Powered By Blogger

پیر, جنوری 22, 2024

منور رانا: آپ آسان سمجھتے ہیں منور ؔہونا

منور رانا:   آپ آسان سمجھتے ہیں منور ؔہوناUrduduniyanews72 
    ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ (9431003131)

4؍ جنوری 2024ء بروز اتوار بوقت 11:30بجے شب ، شعور وآگہی کے پیکر، حساس ذہنوں کے با مقصد ترجمان ،ماں کے تقدس کو لفظوں میں نیا آب وتاب دینے والے اور ہجرت کے کرب وبلا کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے والے اردو غزل ونظم کو نئی سمت اور جہت دینے والے ، عظیم شاعر ونثر نگار منور رانا نے اس دنیا سے منھ پھیر لیا ، وہ برسوں سے کینسر اور پھیپھڑے کے مرض میں مبتلا تھے، کورونانے انہیں مستقل مریض بنا دیا تھا، ان کا گردہ بھی متأثر تھا ، ڈائیلاسس پر زندگی گذر رہی تھی ،میدانتا ہوسپیٹل سے ایک ہفتہ قبل اس جی پی جی آئی سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنس لکھنؤ منتقل کیا گیا تھا، پس ماندگان میں پانچ بیٹیاں سمیہ رانا، فوزیہ رانا ، عرشی رانا، عروصہ رانا ، ہبہ رانا اور ایک بیٹا تبریز رانا ہیں،نماز جنازہ دوسرے دن سوموارکو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں بعد نماز ظہر ندوۃ کے ناظر عام مولانا جعفر حسنی ندوی نے پڑھائی، دوسری نماز جنازہ عیش باغ قبرستان کی بڑی مسجد میں امام مسجد حافظ عبد المتین کی اقتدا میں ادا کی گئی اور وصیت کے مطابق عیش باغ چمن قبرستان لکھنؤ میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں ندوۃ العلماء کے اساتذہ طلبہ شہر کے علماء اور ادبی شخصیات نے شرکت کی، مشہور شاعر نغمہ نگار اور راجیہ سبھا کے سابق رکن جاوید اختر بھی جنازہ میں پیش پیش تھے۔
 منور رانا بن انوار رانا بن سید صادق علی 26؍ نومبر 1952ء کو رائے بریلی میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ کا نام عائشہ اور اہلیہ کا نام راعنا خاتون تھا، ان کا تعلیمی سفر شعیب اسکول اور گورنمنٹ انٹر کالج رائے بریلی ہوتا ہوا لکھنؤکے سینٹ جانسن ہائی اسکول تک پہونچا ، یہیں انہوں نے لکھنؤ کی سشتہ اور سائشتہ زبان کا استعمال کرنا سیکھا، ان کے والد کلکتہ میں تجارت سے لگے ہوئے تھے، چنانچہ انہوں نے 1968ءء میں کلکتہ کا سفر کیا اور ملا محمد جان ہائر سکنڈری اسکول سے ہائر سکنڈری اور امیش چندرا کالج سے بی کام کی ڈگری حاصل کی۔
منور رانا نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے فلمی اداکاروں کے آواز کی نقالی شروع کی، شتروگھن سنہا کے ڈائیلاگ کی وہ اس طرح ہو بہو نقل اتارتے کہ لوگ انہیں ’’کلکتہ کا شتروگھن سنہا‘‘ کہنے لگے ، پھر انہوں نے مختلف قسم کے ثقافتی پروگرام میں جانا شروع کیا، وہ ناچ ، گانے، ڈی جے اور مشاعروں کی مجلسوں میں مختلف انداز میں اپنی حاضری درج کراتے ، کبھی نظامت کرکے، کبھی کسی اور کردار میں، انہوں نے 1971ء میں پہلا ڈرامہ ’’جے بنگلہ دیش‘‘ لکھا، اس کی ہدایت کاری بھی خود کی، یہ ڈرامہ کلکتہ کے ہومیوپیتھی کالج میں اسٹیج ہوا اور انعام کا مستحق قرار پایا،ا ٓغا حشر کاشمیری کے ڈرامہ ’’آنکھ کا نشہ‘‘ میں بینی پرشاد ورما کا مرکزی رول کیا، انہوں نے جوگندر کی ایک فلم گیتا اور قرآن کے لیے کہانی بھی لکھی، بد قسمتی سے یہ فلم نہیں بن سکی، جس نے ان کو فلمی دنیا سے شاعری کی طرف متوجہ کر دیا وہ کلکتہ کے مشہور شاعر پروفیسر اعزاز افضل کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہو گئے اور منور علی آتش کے نام سے شاعری کرنے لگے ، ان کی پہلی تخلیق سولہ سال کی عمر میں ملا محمدجان اسکول کے مجلہ میں دور طالب علمی میں چھپی تھی ، طویل وقفہ کے بعد 1972ء میں ان کی غزل ماہنامہ شہود کلکتہ میں چھپی، منور رانا نے بعد میں نازش پرتاب گڈھی اور راز الٰہ آبادی کی بھی شاگردی اختیار کی اور ان دونوں کے مشورے سے منور علی شاداں کے نام سے لکھنے لگے، پھر جب وہ والی آسی کے حلقۂ تلامذہ میں داخل ہوئے تو ان کے مشورہ سے اپنا تخلص 1977ء  میں بدل کر منور رانا کر دیا، رانا ان کا خاندانی لاحقہ بھی تھا، اس طرح آتش ، شاداں اور منور رانا تک کا ان کا سفر طے ہوا، وہ کلکتہ میں اپنے والد کے ٹرانسپورٹنگ کے کام سے معاش کے حصول کے ساتھ شاعر ی بھی کرتے رہے ، ان کی زندگی میں محبوباؤں اورمعشوقہ کا بھی گذر ہوا، لیکن جلد ہی وہ رومانیت سے لوٹ آئے اور عصری حسیت سے بھر پور شاعری کرنے لگے، مشاعروں میں ان کی پوچھ ہونے لگی اور ان کا معاوضہ بھی بڑھتا چلا گیا، انہوں نے ایک ایسے دور میں اردو مشاعروں میں اپنی پہچان بنا ئی جب گویے اور لہک لہک کر پڑھنے والے شاعر اور شاعرات کی پوچھ زیادہ تھی ، وہ تحت اللفظ پڑھا کرتے اور راحت اندوری کی طرح ایکٹنگ بھی نہیں کرتے تھے، اس کے باوجود ان کی شاعری کے رنگ وآہنگ ،الفاظ کے بر محل استعمال کی وجہ سے وہ مشاعروں کی جان آن، بان ، شان بن جاتے۔
انہوں نے اردو شاعری میں ’’ماں‘‘ کے کردار کو زندہ جاوید کر دیا، عظمت ، تقدس، اولاد سے بے پناہ محبت ، وارفتگی اور اس جیسے کئی اوصاف کو انہوں نے اس قدر مہارت ، چابک دستی اور نئے نئے زاویے سے بیان کیا کہ ان کی شاعری کی یہ شناخت بن گئی ، ملک وبیرون ملک ’’ماں‘‘ کے تئیں ان کے جذبے کو لوگ سنا کرتے اور سر دھنتے،انہوں نے پاکستان کے ایک مشاعرہ کے لیے ’’مہاجر نامہ‘‘ لکھا، اس میں ہجرت کے کرب اور محرومی کا ذکر اس انداز میں کیا کہ وہ جگ بیتی بن گئی، بعد میں انہوں نے اس کے اشعار میں اضافہ کرکے پانچ سو اشعار پر پوری کتاب بنا دیا، ان دونوں کتابوں نے ان کی مقبولیت کے گراف کو آسمان تک پہونچا دیا۔
ان کے علاوہ ان کا پہلا شعری مجموعہ نیم کا پھول(1993ء) میں منظر عام پر آیا، ان کے کئی مجموعے کہوظل الٰہی سے (2000ء)، منور رانا کی سو غزلیں (2000ء)، گھراکیلا ہوگا(2000ء)، جنگلی پھول (2008ء) ، نئے موسم کے پھول (2008ء) ، کترن میرے خوابوں کی (2010ء) طبع ہو کر مقبول ہوئے ، ان کے ہندی شعری مجموعے غزل گاؤں (1981ء) ، پیپل چھاؤں (1984ء) ، مورپاؤں (1987ء)، سب اس کے لیے (1989ء) ، نیم کے پھول  (1991ء)، بدن سرائے (1996ء) ، گھر اکیلا ہوگا (2000ء) ، ماں (2005ء) ، پھر کبیر (2007ء)، سفید جنگلی کبوتر( 2005ء)، چہرے یاد رہتے ہیں (2008ء)، ڈھلان سے اترتے ہوئے اور پھنک تال مختلف نثری اصناف میں ان کی تصنیفات ہیں، ان کی ادبی، شعری اور نثری خدمات کے اعتراف میں ایک درجن سے زائد اعزازات وایوارڈ مختلف ادارے اور تنظیموں کی طرف سے ملے، ادب کا بڑا ایوارڈ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی 2014ء میں ان کی جھولی میں آگرا تھا، لیکن بعض ملکی وملی مسائل میں حکومت سے اختلاف کی وجہ سے دوسرے بہت سارے مصنفین کی طرح انہوں نے اس ایوارڈ کو پھر سے حکومت کی جھولی میں ڈال دیا، کیوں کہ وہ نفرت کی سودا گری اور ماب لنچنگ کے واقعات سے انتہائی افسردہ ہو گیے تھے اور اعلان کر دیاتھا کہ میں کوئی سرکاری ایوارڈ قبول نہیں کروں گا، جس کی وجہ سے انہیں اور ان کی لڑکیوں پر بھی ابتلاء وآزمائش کی گھڑی آئی، لیکن وہ صبر وثبات کے ساتھ اس آزمائش سے نکلنے میں کامیاب ہو گیے، انہوں نے کہا 
اگر دنگائیوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا

تو پھر سن لے حکومت ہم تجھے نامرد کہتے ہیں
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
2017ء میں وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے ،جبڑے کا آپریشن بھی کرایا جرأت کے ساتھ اپنے مشاغل جاری رکھے، مشاعروں میں آنا جانا بھی رہا، بعد میں کورونا نے ان کے پھیپھڑے کو متأثر کر دیا، گردہ بھی ڈائیلاسس پر چلا گیا، وہ شوگر اور بلڈ پریشر کے بھی مریض تھے،اس طرح وہ مجموعۃ امراض بن گئے، عمرا کہتر سال کی ہو چکی تھی، امراض نے پیری میں جواں ہوکر دھیرے دھیرے انہیں قبر کی آغوش تک پہونچا دیا، منور رانا چلے گیے ، دوسرا منور رانا کا پیدا ہونا آسان نہیں ہے، انہوں نے خود ہی کہا تھا۔
بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا

آپ آساں سمجھتے ہیں منورؔ ہونا

 منور رانا کے بعض اشعار ضرب المثل بن گیے ہیں اور ہر پڑھے لکھے کی زبان پر ہیں، آپ بھی دیکھیے۔
تمہارے شہر میں سب میت کو کاندھا نہیں دیتے 

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دوکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
شاعری کچھ بھی رسوا نہیں ہونے دیتی

میں سیاست میں چلا جاؤں گا تو ننگا ہوجاؤں گا
جب تک ہے ڈور ہاتھ میں تب تک کا کھیل ہے 

دیکھی تو ہوں گی تم نے پتنگیں  کٹی ہوئی
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر 

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے 
روز وشب ہم کو بھی سمجھاتی ہے مٹی قبر کی 

خاک میں مل جائے گی تیری بھی ہستی ایک دن
شہرت ملی و اس نے بھی لہجہ بدل دیا

دولت نے کتنے لوگوں کا شجرہ بدل دیا

مولانا سید شاہ شرف عالم ندوی ؒ (یادوں کے چراغ)

مولانا سید شاہ شرف عالم ندوی ؒ (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

امارت شرعیہ کی مجلس شوری کے رکن، نامور عالم دین خانقاہ پیر دمڑ یا خلیفہ باغ بھاگلپور کے سجادہ نشین سید علی احمد شاہ شرف عالم ندوی بن سید شاہ فخر عالم (م 1976) بن شاہ فتح عالم عرف منظور حسن (م1929) بن اسعد اللہ (1902) بن عنایت حسن (م1882) کا نواسی سال (ہجری تاریخ کے اعتبار سے) کی عمر میں 25 ربیع الثانی 1426ھ مطابق 3 جون 2005  بروز جمعہ سات بجے وصال ہو گیا ”انا لِلّٰہِ وانا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ“ شاہ صاحب کی ولادت 28 مارچ 1962ء کو اپنی نانی ہال لکھنؤ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اور قرآن کریم کا حفظ اپنے وطن بھاگلپور میں ہی کیا، پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے، اور علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد سند فراغت پائی، قرآن کریم اچھا پڑھتے تھے، اس لیے 36 سال تک مسلسل رمضان میں خانقاہ کی مسجد میں قرآن کریم سنانے کی سعادت حاصل ہوئی اور امامت تو معذور ہونے کے پہلے تک کرتے رہے، 17مئی 1976 کو والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشیں مقرر ہوئے اور تا عمر اس اہم منصب کے علمی، فکری اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے میں لگے رہے، بھاگل پور فساد کے موقع پر آپ نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے یکجہتی کی فضا پیدا کرنے میں مؤثر رول ادا کیا، آپ سینٹرل وقف کونسل، اور سنی وقف بورڈ بہار کے بھی برسوں تک ممبر رہے، اور اوقاف کی جائداد کی حفاظت اور اس کو نفع بخش بنانے میں اپنی حصہ داری نبھائی۔
شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1984 میں ہوئی تھی۔ جب میرا پہلی بارخانقاہ جاناہوا، ان دنوں میں خانوادہ پیردمڑ یا پر کام کر رہا تھا، اور اس خانقاہ کے مورث اعلیٰ مخدوم شاہ ارشد الدین عرف سید شاہ دانشمند (م 945) کے مزار حسن پورہ سیوان اور سید احمد عرف پیرد مڑیا (م972) حاجی پور نیز کمال الدین میرسید زین العابدین پیر دمڑ یا ثانی (م1024) کے مزار سے ہوتا ہوا بھاگل پور پہنچا تھا۔ مقصد اس خانقاہ اور خانوادہ سے متعلق مخطوطات اور مطبوعات کا مطالعہ کرنا تھا، جس کا بڑا ذخیرہ حضرت شاہ صاحب کے کتب خانہ میں موجود تھا، حاضری نیاز مندانہ نہیں، طالب علمانہ تھی، اور ایک ایسے شخص کی تھی جو بساط علم و ادب پر نو وارد تھا، جس کا نہ کوئی کارنامہ تھا، اور نہ ہی شہرت، اس کے با وجود اس پہلی ملاقات میں ایک طالب علم پر جو شفقت انھوں نے فرمائی اور جس طرح علمی تعاون کیا، اس کے اثرات اب تک دل و دماغ پر مسلط ہیں، میں نے اس ملاقات میں ان کی متانت و سنجیدگی، مریدین و متوسلین کی تربیت، تزکیہ اور اصلاح کے لیے ان کی فکرمندی کو قریب سے دیکھا، اور کافی متاثر ہوا، مریدوں سے تحائف کے قبول کرنے کا مزاج بھی نہیں تھا، کوئی پیش کرتا تو فرماتے کسی ضرورت مند کو دے دو۔ یہ استغناء اس خانقاہ کی وراثت ہے، بتایا جاتا ہے کہ خانقاہ پیرد مٹر یا کا نام دمڑ یا اسی مناسبت سے ہے کہ یہ حضرات نذرانہ کی بڑی بڑی رقموں میں سے دل رکھنے کے لیے ایک دمڑی قبول کیا کرتے تھے، دولت کے جمع کرنے کا مزاج نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔
 دوسری ملاقات یتیم خانہ بھاگلپور کے جلسہ میں ہوئی، مولانا سید سلمان الحسینی صدر جمعیت شباب اسلام کی معیت میں یہ سفر ہوا تھا، خانقاہ ہی میں قیام رہا، ہر قسم کے آرام کا خیال خود بھی رکھا، اور اپنے صاحبزادہ مولانا شاہ حسن مانی کوبھی اس طرف متوجہ کرتے رہے، اس سفر میں مجھے جا گیر کی ان تمام دستاویزات کو دیکھنے کا موقع ملا، جو مغل بادشاہوں نے اس خانقاہ کی عظمت کے پیش نظر جاگیر کے وثیقہ کی شکل میں پیش کیا تھا، کئی سلاطین کے دستخط مجھے پہلی بار وہاں دیکھنے کو ملے، جائداد سے قطع نظر، خود ان قیمتی دستاویزات کی مالیت لاکھوں میں تھی، لیکن استغناء کا یہ عالم کہ ایک کپڑے کے ٹکڑے میں لپٹا ہوا رکھا ہے۔ کوئی اہتمام نہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے خانقاہ کی عظمت کا کوئی بیان ہوتاہے، جیسے یہ کوئی قابل ذکر چیز ہے ہی نہیں۔
امارت شرعیہ سے شاہ صاحب کا بڑا مضبوط اور گہرا رشتہ تھا آپ ہمیشہ اس کے کاموں میں معین و مددگار رہتے، یہی وجہ ہے کہ انتقال کی خبر آنے پراس وقت کے امیر شریعت مولانا سید نظام الدینؒ کے حکم اور اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ہدایت پر راقم الحروف (محمد ثناء الہدی قاسمی) اور مولا نا محمد سہیل اختر قاسمی موجودہ نائب قاضی امارت شرعیہ نے جنازہ میں شرکت کی، بعد نماز عشاء جنازہ کی نماز ہوئی، لوگوں کا جم غفیر تھا جو آخری دیدار، اور جنازہ کے لیے جمع تھا، خانقاہ کی مسجد کے صحن میں صفیں لگائی گئیں، مولانا شاہ حسن مانی ندوی کے حکم سے شاہ صاحب کے پوتے مولانا محمد حسن ندوی نے نماز جنازہ پڑھائی، اور نصف شب میں آفتاب علم وفن، سلوک و فضیلت و شرافت کو خانقاہ کے قبرستان میں مسجد سے متصل سپردخاک کر دیا گیا، اللہ رب العزت سے دعا ہے ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...