Powered By Blogger

جمعرات, اپریل 28, 2022

مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے بارہ بنکی انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کی جانب سے شروع کی گئی مہم

مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے بارہ بنکی انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کی جانب سے شروع کی گئی مہم

ابوشحمہ انصاری، بارہ بنکی

انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مہم چلا رہی ہے، جس میں مذہبی مقامات پر آواز کی حد کے اصولوں کی عدم تعمیل/معیار کے خلاف چلائے جانے والے لاؤڈ اسپیکر مذہبی مقامات سے ہٹاے جا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں بارہ بنکی ضلع میں انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کے ذریعہ کل 614 غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹائے گئے اور 207 لاؤڈ اسپیکر کم کیے گئے اور 571 لوگوں کو نوٹس بھیجے گئے۔

پاکستان میں نئی حکومت___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

پاکستان میں نئی حکومت___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک لاکر عمران خان کی حکومت بے دخل ہوئی ہے،گووہاں کی اب تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کسی وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے نہیں کیے،البتہ اس بار ڈرامہ کچھ زیادہ ہی ہوا،عمران خان نے عدم اعتماد تحریک کاسامنا کرنے سے انکارکردیا،پارلیامنٹ کے ڈپٹی اسپیکرقاسم سوری اورملک کے صدر عارف علوی نے ان کاساتھ دیا،پارلیامنٹ تحلیل ہوگئی،عمران خان نے نئے انتخاب کا اعلان کیا،حزب مخالف سپریم کورٹ پہونچے،سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس عمرعطابندیالی کررہے تھے قومی اسمبلی بحال کردی،اورعدم اعتماد کی تحریک پرووٹنگ کرنے کو کہا،پارلیامنٹ میں بحث چلی،عمران خان کی انصاف پارٹی کے ممبران نے بائیکاٹ کیا،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکے استعفیٰ کے بعد نئے اسپیکر نے رات بارہ بجے ووٹنگ کرائی اورایک سو چوہتر(۴۷۱) ممبران کی معمولی اکثریت سے عمران خان کی حکومت گرگئی،معمولی اس لیے کہ اکثریت کے لیے ایک سو بہتر(۲۷۱) ووٹ چاہیے تھے صرف دو دووٹ زائد آئے،نواز شریف کے بھائی شہباز شریف حزب مخالف کی طرف سے وزیر اعظم کے امید وار بنے اورانہیں جمعیت علماء پاکستان،پوپلس پارٹی مریم شریف وغیرہ کی حمایت حاصل تھی،ایسے میں وہ پاکستان کے تئیسویں وزیر اعظم بلامقابلہ منتخب ہوئے،صدرمملکت حلف برداری کے لیے نہیں پہونچے،رسمی طور پر بیمار ہوگئے تومعمول سے ہٹ کرسینٹ کے چیئرمین نے حلف دلایا اوروہ اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں،عمران خان کی انصاف پارٹی کے سارے ارکان پارلیمان نے استعفیٰ دے دیا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ بخیر نہیں ہے۔
عمران خان کے اس عمل سے پاکستان کی جمہوریت کمزور ہوئی ہے اورسامراجی طاقتوں کادبدبہ پاکستان پر بڑھاہے،عمران خان یہی تو کہہ رہے تھے کہ ہماری حکومت گرانے میں غیر ملکی طاقتوں کاہاتھ ہے،ان کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا اوریہ کچھ غلط بھی نہیں ہے،علاقہ میں پاکستان امریکہ کا حلیف رہا ہے،اسے چین کوکنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے،ادھر چین سے دوستی بڑھانا پاکستان کی مجبوری بن گئی اورعمران خان نے امریکہ کی داداگیری کے اثرات کو پاکستان میں کم کرنے کا بیڑا اٹھایا،انہوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف بھی آواز اٹھائی،پاکستان کی خارجہ پالیسی بہتر ہوئی اور اس کی وجہ سے ا س کے وقار میں اضافہ ہوا۔
دوسری طرف اندرونی پالیسی میں عمران خان کچھ زیادہ نہیں کرسکے،جوامیدیں عوام نے وابستہ کی تھیں،وہ اس پر پورے اتر سکے،ملک معاشی طور پر کمزور ہوتا چلاگیا؛اس لیے حزب مخالف کوموقع ملا اوروہ عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہوگئے۔
ایسے میں عمران خان کوعدم اعتماد کی تحریک کاسامنا کرنا چاہئے تھا یااستعفا دے دینا چاہیے تھا،عمران خان نے ایساکچھ نہیں کیا،ایک نیاداؤ کھیلا جس سے ملک کی پارلیامنٹ کوکبھی سامنا نہیں کرنا پڑاتھا،ا س طرح عمران خان خودہی ذلیل ہوکر ایوان اقتدار سے باہر ہوئے،اگر وہ اکثریت کھودینے کی وجہ سے اقلیت میں آگئے تھے توانہیں استعفادے دینا چاہیے تھا،جیساکہ صرف ایک ووٹ کم ہونے پر اٹل بہاری باجپئی نے استعفادیدیاتھا،اگروہ ایساکرلیتے تو ملک میں جمہوریت کے تقاضوں کی تکمیل ہوتی اورمضبوطی آتی۔
اس پورے قضیہ میں پاکستانی فوج کا رویہ تاریخ کے برعکس رہاہے،ایسے موقع سے پاکستان میں فوج حکومت پر قابض ہوتی رہی ہے،پاکستان میں مارشل لاکی تاریخ طویل بھی ہے اورقدیم بھی،لیکن اس بار فوج نے اب تک اس سیاسی قضیہ سے خود کو الگ رکھا اورکوئی دخل اندازی نہیں کی،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوج میں اس مسئلہ پر اختلاف رہا ہو،خود فوجی سربراہ باجواعمران خان کے قریب رہے ہیں اورانہوں نے ملاقات کرکے باربار اس قضیے کوحل کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس واقعہ کے بعد ایسا بھی نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت میں دوبارہ واپسی نہیں ہوپائے،پاکستان میں نواز شریف اوربے نظیر بھٹو کی واپسی حکومت میں ہوچکی ہے،اگلے انتخاب میں عمران خان کے لیے موقع ہوسکتا ہے۔
پاکستان ہماراپڑوسی ملک ہے،وہاں کی سیاست کے نشیب وفراز پر ہماری نگاہ ضروری ہے،ہمارے وزیر اعظم نے شہباز شریف کو مبارکباددے دی ہے اوراچھے تعلقات کی امید ظاہر کی ہے،لیکن یہ بس رسمی جملہ ہے،شہباز شریف نے آتے ہی کشمیر مسئلہ کی بات کہی ہے اورکشمیر مسئلہ کے ساتھ دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات کس طرح رہ سکتے ہیں؟ماضی میں دوجنگیں ہندوپاک اس مسئلہ پر لڑ چکاہے،اس لیے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،شہباز شریف تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں،ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سیاسی قائد سے زیادہ اچھے منتظم ہیں،اچھے منتظم کاتقاضہ ہے کہ وہ ہندوستان سے تعلقات استوار رکھیں،امریکہ اورچین سے دوستی میں اعتدال کوراہ دیں اورافغانستان میں طالبان کواپنے من کی حکومت کرنے دیں،کیوں کہ افغانستان میں پاکستان کی دخل اندازی سے خطہ میں ماحول سازگارنہیں رہ پائے گااورایسے میں ہندوستان کی تشویش بجا ہوگی۔

اترپردیش : ملحقہ مدارس کی جانچ کاحکم ، بڑے پیمانے پرتبدیلیوں کی تیاری

اترپردیش : ملحقہ مدارس کی جانچ کاحکم ، بڑے پیمانے پرتبدیلیوں کی تیاریلکھنؤ (ایجنسی)
ریاستی حکومت یوپی میں مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے جا رہی ہے۔ حکومت نے مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم چلانے والے مدارس کی جانچ کا حکم دیا ہے۔ حکومت نے عمارت، زمین، کرایہ نامہ، اساتذہ، طلباء وغیرہ کی موقع پر جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنانے کو کہا ہے۔ اس سلسلے میں رجسٹرار مدرسہ ایجوکیشن کونسل نے تمام ضلع مجسٹریٹس کو خط بھیجا ہے۔ جانچ کے بعد جو رپورٹ سامنے آئے گی اس کی بنیاد پر حکومت مدارس کی تعلیم میں بڑی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے، جس میں جدید تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے گا۔
ضلع مجسٹریٹ اب ایس ڈی ایم، بلاک ایجوکیشن آفیسر، بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر کو اس کی جانچ کا حکم دے رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے 15 مئی 2022 تک انکوائری رپورٹ طلب کی ہے۔
مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم کے تحت اتر پردیش میں ساڑھے سات ہزار سے زیادہ مدارس چل رہے ہیں۔
یوپی کے جدید مدارس میں اساتذہ کی 8129 آسامیاں ہیں۔ ان میں سے 6455 اساتذہ انگریزی، تاریخ، جغرافیہ، سائنس جیسے مضامین پڑھانے والے ہیں۔ ان کے علاوہ دینی تعلیم والے 5339 اساتذہ ہیں۔ ریاستی حکومت کی نظریں انہی دینی تعلیم والے ٹیچروں پر ہے ۔ یوپی محکمہ تعلیم کے افسران کا کہنا ہے کہ جب مدارس میں جدید مضامین پڑھائے جارہے ہیں تو پھر وہاں دینی تعلیم والے اساتذہ کی کیا ضرورت ہے ۔
ان مدارس کو حکومت سے گرانٹ ملتی ہے۔ اس لیے حکومت اپنے افسران کے ذریعے یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ مدارس میں کتنے جدید مضامین پڑھائے جا رہے ہیں اور کیا اب بھی دینی تعلیم پر زور ہے؟ کسی بھی مدرسے میں اساتذہ کی بنیاد پر یہ آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ وہاں جدید مضامین پڑھائے جا رہے ہیں یا دینی مضامین۔
یوپی میں تقریباً 588 مدارس ہیں جن میں 8129 اساتذہ اور 558 پرنسپل ہیں۔ حکومت ہر سال ان پر 866 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔ لیکن حکومت کے پاس اطلاعات ہیں کہ مدارس میں بچوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ حکومت کے پاس معلومات ہیں کہ چونکہ مدارس میں جدید مضامین نہیں پڑھائے جا رہے ہیں اس لیے وہاں کے بچے مقابلے جاتی امتحانات میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں، اس لیے یوگی حکومت چاہتی ہے کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلیاں کی جائیں۔
ریاستی حکومت کے پاس اطلاعات ہیں کہ کئی جگہوں پر مدارس کے نام پر کاروبار ہو رہا ہے۔ کئی تنظیموں کے تیس سے چالیس مدارس ہیں۔ لکھنؤ میں ہی ایسے مدارس کا ایک سلسلہ ہے جہاں اساتذہ کو آدھی تنخواہ ملتی ہے جبکہ ان سے پوری تنخواہ پر دستخط کرائے جاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ سے استعفیٰ پہلے ہی لے لیے جا چکے ہیں، تاکہ اگر وہ احتجاج کریں تو انہیں فوراً باہر کا راستہ دکھایا جائے۔
عام طور پر پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کے مدارس میں پانچ ٹیچر دینی تعلیم والے ہوتے ہیں ۔ چھٹی کلاس سے لے کر آٹھویں تک کے مدارس میں دو دینی تعلیم والے ہیں اور ایک عام مضامین کے لیے۔ لیکن عالیہ کلاس (9ویں اور 10ویں) میں دینی تعلیم کے لیے تین اساتذہ اور عمومی مضامین کے لیے ایک استاد ہے۔ اس طرح کلاس ششم سے عالیہ کی کلاس تک دیگر مضامین پڑھانے والے اساتذہ کم اوردینی تعلیم والے زیادہ ہیں ۔ سرکار اس میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے ٹیچروں کا استحصال بھی رکے گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...