Powered By Blogger

جمعرات, جون 09, 2022

ممتا بنرجی نوپور کے بیان سے برہم ، کہا ۔ فوری گرفتار کریں

ممتا بنرجی نوپور کے بیان سے برہم ، کہا ۔ فوری گرفتار کریں

بھارتیہ جنتا پارٹی کی معطل رہنما نوپور شرما کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خلاف کیے گئے ریمارکس کے معاملے پر اب سیاست تیز ہو گئی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ٹویٹ کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی پر حملہ کیا ہے۔ ممتا نے ترتیب وار تین ٹویٹس کیں۔ پہلے ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں بی جے پی کے کچھ تباہ کن لیڈروں کی طرف سے کئے گئے تضحیک آمیز ریمارکس کی مذمت کرتی ہوں، جس کے نتیجے میں نہ صرف تشدد پھیلا بلکہ ملک کے تانے بانے کی تقسیم کا باعث بنی، جس نے امن اور ہم آہنگی کو بگاڑ دیا۔

ایک اور ٹویٹ میں ممتا نے لکھا کہ میں مطالبہ کرتی ہوں کہ بی جے پی کے ملزم لیڈروں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے تاکہ ملک کا اتحاد درہم برہم نہ ہو اور لوگوں کو ذہنی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ ہی، میں تمام ذاتوں، عقیدوں، مذاہب اور برادریوں کے اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں سے عام لوگوں کے وسیع تر مفاد میں امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ ہم اس اشتعال انگیزی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

وہیں شیوسینا لیڈر سنجے راوت نے بھی اس معاملے پر بیان دے کر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، لیکن بی جے پی کے ترجمان دو مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان لڑائی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ملک میں کچھ ہوتا ہے تو بی جے پی ذمہ دار ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم اپنا کام جاری رکھیں گے.

بھوجپور میں شادی میں فائرنگ ، رقاصہ کو لگی گولی

بھوجپور میں شادی میں فائرنگ ، رقاصہ کو لگی گولیبھوجپور، 9 جون۔ بھوجپور میں بارات میں رقص کررہی رقاصہ کو گولی لگ گئی۔ گولی اس کے داہنے جانگھ کی ہڈی توڑتے ہوئے پھنس گئی۔ اسے علاج کے لیے نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ معاملہ ضلع کے کوئلوار تھانہ علاقے کے باغ منجھووا گاو?ں کا ہے۔ جہاں بارات میں رقص کے دوران فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے دوران اسٹیج پر بیٹھی ایک رقاصہ کو گولی لگ گئی۔ اس واقعے میں وہ شدید طور سے زخمی ہو گئی۔وہیں لوگوں کے درمیان افرا تفری مچ گئی۔ رقاصہ نے کہا۔ شادی میں کئی راو?نڈ فائرنگ زخمی رقاصہ ہریانہ کے انکھیر تھانہ علاقے کے فرید ا?باد سیکٹر 21 سی رہائشی راجو سین کی 23 سالہ بیٹی سونم سین ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے رقاصہ ہے اور شادی اور دیگر پارٹیوں میں پرفارم کرتی ہے۔ ادھر رقاصہ سونم سین نے بتایا کہ باغ کوئلوار تھانہ علاقہ کے منجھوا گاو?ں میں واقع بارات میں اسٹیج شو کرنے گئی تھی۔ جب وہ اسٹیج پر بیٹھی تھی اور اس کے دوسرے ساتھی اسٹیج پر رقص کر رہی تھیں۔ پھر اچانک ایک نوجوان نے فائرنگ کر دی۔ جس میں اسے گولی لگ گئی۔ حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ گولی کس نے چلائی۔ دوسری جانب زخمی رقاصہ سونم سین نے بھی بارات میں رقص کے دوران کچھ نوجوانوں کی جانب سے کئی راو?نڈ فائر کرنے کی بات کی ہے۔ وہیں واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مقامی تھانے کی پولیس نے موقع پر پہنچ کر معاملے کی جانچ شروع کردی۔ جانگھ میں لگی ہے گولی : ڈاکٹر وہیں سرجن ڈاکٹر وکاس سنگھ نے بتایا کہ گولی لگنے کے بعد ایک رقاصہ کو داخل کرایا گیا ہے۔ اسے دائیں پیر میں جانگھ پر گولی لگی ہے۔ گولی لگنے کی وجہ سیاس کے جانگھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور خون بھی کافی بہہ گیا ہے۔ ابھی اس کے جانگھ پر سلیب لگا دیا گیا ہیاور خون کو بند کر دیاگیا ہے۔ جب اس کا بی پی اورپلس دووں نارمل ہوجائے گا تب اس کا ا?پریشن کیا جائے گا اور گولی کو نکالا جائے گا۔

پانی ایک بڑی نعمت تحریر: مشتاق احمد قاسمی گنگولوی

پانی ایک بڑی نعمت 
تحریر: مشتاق احمد قاسمی گنگولوی
9709987826/7352124522
پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک  نعمت ہے,پانی کی قدر و قیمت کا اندازہ اسے ہوتاہے جہاں اس کی قلت ہے اور اس کے حصول کے لیےدقت و پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے, دانا کھاءے بنا انسان چند دن برداشت کرلے گا مگر پانی (پیاس) کے بغیر آدمی کی جان چلی جاتی ہے / چلی جاءے گی, پانی کی ضرورت ہمیں موقع بموقع پڑتا ہے ,کھیتی باڑی کی سینچائ کے لیے پانی ہی کی ضرورت ہے-
کھانا بنانے,اور سبزیو دیگر کھانے کی چیزوں میں پانی کی ضرورت ہے,انسان جب عبادت کی تیاری کرتاہے تو اسے پاک و صفائ کے ساتھ حکم ہے کہ بارگاہ ایزدی میں حاضر ہو,ہاں شرعی مجبوری میں پانی نہ استعمال کرنے کی اجازت ہے,یعنی تیمم کرلے (تیمم کے مساءل الگ ہے جو بضرورت علماء کرام سے معلوم کریں )-رسول علیہ السلام نے فرمایا : سب سے بہترین صدقہ پانی (پلانا) ہے-(مسند ابی یعلی). آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جامع بات میں وسیع تر مفہوم پنہاں ہے یہی میری تحریر کاسبب بھی بنا کہ اس پر اپنے قلم کو جنبش دوں- صدقۂ جاریہ کی ایک اہم طریقہ کنواں کھودوانا ( پانی کا انتظام کرنا جسے ہر جاندار فاءدہ حاصل کرسکے) بھی شامل ہے,روایت میں آتاہے کہ" ایک آدمی نے رسول اللہ صلعم سے پوچھا ,اے اللہ کے رسول ص " ہم سمندری سفر کعتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا بہت پانی لے کر جاتے ہیں اب اگر ہم اس سے وضو کریں تو ہم پیاسے رہیں گے تو کیا ہم سمندری پانی سے وضو کرلیا کریں ؟ رسول اللہ صلعم نے فرمایا" سمندر کا پانی پاک اور پاک کرنے والا ہوتا ہے اور اس کا مرنے والا جانور حلال" (سنن نسائ: 333)-#
شریعت نے وضو اور غسل کے لیے کوئ خاص مقدار نہیں فرمائ بلکہ شرعی حدود میں رہتے ہوءے وضو اور غسل میں کے لیے جس قدر بھی پانی کافی ہوجاءے اس کا استعمال کافی ہے- رسول اللہ ص وضو کے لیے عموما ایک مد(796.067 گرام) اور غسل کے لیے ایک صاع (3.184272 کلوگرام) پانی استعمال کرتے تھے,اس مقدار سے متعلق دقہاءے امت فرماتے ہیں کہ یہ کوئ ایسی مقدار مقرر نہیں کہ صرف اسی پر عمل لازم ہو--پانی جہاں فاءدہ مند ہے وہیں اس کے نقصانات سے بھی انکار نہیں کرسکتے,جیسے زیادہ بارش کی صورت میں ہر سال پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں دیکھنے / سننے کو ملتا ہے کہ بارش اور سیلاب نے اتنی تباہی مچادی اور لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہوا,حکومت اور فلاحی تنظیمیں اس نقصان کی تلافی کے لیے کوششیں کرتی ہیں- 
بارش نہ ہونے کی صورت میں مخلوق خدا پریشان ,اہل ایمان باران رحمت کے لیے دوگانہ نماز ادا کے اپنے رب سے گناہوں کی معافی اور فریاد کرتا ہے کہ اللہ بارش برساءے,
روءے زمین پر بہتری پانی آب زمزم ہے ( آب زمزم' کے ظہور کی ایک تاریخ ہے ,یعنی اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں کے ذریعہ معجزہ کا ظاہر ہونا اور ماں ہاجرہ کی تڑپ و محبت 'کہ بیٹے اسماعیل کی پیاس کیسے بجھے ؟؟)یہ کھانے والے کے لیے کھانا اور بیمار کے لیے شفاء ہے-(پانچ منٹ کامدرسہ ص 624/ معجم الاوسط للطبرانی)---
اللہ پانی کے قدر کرنے کی ہم سب کوتوفیق بخشے آمین

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی میری نظر میںمحمدامام الدین ندوی مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی میری نظر میں

محمدامام الدین ندوی 
مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی 
9801805853

: مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی حفظہ اللہ حلقۂ اہل علم ودانش میں محتاج تعارف نہیں۔آپ کا شمار قدآور علماء میں ہوتا ہے۔بہار کے مرکزی ادارہ امارت شرعیہ کے آپ نائب ناظم اور وفاق المدارس کے ناظم ہیں۔مختلف دینی و ملی تنظیم کے روح رواں،اور مختلف مدارس کےسرپرست ہیں۔ہفتہ روزہ امارت شرعیہ کا ترجمان "نقیب" کے مدیر (ایڈیٹر) ہیں۔ 
       مفتی صاحب مدظلہ العالی   صلاحیت وصالحیت کے جامع ہیں۔اللہ تعالٰی نے زبان وبیان پر قدرت دی ہے۔قلم کی دنیاں میں بھی آپ کا قد بڑا ہے۔انداز تحریر شگفتہ پھول کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے۔تحریر میں جاذبیت اور شہد سی مٹھاس ٹپکتی نظر آتی ہے۔جس عنوان پر آپ کا قلم اٹھتا ہے بلا افراط وتفریط جامۂ جامعیت میں ملبوس نظر آتاہے۔وفیات پر قلم چلتا ہے تو شخص مذکورکےمراتب کا بھرپور خیال ہوتا ہے۔اس شخص کی پوری تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔مفتی صاحب مدظلہ العالی کی تحریر میں گرانی نہیں ہوتی ہے ۔حشووزائد سے پاک چند جملوں میں پوری بات کہ دی جاتی ہے۔آپ قلم کے اچھے شہشوار ہیں۔
        آپ اچھے ادیب بھی ہیں۔سوانح نگار بھی ہیں۔انشاء پرداز بھی ہیں۔یہ الگ بات  ہے کہ کوئی ادیب" مولوی" کو ادیب ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہےجبکہ ایک مولوی باادب "ادیب ہوتاہے۔آپ نے تھوڑی بہت شاعری بھی کی ہے۔جب سے"ہفتہ روزہ نقیب" کے اداریہ کی ذمہ داری آپ  کے دوش ناتواں پر ڈالی گئی ہے "نقیب"میں نئی روح،اور جامعیت پیدا ہوگئی ہے۔
       مفتی صاحب مدظلہ العالی درجنوں کتاب کے مصنف،مؤلف ومترجم ہیں۔آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ اسی سیاحت وصحرہ نوردی میں گذر رہی ہے۔
     مفتی صاحب کی زندگی جہد مسلسل،یقیں محکم،عمل پیہم،سے عبارت ہے۔ دل دردمند کےحامل ہیں۔دور اندیش اور نبض شناش ہیں۔حالات کو بھانپتے کا ملکہ اللہ نے عطا کیاہے۔نرمی آپ کی خمیر میں ہے۔خندہ جبیں آپ کا امتیازی شان ہے۔آپ کی نگاہ میں ہر چھوٹوں کے لئے شفقت پدری،اور ہر بڑوں کے لئےتکریم ہے۔  
            مفتی صاحب اپنے آپ میں ایک انجمن ہیں۔آپ بافیض مدرس بھی رہ چکے ہیں۔آپ کا طریقۂ تدریس انوکھا اور نرالا رہا ہے۔آپ کے درجۂ حفظ کے بعض شاگردوں نے کہا کہ مفتی صاحب سے جتنا حفظ کیا وہ پختہ ہے۔اور وجہ بتائی کہ مفتی صاحب سبق کے ساتھ ہی سبقا پارہ سنتے تھے۔یہ طریقہ ان دنوں عموما مفقود ہے۔مفتی صاحب مشفق استاد بھی رہے اس کا تذکرہ مولانا اظہار الحق قاسمی رحمۃ اللہ علیہ حسن پور وسطی مہوا ویشالی بارہا اپنی مجلس میں کیا کرتے تھے۔ مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم بربٹہ سمستی پورمیں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دی۔وہاں  کے بعض شاگردوں کا بھی بیان ہے کہ مفتی صاحب نے جو پڑھایا آج بھی یاد ہے۔
    مفتی صاحب اصول پسند ہیں۔آپ کی زندگی روزنامچے کے تحت گزرتی ہے۔ہر کام کے لئے وقت متعین ہے۔اتنی مشغول،اور بھاگ دوڑ کی زندگی میں بھی پڑھنے لکھنے کے معمول میں فرق نہیں پڑتاہے۔یہ غیرمعمولی بات ہے۔
    مفتی صاحب جہاں بھی گئے تواپنےلئے اس شعبے کو چنا جسے لوگ جلدی لینا پسند نہیں کرتے ہیں یا قہراوجبرا لیتے ہیں۔اس ذمے داری کو سنبھالنے کے بعد اسے نبھانے اور اس پر کھڑا اترنے کی آپ پوری کوشش کرتےہیں۔ اور اسے بام عروج عطا کرتےہیں۔مفتی صاحب عزم میں پختہ ہیں۔آپ نےجس کام میں ہاتھ ڈالا اسے  پوری لگن، دلچسپی،اورخوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل کو پہوچایا۔
احساس ذمہ داری مفتی صاحب کے اندر بہ درجہ اتم موجود ہے۔یہی احساس انسان کو بڑابناتاہے۔ارو ارتقائی منزلیں عطا کرتا ہے۔یہی انسانوں کو معتمد بناتاہے۔
       مفتی صاحب سادگی پسند ہیں۔سادہ زندگی گزارتے ہیں۔آمدورفت میں جو سواری میسر ہوئی استعمال کرلیا۔دیگر علماء کی طرح نزاکت پسند نہیں ہیں۔صبروشکر کا جذبہ رکھتے ہیں۔اس لئے جو ملا کھا لیا اور پہن لیا۔
      مفتی صاحب نہ تو احساس کمتری کے شکار رہے اور نہ ہی احساس برتری،کے۔بلکہ میانہ روی آپ کا شیوہ رہا ہے۔ دین کی تبلیغ،امت کی فکر،آپ کا نصب العین ہے۔پچھلے چند ماہ بیمار رہے۔تیمار داروں کا تانتا لگارہا۔اس میں بھی ملک وملت کی فکر ان کی بیماری پر غالب نظر آئی۔امت کے درد کے آگے اپنا درد بھول گئے اور بلا مبالغہ تقریبا ڈیڑھ گھنٹے اسی پر گفتگو کی۔کرونا کی وجہ سےطلبہ کی تعلیم پر جو برے اثرات مرتب ہوئے اس پر بھی تشویش ظاہر کی۔ اس مہاماری میں بہت سے طلبہ نے تعلیمی سفر موقوف کردیا اور کام کاج میں لگ گئے اس پر اپنےگہرے رنج وافسوس کا اظہار کیا۔عجب بات یہ لگی کہ اس حالت میں بھی ان کے معمول میں فرق نہیں آیا۔
         آپ نے مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں  بھی خدمت کی۔اور مدرسہ کو ہر طرح سے عروج بخشا۔
     اخلاص آپ کا زیور ہے۔وفا آپ کا شیوہ ہے۔دوسروں کی تکلیف سے پریشان ہونا آپ کی فطرت ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ان شاءاللہ کبھی اس پر گفتگو ہوگی۔
      مفتی صاحب نے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ و امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت پائی۔دونوں بزرگوں سےکسب فیض کیا۔دونوں بزرگوں کادست شفقت آپ کر سرپےرہا۔نیزدونوں بزرگوں کو آپ پر اعتماد تھا۔امارت شرعیہ میں آپ کا بڑامقام ہے۔
       مفتی صاحب نے افکار امارت،ونظریات اکابر امارت(اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھردے)کو ملک و بیرون ملک میں پیش کیاہے۔۔ادارہ چھوٹا ہویا بڑااس کو چلانے کے لئے" مالیات" ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔اس کا صحیح اندازہ اسے ہےجو کسی ادارہ سے منسلک ہیں۔آپ  امارت شرعیہ کی مالی استحکام کے لئے بیرون ملک کابھی دورہ کرتے ہیں۔اس سے امارت کو غیر معمولی فائدہ ہوتا ہے۔
    اعلی ظرفی اورخودداری میں  بھی آپ ید طولی رکھتے۔
      مفتی صاحب کی شخصیت سازی میں جہاں اساتذہ کرام کی توجہ کار فرما رہی وہیں ان کی ذاتی لگن ومحنت،غیرمعمولی جدوجہد،اور سعادت مندی،والدین اور بڑے بھائی کی دعائیں،اہلیہ کی غیرمعمولی قربانی شامل ہے۔
      آپ کے اندر وسعت بھی ہے، گہرائی بھی ہے،اور خاموش مزاجی بھی ہے۔شاید "کیف" نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا
"کیف پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں،گہرائیاں،خاموشیاں"
      مفتی صاحب ایک سایہ دار وپھل دار درخت ہیں۔جو،جب،جیسے
چاہے اس سایہ دار وپھل دار درخت سے مستفید ہوسکتا ہے۔اللہ تعالٰی  اس درخت کو بارآور اورسرسبزوشاداب بنائے۔آمین
(نوٹ۔ یہ میرے  ذاتی تآثرات ہیں۔)
 ۲/ذی قعدہ ۱۴۴۳ھ 
۳/مئ ۲۰۲۲ء

پیغمبراسلام کی شان میں گستاخی ، نصیرالدین شاه کا وزیراعظم کو مشورہ

پیغمبراسلام کی شان میں گستاخی ، نصیرالدین شاه کا وزیراعظم کو مشورہ

نئی دہلی: بالی ووڈ اداکار نصیرالدین شاہ نے پیغمبراسلام کی شان میں نوپورشرما کی جانب سے کی گئی گستاخی پرشدید رد عمل ظاہرکیا ہے۔ انھوں نے ایک خانگی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترجمان کے خلاف کاروائی میں تاخیرکی گئی ہے،
حکومت کو منہ کھولنے اور معاملے کی مذمت کرنے میں ایک ہفتہ لگا،

اداکار نے کہا کہ نوپورشرما نے اپنی وضاحت میں کہا تھا کہ انہوں نے ہندو دیوی دیوتاؤں کے خلاف تبصرے سے دکھی ہو کراس طرح کی گستاخی کی ہے، فلم ادکارنے کہا کہ مجھے کوئی ایسا بیان یا ریکارڈنگ دکھائیں جس میں مسلمانوں نے ہندو دیوتاؤں کے بارے میں کچھ کہا ہو۔ نصیرالدین شاہ نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ اگر سماج میں پھیل رہی نفرت کو روکنا ہے تو پی ایم مودی کوپہل کرنی چاہئے

کرناٹک : ٹرین گارڈ کی بیٹی'یو پی ایس سی' میں کامیاب واحد مسلم امیدوارخ

کرناٹک : ٹرین گارڈ کی بیٹی'یو پی ایس سی' میں کامیاب واحد مسلم امیدوار

بنگلورو : یو پی ایس سی میں یوں تو اس سال مسلم امیدواروں کا تناسب گھٹا ہے ،مگر کامیاب امیدواروں کی اپنی الگ الگ کہانیاں ہیں ۔جن میں ایک کرناٹک کی تحسین بانو داودی ہیں۔ جو ایک ٹرین گارڈ کی صاحبزادی ہیں اور اس سال کرناٹک میں کامیاب ہونے والی واحد مسلم امیدوار بھی۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے یو پی ایس سی کی تیاری کے لیے نہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ بلکہ ممبئی حج کمیٹی کے یوپی ایس سی کوچنگ سینٹر کی بھی مدد لی تھی۔ جو حکومت کی وزارت امور اقلیت کے زیر نگرانی ہے۔ تحسین بانو داودی کی کامیابی نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اگر آپ میں اہلیت ہے اور قابلیت ہے تو آپ کوکوئی نہیں روک سکتا ہے ۔ ساتھ ہی حکومت کی مسلم اداروں میں کوچنگ کے تجربے نے بھی بہت مثبت نتائج دئیے ہیں ۔

تحسین بانو داودی، کرناٹک میں یو پی ایس سی پاس رنے والے 26 امیدواروں میں واحد مسلم خاتون ہیں ۔جو کہ ایک ریٹائرڈ ٹرین گارڈ کی بیٹی ہیں۔ تحسین بانوداودی نے اپنی دوسری کوشش میں 482 واں رینک حاصل کیا۔

تحسین بانو کے والد خضر باشا، 2012 میں ریلوے سے بطور چیف ٹرین کلرک ریٹائر ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ "جب نتائج سامنے آئے تو میں بہت خوشی ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ تحسین کو منزل مل جائے گی۔انہوں نے کہا کہ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تعلیمی لحاظ سے اچھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے ایک قابل فخر لمحہ تھا جب جنرل منیجر، ایس ڈبلیو آراور ڈویژنل ریلوے مینیجر، ہبلی نے ہمیں اپنے دفتر میں مدعو کیا اور میری بیٹی کی عزت افزائی کی۔

کرناٹک کی 24 سالہ تحسین بانو ، جنہوں نے 2019 میں یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز، دھارواڑ سے ایگریکلچر میں بی ایس سی مکمل کیا تھا، جب وہ اپنے گریجویشن کے آخری سال میں پڑھ رہی تھیں تو سول سروسز کے بارے میں نہ صرف سوچا بلکہ اس کی تیاری شروع کرلی تھی۔

تحسین بانو نے بتایا کہ "میرے والد اور والدہ حسینہ بیگم نے میرا ساتھ دیا اور یہاں تک کہ مجھے کوچنگ کے لیے ممبئی کے ممبئی حج ہاؤس بھیجا، جس کا انتظام اقلیتی امور کی وزارت کرتی ہے۔

میں 2020 میں اپنی پہلی کوشش میں ابتدائی امتحانات بھی پاس نہیں کر سکی تھی۔ لیکن 2021 میں اپنی اگلی کوشش میں، میں نے ابتدائی امتحانات، مینز اور انٹرویو کو کلیئر کر لیا ۔ مجھے یقین تھا کہ میں اس میں کامیابی حاصل کرلوں گی، انہوں نے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی رہائشی کوچنگ اکیڈمی سے کوچنگ بھی لی۔

تحسین بانو کہتی ہیں کہ ''یہ میرے لیے حیرت کی بات تھی کہ میں نے 680 میں سے 482 واں رینک یا مقام حاصل کیا۔ تحسین بانو نے کہا کہ اب وہ بیوروکریسی میں اپنا کیریئر بنانے کی خواہش مند ہیں ۔ " میں سول سروسز کا خواہشمند تھی کیونکہ یہ معاشرے کی خدمت کرنے کا براہ راست موقع فراہم کرتا ہے۔

دوسری جانب تحسین بانو داودی کی کامیابی کا جشن منایا جارہا ہے ۔ان کے اسکول نے بھی انہیں استقبالیہ دیا۔ ہبلی میں ساؤتھ ویسٹرن ریلوے ویمنز ویلفیئر آرگنائزیشن کے زیر انتظام اسکول کی تاریخ میں پیر کا دن ایک اہم دن تھا۔

اسکول نے اپنی 32 سالہ تاریخ میں اپنے واحد طالب علم کے لیے ایک بڑے استقبالیہ کا انعقاد کیا جس نے ایک ہفتہ قبل اعلان کردہ نتائج میں سول سروسز کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔

تحسین بانو کے لیے بھی یہ پروگرام بہت اہم تھا کیونکہ ان کے اساتذہ اور طلبا انہیں بہت پیار اور احترام سے دیکھ رہے تھے ،جن سب کی آنکھوں میں چمک تھی اور تحسین بانو کے چہرے پر خوشی۔

' پی ایم مودی مسلم ممالک کی بات سنتے ہیں ، مگر ہندوستان کے مسلمانوں کی نہیں ' ، اویسی نے توہین رسالت معاملے پر حکومت کو گھیرا

' پی ایم مودی مسلم ممالک کی بات سنتے ہیں ، مگر ہندوستان کے مسلمانوں کی نہیں ' ، اویسی نے توہین رسالت معاملے پر حکومت کو گھیرانئی دہلی: اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے ایک بار پھر پی ایم نریندر مودی کو پیغمبر اسلامﷺ کے بارے میں متنازعہ ریمارکس کے معاملے پر نشانہ بنایا ہے۔ اویسی نے کہا کہ نوپور شرما اور نوین جندل کے خلاف کارروائی اس وقت کی گئی جب مسلم ممالک نے اعتراض کیا، لیکن جب ملک کے مسلمان آواز اٹھا رہے تھے تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مہاراشٹر کے لاتور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'ہم ناراض ہیں کہ وزیر اعظم نے ان مسلمانوں پر توجہ نہیں دی جو اس ملک کے باشندے ہیں۔ لیکن جب باہر کے ممالک نے سوشل میڈیا پر اپنے غصے کا اظہار کیا تو فوری ایکشن لیا گیا۔ انہوں نے نوپور شرما اور نوین جندل کا نام لیے بغیر کہا "پیغمبر اسلامﷺ کے بارے میں متنازعہ بیان دینے پر دونوں کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے، تو ان لوگوں کو گرفتار کریں، تب انصاف ہو گا۔ اگر میں وزیر اعظم ہوں۔ اگر میں مودی کے خلاف کوئی غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتا ہوں تو بی جے پی والے اویسی کی گرفتاری کا مسئلہ بنالیں گے، لیکن ہم ان کی گرفتاری کا 10 دن سے مطالبہ کر رہے ہیں، مگر ہماری بات نہیں سن رہے ۔ واضح رہے کہ نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے ناموس رسالت کے خلاف متنازعہ ریمارکس نے بی جے پی کو عالمی سطح پر رسوا کردیا ہے اور بھارت کے لیے سفارتی مشکلات بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ کویت اپنے اسٹورز سے ہندوستانی مصنوعات ہٹا رہا ہے۔ اس گستاخانہ بیان پر کویت، ایران، افغانستان، پاکستان، عمان، انڈونیشیا سمیت 15 سے زائد ممالک نے احتجاج کیا ہے۔ دوسری جانب ممبرا(مہاراشٹر) پولیس نے نوپور شرما کو طلب کر کے 22 جون کو پیش ہونے کو کہا ہے۔

کیسے رکے گا یہ نفرت کا طوفان - ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

کیسے رکے گا یہ نفرت کا طوفان - ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

دنیا میں بھارت کی پہچان تکثیری ملک کی ہے ۔ یہاں مختلف زبانیں بولنے، رسم و رواج پر عمل کرنے اور مذاہب کو ماننے والے افراد برسوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں ۔ مسلم بادشاہوں کے دربار میں ہندو اعلیٰ و عزت دار عہدوں پر فائز تھے اور ہندو راجاؤں کے یہاں مسلمان ۔ اس وقت ہندو مسلمانوں کے درمیان نہ کوئی امتیاز تھا نہ نفرت ۔ ہندو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے اور تہوار مناتے تھے ۔ دونوں ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے اور مذاہب کا احترام کرتے تھے ۔ ریاستوں پر انگریزوں کے قبضہ اور مغل سلطنت کے خاتمے نے دانشوروں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ ایک انگریزوں کی غلامی سے ملک کو بچانا چاہتا تھا ۔ اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔ 1857 میں انہیں ہندو مسلمانوں نے بہادر شاہ ظفر کی لیڈر شپ میں انگریزوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش کی ۔ دوسرا (ہندو دانشور) طبقہ وہ تھا جس نے انگریزوں کے ساتھ مل کر ہندو احیاء پرستی کی تحریک شروع کی ۔ ان کی تعداد بہت قلیل تھی وہ ہندو مسلم اتحاد اور رواداری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے ۔ اس اتحاد کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب 1905 میں انگریزوں نے بنگال کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ہندو مسلمانوں کے متحدہ احتجاج کی وجہ سے انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ اس تحریک نے ان کی آنکھیں کھول دیں، اس کے بعد ہی پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی اپنائی گئی ۔ جس کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کو ختم کرنا تھا ۔ انگریزوں نے ہندو مسلمانوں کے درمیان ریل کی پٹریوں کی طرح فاصلہ بنا کر رکھا ۔ جو ساتھ تو رہتی ہیں لیکن ملتی نہیں ۔ وہ بانٹو اور راج کرو کی پالیسی کی وجہ سے ہی بھارت کے عوام کو غلام بنا سکے ۔ اور برسوں تک ان پر اپنے اقتدار کی گاڑی دوڑاتے رہے ۔

بھارت کے لوگوں نے اس پالیسی کو سمجھا اور ہندو مسلمان دونوں نے مل کر آزادی کی لڑائی کندھے سے کندھا ملا کر لڑی ۔ مگر ہندو احیاء پرستی کے حامی آزادی کی تحریک کا حصہ نہیں بنے بلکہ انہوں نے انگریزوں کے مخبر کے طور پر کام کیا ۔ وہ آزادی کی جدوجہد میں شامل افراد کے راستہ کی رکاوٹ بنے اور انتظامیہ کو ان کی سرگرمیوں سے واقف کراتے تھے ۔ انگریز حکمرانوں کے یہ دوست نہیں چاہتے تھے کہ وہ ملک چھوڑ کر جائیں ۔ مگر ملک کی اکثریت غلامی کے خلاف متحد تھی اس لئے انگریز جیسے طاقتور حاکم کو بھارت چھوڑ کر جانا پڑا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے حکمرانوں نے ہندو مسلم کے درمیان تفریق اور نفرت کی موٹی لکیر کو مٹنے نہیں دیا ۔ انہوں نے سماج کو بانٹنے اور نفرت پھیلانے والوں کو بھی نہیں روکا بلکہ ان کی سرگرمیوں کو جاری رہنے دیا ۔ یہاں تک کہ 1860 کے پولس ایکٹ کو بھی نہیں بدلا گیا ۔ جبکہ برطانوی پولس کے مظالم کو وہ خود بھگت چکے تھے ۔ یہ پولس انگریز حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کا کام کرتی تھی ۔ اب یہ پولس لا اینڈ آرڈر کو درست رکھنے کے بجائے حکمران جماعت کے لئے فنڈ جٹانے، اس کے مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور اس کی سیاست سادھنے کے لئے کام کرتی ہے ۔ سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولس وبھوتی نرائن رائے کا کہنا ہے کہ آزاد بھارت میں پولس اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ مگر حکمرانوں نے اچھے ہتھیار، تیز رفتار گاڑیاں، وردی اور اچھی تنخواہ دینے کو ہی پولس کی اصلاح سمجھ لیا ہے ۔ حالانکہ پولس کا مزاج اور کام کرنے کے طریقہ کو بدلنا چاہئے ۔ حکمراں پولس کو اپنے مفادات سادھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے پولس پر بار بار داغ لگتا ہے اور سماج میں اس کی منفی شبیہ بنتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو پولس اہلکار برسراقتدار جماعت کے مفادات اور مزاج کے مطابق کام کرتا ہے اسے سپاہی سے انسپیکٹر بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار بدلنے کے ساتھ پولس کی وفاداری بدل جاتی ہے ۔ پولس کی زیادتی، فسادیوں کو روکنے میں ناکامی اور حراست میں موت کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئے ۔ جو کام سیاست داں سیدھے طور پر نہیں کر پاتے وہ پولس کے ذریعہ کرایا جاتا ہے ۔ نفرت اور طبقاتی تفریق کو بنائے رکھنے میں بھی پولس معاون ثابت ہوتی ہے ۔ سیاست داں جانتے ہیں کہ جب تک سماج ٹکڑوں میں نہیں بٹے گا تب تک ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ وہ اپنے مفاد کے لئے کبھی ہندو مسلمان، کبھی اگڑی پچھڑی، کبھی برہمن راجپوت اور یادو کے نام پر سماج کو بانٹ کر اقتدار حاصل کرنا اپنی پالیسی بنا چکے ہیں ۔ اس لئے جو جتنا سماج کو بانٹ سکتا ہے وہ اتنی ہی جلدی اقتدار کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے ۔ ملک میں مذہب، ذات، طبقات اور امتیازات پہلے بھی موجود تھے مگر سماج اتنی بری طرح بٹا ہوا نہیں تھا ۔ لوگوں کی آنکھوں میں شرم اور بزرگوں کی عزت تھی ۔ حالانکہ آزادی کے بعد شروع ہوا فسادات کا سلسلہ کبھی رکا نہیں ۔ لیکن پھر بھی غیر مسلم مسجد یا درگاہ کے سامنے سے ہاتھ جوڑ کر گزرتے تھے ۔ ہندو خواتین شام کو اپنے نونہالوں پر نمازیوں سے دم کرانے کے لئے مسجد کے باہر کھڑی دکھائی دیتی تھیں ۔ منڈل کے مقابلے کمنڈل پھر رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ اور رتھ یاترا نے سماج کو بدل دیا، آنکھوں کی شرم اور بزرگوں کی عزت کو خاک میں ملا دیا ۔ سماجی نفرت اور تفریق پچھلے چند سالوں میں اپنے عروج پر آگئی ۔ جس میں سیاست دانوں کی شمولیت صاف دکھائی دیتی ہے ۔ ابھی تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ الیکشن جیتنے اور لوگوں کا دھیان بنیادی مسائل سے ہٹانے کے لئے ہجومی تشدد، گو کشی، مسلمان، قبرستان، لوجہاد، جناح، پاکستان، سی اے اے، این آر سی، مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ، آذان، حجاب، مندر مسجد کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ کسی نہ کسی بہانے سماج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بیس فیصد مسلمانوں سے اسی فیصد غیر مسلموں کو ڈرایا جاتا ہے ۔ جبکہ تمام اعلیٰ عہدوں پر غیر مسلم فائز ہیں ۔ ملک کی معیشت ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہے ۔ فوج کے تمام اعلیٰ افسران غیر مسلم ہیں ۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، چیف جسٹس اور صدر جمہوریہ تک غیر مسلم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب قواعد صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہے یا کسی منصوبہ کا حصہ ہے ۔ ایک مسئلہ سے دھیان نہیں ہٹتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے ۔ اب بات مسلم مخالف نعروں اور قتل عام کے حلف سے آگے بڑھ کر مساجد کے نیچے مندر کے آثار تلاش کرنے اور اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ چکی ہے ۔ اس سے لگتا ہے کہ نفرت کی آندھی چلانے والوں کی نیت میں کچھ کھوٹ ہے ۔ حکومت کی خاموشی نے ان کا حوصلہ اور بڑھا دیا ہے ۔ شاید اس کے ذریعہ وہ اپنی کارکردگی پر جواب دہی سے بچنا چاہتی ہے ۔

یہ صورتحال اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے جب نفرت اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے ۔ گزشتہ کئی سال اس کے گواہ ہیں کہ جس نے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور سماج کو توڑنے کا کام کیا اسے سزا کے بجائے ترقی ملی، وزارت ملی ۔ اس کے بعد تو جیسے یہ فیشن بن گیا کہ اگر بی جے پی کا ٹکٹ چاہئے یا پارٹی میں کوئی مقام تو کسی کمزور مسلمان کو پیٹو یا گئو تسکری، چوری کا الزام لگا کر قتل کر دو ۔ اس کا ویڈیو بنا کر وائرل کرو اور مشہور ہو جاؤ ۔ مسلمانوں کو مارنے کاٹنے کے نعرے لگاؤ اور میڈیا میں چھا جاؤ ۔ برسراقتدار جماعت کے افراد، وی ایچ پی، بجرنگ دل، اے بی وی پی وغیرہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کی حمایت میں آ جاتے ہیں ۔ دوسری طرف ملک کے کچھ حق پرست مظلوموں کو انصاف دلانے کی مانگ کرتے ہیں ۔ انہیں ٹرول کیا جاتا ہے اور میڈیا میں گرماگرم بحث کرائی جاتی ہے تاکہ لوگوں کی توجہ بھک مری، بے روزگاری، صحت، تعلیم، مہنگائی اور کسانوں کے مسائل سے ہٹ جائے ۔ برسراقتدار جماعت کو ان نفرت آمیز و سماج کو توڑنے والے نعروں، واقعات کو الیکشن میں بھنانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ملک و آئین کو ایک رنگ میں رنگنے سے بچانے اور نفرت کے طوفان کو روکنے کے لئے کیا کیا جائے ۔ مولانا توقیر رضا خان کے مطابق جمہوری نظام میں افرادی قوت کے ذریعہ حکومت کو صحیح فیصلہ لینے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں ایسے لوگ اکثریت میں ہیں جو بی جے پی سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ انہیں اکٹھا ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔ اسلامک اسکالرز کے مطابق ملک کو اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ہی موجودہ مسائل سے نجات مل سکتی ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ وقت ملک کے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات اور نبی آخر الزماں کی سیرت سے واقف کرانے کا ہے ۔ اگر عربی، فارسی نام والے بادشاہوں نے اسلام کا تعارف کرایا ہوتا، انہوں نے مندروں کو توڑا ہوتا یا یہاں کے مذاہب کی حفاظت نہ کی ہوتی تو بھارت میں ایک بھی ہندو نہیں ہوتا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں آریہ سماجی، لنگایت، برہما کماری، سکھ اور کئی ایسے طبقات ہیں جو بتوں کی پوجا نہیں کرتے ۔ وہ کسی نہ کسی شکل میں توحید کے قریب ہیں ۔ ان کی کانفرنس ہونی چاہئے ۔ کچھ قانون کے ماہرین اپنے دفاع کے حق کا استعمال کرنے اور کاونٹر مقدمات کرنے کی صلاح دیتے ہیں ۔ سول سوسائٹی کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ آئین میں یقین رکھنے والے امن پسند حضرات کو آگے آکر نفرت کے طوفان کو روکنا چاہئے ۔ انہیں میں سے کئی صبر کی تلقین کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق ملک کے مزاج میں تشدد اور نفرت نہیں ہے ۔ بھارت کے لوگ زیادہ دیر تک شدت پسندی کے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ انہیں کچھ ہی دنوں میں اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا ۔ یہ صحیح ہے کہ بھارت کے لوگ عدم تشدد کے حامی ہیں لیکن جذجات کی رو میں بہہ کر بڑے بڑے فسادات کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ نفرت کے طوفان کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے ۔ طریقہ جو بھی ہو ملک کو اس بیماری سے نجات ملنا چاہئے ۔ کیوں کہ نفرت اور سماجی امتیاز کی بنیاد پر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ بھارت کے پاس وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا کا لیڈر بنا سکتا ہے ۔ ضرورت ہے تو بس یہاں کے حکمراں کے قوت ارادی کی ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...