Powered By Blogger

جمعرات, جون 08, 2023

حج: اسلام کا اہم رکن __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حج: اسلام کا اہم رکن __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)
اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پرہے،ایمان لانا،اورایمان کے بعدنماز پڑھنا، روزہ رکھنا،بعض شرائط وقیودکے ساتھ سب پرفرض ہے، مردہو یا عورت، جوان ہویابوڑھا، فقیرہویامالدار،سب ایک صف میں ہیں،چونکہ یہ کام سب کرسکتے ہیں،بعض مخصوص حالات میں جولوگ نہیں ادا کرسکتے ہیں ان کو چھوٹ دی گئی ہے یااعذارختم ہونے کے بعدادائیگی کاحکم دیاگیاہے۔
زکوٰۃ اورحج سب پرفرض نہیں کیاگیاہے،کیونکہ ان کاتعلق مال سے ہے،اورسب مال والے نہیں ہیں،پھرجن کے پاس مال ہے،ان کے اوپرزکوٰۃفرض کرنے کے لیے نصاب کی شرط لگائی گئی اورحج فرض کرنے کے لیے مالداری کے ساتھ ’’استطاعت‘‘کی قیدلگائی گئی،اس لیے کہ حج میں سفر کرنا بھی ہوتاہے اورمال بھی خرچ کرناہوتاہے،اب اگرآدمی بیمارہے،تندرست نہیں ہے توخودسفرنہیں کرسکتا،قیدمیں ہے توسفرکی اجازت ہی نہیں۔تندرست وتوانااورآزادہے؛ لیکن راستہ پرامن نہیں ہے ۔عورت کے ساتھ کوئی محرم جانے والا نہیں ہے یاعورت عدت میں ہے،توبھی سفرممکن نہیں،اس لیے اس پرحج فرض نہیں،سب کچھ موجودہے، سفرخرچ اورواپسی تک بال بچوں کے نفقہ کی صورت نہیں بنی توبھی حج کرناممکن نہیں اوراللہ رب العزت اپنے فضل سے بندوں پر اسی قدرفرض کرتاہے جس کی ادائیگی پروہ قدرت رکھتاہو۔
اب قدرت وطاقت ،صحت ،مال ودولت اورہرقسم کی مطلوبہ استطاعت ہوتواللہ اپنے گھرکی طرف بلاتاہے،سب کچھ اللہ ہی کادیاہواہے،ایسے میں وہ یوںہی بلالے کچھ نہ دے اورکوئی وعدہ نہ کرے، تب بھی سرکے بل جاناچاہیے،دوڑناچاہیے،لیکن یہ اللہ رب العزت کاکتنابڑافضل اورکرم ہے کہ سب کچھ دے کرکہتاہے کہ آؤمیرے گھر،احرام باندھو،طواف کرو،سعی کرو،حجراسودکااستلام کرو،رکن یمانی کوچھوؤ،زمزم پیو،صفاومروہ کی سعی کرو،عرفہ،مزدلفہ میں وقوف کرو،منیٰ میں رات گذارو،شیطان کوکنکری مارو،قربانی کرو،ہم اس کے بدلے تمہیں جنت دیں گے،وہ جنت جس کے لیے تم پوری زندگی ہماری عبادت کرتے رہتے ہو،اس پوری زندگی کامطلوب صرف ایک حج مقبول میں تمہیں دیں گے،تم نے اس سفرمیں کوئی غلط کام نہیں کیا، جھگڑانہیں کیا، شہوانی خواہشات سے مغلوب نہیں ہوئیں توایسے پاک صاف ہوکرگھرلوٹوگے جیسے آج ہی تم ماں کے پیٹ سے معصوم پیداہوئے ہو،اس کے علاوہ اوربھی انعامات تمہیں ملیں گے،تمہارے اندردنیاسے بے توجہی پیداہوجائے گی،آخرت کی فکراوررغبت تمہاری زندگی کاحصہ بن جائے گی،تم نے جومال خرچ کردیاوہ تمہارے لیے فقروفاقہ کاباعث نہیں بنے گا؛ بلکہ اللہ تعالی اپنے فضل سے تمہیں اوردے  کرغنی بنادے گا،اتنادے گاکہ بے نیازہوجاؤگے،تمہیں ہرقسم کی عصبیت اورامتیازکی بیماری سے پاک کردے گا،ریا،نمودونمائش کاجذبہ ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالی کے اس اعلان فضل ونعمت کے بعدبھی دوسرے ارکان کی ادائیگی کی طرح حج میں جانے میں کوئی کوتاہی کرتاہے تویہ بڑی محرومی اوربدبختی کی بات ہے،یقیناًحج زندگی میں ایک بارفرض ہے،لیکن فرض ہونے کے بعدساقط نہیں ہوتاہے اورکیامعلوم اگلی زندگی کیسی ہوگی؟ابھی اللہ کے انعام کی قدرنہیں کیااوربعدمیں مال ہی جاتارہا یاصحت ہی باقی نہ رہی تویہ فرض باقی رہ جائے گا،اس لیے انتظارکرناکہ ملازمت سے سبکدوش ہوجائیں تب اللہ کے بلاوے پرلبیک کہیں گے اورسب گناہ سے رک جائیںگے،یہ شیطان کابہلاواہے کہیں اس کے پہلے ہی بلاواآگیااورکون جانتاہے کہ کب بلاواآئے گا؟ مرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی اورکوئی نہیں جانتا کہ کب اورکس وقت ملک الموت اپناکام کرجائیںگے؛ اس لیے جوزندگی دی گئی ہے اورجومال ودولت ،صحت وعافیت فراہم ہے،اس کی قدرکرنی چاہئے اوربلاتاخیراللہ کے اس بلاوے پردوڑجاناچاہیے۔
ہمارے بعض بھائی اس اہم رکن کی ادائیگی کواس لیے ٹالتے ہیںکہ بچی کی شادی کرنی ہے، حج الگ فرض ہے اوربچی کی شادی الگ ذمہ داری ہے، خصوصاًاس شکل میں جب کہ لڑکی ابھی سیانی بھی نہیں ہوئیں ہے ذمہ داری ہی اس کام کی نہیں آئی،ایسے میں کہاں کی عقل مندی ہے کہ ایک فرض کوآئندہ والی ذمہ داری کے نام پرٹالاجائے۔یہی حال مکان کی تعمیر،زمین کی خریدگی،اوردوسرے گھریلومعاملات کاہے،جن کے نام پرشیطان بہکاتارہتاہے،اورحج کی ادائیگی مؤخرہوتی رہتی ہے،اورپھروہ وقت بھی آجاتاہے کہ ادائیگی کی شکل باقی نہیں رہتی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جس شخص کے پاس کوئی عذرنہ ہو،استطاعت بھی ہو،سخت حاجت بھی درپیش نہ ہو،ظالم بادشاہ اورمرض نے بھی نہ روکاہواوروہ  بغیر حج کئے مرگیاتویہودی ہوکرمرے یانصرانی ہوکرمرے ،مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔اللہ کی پناہ کس قدرسخت وعیدہے۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
بندہ جب اس بات کو سمجھ لیتا ہے اور حج کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے تو اسے اللہ پر کامل اعتماد پیدا ہوجاتا ہے ، وہ خدا کے فیصلوں پر بھروسہ کرنے لگتا ہے ، اور دل میں اطمینان قلب کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے ، جس سے دنیا میں بھی سکون ملتا ہے اور آخرت کے راستے بھی ہموار ہوتے ہیں ، اس پہلے تحفہ کے ساتھ عازمین کا سفر حج شروع ہوتا ہے ، مال ودولت کی محبت نکلتی ہے تو بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر بھی ہوتی ہے ، جس جس کا حق دبا رکھا ہے ، سب کو ادا کردیتا ہے ، بیٹی کا حق ، بھائی کا حق ، پڑوسیوں کے حقوق یہ اللہ پر توکل کا پہلا اثر ہوتا ہے ، جو حقوق ادا نہیں ہوسکے، جو کوتاہیاں اور غلطیاں رہ گئیں اس کے لئے بندوں سے معافی مانگتا ہے اور سارے علائق دنیوی سے کنارہ کش ہوکر کفن نما دو کپڑے پہن کر اللہ کے راستے پر ہولیتا ہے ۔
احرام باندھا ، آرائش  وزیبائش کا خیال جاتا رہا ، نہ خوشبو ہے ، نہ میل چھڑایا جارہا ہے ، نہ بال ناخن بنائے جارہے ہیں ، دیوانگی ، وارفتگی ، شیفتگی میں مزہ آرہا ہے ۔عشق  حقیقی کے مراحل طے ہورہے ہیں، سفرجاری ہے ، حاجی انہیں سر مستی میں مکہ پہنچ جاتاہے ، وہاں وہ دیکھتا ہے کہ پوری دنیا سے آئے ہوئے لوگ اپنے اپنے انداز میں عبادت کررہے ہیں کوئی ہاتھ باندھے ہوا ہے ، اور کوئی بغیر باندھے ہی اللہ کے دربار میں کھڑا ہے ، کوئی آمین زور سے کہہ رہا ہے ، اور کوئی دھیرے ، کوئی رفع یدین کررہا ہے ، اور کوئی نہیں ، جنازہ میں کوئی سلام ایک ہی طرف پھیرتا ہے تو کوئی دونوں طرف، اتحاد و اجتماعیت کا یہ مظہر ،ہمیں ہرقسم کے تعصب سے پاک ہونے کا تحفہ دیتا ہے ، ذات برادری ، زبان ، علاقائیت ، مسلک ومشرب ، رنگ و نسل کی تفریق سب اس اجتماعیت میں کھو جاتے ہیں ، کالے کوگورے پراور گورے کو کالے پر ، عربی کو عجمی پر، عجمی پرعربی کو فضیلت نہیں رہتی ، معیارِ فضیلت تقویٰ کھلے آنکھوں سے یہاں دکھتا ہے، ایک امت اور ایک جماعت کا صرف تصور نہیں تصدیق کے مراحل طے ہوتے ہیں ، قرآن نے یوں ہی اعلان نہیں کیا کہ یہ امت ایک امت ہے اسے ر ب کی عبادت کرنی چاہیے اور اس سے ہی لولگانا چاہئے ، اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ وَ اَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْن پڑھتے جایئے اور غور کرتے جایئے کہ علم وحکمت کے کتنے موتی اور عمرانی تمدنی دنیا کے کتنے اسرار ورموز آپ پرکھلتے جائیں گے یہ منظر کتنا حسین ہے ، کوئی اختلاف نہیں ، کوئی جھگڑا نہیں ، الگ الگ انداز سے عبادت کرنے والے کو حیرت کی نگاہ سے بھی کوئی نہیں دیکھتا ، سب ایک لڑی میں پروے ہوئے ہیں ، یہ لڑی کلمہ ٔواحدہ کی لڑی ہے ، سب محمد رسول اللہ کے کلمہ پڑھنے والے ہیں ، حج کا یہ منظر ہمیں بتاتا ہے کہ فروعی مسائل میں کسی طرح لڑنے کی گنجائش نہیں ہے ، کسی مسلک کا ماننے والا ہو ، وہ حرمین شریفین کے امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے ، کوئی نہیں دیکھتا کہ ہمارے امام سے ان کا طریقہ الگ ہے ، یا یہ کس امام کو مان رہے ہیں ۔ اجتماعیت کا یہ وہ پیغام ہے جسے حاجی اپنے ساتھ تحفہ کے طور پر لے کرآتا ہے، یہ تحفہ اسے دوسروں تک بھی پہونچانا چاہئے۔
 ایک اور تحفہ صبروتحمل کا حاجی کے ساتھ آتا ہے ،دھکے پردھکے کھا رہا ہے ، اللہ کی بڑائی بیان کررہا ہے ، معافی حاجی ، معافی حاجی کی رٹ لگا رہا ہے ، وہ دھکے کھاکر مرنے مارنے پرآمادہ نہہیی ہوتا؛بلکہ وہ سب سہہ رہا  ہے ، اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے، اسے یاد ہے کہ’’ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلاَجِدَالَ فِی الْحَجِّ  ،، وہ اپنے حج کو رفث ، فسوق ، اور جدال سے بچا رہا ہے ، اب وہ حج سے لوٹا ہے تو دوسرے کے لئے بھی اپنے ساتھ برداشت کا تحفہ لا یاہے ، تحمل اور صبر کی سوغات لایا ہے ، یہ سوغات اگر قاعدے سے لوگوں تک پہونچ جائے تو بے شمار سماجی اور تمدنی فائدے لوگوں کو حاصل ہوں گے۔
 ایک تحفہ شرک و بدعات سے اجتناب کا بھی ہے ، صرف اور صرف اللہ کی عبادت کا جو خیال حج میں راسخ ہوتا ہے ، لبیک اللھم لبیک کی صدا انسانوں کو جس طرح غیروں سے بے نیاز کرتی ہے اسے بھی عام کرنے کی ضرورت ہے، روضہ رسول پر صلاۃ و سلام پیش کرکے جو روحانیت حاجی نے حاصل کی ہے ، اسے بھی بانٹنے کی ضرورت ہے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ محبت رسول کیاچیز ہے اوراس کے تقاضے کیا ہیں؟اور اتباع رسول کس طرح بندے کو اللہ کی محبت کا حق دار بنادیتی ہے۔اس  کے علاوہ حسب صلاحیت و استطاعت مختلف ممالک کے لوگوں کے احوال و آثار سے جو واقفیت اس سفر میں ہوئی ، علمی گفتگو سے جو کچھ سمجھنے کوملا ، یقینا یہ سارے تحفے انتہائی قیمتی ہیں ، اور اس کی تقسیم بھی حاجی کی ذمہ داری ہے ، کیوں کہ وہ ضیوف الرحمن بن کر گیا تھا ، اور داعی بن کر واپس ہوا ہے ۔

پروفیسر نسیم احمد ___✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ

پروفیسر نسیم احمد  ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
پروفیسر سید نسیم احمد صاحب موتی ہاری مشرقی چمپارن نے کینسر کے موذ ی مرض سے طویل جنگ کے بعد 5 اپریل 2023ءبروز اتور بوقت ایک بجے دن سی ایم سی ہوسپیٹل ویلور میں اس دنیا کو الوداع کہا، جنازہ بذریعہ ہوائی جہاز پٹنہ اور پھر پٹنہ سے موتی ہاری لے جایا گیا، موتی ہاری روانہ کرنے سے پہلے راشٹریہ جنتا دل کے پارٹی آفس میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا، موتی ہاری میں ان کی نماز جنازہ ان کے داماد مولانا اسامہ شمیم ندوی نے 7 اپریل کو بعد نماز جمعہ پڑھائی اور انجمن اسلامیہ کے صدر قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، اس طرح ایک علمی، ملی، سماجی اور سیاسی شخصیت کی حیات وخدمات کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو گیا، پس ماندگان میں دوسری اہلیہ چھ لڑکا اور دس لڑکی کو چھوڑا۔
 پروفیسر سید نسیم احمد بن محمد یونس (ولادت 1904) بن سید امانت حسین بن سید ریاست حسین کی ولادت 7 جنوری 1938ءکو ان کے آبائی وطن بارو، برونی موجودہ ضلع بیگو سرائے میں ہوئی، مرحوم کی والدہ کا نام بی بی فضل النساء(ولادت1912) تھا، پروفیسرصاحب نوبھائی، بہن تھے، جن میں سے دو بھائی کا انتقال ایام طفلی میں ہو چکا تھا، ابتدا سے ہائی اسکول تک کی تعلیم رادھا کرشنن چمریا اسکول برونی ضلع مونگیر سے پائی، آئی اس سی اوربی اس سی راجندر کالج چھپرہ سے کیا، ایم ایس سی کی ڈگری ال اس کالج مظفر پور سے حاصل کیا۔
 محمد یونس صاحب کی شادی سید جواد حسین رئیس رانی کوٹھی موتی ہاری کی دختر نیک اختر بی بی فضل النساءسے ہوئی تھی، اس لیے پروفیسر صاحب کے والد1944ءمیں رابی کوٹھی لوہر پٹی ، موتی ہاری، بارو سے نقل مکانی کرکے آبسے،1960ءمیں یہ خاندان نشاط منزل بلواٹولہ موتی ہاری منتقل ہو گیا، ان دنوں پروفیسر صاحب کی رہائش یہں تھی۔
پروفیسر نسیم احمد صاحب نے دوشادیاں کیں، پہلی بی بی زینب النساءتھیں، جن سے اللہ رب العزت نے چھ لڑکیاں اور تین لڑکے کل نو اولاد عطا فرمائی، دوسری اہلیہ مہر النساءبیگم سے تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں کل آٹھ بچے ہوئے، یعنی دونوں اہلیہ سے سترہ بچے تھے، جن میں ایک لڑکی بچپن میں فو ت ہو گئی، اب دونوں اہلیہ کے تین تین لڑکے اور پانچ پانچ لڑکیاں کل سولہ اولاد حی القائم ہیں، پروفیسر صاحب کی زندگی اس دور میں اہل وعیال کے اعتبار سے بھی نمونہ تھی، کیوں کہ آج کل تو دو یا تین بچے کے اچھے ہونے کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔
تدریسی زندگی کا آغاز انہوں نے گوپال شاہ ہائی اسکول موتی ہاری سے سائنس ٹیچر کی حیثیت سے کیا، یہ 1963ءکا سال تھا، صرف تین ماہ کے بعد آپ کی بحالی ایم اس کالج موتیہاری میں فزکس کے لکچرر کے طور پر ہوگئی، ترقی کرتے ہوئے آپ پروفیسر کے عہدہ تک پہونچے اور2001ءمیں یہیں سے سبکدوش ہوئے۔
 آپ ایک اچھے استاذ کے ساتھ اچھے سیاست داں بھی تھے، زندگی کے مختلف ادوار میں وہ سینوکت سوشل پارٹی(SSP)جنتا پارٹی، جنتا دل اور راشٹریہ جنتا دل سے وابستہ رہے، انہوں نے 1968ءمیں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر بتیا پارلیمانی حلقہ، اور1985ءمیں اسی پارٹی کے ٹکٹ پر سوگولی حلقہ اسمبلی اور 1996میں جنتادل کے ٹکٹ پر پارلیامنٹ کی رکنیت کے لیے انتخاب لڑا، لیکن کسی بھی انتخاب میں انہیں کامیابی نہیں ملی، بعض انتخابات میں آپ دوسرے نمبر تک پہونچ سکے۔
 آپ کی شناخت سماجی خدمت گار کے طور پر بھی تھی، وہ بہت سارے تعلیمی اداروں کے قیام میں شریک رہے، انہوں نے ہریندر کشور کالج موتی ہاری کے صدر کے طور پر کام کیا، وہ انجمن اسلامیہ موتی ہاری کے قیام میں بھی شریک وسہیم رہے، انہوں نے انجمن اسلامیہ ، اس کے مدرسہ، یتیم خانہ، لڑکیوں کے اسکول مسجد اور صدر قبرستان موتی ہاری کی خدمات کو وقیع اور ان اداروں کی تعمیر وترقی میں نمایاں رول ادا کیا۔ وہ 1972ءسے 2023ءتک انجمن اسلامیہ کے صدر منتخب ہوتے رہے، وہ مدرسہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا اور مدرسہ منبع العلوم مادھو پور مشرقی چمپارن کے لیے بھی جو کچھ بن پڑتا، کر گذرتے تھے، اس طرح دیکھیں تو ان کی زندگی علمی ، سماجی ، سیاسی اور ملی تھی، وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں مقبول ومحبوب رہے، ان کے گذر جانے سے موتی ہاری، بلکہ مشرقی چمپارن میں بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ 
 پروفیسر نسیم احمد صاحب امارت شرعیہ اور ان کے اکابر سے بہت قریب رہے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے وہ گرویدہ تھے، اور قاضی صاحب نے جب آل انڈیا ملی کونسل قائم کیا تو وہ علاقہ میں اس کے دست وبازو بنے، امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے، اور مٹنگوں میں پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے، آخری بار امارت شرعیہ وہ امیر شریعت سابع کو انجمن اسلامیہ تشریف لانے کی دعوت دینے کے لیے آئے تھے، ان کے ساتھ قاری جلال صاحب قاسمی امام جامع مسجد موتی ہاری بھی تھے، حضرت کا سفر ایک نکاح پڑھانے کے سلسلے میں موتی ہاری کاہو ا تھا۔
میری ملاقات ان سے امارت شرعیہ میرے آنے سے پہلے سے تھی، ایم، ایس کالج موتی ہاری بعض ضرورتوں کی وجہ سے بھی جانا آنا رہا، ابا بکر پور کے ایک پروفیسر بھی وہاں تھے، ان کی قربت کی وجہ سے بھی پروفیسر صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، بعد میں جب کبھی موتی ہاری جانا ہوتا، جامع مسجد میں حاضری ہوتی اور پروفیسر صاحب سے بھی ملاقات ہوجایا کرتی تھی، آل انڈیا ملی کونسل کے اُس علاقہ کے دورہ اور بعض مدارس کے جلسے میں بھی ان کا ساتھ رہا، جانا ایک دن سب کو ہے
پروفیسر صاحب نے الحمد للہ لا نبی عمر پائی، لیکن ان کا فیض اس قدر عام تھا کہ ان کے جانے کے بعد خلا محسوس ہونا فطری ہے، یوں کسی کے جانے سے نہ تو کاروبار زندگی میں رکاوٹ آتی ہے اور نہ ہی روئے زمین پر اندھیرا چھاتا ہے، وہ جو کسی کے مرنے پر کہتے ہیں کہ ایک چراغ اور بجھا ، تاریکی اور بڑھی، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، ہم سب کا عقیدہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ آسمان وزمین کا نور ہے، اور اس کو فنا نہیں ہے، اس لیے آسمان وزمین میں تاریکی کیسے پھیلے گی، اللہ سے دعا ہے کہ وہ پروفیسر صاحب کی خدمات کو قبول کرے اور ان کے سیئات کو در گذر کرکے جنت کے فیصلہ فرمادے ۔ آمین یا رب العالمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...