Powered By Blogger

اتوار, مئی 22, 2022

بہار کے کئی اضلاع میں بارش ، آندھی ، اولے گرے ،

بہار کے کئی اضلاع میں بارش ، آندھی ، اولے گرے ،

پٹنہ ،22مئی (اردو دنیا نیوز۷۲)۔ دارالحکومت پٹنہ سمیت بہار کے بیشتر اضلاع میں اتوار کے روز پری مانسون بارش ہوئی ہے۔ اس دوران تیز آندھی چلنے کے ساتھ اولے بھی گرے ہیں۔ کئی مقامات پر آسمانی بجلی بھی گرے ہیں۔ اس دوران کہیں درخت تو کہیں بجلی کے پول اکھڑ گئے۔ سیتامڑھی اور بتیا میں صبح سے تیز آندھی کے ساتھ بارش ہوئی ۔ اورنگ آباد کے کئی علاقوں میں بارش کے ساتھ اولے گرے ہیں۔ بہار میں دو تین دن کے لئے آندھی ۔ بارش کا الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ ہوا کی رفتار 30 سے 40 کیلو میٹر فی گھنٹے رہنے کا امکان ہے۔

ہفتہ کے روز 24 گھنٹوں کے دوران شمال مشرقی حصوں میں کئی مقامات پر اور شمال مغربی شمالی وسطی جنوب مشرقی حصے میں ایک یا دو مقامات پر ہلکی سے درمیانی بارش ہوئی ہے۔ پٹنہ میں بھی رات بھر گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش ہوئی۔ پٹنہ کے موسمیاتی مرکز کے سنجے کمار کا کہنا ہے کہ راجستھان سے آسام کی طرف ایک گرت گزر رہی ہے۔ اس لیے ریاست کے شمالی حصے میں موسلادھار بارش کا امکان ہے۔ بالخصوص سرحدی اضلاع میں مزید بارشیں ہوں گی۔ بہار میں اس وقت ہونے والی بارش پری مانسون ہے۔ مانسون کے اب بہار پہنچنے میں دو سے تین ہفتے کا انتظار ہو سکتا ہے۔

میری سحر کا مسئلہ اب بھی زیر غور ہےمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

میری سحر کا مسئلہ اب بھی زیر غور ہے
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
=====================================
اس وقت ہندوستان میں سماجی ، سیاسی اورملی خدمت کرنے والوںکے لئے مرکز تحقیق مسلمان ہیں، دشمنان اسلام مسلمانوں کو تہذیبی اعتبار سے ختم کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، وہ اندلس اور اسپین کی تاریخ پر غور کر رہے ہیں کہ وہاں مسلمان سینکڑوں سال کی حکومت کے بعد کس طرح نیست ونابود کئے گیے، کئی لوگ ، کئی ادارے اور تنظیمیں مسلمانوں کے مسلمہ عقائد اور پرسنل لا پر اعتراضات کرکے مسلمانوں کا درجۂ حرارت ناپنے کے لیے سر گرم ہیں، اس کے لیے انہوں نے مختلف محاذ کھول رکھے ہیں، کوئی ناموس رسالت پر حملہ کرکے مسلمانوںکو ہراساں کرنے میںلگا ہو اہے، کوئی سفر کے دوران بس وٹرین میں مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور اسے زد وکوب کرکے اس کے صبر کا امتحان لے رہا ہے، سیاسی حضرات کے یہاں بھی مسلمان ہی مرکز توجہ ہیں، کبھی ووٹ بینک کے طوران کا استعمال کرنے اور کبھی مختلف کمیشن کے ذریعہ ان کے احوال جاننے، ان کی پس ماندگی کو سمجھنے اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر ان کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے تگ ودو کی جارہی ہے۔ 
آپ کو یاد ہوگا کہ مرکزی حکومت نے ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنگا ناتھ مشرا کی قیادت میں ’’قومی کمیشن برائے مذہبی اور لسانی اقلیتں‘‘ قائم کیا تھا، تاکہ سماجی ، اقتصادی ، اور لسانی اقلیتوں کی نشان دہی کرکے  ان کے لئے رزرویشن کی تجویز پیش کی جا سکے ، اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ ۲۱؍ مئی ۲۰۰۷ء کو حکومت کو پیش کر دیا ، جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ۱۹۵۰ء کے شیڈ ولڈ کاسٹ آرڈر سے مذہب کی قید ہٹالی جائے تاکہ اس ، سی (SC) زمرے میں ہندو، بدھ اور سکھوں کے ساتھ مسلمانوں کی بھی شمولیت ہو سکے، اس کمیشن نے مسلم اقلیتوں کے لیے دس فی صد اور دیگر اقلیتوں کے لیے پانچ فی صد کی سفارش کی تھی ، کمیشن نے رزرویشن میں رخنہ پیدا ہونے کی صورت میں متبادل راستہ اختیار کرنے پر زور دیا تھا، اس کا کہنا تھا کہ او بی سی (OBC)کے لیے منڈل کمیشن نے 27فی صد رزرویشن کی بات کہی ہے، اس رزرویشن میں اقلتیں 27 فیصد کا 8.4فی صد ہیں ، اس لیے OBCکے تحت دیے جانے والے رزرویشن میںسے 8.4فیصدان کے لیے مختص کرنا چاہیے ، اس رپورٹ کے نفاذ کے لیے حکومت مجبور نہیں تھی،ا س لیے کہ اس نے اس کمیشن کو کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت نہیں بنا یا تھا، اس کمیشن نے  انکشاف کیا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے، بلکہ بہت سارے محکمے مسلمانوں سے خالی ہیںاوران میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے، اس رپورٹ کو صرف مغربی بنگال نے ریاستی طور پر نافذ کرنے کا اعلان کیا، لیکن کمیونسٹ حکومت کے تیس سالہ دور اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ کی گئی نا انصافی کے ازالے کی کوئی شکل نہیں بن سکی۔
۹؍ مارچ ۲۰۰۵ء کو یوپی اے کی سرکار نے ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعہ مسلمانوں کی سماجی اقتصادی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس راجندر سنگھ سچر کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی ، یہ من موہن سنگھ کا دور وزارت تھا ، کمیٹی نے اپنی رپورٹ ۱۷؍ نومبر ۲۰۰۶ء کو وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کیا اور انہوں نے ۳۰؍ نومبر کو پارلیامنٹ کے سامنے رکھا، اس رپورٹ کا بڑا چرچا رہا ، کمیٹی نے مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیکر اس سمت میں جس اقدام کی ضرورت پر زور دیا ، ان میں محروم طبقات خصوصا اقلیتوں کے لئے ’’یکساں مواقع کے حصول کا کمیشن‘‘ EQUAL OPRORTUNITY COMMISSIONکے قیام کی تجویز رکھی تھی ، کمیٹی کا خیال تھا عوامی اداروں میں اقلیتوں کی حصہ داری بڑھانے کے لیے نامزدگی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے،اس نے اپنی رپورٹ میںاس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ایک ایسا حد بندی کمیشن قائم کرنا چاہیے جو اس بات پر نگاہ رکھے کہ بڑی آبادی والے حلقوں کو (S.C)کے لئے رزرو نہ کیا جائے، کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ مدارس کے نظام کو ہائر سکنڈری کی تعلیم سے مربوط کیا جائے ، اور مدارس کی اسناد کو دفاع ، سول اور بینکنگ اداروں کے امتحانات کیلئے تسلیم کیا جائے۔
 اس کمیٹی نے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لے کر بتایا کہ پورے ملک میں خواندگی کی شرح 64.8فی صد ہے، جس میں ہندوؤں میں 65.1،مسلمانوں میں 59.1اس سی اس ٹی میں 52.8اور دیگر 70.8فی صد ہیں۔ مختلف سرکاری محکموں کی ملازمتوں کا جائزہ لے کر اس کمیٹی نے بتایا کہ مسلمان آئی اے اس میں 3.0، پولس دفاعی اور حفاظتی عملوں میں 4.0محکمہ تعلیم (ریاستی )میں 6.5پولس کانسٹیبل میں 6.4محکمۂ ٹرانسپورٹ میں 6.5آئی اف ای میں 1.8انڈین ریلویزمیں 4.5محکمہ داخلہ (ریاستی)میں7.3محکہ صحت میں 4.5 عدلیہ میں 7.8فیصدہیں، یعنی 8فیصد بھی نہیں ہیں۔ جبکہ مطالبہ دس فیصد کا ہوتا رہا ہے۔
سچر کمیٹی کی سفارشات پر جزوی عمل در آمد کے بعد پروفیسر امیتابھ کنڈو کی قیادت میں اگست ۲۰۱۳ء میں حکومت نے ایک نئی کمیٹی بنائی تاکہ مسلمانوں کی آبادی ، بے روزگاری، طرز زندگی ،معیار زندگی ، پس ماندگی ، اوقاف کی جائیداوں ، عام تعلیمی پالیسی اور صحت کی صورت حال کا جائزہ لیا جا سکے، کمیٹی نے ۲۰؍ ستمبر ۲۰۱۴ء کو اپنی رپوٹ سرکار کو سونپ دی ، جس میں سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں جو اقدامات کیے گیے، اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید اقدام کی ضرورت پر زور دیاگیا ،کمیٹی نے اپنی سفارشات میں لکھا ہے کہ جو اقدام مسلمانوں کے لیے کیے گیے وہ بھی ان تک براہ راست اور مؤثر انداز میں نہیں پہونچ سکے، ٹرینڈ افراد کی بحالی پر بھی توجہ نہیں دی گئی ، جن امور کی انجام دہی کے لیے سرکار مستعد تھی، اس کے لیے مسلمانوں کی طرف سے مطالبات کم آئے، اس لیے مقامی سطح پر اس ضمن میں کامیابی کا گراف بہت نیچے رہا، اس سلسلے میں مسلمانوں کو خود بھی جس طرح کی مستعدی دکھانی چاہیے تھی وہ دیکھنے میںنہیں آئی ۔ 
 ا س سلسلے میں مہاراشٹر کے لیے قائم محمود الرحمن کمیٹی کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے،جس میں مسلمانوں کو ہاؤسنگ پروجیکٹ ، تعلیمی اداروں اور سرکاری محکموں میں 8فیصد رزرویشن دینے، مسلمانوں کے کمزور طبقات کو OBCمیں مسلمان دلتوں کو شیڈولڈ کاسٹ کے زمرے میں شامل کرنے ،اقلیتی ترقیاتی محکموں کو مضبوط کرنے، ریاستی اقلیتی کمیشن کو بااختیار بنانے، وقف املاک کو ناجائز قبضوں سے آزاد کرانے،مسلمان طلبہ کے لیے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک وظائف کی شرطوں کو نرم کرنے، مسلم اکثریت والے علاقوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قائم کرنے اور اس سی ، اس ٹی کے طرز پر مسلمانوں کے تحفظ کے لئے قانون بنانے کی سفارش کی تھی،قانون توبنا نہیں مسلمانوں کی جان ومال عزت وآبروسے کھلواڑ کرنے کی روایت چل پڑی، آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں وخوف زدہ کیا جا رہا ہے، ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے ، مساجد بھی محفوظ نہیں ہیں، انہیں دوسرے درجہ کے شہری بنانے کے منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے ، تاریخ کو مسخ کرکے مسلم عہد حکومت کی تاریخی عمارتوں اور شہروں کے نام بدلنے کی ایک مہم چل رہی ہے ، تباہی وبربادی کی داستان طویل ہوتی جا رہی ہے ، ہمارے وزیر اعظم ان موضوعات پر زبان نہیں کھولتے، جس سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں، انہیں ’’من کی بات‘‘ سننے کی فرصت نہیں ہے ، وہ صرف ’’من کی بات‘‘ کہنا جانتے ہیں، جس طرح آمریت میں ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے یہاں کی جمہوریت دو آدمی کے گرد گھوم رہی ہے ، نہ کسی وزیر کی چلتی ہے اور نہ کسی اور کی، سب اپنی کرسی کو بچائے رکھنے کے لیے مودی مودی کے نعرے بلند کرنے میں لگے ہیں، ظاہر ہے، ان حالات میں صرف مسلمان ہی نہیں ملک کا مستقبل خطرے میں ہے، جمہوریت کی ساری بنیادیں منہدم ہو گئی ہیں، پندرہ سو قوانین میں ترمیم کی جا چکی ہے ، یکساں سول کو ڈ اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہیں، مسلمانوں کے حوالے سے ساری کمیٹیوں کی رپورٹیں سرد خانے میں چلی گئی ہیں، ہو سکتا ہے کمیٹیوں کی تشکیل آئندہ بھی ہو ۔کمیٹیاںبنتی رہیں گی ، کمیشن کے ذریعہ مرض کی تشخیص کرائی جائے گی ، لیکن اپنی حالت کے سدھارنے کا احساس جب تک خود مسلمانوں میں نہیں ہوگا۔ حقوق کی بازیافت کی جد وجہد کا حوصلہ نہیں ہوگا، صورت حال نہیں بدلے گی اور بقول شاعر یہ مسئلہ زیر غور ہی رہے گا۔ 
سارے جہاں کی شام غم صبح بہار اں بن گئی 
میری سحر کا مسئلہ اب بھی زیر غور ہے

بس اللہ ہی بچائے کاشی اور متھرا مساجد

بس اللہ ہی بچائے کاشی اور متھرا مساجدظفر آغا
پھر وہی مندر مسجد قضیہ، پھر وہی ہندو مسلم تکرار، کیونکہ راقم الحروف نے سن 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھولنے کے بعد سے سن 1992 میں بابری مسجد کے ڈھائے جانے تک پورے معاملات بطور ایک صحافی اتنے قریب سے دیکھے اور رپورٹ کئے کہ اب گیان واپی مسجد وارانسی اور متھرا عید گاہ کے سلسلہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ گویا ایک پرانی فلم پھر دیکھ رہے ہیں۔ جیسیایودھیا میں سب کچھ عدالتوں کے کاندھوں پر سوار ہو کر ہوا بے عین ہو وارانسی اور متھرا میں بھی سب کچھ عدالتوں کے ذریعے ہی ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے گیان واپی مسجد کے معاملہ میں وہی فیصلہ دیا ہے جو رام للا کے پرکٹ ہونے کے بعد ایودھیا کی عدالت نے دیا تھا۔ نماز جاری رہے گی لیکن جہاں پر شیو لنگ ملا ہے اس جگہ کو محفوظ رکھا جائے۔ بابری مسجد میں بھی سن 1960 کی دہائی تک نماز ہوتی رہی۔ پھر سن 1992 میں آخر مسجد شہید گئی۔ آخر میں سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملہ میں مسلم فریقین کی تقریباً تمام باتیں تسلیم کیں لیکن فیصلہ ہندو فریقین کے حق میں ہوا۔ عقلمند کے لئے اشارہ کافی!عدالتوں کے رویہ سے صاف ظاہر ہے کہ وارانسی اور متھرا مساجد کے معاملہ میں کیا ہوگا۔ سپریم کورٹ سپریم ہے اور سپریم رہے گا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ گیان واپی والے معاملہ میں سن 1990 کا جو قانون ہے کہ ایودھیا کے علاوہ 15 اگست 1947 کو ملک بھر کی عبادت گاہوں کی جو صورت حال ہے اس میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی، جو کچھ ہو رہا ہے اسے اس قانون کے تحت روکتا کیوں نہیں! عرض کیا نا کہ سپریم کورٹ سپریم ہے اور اس کے ہر فیصلہ کے آگے سر باصد احترام تسلیم خم ہے۔ لیکن ایودھیا کی طرح کاشی اور متھرا مساجد کا معاملہ بھی محض عقیدے سے نہیں بلکہ سیاست سے بھی گہرائی سے جڑا ہے۔ اس پس منظر میں اگر گیان واپی اور متھرا عید گاہ پر ہونے والے ہنگامہ پر نگاہ ڈالیں تو صاف ظاہر ہے کہ نریندر مودی سمیت پورا سنگھ پریوار سن 2024 میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ کاشی متھرا کے نام پر ہی لڑنے والے ہیں۔ یعنی نفرت کی ہانڈی کی آگ چناؤ تک تیز سے تیز ہوتی جائے گی۔ اس بار مودی جی اورنگزیب (مسلم فریق) کے خلاف شیو اجی (ہندو فریق) کا روپ لے کر کاشی اور متھرا کی مساجد کو مسلمانوں کے ہاتھو سے چھین کر ہندو عقائد کی برتری قائم کریں گے۔ بابر ی مسجدسے لے کر ابھی حالیہ یوپی اور دیگر ریاستوں میں ہونے والے چناؤ کے نتائج شاہد ہیں کہ بی جے پی کے لئے مندر مسجد کی حکمت عملی انتہائی کامیاب رہتی ہے۔ مودی جی سن 2024 میں پھر ایک بار ہندو ہردے سمراٹ کا روپ کیوں نہ لیں! الغرض یہ طے ہوگیا ہے کہ اگلا لوگ سبھا چناؤ بھی ہندو مسلم تکرار کی گونج میں ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ عام ہندو ملک کے معاشی بحران سے حیران و پریشان ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ بے روزگاری کا سیلاب چل رہا ہے۔ ہر کس و ناکس پریشان ہے۔ بی جے پی کو ایک ایسا ایشو درکار ہے جس کے چلتے رہنے سے عام ہندو اپنی معاشی پریشانی بھول کر مسلمان کو 'ٹھیک' کرنے کی فکر میں لگا رہے۔ کاشی اور متھرا مساجد کے معاملوں سے بڑھ کراور کونسا مسئلہ ہوسکتا ہے جو ہندو عوام کو دھرم کے نشے میں مست رکھے اور وہ اپنی پریشانیاں بھول کر آخر بی جے پی کو مندر کے نام پر ووٹ ڈال دے۔
اب اس صورتحال میں مسلم فریق کی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے! عدالتوں کے رویہ سے ظاہرہے کہ ان کا فیصلہ کیا ہو سکتا ہے۔ اب بچی بات سڑکوں کی تو بابری مسجد معاملے میں بابری ایکشن کمیٹی بڑے بڑے جلسے و جلوس کر کے دیکھ چکی ہے۔ یہ حکمت عملی بی جے پی کو مدد کرنے والی حکمت عملی ہے۔ اس سے ہندو ردعمل پیدا ہوتا ہے اور پھر فسادات کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔ آخر جو بی جے پی چاہتی ہے وہی ہوتا ہے، یعنی مسلمان عام ہندو کی نگاہ میں اس کا دشمن ہو جاتا ہے اور اس دشمن کو ہرانے کے لئے ہندو ووٹ بینک شدومد سے بی جے پی کی جھولی ووٹ سے بھر دیتا ہے۔ اس لئے یہ سمجھ لیجیے کہ جو مسلم لیڈریا تنظیم کاشی، متھرا کی سیاست اور بیان بازی شدت سے کر رہی ہے وہ یا تو نا سمجھ ہے یا پھر وہ بی جے پی کے اشارے پر ایسا کر رہی ہے۔ اب کیجیے تو کیجیے کیا، کچھ بھی ہو عدالت کا رخ ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن مسلم قائدین کے آئے دن پریس بیان، ٹی وی پر مسلم پارٹی کی جانب سے شرکت، سڑکوں پر جلسے جلوس ان تمام طریقوں سے بی جے پی کا ہی بھلا ہے۔ نہ تو خود ان چکروں میں پڑئیے اور نہ ایسا کرنے والوں کے بہکاوے میں آئیں۔ راقم یہ لکھتا رہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں ہندوستانی مسلمان کے پاس رسول کریمؐ کی مکّی دور کی صبر کی حکمت عملی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ صبر سے کام لیجیے، حالات انتہائی ناسازگار ہیں، کسی بھی قسم کا اشتعال یعنی بلڈوزر سے روندا جانا اور ہندو ردعمل کا شکار ہونا ہے۔ بابری مسجد تو گئی، اب اللہ ہی کاشی اور متھرا کی حفاظت کرسکتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے بس میں ان مساجد کا تحفط نہیں ہے، صبر اور صرف صبر سے کام لیجیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...