Powered By Blogger

پیر, دسمبر 18, 2023

تماشا میرے آگےڈاکٹر محمد توقیر عالم

تماشا میرے آگے
URDUDUNIYANEWS72 
ڈاکٹر محمد توقیر عالم 
 سابق صدر شعبہ اردو، بہار یونیورسیٹی، مظفر پور
 سابق پرووائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسیٹی، پٹنہ

========================================

میرے ہاتھوں میں اس وقت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم وہفتہ وار نقیب کے مدیر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مدظلہ کے مضامین کا مجموعہ ’’تماشہ میرے آگے‘‘ ہے ،یہ یقینا مفتی صاحب کا نہایت اہم علمی کارنامہ ہے، اس سے ان کے بلند قد وقامت کا بخوبی اندازہ بھی ہوتا ہے، مفتی صاحب اور ان کے اس کا رہائے گراں مایہ کی قدر کی جانی چاہیے کہ حضرت بھی وارث انبیاء میں سے ایک ہیں۔
 موجودہ وقت میں عام طور پر علماء کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا علم محدودہوتا ہے، ان کی سوچ سطحی ہوتی ہے، ان کی رائے نا قابل عمل ہوتی ہے، وہ کج فہم اور کوتاہ نظر ہوتے ہیں، ان کے اندر شعور وآگہی کا فقدان ہوتا ہے، سیاسی سوجھ بوجھ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ، ان کا کوئی وِژَن بھی نہیں ہوتا، اس طرح کی نہ جانے کتنی ہفوات وبکواس باتیں علماء کے بارے میں کہی جاتی ہیں، جسے میں علماء کی توہین اور ناقدری سمجھتا ہوں ۔ اس طرح کی ہفوات سے ہر ممکن اجتناب کی ضرورت ہے۔
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب سے میرے دیرینہ روابط رہے ہیں، وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، جید عالم دین کے ساتھ ساتھ عظیم اسکالر ، ادیب، صحافی اور بے باک قلم کار ہیں، ان کا قلم ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے، وہ بہت بے باکی کے ساتھ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، ان کی تحریریں نہ صرف دینی، بلکہ ادبی ، ثقافتی، لسانی، سماجی اور سیاسی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، ’’تماشہ میرے آگے‘‘ میں اسی طرح کے 130مضامین شامل ہیں،یہ مضامین امارت کے ترجمان ہفتہ وار ’’نقیب ‘‘ میں الگ الگ دنوں اور تاریخوں میں شائع ہو کر قارئین میں مقبول بھی ہو چکے ہیں، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے اپنی تحریروں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علماء کے بارے میں جو عام نظریات قائم ہیں، جن کا سرسری طور پر سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے، وہ سراسر بے بنیاد اور باطل ہیں، انہوں نے یہ ثابت بھی کیا ہے کہ علماء تحریری اور تقریری دونوں طرح کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں، ان میں وسعت نظری ہوتی ہے، وہ پل پل کے حالات وظروف سے واقف ہوتے ہیں، ان کی دور رس نگاہیں اپنے آس پاس جو کچھ مشاہدہ کرتی ہیں ان سے وہ اور متاثر ہوتے ہیں جو کچھ ان کے دلوں پر گزرتا ہے انہیں وہ الفاظ کا جامہ پہنا کر اخبارات ، رسائل وجرائد یا کتابوں کی شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیتے ہیں۔ گویا وہ فیض احمد فیض کے اس شعر پر یقین رکھتے ہیں:
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے  جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی نگاہ دور رس ہے اوروہ ملکی وقومی حالت سے بخوبی واقف رہتے ہیں، وہ اس بات سے بھی اچھی طرح آشنا ہیں کہ ہم جس عہد میں اپنی حیات مستعار کی سانسیں لے رہے ہیں وہ اگر چہ سیاسی ، سماجی، معاشی ، سائنسی، اور علمی میدان میں حد کمال پر پہنچ چکا ہے، مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس ترقی پذیر عہد میں بھی دنیا امن ومان کے مسئلے سے دو چار ہے، یہاں امن وامان بہت حد تک نا پید ہو چکا ہے اور بد امنی کا بھوت ہر چہار سو دندنارہا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ آج انسانی خون بہت ارزاں ہو چکا ہے، عوتوں کی عزتیں تار تار کی جا رہی ہیں،لوگوں کے مال وجائداد محفوظ نہیں ، مسلمان کو مذہبی، فکری یہاں تک کہ جانی ومالی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہندوستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں آج بھی رنگ ونسل ، ذات پات اور مذہب کے نام پر بد امنی پھیلائی جا رہی ہے، نیشنلزم، فاشزم، سوشلزم جیسے نظریات کے حاملین پائے جاتے ہیں، لیکن کسی کے بھی پاس عامۃ الناس کے بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے۔ لیگ آف نیشنلزم اور اقوام متحدہ کے نام سے ادارے قائم ہیں مگر ان کے پاس بھی امن وامان کا مسئلہ جوں کا توں بر قرار ہے، آج بھی ہر چہار جانب ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کا راج قائم ہے۔ مفتی صاحب کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ ہم جس دنیا میں اپنی حیات مستعار گزار رہے ہیں اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ وہ چونکہ عالم دین ہیں، اس لیے اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس فانی دنیا کو کھیل کود اور تماشے سے تعبیر کیا ہے۔ سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 64میں وارد ہے کہ دنیا کی یہ زندگانی محض کھیل تماشا ہے، البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ دنیا سے بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤ میں گرمیوں کی کوئی دو پہر گزارنے بیٹھ جائے وہ کوئی پل آرام کرے گا اورپھر اٹھ کر چل دے گا۔ ترمذی میں سہل بن عبد اللہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر برابر بھی وزن رکھتی تو کافر کو اس دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا، صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں بس اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی نے سمندر میں کیا کمی کی۔ تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا۔ مفتی صاحب عصری علوم سے بھی بہت حد تک واقف ہیں، وہ معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی مشہور غزل سے بھی آشنا ہیں، جس میں انہوں نے اس دنیا کو بچوں کے کھیل یا کھلونے سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے سامنے اس دنیا میں شبانہ روز کسی نہ کسی شکل میں تماشا ہوتا رہتا ہے۔انہوں نے اپنی کتاب کا نام غالب کے اس شعر سے مستعار لیا ہے:
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے  ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے 
 مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی عالمی مرتبت نگاہ میں بھی مرزا اسد اللہ خان غالب کی طرح اس دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہاں جو کچھ بھی ملکی ، قومی وبین الاقوامی سطح پر انجام پذیر ہورہا ہے انہیں وہ بھی غالب کی طرح محض تماشہ سمجھ رہے ہیں، جس کایہ مجموعہ بہترین مظہر ہے۔ میں اس کی اشاعت پر مفتی صاحب کو صمیم قلب سے مبارک باد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ رشحات ، تخلیقات ، تالیفات اور تصنیفات کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔

حالیہ انتخابی نتائج : منظر پس ِمنظر

حالیہ انتخابی نتائج : منظر پس ِمنظر
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
 پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایک ریاست چھتیس گڈھ اس کے ہاتھ سے نکل گئی لیکن تلنگانہ اس کے حصہ میں آگیا، راجستھان والوں نے ہر پانچ سال پر حکومت بدلنے کی اپنی روایت کو قائم رکھا اور اقتدار بھاجپا کے سپرد کر دیا، مدھیہ پردیش پہلے سے اس کے قبضہ میں تھا، حکومت بر قرار رہی، میزورم میں وہاں کی عوام نے کانگریس، بھاجپا دونوں کو مسترد کر دیا اور ایک نئی پارٹی زیڈ پی ایم (زورم پویپلز مومنٹ) کو مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار سونپ دیا، کانگریس کی ہار اس قدر ذلت آمیز ہے کہ تلنگانہ کی جیت بھی مات ہو کر رہ گئی اور فتح کا جشن بھی تین ریاستوں کی ہار میں دب کر رہ گیا، ایکزٹ پول اور سیاسی تجزیہ نگار مدھیہ پردیش اور چھتیس گڈھ میں کانگریس کو اقتدار کے قریب بتا رہے تھے، لیکن ای وی ایم سے جو’’ جن‘‘ نکلا اس نے سب کو چونکا کر رکھ دیا، بی اس پی سپریمو مایا وتی نے اس نتیجے کو عجیب وغریب اور پر اسرار کہا ہے اور اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرور ت پر زور دیا ہے، انہوں نے کہا کہ پورے انتخاب کے دوران پارٹیوں کے ما بین کانٹے کی ٹکر تھی، لیکن نتائج بالکل اس کے بر عکس آئے، کانگریس نے بصد ادب واحترام عوام کی رائے کے سامنے سر جھکا دیا اور جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیا اس کا شکریہ ادا کیا، اس کے علاوہ ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بچا ہی کیا تھا، وزیر اعلیٰ کا رسمی انتخاب بھی ہوگیاہے، کانگریس نے تلنگانہ میں پارٹی کے صدرریونت ریڈی کو وزیر اعلیٰ بنایا ہے، میزورم میں زیڈ پی ایم کے بانی ،سابق آئی پی اس اور سابق وزیر اعظم اندراگاندھی کی سیکوریٹی کے ذمہ دارلال دوہا ما بھی وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں،بھاجپا کو تینوں ریاستوں میں وزیر اعلیٰ کے کئی کئی دعویدار ہونے کی وجہ سے انتخاب میں تھوڑی دشواری ضروری ہوئی، خاص کر راجستھان اور مدھیہ پردیش میں پارٹی ہائی کمان کو جمنااسٹک کرنی پڑی، لیکن نریندر مودی ، امیت شاہ اور جے پی نڈا بغاوت کو دبانے میں کامیاب ہو گیے، اور اب چھتیس گڈھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب پارٹی ہائی کمان کی منشا کے مطابق ہو چکا ہے، راجستھان میں بھجن لال شرما ، چھتیس گڈھ میں وشنو دیو سہائے اور مدھیہ پردیش میں ڈاکٹر موہن یادو وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ان کے انتخاب میں بھاجپا نے ذات پر مبنی سیاست کا بھی خاص خیال رکھا ہے، راجستھان میں برہمن وزیر اعلیٰ کے ساتھ دونائب وزیر اعلیٰ راجپوت اور دلت نیز اسپیکر سندھی سماج سے بنایا ہے، مدھیہ پردیش میں یادو کو کرسی دے کر بہار اور اتر پردیش کے یادو وں کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہمارے یہاں تمہارے لیے بھی موقع ہے، چھتیس گڈھ میں بتیس (۳۲) فی صد آدی باسی ہیں اور وشنو دیو سہایے اسی زمرے سے آتے ہیں، تینوں نام چونکا نے والے ہیں، اور سب سے تعجب خیز راجستھان میں پہلی بار رکن اسمبلی بنے بھنجن لال شرما کا انتخاب ہے، جس سے بھاجپا نے اپنے نوجوان کارکنوں کو خاموش پیغا دیا ہے کہ میرے ساتھ لگے رہو، تمہارے لیے کرسی منتظر ہے۔
 راجستھان میں وجے راجے سندھیا اور مدھیہ پردیش کے شیو راج سنگھ چوہان، کو پارٹی نے حاشیہ پر ڈال دیا ہے، ان حضرات کی پارٹی توڑنے کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔یہ صحیح ہے کہ دونوں سابق وزراء اعلیٰ اپنی اپنی ریاستوں میںانتہاء مضبوط تھے، وجے راجے سندھیا دو بار راجستھان کی وزیر اعلیٰ رہیں، اور شیو راج سنگھ چوہان چار بار مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے، مگر بھاجپا کی اعلیٰ قیادت نے جب لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے لوگوں کو ’’مارگ درشک‘‘ منڈی میں ڈال دیا اور یہ لوگ چوں نہ کر سکے تو ان کے مقابل ان دونوں کی بساط ہی کیا تھی۔
 وزیر اعظم نریندر مودی نے اس جیت کو 2024 کے انتخاب میں فتح کا اشارہ اور ہیٹ ٹرک قرار دیا ہے، پارلیامنٹ کے باہر سرمائی اجلاس کے پہلے دن اخباروالوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ نو(9) سالوں میں حزب مخالف نے جو منفی ذہن بنایا ہے اس عادت کوان کو بدلنا چاہیے، اور شکست کا غصہ سدن میںنہیں نکالنا چاہیے، وزیر اعظم کا یہ کہنا ایک حد تک صحیح بھی ہے؛ لیکن پارلیامنٹ کو  یوپی اے کے دور اقتدار میں اس نہج پر کام کرنے کا طریقہ بھاجپا نے ہی سکھایاتھا، جو انہوں نے کانگریس کے دور اقتدار میں کیا، وہی حزب اختلاف والے پارلیامنٹ میں اب ان کی حکومت میں کر رہے ہیں، جیسی کرنی ویسی بھرنی، اب کس کی طاقت ہے کہ اس طریقہ کار کو بدلے، پارلیامنٹ میں حکمراں طبقہ ہمیشہ حزب مخالف کو دبانے میں لگا رہتا ہے، صحیح اور سچی باتیں بھی مان کر نہیں دیتا، اکثریت کے بَل پر بغیر بحث کے بِل کو قانون بنا لیتا ہے تو حزب مخالف کے پاس شور، ہنگامے، احتجاج، مظاہرہ کے علاوہ کرنے کو اور بچتا بھی کیا ہے۔
 جن تین ریاستوں میں کانگریس کی ہار ہوئی ہے، وہاں ووٹوں کے تناسب میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے،صرف مدھیہ پردیش میں فرق کچھ زیادہ ہے، بقیہ ریاستوں میں معمولی فرق سے بھاجپا کامیاب ہوئی ہے، الیکشن کمیشن کے ویب سائٹ کے مطابق چارریاستوں میں کانگریس کو بھاجپا سے ساڑھے نو لاکھ ووٹ زیادہ ملے، اس کے باوجود اسے ہار کا سامنا کرنا پڑا،اس کی ایک بڑی وجہ کانگریس کے تجربہ کار لیڈروں میں بر تری کی لڑائی رہی، راہل، پرینکا اور ملکا ارجن کھرگے، جی جان سے کانگریس کو فتح دلانے کے لیے بھاگ دوڑ کر تے رہے، لیکن کمل ناتھ، اشوک گہلوت، سچن پائلٹ، بھپیش بگھیل، ٹی ایس سنگھ دیو، اپنی اپنی ڈفلی بجاتے رہے۔
یہ ایک اچھی بات ہے کہ پارٹی نے سونیا گاندھی کی قیادت میں شکست کے اسباب وعلل کا تجزیہ شروع کر دیا ہے، ’’منتھن‘‘ کا یہ عمل چلتا رہے گا، لیکن ’’منتھن‘‘ تو ہزیمت کے اسباب کی تلاش کا نام ہے۔’’منتھن‘‘ علاج کا نام نہیں ہے،  جب کہ شکست کے اسباب کا جائزہ لے کر ان اسباب کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
 نتائج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کی جیت کے باوجود بھاجپا ایک(۱) سیٹ سے نو(۹) سیٹ پر پہونچ گئی ہے، یہاں کانگریس سے کوئی مسلم امید وار کامیاب نہیں ہوسکا، مشہور کرکٹر اور سابق کپتان اظہر الدین بھی اپنی سیٹ نہیں نکال سکے،اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی ہند میں بھی ہندتوا نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے ہیں، ایم آئی ایم کے علاوہ کسی پارٹی سے بھی کوئی مسلمان جیت کر نہیں آسکا ہے،کانگریس کے سبھی چھ مسلم امیدوار اپنی جیت درج نہیں کراسکے، اس کا نقصان یہ ہوا کہ تلنگانہ حکومت میں کوئی مسلم چہرہ وزارت اور کابینہ میںنہیں آسکا،مدھیہ پردیش میں بھی دو ہی مسلمان آسکے۔ مسلمانوں میں انتشار کی وجہ سے یہ نوبت آئی، مسلم قائدین کو اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے۔
انتخاب کے اس غیر متوقع نتیجہ کی وجہ سے عظیم اتحاد ’’انڈیا‘‘ کے مستقبل پر بھی سوالات کھڑے ہوگیے ہیں اس کو 6 دسمبر کی میٹنگ ملتوی کرنی پڑی ،نتیش بیمار پڑ گئے۔اکھلیش کو شرکت کے لیے فرصت نہیں تھی۔ممتا بنرجی کے رشتہ دار کی شادی تھی۔اب اگلی میٹنگ 17دسمبر کو ہونی ہے، لیکن پارٹیوں کے درمیان سرد مہری اس قدر ہے کہ مقابلہ کے پہلے ہی ’’انڈیا اتحاد‘‘ منتشر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس شکست کے بعد کانگریس کی ہیکری تھوڑی کم ہوئی ہے۔اب شایدوہ زیادہ سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا مطالبہ ترک کر کے آپسی تال میل بنانے میں کامیاب ہو جائے۔تبھی ’’انڈیا اتحاد‘‘ باقی رہ پائے گا،اگر ایسا ہوتا ہے تو2024میں پارلیمنٹ کا نقشہ بدل بھی سکتا ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کھیل اور سیاست کی دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...