جسے جینا ہو مرنے کے لئےتیار ہوجائے
گزشتہ جمعہ مورخہ ۷/جنوری ۲۰۲۲ءکواپنے ملک میں ایک غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا ہے،جسےنہ بھلایاجاسکتا ہےاور نہ ہی اس کی افادیت کاکسی کوانکار ہوسکتا ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلےاترا کھنڈ میں دھرم سنسد منعقد کرکے بیس ہزار مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان ہوا، اس کے ردعمل میں بیس ہزاربریلی کےبیباک مسلمان مولانا توقیر رضا خان کی دعوت پر مرنے اور قتل ہونے کے تیار ہوگئے،یہ جواب اپنے آپ میں بڑا پیغام کاحامل ہے اور بے نظیر بھی ہے۔
۷/جنوری کوجمعہ کی نماز کے بعد بریلی کے میدان میں سبھی اکٹھا ہوئے،سرپر کفن باندھ لیا،مرنےکے لئے تیار ہوگئےاور یہ کہنے لگے کہ؛ ہم نے ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جان کی قربانی دی ہےاور آج بھی ملک کے لئےشہادت کا جام پینے کوہم تیار ہیں، ہم اپنے مذہب اپنے ملک اور اپنے رسول کی عظمت کے لئے جان دینے یہاں آئے ہیں، ہمیں مارو ہم تمہارا ہاتھ نہیں پکڑیں گے۔
مولانا توقیر رضا خان صاحب کااس جمہوری ملک میں یہ انوکھااحتجاج بڑا کامیاب اوربامراد رہاہے، یہ نئی حکمت عملی رہی بڑی کارگر رہی ہے،اور کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئی ہے ،اس سےپورے ملک میں ایک پیغام گیا ہے،اور اس کی گونج دور دور تک سنائی دینے لگی ہے۔اور یہ فرق نمایاں ہوگیا ہے کہ ایک طرف سے مارنے اور قتل کرنے کی بات ہوئی ہے تو دوسری طرف سے ملک کے لئے مرنے اور قتل ہونے کی عملی تیاری ہے۔
مولانا محمود مدنی صاحب کا سپریم کورٹ میں اس عنوان پر مقدمہ دائر کرنا۲۰۲۲ءکا کامیاب لائحہ عمل کےطورپردیکھاگیاہےتووہیں مولاناتوقیر رضاخان کی یہ کوشش کی بھی بڑی پذیرائی ہورہی ہے۔
اس کی کامیابی کے لئے اتنا کہدینا کافی ہے کہ جو مسلمانوں کومشتعل کرنے کے لئے کوشاں رہےہیں اور خوف میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں وہ خود ہی مشتعل ہوگئے ہیں اور خوف میں مبتلا ہوگئےہیں۔اس کی ڈھیر ساری مثالیں نظر آنی شروع ہوگئ ہیں،مسلمانوں کے بائیکاٹ کی باتیں کرتے ہیں تو کہیں خود اپنی جان کی دہائی دیتے نظر آرہےہیں۔
اس کامیابی پر مولانا کےساتھ ساتھ وہاں کے بیدار مغز مسلمانوں کو بھی مبارک باد ہے۔جنہیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ مولانا نے غازی کا نام دیا ہے،کہ آپ سبھی اب غازی ہیں، واقعی اپنے آپ میں یہ ایک یادگار دن ہے اور ملک کے لئے تاریخ میں یہ تاریخ ساز واقعہ بھی ہے، جسے بریلی کے مسلمانوں نےاپنےسروں پر کفن باندھ کر یادگار بنادیا ہے ۔
اس میں ہمارے لئے بڑا سبق ہے۔
ملک میں ہم اسی وقت انقلاب کی امید کرسکتے ہیں جب ہم خوف سے باہر آجائیں،یہ بتلانے کی شدید ضرورت ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے ہیں۔ابھی کرونا وائرس کی وبا نے دکھادیا ہے کہ یہ نفرت کے پرچار کرنے والے اپنی کٹیا میں دم دبائے بیٹھے تھے، ارتھی کو اٹھانے والا کوئی نہیں رہا تو مسلمانوں نے آکر آخری رسومات انجام دی ہے۔اس سے بھی ملک میں ایک اہم پیغام گیا ہے۔نفرت کے پجاریوں کواور
مسلمان کی بائیکاٹ کرنے والوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
مجھ سے ایک صاحب نے یہ کہا ہیکہ مولوی صاحب! ایک بیٹا جو دہلی سے کورونا پوزیٹیو ہوکرمیرے گاؤں آیا اسےاپنے گھر میں داخلہ نہیں ملا،والدین دور ہوگئے، وہ سبھی اپنی اپنی جان کی فکر کرنے لگے،میں نے اس کی دوا کی اور وہ صحتیاب ہوگیا، اپنے والدین سے زیادہ مجھ سے وہ محبت کرنے لگا ہے جبکہ میں مسلمان ہوں اور وہ ہندو ہیں۔
آج پھر یہ کورونا مضبوط شکل میں اومیکرون بنکر آگیا ہے۔اب ہمیں اپنا فرض ادا کرنا یے، ہندو مسلمان نہیں دیکھنا ہےاور نہ مذہب اسلام میں ایک پڑوسی کے مذہب کو دیکھنے کی تعلیم ملتی ہے بلکہ ہم ایک انسان کی خدمت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں اور انسانیت کی خدمت کا فریضہ انجام دیں۔پھر ملک کے بدلتے حالات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔
اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب بھی ہم نے موت کا خوف کیا ہے، ہم مارے گئے ہیں اورمذہب اسلام کابھی ہم سے بڑا نقصان ہوا ہے، اسلام کی دعوت رک گئی ہے،اورہمیں مزید خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔
جب ہم ملک کے لئے اور دوسروں کے لئےمرنے کے لئے آمادہ ہوئے ہیں تو اسلام کابھی بھلا ہوا ہے،اور ہمیں کامیابی بھی ملی ہے، محبت جیت گئی ہے اور نفرت کا منھ کالا ہوگیا ہے،
جگر مراد آبادی کا یہ شعر اس عنوان پر کیا خوب صادق ہے اور موجودہ وقت میں یہ مصرع ہمارے لئےمشعل راہ بھی ہے:
یہ مصرع کاش نقش ہر درودیوار ہوجائے
جسے جینا ہو مرنے کے لئے تیار ہوجائے ۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
رابطہ، 9973722710
Sent from my Galaxy
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں