Powered By Blogger

پیر, جنوری 10, 2022

الحاج غلام سرور: آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ وناظم وفاق المدارس الاسلامیہ

الحاج غلام سرور: آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ وناظم وفاق المدارس الاسلامیہ
بات ان دنوں کی ہے ، جب میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا ، جناب شاہ نواز احمد خان صاحب بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے سکریٹری تھے اور مولانا شکیل احمد قاسمی جواہر نو ودیہ ودیالیہ چائی باسہ میں ٹیچر ہوا کرتے تھے ، تینوں میں ایک بات قدرِ مشترک تھی کہ تینوں مختلف اوقات میں طلبہ تحریک سے وابستہ رہ چکے تھے، اور تعلیم وتربیت کے نئے نئے منصوبوں کے وضع کرنے میں طبیعت خوب لگتی تھی اور ذہن خوب چلتا تھا ، ایک ملاقات میںہم تینوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی تاریخ مرتب کی جائے تاکہ اس کے پردے میں بہار کی مذہبی تعلیم کی تاریخ بھی مرتب ہوجائے، چنانچہ اس کے لئے قرعہ مجھ دیوانے کے نام نکل آیا ، ابا بکر پور سے پٹنہ میری خدمت منتقل کر لی گئی ، اور میں اس کی صحرانوردی میں لگ گیا، کم وبیش چار سال کی محنت کے بعد جب تصنیف سے فراغت ہوئی تو اس وقت کے چیر مین پروفیسر محمد سہراب مرحوم ومغفور کا مشورہ ہو اکہ اسے نظر ثانی کے لئے جناب غلام سرور صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چا ہئے، وہ دیکھ بھی لیں اور اس پر مقدمہ بھی لکھ دیں ، چنانچہ کتاب کے مسودہ کی فوٹو کاپی مجلد ان کی خدمت میں پیش کر دی گئی ،میں مطمئن ہو گیا ، اگلے ہفتہ حکم ہوا کہ آپ کو غلام سرور صاحب نے بلایا ہے ، مرتا ، کیا نہ کرتا۔
 ملاقاتیں دو  پہلے بھی تھیں ، ایک بار مولانا شکیل احمدقاسمی کے ساتھ ملا تھا، جب وہ افتخار اکبر کے ساتھ مل کر تجسس نکالنے کا ارادہ کر رہے تھے اور غلام سر ور صاحب کے پاس اس راستے کے پیچ وخم معلوم کرنے اور مشورہ لینے پہونچے تھے ، اس موقع سے غلام سرور صاحب نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اس کام میں مت لگو، مجھے دیکھو پوری زندگی لگا دیا ، نتیجہ کیا نکلا ؟ اس ملاقات میں مولانابیتاب صدیقی مرحوم بھی تھے ، انہوں نے اس موضوع پر کچھ کہنا چاہا ، تو مولانا شکیل احمدقاسمی نے انہیں روک دیا، ملاقات بہت اچھی نہیں رہی تھی ، وجہ یہ تھی کہ وہ جو کچھ صحافت کے حوالہ سے کہہ رہے تھے ، اس میں مایوسی کی جھلک تھی ، ہم لوگوں کے پاس تجربہ تو تھا نہیں ، تجربہ انہیں کے پاس تھا ، اور جب تجسس کے چند شمارے نکال کر افتخار اکبر نے اسے بند کر دیا تو یقین کرنا پڑا کہ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید۔
دوسری ملاقات مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی کے ایک جلسہ میں ہوئی تھی، گرج دار پاٹ دار آواز ، آج بھی کانوں سے ٹکراتی محسوس ہوتی ہے، تقریر کی ابتدا میں ہی واضح کر دیا تھا کہ مجھے نہ نذرانہ چاہئے نہ محنتانہ ، نہ رخصتانہ اور نہ ہی ہرجانہ ، اس لئے جو کہوں گا ، صاف صاف کہوں کا اور حق کہوں گا، حق کے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا، پھر انہوںنے مدرسہ بورڈ کی تشکیل میں اپنی جد وجہد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے ذاتی گناہ تو اللہ معاف کر دے گا، ، یہ میرا اجتماعی گناہ ہے ، خدا معلوم یہ قابل معافی ہویا نہ ہو، وہ مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کی کار کر دگی سے غیر مطمئن تھے اور جب وہ غیر مطمئن ہوتے تو ان کا لب ولہجہ خاصہ غضب ناک ہوجا تا تھا، وہ اس زمانہ میں اسپیکرتھے۔
ان کے یہاں جانے سے پہلے دوستوں سے دریافت کیا تھا، جن کی آمد ورفت ان کے یہاں برابر رہتی تھی ، کہنے لگے کہ میرا ذکر نہیں کیجئے گا کہ آپ کا تعلق مجھ سے ہے ،میں نے ایسے دوستوں پر چار حرف پڑھے ،جو اتنا بھی ساتھ دینے کو تیار نہیں تھے، حکم حاکم مرگ مفاجات، ڈرتا ڈرتا پہونچا، مجھے ایک صاحب نے بتا دیا تھا کہ پہلی ڈانٹ ان کی سن لیجئے گا اور اس کے بعد جو کہیے گا وہ سنیں گے ، چنانچہ میںنے ایسا ہی کیا ، پہلے وہ خوب گرجے ، آپ کانگریسی ہیں ،بورڈ میں نے بنایا اور سارا کریڈٹ گورنر کو آپ نے دیدیا ، یہ بے انصافی کی بات ہے ، اسے صحیح کیجئے۔ خاموش ہوئے تو میں نے کہا آپ جو کچھ داخل کرنا چاہتے ہیں، وہ مجھے دیدیجئے ،میں شامل کر دوں گا، بالکل نرم پڑ گئے، ایک کتاب تھمائی اور کہا مواد اس میں سے لے لیجئے اور ایک ہفتہ بعد آئیے، چنانچہ میں واپس آگیا ، ایک ہفتہ بعد حاضری ہوئی ، پوچھا ، شامل کر دیا میں نے کہا ، نہیں ، فرمایا ، کیوں؟ میںنے کہا کہ یہ تاریخ ہے ، قصیدہ نہیں ، اس کتاب سے کچھ شامل کرنے کا مطلب قصیدہ خوانی ہے ، اور میں نہیں چاہتا کہ میری کتاب کی تاریخی حیثیت مجروح ہو ،پھر گرجنے لگے ، فرمایا ، جہاں جہاں آپ نے مجھ سے علمی اختلاف کیا ہے میںنے اسے برداشت کر لیا ، لیکن یہ تو تاریخی غلطی ہے ، میں نے کہا تاریخ وہ نہیں ہے جو آپ کہہ رہے ہیں تاریخ یہ ہے کہ آرڈی نینس کئی جاری ہوئے، سب پر گورنر کے دستخط ہیں ، اس حوالہ سے ان کا ذکر ہے ، وزیر تعلیم کی حیثیت سے آپ نے  بورڈ کی تشکیل میںجد وجہد کی ہے، اس کا ذکر بھی توپورے انصاف کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ بات آگے بڑھی تو مدارس ملحقہ کی کار کر دگی پر آواز اٹھا نا شروع کر دیا ، میں بھی ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں تھا ، اس لئے گویا ساری چوٹ مجھ پر پڑ رہی تھی ، میں نے عرض کیا کہ آپ اپنی رائے من وعن لکھ دیں اور وہ مقدمہ کی شکل میں اس کتاب کی زینت بن جائے ، اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے ، بات ا نہیں پسند آگئی، لکھا اور خوب لکھا ، مدرسہ بورڈ اور مدارس ملحقہ کے حوالہ سے جو شکایات انہیں تھیں بلا خوف لومۃ لائم اس کا اظہار اس مقدمہ میں انہوں نے کیا ہے۔
 واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اس تحریر میں سارا کرب الفاظ میں اڈیل دیا ہے، انہوں نے اس مسودہ پر جو نشانات لگائے اور جو تصحیح کی ہے ،وہ آج بھی نوراردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ویشالی میں موجود ہے ، پہلی بار انہوں نے مجھے بتایا اور بتایا کیا کتاب میں نشان لگا دیاکہ’’ حضرت مولانا ‘‘کے ساتھ آخر میں ’’صاحب ‘‘نہیں لگے گا کہنے لگے نام کے آگے پیچھے دونوں طرف القاب وآداب لگانا قواعد کے خلاف ہے، اور یہ صرف مولویانہ اردو میں پایا جاتا ہے۔
 کتاب کا اجرا ڈاکٹر ظہیر الدین صاحب کی دورصدارت میں ہوا، ان دنوں وہ بیمار چل رہے تھے ، شاہ نواز احمدخان صاحب جن کی تحریک پر  یہ کام شروع ہوا تھا، مجھے لے کر ان کی سرکاری رہائش گاہ پر گئے ، بہت تپاک سے ملے، کتاب پیش کیا، خوش ہوئے ، ناشتہ وغیرہ کرایا، شاہ نوازخان کی جو شامت آئی تو انہوں نے پوچھ دیا کہ راعین کے کیا معنی ہیں ؟فرمایا : آپ نے شمس الہدیٰ سے پڑھا ہے بتائیے ، شاہ نواز صاحب نے معاملہ میری طرف محول کر دیا کہ یہ عربی کے اسکالر ہیں ، ، میری طرف گھور کر دیکھا ، میںنے کہا نگراں کے آتے ہیں ، بس بگڑنے لگے ، کیوں نہیں کہتے چرواہا کے آتے ہیں میں نے کہا: چرواہا کو بھی چرواہا اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بکری کا نگراں ہوتا ہے ، میں نے کہا ، حدیث میں آیا ہے ’’کلکم راع  وکلکم مسئول عن رعیتہ‘‘ شاہنواز صاحب نے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں سے آکر ہندوستان میں آباد ہوئے کہنے لگے ثابت کردوہم غیر ملکی ہیں ،تم سب اسی کام پر لگے ہوئے ہو ، ہم لوگ یہیں پلے بڑھے اور یہ نسل یہیں پروان چڑھی ، یہ خالص ہندی نسل ہے ، تیور اتنے سخت تھے کہ تھوڑی دیر بعد ہم لوگوں کو لوٹ جانے میں ہی عافیت محسوس ہوئی ۔یہ تھے غلام سر ور ، بے باک ، بے خوف ، جوبات بیٹھ گئی، بیٹھ گئی ، جہاں اڑ گئے، اڑ گئے،کلیم عاجز صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے ’’ غلام سرور تو شیر تھا سیاست میں قید ہو کر رہ گیا‘‘ ۔
پھر میں امارت شرعیہ آگیا، یہاں رہتے ہوئے کبھی ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔ اپنی مخصوص افتاد طبع کی وجہ سے امارت شرعیہ اور اس کے اکابر بھی ان کی قلم کی زد میں آتے رہے ، بہت سارے مواقع پر انہوںنے امارت کی کار کر دگی پر سوالات اٹھائے ؛لیکن جب انہوں نے امارت شرعیہ کو قریب سے دیکھا اور ۱۲؍ جون ۱۹۶۳ئ؁ کو یہاں تشریف لائے تو انہیں بے پناہ مسرت ہوئی ، انہوں نے اپنی اس مسرت کا اظہار امارت شرعیہ کے معائنہ بک میں کیا اور لکھا کہ: 
’’ آج پہلی بار اس کا موقع ملا کہ امارت کے دفتر میں تھوڑی دیر بیٹھ کر اس کے مختلف شعبوں کی کار کر دگی سے واقفیت حاصل کی جائے، بیت المال ، دار القضاء ، نقیب ، دار الاشاعت وغیرہ کے شعبے مسلمانوں کے لئے جو کام کر رہے ہیں وہ صرف غنیمت ہی نہیں بلکہ بہت غنیمت ہے ، اس دور میں مسلمانوں کو ان کے دین کی طرف رجوع کرنا اور ان کی  واعانت کرنی ،نیز ان کے باہمی مقدمات کا از روئے شریعت فیصلہ کرنا اہم کام ہیں اور اس اعتبار سے آج بھی امارت مفید کام کر رہا ہے، اس کے کاموں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کو لازم ہے کہ امارت کے کاموں میں نہ صرف دلچسپی لیں ، بلکہ عملاً اشتراک وتعاون کا ہاتھ بھی دراز کریں‘‘

جسے جینا ہو مرنے کے لئےتیار ہوجائے گزشتہ جمعہ مورخہ ۷/جنوری ۲۰۲۲ءکواپنے ملک میں ایک غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا ہے،جسےنہ بھلایاجاسکتا ہےاور نہ ہی اس کی افادیت کاکسی کوانکار ہوسکتا ہے۔

جسے جینا ہو مرنے کے لئےتیار ہوجائے 

گزشتہ جمعہ مورخہ ۷/جنوری ۲۰۲۲ءکواپنے ملک میں ایک غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا ہے،جسےنہ بھلایاجاسکتا ہےاور نہ ہی اس کی افادیت کاکسی کوانکار ہوسکتا ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلےاترا کھنڈ میں دھرم سنسد منعقد کرکے بیس ہزار مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان ہوا، اس کے ردعمل میں بیس ہزاربریلی کےبیباک مسلمان مولانا توقیر رضا خان کی دعوت پر مرنے اور قتل ہونے کے تیار ہوگئے،یہ جواب اپنے آپ میں بڑا پیغام کاحامل ہے اور بے نظیر بھی ہے۔
۷/جنوری کوجمعہ کی نماز کے بعد بریلی کے میدان میں سبھی اکٹھا ہوئے،سرپر کفن باندھ لیا،مرنےکے لئے تیار ہوگئےاور یہ کہنے لگے کہ؛ ہم نے ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جان کی قربانی دی ہےاور آج بھی ملک کے لئےشہادت کا جام پینے کوہم تیار ہیں، ہم اپنے مذہب اپنے ملک اور اپنے رسول کی عظمت کے لئے جان دینے یہاں آئے ہیں، ہمیں مارو ہم تمہارا ہاتھ نہیں پکڑیں گے۔
مولانا توقیر رضا خان صاحب کااس جمہوری ملک میں یہ انوکھااحتجاج بڑا کامیاب اوربامراد رہاہے، یہ نئی حکمت عملی رہی بڑی کارگر رہی ہے،اور کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئی ہے ،اس سےپورے ملک میں ایک پیغام گیا ہے،اور اس کی گونج دور دور تک سنائی دینے لگی ہے۔اور یہ فرق نمایاں ہوگیا ہے کہ ایک طرف سے مارنے اور قتل کرنے کی بات ہوئی ہے تو دوسری طرف سے ملک کے لئے مرنے اور قتل ہونے کی عملی تیاری ہے۔
مولانا محمود مدنی صاحب کا سپریم کورٹ میں اس عنوان پر مقدمہ دائر کرنا۲۰۲۲ءکا کامیاب لائحہ عمل کےطورپردیکھاگیاہےتووہیں مولاناتوقیر رضاخان کی یہ کوشش کی بھی بڑی پذیرائی ہورہی ہے۔
اس کی کامیابی کے لئے اتنا کہدینا کافی ہے کہ جو مسلمانوں کومشتعل کرنے کے لئے کوشاں رہےہیں اور خوف میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں وہ خود ہی مشتعل ہوگئے ہیں اور خوف میں مبتلا ہوگئےہیں۔اس کی ڈھیر ساری مثالیں نظر آنی شروع ہوگئ ہیں،مسلمانوں کے بائیکاٹ کی باتیں کرتے ہیں تو کہیں خود اپنی جان کی دہائی دیتے نظر آرہےہیں۔
اس کامیابی پر مولانا کےساتھ ساتھ وہاں کے بیدار مغز مسلمانوں کو بھی مبارک باد ہے۔جنہیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ مولانا نے غازی کا نام دیا ہے،کہ آپ سبھی اب غازی ہیں، واقعی اپنے آپ میں یہ ایک یادگار دن ہے اور ملک کے لئے تاریخ میں یہ تاریخ ساز واقعہ بھی ہے، جسے بریلی کے مسلمانوں نےاپنےسروں پر کفن باندھ کر یادگار بنادیا ہے ۔
اس میں ہمارے لئے بڑا سبق ہے۔
ملک میں ہم اسی وقت انقلاب کی امید کرسکتے ہیں جب ہم خوف سے باہر آجائیں،یہ بتلانے کی شدید ضرورت ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے ہیں۔ابھی کرونا وائرس کی وبا نے دکھادیا ہے کہ یہ نفرت کے پرچار کرنے والے اپنی کٹیا میں دم دبائے بیٹھے تھے، ارتھی کو اٹھانے والا کوئی نہیں رہا تو مسلمانوں نے آکر آخری رسومات انجام دی ہے۔اس سے بھی ملک میں ایک اہم پیغام گیا ہے۔نفرت کے پجاریوں کواور
مسلمان کی بائیکاٹ کرنے والوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
مجھ سے ایک صاحب نے یہ کہا ہیکہ مولوی صاحب! ایک بیٹا جو دہلی سے کورونا پوزیٹیو ہوکرمیرے گاؤں آیا اسےاپنے گھر میں داخلہ نہیں ملا،والدین دور ہوگئے، وہ سبھی اپنی اپنی جان کی فکر کرنے لگے،میں نے اس کی دوا کی اور وہ صحتیاب ہوگیا، اپنے والدین سے زیادہ مجھ سے وہ محبت کرنے لگا ہے جبکہ میں مسلمان ہوں اور وہ ہندو ہیں۔
آج پھر یہ کورونا مضبوط شکل میں اومیکرون بنکر آگیا ہے۔اب ہمیں اپنا فرض ادا کرنا یے، ہندو مسلمان نہیں دیکھنا ہےاور نہ مذہب اسلام میں ایک پڑوسی کے مذہب کو دیکھنے کی تعلیم ملتی ہے بلکہ ہم ایک انسان کی خدمت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں اور انسانیت کی خدمت کا فریضہ انجام دیں۔پھر ملک کے بدلتے حالات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔
اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب بھی ہم نے موت کا خوف کیا ہے، ہم مارے گئے ہیں اورمذہب اسلام کابھی ہم سے بڑا نقصان ہوا ہے، اسلام کی دعوت رک گئی ہے،اورہمیں مزید خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔
جب ہم ملک کے لئے اور دوسروں کے لئےمرنے کے لئے آمادہ ہوئے ہیں تو اسلام کابھی بھلا ہوا ہے،اور ہمیں کامیابی بھی ملی ہے، محبت جیت گئی ہے اور نفرت کا منھ کالا ہوگیا ہے،
جگر مراد آبادی کا یہ شعر اس عنوان پر کیا خوب صادق ہے اور موجودہ وقت میں یہ مصرع ہمارے لئےمشعل راہ بھی ہے:
یہ مصرع کاش نقش ہر درودیوار ہوجائے 
جسے جینا ہو مرنے کے لئے تیار ہوجائے ۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
رابطہ، 9973722710

Sent from my Galaxy

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...