدنی ؒ کے ہم درس رہے۔ ۱۹۵۰ء میں دار العلوم سے فراغت کے بعد اپنے والد کے مشہور رسالہ الفرقان سے وابستہ ہوئے ، ۱۹۵۳ء میں وہ الفرقان کے مدیر بنا دیے گیے، انہوں نے مضبوط انداز میں ملت اسلامیہ کا موقف الفرقان میں پیش کیا، یہ موقف بے باکانہ ہو اکرتا تھا، جس کی وجہ سے الفرقان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، ان کے الفرقان کے اداریوں کا مجموعہ’’ راستے کی تلاش‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے جو اہل علم میں مقبول ہے۔ ۱۹۶۲ء میں پندرہ روزہ ندائے ملت کا آغاز ہوا تو مولانا اپنے بھائی حفیظ نعمانی کے ساتھ اس کے دست وبازو بن گیے،ندائے ملت  کے بے باکانہ اداریہ نے حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ حفیظ نعمانی نے نو ماہ کے لیے قید وبند کی صعوبت برداشت کی خود مولانا ڈیفنس آف انڈیا رول کے تحت چھ مقدمات میں ماخوذ ہوئے۔
 مولانا مرحوم مسلم مجلس مشاورت کے بانیوں میں سے ایک تھے، مسلسل تحریکی زندگی کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہنے لگی ، ۱۹۶۷ء میں مولانا بغرض علاج لندن گیے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گیے، سال میں ایک بار ہندوستان آنا ہوتا تھا، لیکن وہ مہمان بن کر ہی آتے تھے، لندن منتقلی کے بعد ان کا میدان عمل برطانیہ ہو گیا، او روہاں انہوں نے مختلف تحریکات میں بھر پور حصہ لیا، انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلامک ڈیفنس لیگ کی بنیاد ڈالی، انڈین مسلم فیڈریشن لندن کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوبیرون ہند میں مؤثر بنانے کے لیے جم کر کام کیا، ان کے مضامین فیڈریشن کے خبرنامہ ’’دی انڈین مسلم‘‘ میں اردو سے انگریزی ترجمہ کرکے چھپا کرتے تھے۔
مولانا عظیم صحافی تھے، ان کی انگلی زمانہ کے نبض پر ہوا کرتی تھی ، وہ سیاسی اتار چڑھاؤ اور رست وخیز پر گہری نظر رکھتے تھے، اس لیے ان کے اداریے اقدامات کی  نشان دہی بھی کرتے تھے، ان کے اداریہ نویسی کی خصوصیات کو ان کے اداریہ کے مجموعے ’’راستے کی تلاش ‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے ، ان کے علاوہ جو کتابیں ان کی مقبول ہوئیں اور اہل علم کی نظر میں مباحثہ کا موضوع بنیں ان میں انقلاب ایران اور اس کی اسلامیت ، واقعۂ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر، طلاق ثلاثہ اور حافظ ابن القیم، مجھے ہے حکم اذاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان کی آخری تصنیف محفل قرآن ہے، جو چھ جلدوں میں ہے اور تفسیر قران ہے، یہ تفسیر عصر حاضر کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے ، اس لیے مشکل مقامات کے حل کے ساتھ قرآن کریم پر کیے جانے والے اعتراضات کا منطقی اور مسکت جواب بھی دیا گیاہے، یہ تفسیر اہل علم کے لیے بہترین تحفہ اور نئی نسل کے لیے ان کے شکوک وشبہات دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، مولانا کا جو اسلوب او ر تحقیق میں جو جزم واحتیاط تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی عتیق احمد بستوی استاذ دار العلوم نے بجا لکھا ہے کہ 
’’ حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی زود نویس نہیں تھے، اللہ نے ان کو جو طویل عمر عطا فرمائی اس کے اعتبار سے ان کی کتابیں اور ان کی تحریریں کم ہیں، لیکن وہ جو کچھ تحریر فرماتے تھے، طویل غور وفکر ، گہرے مطالعہ اور وسیع تجربات کا خلاصہ ہوتا تھا، ہر لفظ بہت ناپ تول کر لکھتے تھے، ان کا ہر جملہ اور فقرہ بہت محکم ہوتا تھا، ان کی تحریریں لفاظی عبارت آرائی سے پاک ہوتی تھی، ان کا اسلوب نگارش سشتہ ، سادہ اور بڑا عقلی ومنطقی ہوا کرتا تھا۔ آگے لکھتے ہیں: مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا مخصوص طرز نگارش ہے ، اس میں سادگی اورپرکاری کے ساتھ معقولیت کا حسین امتزاج ہے، مولانا سنبھلی کی کوئی بھی تحریر سرسری اور سطحی نہیں ہوتی، بہت غور وفکر کے بعد موضوع میں ڈوب کر لکھتے ہیں۔(مولانا عتیق الرحمن سنبھلی- نقوش وتاثرات)
یہ عجیب اتفاق ہے کہ مولانا سے میری کوئی ملاقات ہندوستان میں نہیں ہوئی ، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جب میرا ٓنا جانا لندن ہونے لگا تو کئی ملاقاتیں مختلف محفلوں میں وہیں ہوئیں، ایک دو دفعہ گھر بھی جانا یاد آتا ہے، میںنے ان ملاقاتوں میں مولانا کو متواضع ، خاموش طبع اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنے والا پایا، ممکن ہے دوستوں کی مجلس میں گھل مل جاتے رہے ہوں، لیکن میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں تھا، میں خود بھی بڑوں کی مجلس میں خاموش ہی رہا کرتا ہوں، مولانا بھی خاموش طبع تھے، ایسے میں گفتگو سے زیادہ اس ملاقات کا مطلب ایک دوسرے کو دیکھنا ہی ہوا کرتا تھا، کچھ عمر کا تفاوت بھی تھا جو بے تکلف ہونے سے ہر ملاقات میں مانع ہی رہا ۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

، SOPS کرناٹک میں جلدہی یونیفارم پر : Hijab Row پری یونیورسٹی و ڈگری کالجز کا کل سے آغاز

، SOPS کرناٹک میں جلدہی یونیفارم پر : Hijab Row پری یونیورسٹی و ڈگری کالجز کا کل سے آغازکرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومائی (Basavaraj Bommai) نے پیر کے روز کہا کہ حجاب (Hijab) پر بڑھتے ہوئے تنازعہ کے درمیان حکومت اسکولوں اور کالجوں میں یونیفارم کے حوالے سے ایس او پیز (SOPs) جاری کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ ایس او پیز جاری کرنے سے پہلے ریاستی وزیر تعلیم سے اس معاملے پر بات کریں گے۔ سی ایم بسواراج بومائی نے کہا آج دسویں جماعت تک کی کلاسیں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں۔ آج شام میں اپنے وزیر تعلیم کے ساتھ ایک میٹنگ میں شرکت کروں گا۔ ہم بات کریں گے کہ کیا ہوا ہے اور ایس او پیز جاری کریں گے۔ ہر ایک کو ہائی کورٹ کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ کا یہ تبصرہ ایک ایسے دن آیا جب دسویں جماعت تک کے اسکول چھ دن کے وقفے کے بعد دوبارہ کھل گئے۔ 8 فروری کو بومئی نے تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ جنوبی ریاست میں حجاب کے تنازع (hijab controversy) پر ہلچل مچ گئی تھی۔ پری یونیورسٹی اور ڈگری کالج بدھ کو دوبارہ کھلیں گے۔ کرناٹک حکومت نے پیر کے روز پی یو (پری یونیورسٹی) اور ڈگری کالجز کو بدھ سے دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا اور محکمہ پولیس کو جہاں بھی ضرورت ہو سیکورٹی بڑھانے کی ہدایت دی۔ حکومت نے پہلے ڈگری اور ڈپلومہ کالجوں کی بندش میں 16 فروری تک توسیع کی تھی۔ یہ فیصلہ سی ایم بومائی کی صدارت میں ہوئی میٹنگ میں لیا گیا، جس میں وزیر داخلہ آراگا جنیندر، پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے وزیر بی سی ناگیش، اعلیٰ تعلیم کے وزیر سی این اشوتھ، نارائن اور حکومت کے سینئر افسران نے شرکت کی۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں حجاب سے متعلق تمام درخواستوں پر غور کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے ریاستی حکومت سے تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کی درخواست دی تھی اور تمام طلبا کو زعفرانی شال، اسکارف، حجاب اور کسی بھی مذہبی جھنڈے کو پہننے سے روک دیا تھا۔ عدالتی حکم کے بعد حکومت نے 14 فروری سے ہائی اسکول کے طلبا کے لیے کلاس 10 تک اور اس کے بعد پری یونیورسٹی اور ڈگری کالجوں کے لیے دوبارہ کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی کے مطابق ریاست بھر کے ہائی اسکول آج دوبارہ کھل گئے۔

طلبا نے ہائی کورٹ سے کہا کہ انہیں یونیفارم کی طرح ایک ہی رنگ کا حجاب پہننے کی اجازت دی جائے۔ اس سے پہلے دن میں کرناٹک ہائی کورٹ کی تین رکنی بنچ نے پیر کو دوبارہ سماعت شروع کرنے کے بعد حجاب کیس کی سماعت منگل کی دوپہر تک ملتوی کر دی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...