Powered By Blogger

منگل, اکتوبر 31, 2023

✍️ محمد فرمان الہدا فرمان

اسلام امن کا داعی _____
اردودنیانیوز۷۲ 
  ✍️محمد فرمان الہدیٰ فرمان
اسلام امن وسلامتی کا سرچشمہ ہے،
 آپسی اخوت و بھائی چارگی، اللّٰہ کی مخلوق سے محبت و ہمدردی، اور سماج کے لیے خیر خواہی، اس کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے، یہ خیر کو فروغ دینے والا دین ہے، آج پوری دنیا میں جو فساد بپا ہے، اس کا صحیح علاج دینِ اسلام کی اتباع میں ہے؛ لیکن حیف صد حیف! آج فسادیوں اور دہشت گردوں کو اسلام سے جوڑ کر، اسے بدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے؛ بلکہ کی جاچکی ہے، اور اس میں انہیں کامیابی مل رہی ہے، جب کہ تشدد اور اسلام کے مابین کوئی تعلق ہی نہیں ہے، جہاں تشدد ہوگا وہاں اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اے ایمان والو! پورے طور پر امن وسلامتی (اسلام) میں داخل ہوجاؤ، اور شیطان مردود کی پیروی نہ کرو"۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: "زمین میں فساد مت پھیلاؤ درستگی کے بعد"۔
دنیا کے تمام ادیان و مذاھب میں انسانی جانوں کے احترام و وقار اور امن و اطمینان کے ساتھ زندگی گذارنے کے حق کو اولیت دی گئ بے، الحمد للہ اس سلسلے میں اسلام کا درجہ سب سے عظیم اور بلند ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے: "جس کا خون اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل مت کرو"۔
دینِ اسلام نے روزِ اول ہی سے تشدد اور دہشت گردی کی مخالفت کی ہے، امن و سلامتی کو فروغ دینے کی تلقین کی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ: "اگر کوئی ظلم کرے تو بدلہ لے لو؛ لیکن اگر معاف کردیا تو اللّٰہ معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے" اور آگے کہا: "بدلہ لینے میں تجاوز نہ کرنا؛ ورنہ تم خود ظالم بن جاؤگے"۔
اسلام نے جہاں تشدد سے منع کیا ہے، وہیں اپنے دفاع کا بھی حکم دیا ہے، اللّٰہ فرماتا ہے: "جو تم سے لڑائی کرے تم بھی اس سے اللّٰہ کی راہ میں لڑائی کرو، جن مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی ہے اور جن کو ان کے گھروں سے نکالا جاتا ہے، کشادگی کے باوجود ان پر زمین تنگ کی جاتی ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ لڑنے پر اللّٰہ کی نصرت اور مدد کا بھی وعدہ ہے"۔
لوگ کہتے ہیں کہ اسلام ایک دہشت گرد دین ہے، فساد پھیلانا مسلمانوں کا شیوہ ہے، ایسے لوگوں سے بس ایک ہی سوال ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کے گھر میں گھس کر آپ کی عزت لوٹے، سامانوں کی چوری کرے تو کیا آپ اسے ایسا کرنے دیں گے؟ آپ کا جواب ہوگا بالکل نہیں۔
آج فلسطینی اسی درد وکرب سے گذر رہے ہیں، اپنی زمین اور  مسجد اقصیٰ کے لیے لڑ رہے ہیں، ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے؛ کیوں کہ مسجد اقصیٰ صرف ان کی نہیں ہے؛ بلکہ تمام عالمِ اسلام کا قبلۂ اول ہے، اس کی حفاظت ہر کس وناکس پر لازم اور ضروری ہے، یہی وہ مسجد ہے جہاں سے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم معراج کو گئے، بہت سارے انبیاء کا مسکن اور مدفن بھی ہے، اللّٰہ نے اس کے ارد گرد بڑی برکتیں نازل فرمائی ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ اسلام بلا وجہ جنگ کی اجازت نہیں دیتا؛ لیکن جب جنگ کی نوبت آجائے تو اپنی حفاظت، بچاؤ اور مکمل طور پر دفاع کا حکم ‌دیتا ہے۔
آج اگر ہم فلسطینیوں کے ساتھ لڑ نہیں سکتے ہیں، تو کم از کم ان کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کریں ۔ان کے حق میں سوشل میڈیا پر آواز بلند کریں، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، اسی کے ساتھ ہم سب مل کر بارگاہِ الٰہی میں دعا بھی کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ قدس کی حفاظت فرمائے، اس کا چھینا ہوا وقار واپس دلادے اور مسجدِ اقصیٰ کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمادے، آمین ثم آمین۔
*** ____________ ___________ ***

مضمون نگار ✍️محمد ضیاء العظیم پٹنہ

اردو جرنل, شاد عظیم آبادی نمبر، فکر وفن کے آئینے میں 
Urduduniyanews72 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم پٹنہ
موبائل نمبر 7909098319 

سر زمین عظیم آباد کی تاریخ رہی ہے کہ ہر دور میں یہاں سے علم وادب کے درخشندہ ستارے دنیائے ادب کو اپنی روشنی سے منور کرتے چلے آئے ہیں، اور ہنوز  یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ اردو زبان وادب کی ترویج وترقی ،اور اس زبان کی آبیاری میں دبستانِ عظیم آباد کا اہم رول رہا ہے ۔ اور اسی کی ایک کڑی یو جی سی کییر لسٹ  میں شامل شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی کا تحقیقی رسالہ"اردو جرنل" بھی ہے جو قارئین ادب کی علمی وادبی تشنگی دور کرنے میں کافی معاونت  کرتا ہے ۔ اردو جرنل ٢٠٢٣- خصوصی گوشہ : شاد عظیم آبادی اس وقت میرے سامنے ہے، اس رسالہ کے مدیر ممتاز ناقد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ،صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی نے بڑے خوبصورت اور دلچسپ پیرائے میں مرتب کرکے دنیائے ادب کو ایک بیش بہا تحفہ عطا کیا ہے۔ کتاب کے مشمولات کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مضامین کس قدر اہم، دلچسپ، اور کارآمد ہیں ۔ خاص طور پر شاد عظیم آبادی کی زندگی، ان کے فکر و فن کو مختلف اور دلچسپ زاویے کے ساتھ پیش کرکے یقیناً ایک تاریخ رقم کی گئی ہے ۔ یقیناً شاد نے دبستانِ عظیم آباد کی نمائندگی دنیائے ادب میں کی ہے، شاد عظیم آبادی قادر الکلام شاعر ہیں، دنیائے ادب میں انہیں جو مقام ومرتبہ حاصل ہے وہ بے شک بے نظیر ہے، لیکن اس سلسلے میں ہمارے ادباء کی توجہات کماحقہ کم رہی ہیں ، شدت سے اس کی تشنگی محسوس کی جارہی تھی، جسے ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے پوری کرنے کی بھر پور سعی کی ہے ۔ ملک کے نامور ادباء کے مضامین اردو جرنل میں شامل ہیں، مضامین کے مطالعہ سے شاد عظیم آبادی کی شخصيت و فن کا کئ زاویے سے انکشاف ہوتا ہے ۔
360/صفحات پر مشتمل اس رسالہ میں 41/ مضامین ہیں، جن میں 27/ مضامین شاد عظیم آبادی کے فن وشخصیت پر اور 14/ مضامین  دیگر موضوعات پر ہیں، اس رسالہ کی کمپوزنگ شمسی گرافس، سبزی باغ پٹنہ نے کی ہے، اسے شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی سے 350/ روپے قیمت دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
رسالہ میں شامل مضامین کی فہرست  سے چند مندرجہ ذیل ہیں،

مثنوی مادر ہند، 
 شاد عظیم آبادی کا جذبہ اصلاح (نظموں کے آئینہ میں)، 
 شاد اور مرثیہ گوئی، 
 شاد اور جمیل، 
شاد عظیم آبادی اور ان کی لسانی وعروضی خدمات، 
 کلام شاد میں عربی زبان وتعبیرات،
شاد عظیم آبادی پر حافظ شیرازی کا اثر،
شاد کی غزلوں میں فلسفۂ حیات وکائنات،
شاد عظیم آبادی کی نعتیہ شاعری ظہور رحمت کے تناظر میں،
شاد اور ان کی صوفیانہ شاعری۔
میڈیا اور اردو ادب، گوپی چند نارنگ خطوط کے آئینے میں، ذوقی کے ناولوں کے چند زاویے، پروفیسر یوسف سرمست بحیثیتِ ناول نقاد۔کتاب کی شروعات ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے,, پہلی بات،، ایک عنوان قائم کرکے وجہ تصنیف وتالیف کے ساتھ ساتھ شاد عظیم آبادی پر خصوصی گوشہ قائم کرنے کے سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ادبی اور تاریخی اعتبار سے شاد عظیم آبادی اردو کے بلند پایہ شاعر ہی نہیں، دانشور، محقق، تاریخ داں اور نثر نگار بھی تھے ۔ ان کی شاعری کو اربابِ علم ودانش نے ہر دور میں منفرد وممتاز قرار دیا ہے ۔ علامہ اقبال نے خواہش کی تھی کہ کاش عظیم آباد قریب ہوتا اور مجھے آپ کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع ملتا ۔
سید سلیمان ندوی نے اعتراف کیا کہ شاد کی شاعری حسن وعشق کے عامیانہ اور صوفیانہ انداز بیان سے تمام تر پاک ہے ۔
نیاز فتح پوری نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ گزشتہ پچاس سال میں شاد عظیم آبادی سے بڑا غزل گو پیدا نہیں ہوا ۔
اور کلیم الدین احمد نے یہ دعویٰ کیا کہ اردو غزل کی کائنات کی تثلیث میر، غالب اور شاد ہیں ۔ شاد ایک مجتہد شاعر تھے ۔
شمس الرحمن فاروقی نے فرمایا کہ کلاسیکی غزل کے کئ رنگوں کو اختیار کرکے انہیں سچے اور خالص ادب میں پیش کرنا شاد کا کارنامہ ہے ۔ اور شمیم حنفی کا قول ہے کہ شاد نے ایک نیا شعری محاورہ وضع کرنے کی کوشش کی ۔اسی طرح شاد کی شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کرمع مثال پیش کی ہے
پہلا حصہ ان کی رومانی شاعری جو ان کے جوانی کی شاعری رہی،
دوسرا حصہ میر درد کی صوفیانہ شاعری اور غالب کی فلسفیانہ شاعری کے اثرات،
اور تیسرا وہ حصہ ہے جہاں وہ بڑی سے بڑی بات کو با آسانی دو مصرعوں میں بیان کردیتے ہیں ۔رسالہ میں جو مضامین ہیں وہ تمام کے تمام اردو ادب میں دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، خاص طور پر ڈاکٹر سرور عالم ندوی صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیورسٹی کا مضمون،، کلام شاد میں عربی زبان وتعبیرات،،، یہ بہت ہی انوکھا اور نایاب ہے، اس مضمون میں شاد عظیم آبادی کی شخصیت کے نئے پہلو کا انکشاف ہوتا ہے اور وہ یہ کہ یقیناً شاد عظیم آبادی کو اردو وعربی زبان وادب پر کافی گرفت تھی، اس بات کو مکمل، مفصل اور مدلل اجاگر کیا گیا ہے وہ اپنے موضوع کے لحاظ سے بہت ہی نایاب اور انوکھا ہے، جیسا کہ انہوں نے ایک موقع پر قوم کو تعلیمی مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ۔
ہو زبان عربی کا بھی شمول
نفع دیں کا ہے نہ کہ اس کو فضول۔
اسی طرح قواعد عربی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں.:
 کلمہ قالوا کو تو صیغہ غائب نہ جان
جمع کو واحد سمجھ لفظ کا دھوکہ نہ کھا
نیز
اپنے مرجع کو پھرتی ہے ضمیر
حال مرجع کا لیکن تغیر۔

دیگر موضوعات بھی کافی اہم، نایاب، اور وقت کے لحاظ سے کافی کارآمد ہیں۔
یوجی سی منظور شدہ اردو جرنل 2023 اس رسالہ میں شامل تمام مضامین پر تبصرہ ممکن نہیں ہے، قارئین ادب سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کا مطالعہ کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کریں،
ہم اپنی جانب اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے خصوصی طور پر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی اور عمومی طور پر پوری ٹیم کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس رسالہ کی ترتیب وتالیف میں اپنا تعاون پیش کیا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...