Powered By Blogger

منگل, فروری 22, 2022

ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی22 فروری( پریس ریلیز) ذیلی دفاتر کے جائزہ کے چودہویں اور آخری دن دھنباد پہونچنے پر اہم خطاب

ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
22 فروری( پریس ریلیز) ذیلی دفاتر کے جائزہ کے چودہویں اور آخری دن دھنباد پہونچنے پر اہم خطاب
حالات حاضرہ کے پیش نظر ہماری توجہات اور ترجیحات کی سمت کادرست ہونا ضروری ہے نسل کی ایمانی و فکری بے راہ روی پر حد درجہ تشویشناک رپورٹیں آرہی ہیں ایسے میں سب علماء و دانشوران اور عوام کو متحد ہوکر دینی بیداری پیدا کرنا اسلامی تشخص کو برقرار رکھنا مسلم سماج کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانا انتہائی ضروری ہے۔
ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم ذیلی دفاتر کے انچارج ملک کے مشہور و معروف عالم دین و کالم نگار حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب مدظلہ العالی نے عبد الجبار بڑی مسجد واسع پور دھنباد میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کلمہ کی بنیاد پر اتحاد تعلیم اور خدمت خلق  کے بارے میں فرمایا کہ یہ امارت شرعیہ کی ترجیحات میں شامل ہے، مفتی صاحب نے اجتماعیت اور اس کے تقاضوں پر سیر حاصل گفتگو فرمائ، مفتی صاحب ان دنوں امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ العالی کی ہدایت پر ذیلی دفاتر کے جائزہ اور وہاں کے ضروریات و تقاضوں کے تعلق سے سفر پر ہیں انہوں نے اس موقع سے امارت شرعیہ دھنباد میں جاری دینی مکتب کے طلبہ و طالبات سے قرآن مجید و اذکار مسنونہ سنکر ضروری مشورہ بھی دئے اور اسلامیہ ہائی اسکول مہلی ڈیہ کے پرنسپل و امارت شرعیہ ارباب حل و عقد کے رکن حضرت مولانا یوسف قاسمی صاحب کی دعوت پر اسکول کا جائزہ لے کر خوشی کا اظہار فرمایا اور جھارکھنڈ میں جاری امارت پبلک اسکول کے تعلق سے ضروری مشورے کئے۔
حضرت مفتی صاحب نے آئندہ نسلوں کی آب یاری و ذمہ داریوں کی جانب توجہ مبذول کرنے کا مشورہ بھی دیا آپ نے فرمایا کہ سکنڈ لائن کی تیاری ضروری ہے، انہوں نے فرمایا کہ قحط الرجال کی بات کرنا صحیح نہیں ہے ہمارے پاس قابل افراد ہیں جن کی تربیت کرکے سکنڈ لائن تیار کی جا سکتی ہے، لیکن اس طرف ہماری توجہ نہیں ہے، ضرورت سکنڈ لائن اور دوسری صف کی تیاری کی ہے کیوں کہ یہی ہمارے بعد ہمارے مشن تحریکات اداروں کو حیات نو بخشنے کا کام کریں گے، چودہ دن کے طویل اور تھکا رہنے والے دورے آج مفتی صاحب پٹنہ کے لئے روانہ ہوگئے، قاضی محمد شاہد قاسمی،مولانا محمد شمیم اختر،نورالاسلام ،مولانا افروز ندوی وغیرہ نے انہیں الوداع کہا،یہ اطلاع مولانا محمد شمیم اختر استاذ مکتب امارت شرعیہ دھنباد نے دی ہے۔

نوجوان علماء دیوبند کی تصوف سے دوری*

*نوجوان علماء دیوبند کی تصوف سے دوری*

تصوف ہمارے اکابرین کا منہج و مشرب رہا ہے اکابرین دیوبند فقیہ ہوں محدث ہوں مفسر ہوں یا مورخ ہوں یا پھر کسی تحریکی و حربی تنظیم سے وابستہ رہے ہوں یا انکا کام دعوتی و سیاسی میدان میں ہو، کلام کے ماہرین سے مناظرے و مکالمے کے اساتذہ تک، میدان عمل سے علم کے دائروں تک، صحافتی حلقوں سے حکومتی مسانید تک ہر ہر دائرے سے تعلق رکھنے حضرات کا تعلق کسی نہ کسی درجے میں تصوف کے میدان سے رہا ہے، آپ کسی بھی عالم دیوبند کی سوانح دیکھیے چاہے وہ ندوی (ندوی سلفیہ کے علاوہ) ہو یا سہارنپوری ہو خالص دیوبند مدرسے کا فارغ ہو یا حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتا ہو یا پھر پاکستان میں لب ساحل دار العلوم کراچی سے پہاڑوں کے سائے میں بنے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تک ہر ہر جگہ آپ کو قادری ، چشتی ، ، سہروردی ، نقشبندی سلسلے کے انوارات دکھائی دیں گے۔
مگر افسوس کہ آج کا نوجوان عالم دیوبند معرفت کے ان راستوں سے بیگانہ دکھائی دیتا ہے، اس کے ذہن میں تصوف کے حوالے سے بے شمار اشکالات پیدا ہو چکے ہیں اور وہ قلبی اعتبار سے کسی نہ کسی درجے میں دور جدید کی مادی فکر کے مذہبی رخ سے متاثر ہے یعنی اس کے اندر تحریکیت کا اس درجہ غلبہ ہو چکا ہے کہ اس کی نگاہ قلبی دائروں سے ہٹ گئی ہے۔
آج کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مدارس کے نوجوان فاضل کہیں پر کسی ڈسکورس سے متاثر ہیں تو کہیں ان پر ادیب و صحافی بننے کا غلبہ ہے اور وہ اپنے پاک و صاف اموال میں سے اس کے نام پر ہونے والے کورسز میں بیت سا پیسہ جھونک چکے ہیں اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا نوجوان عالم کرپٹو کی وادیوں میں سرگرداں ہے مگر نفی اثبات کی ضربیں اسے بوجھ لگتی ہیں، آج کہ جب ہم ووٹ کی جمہوری غلام گردشوں میں چکراتے ہوئے اسلامی فیمینزم کی بنیاد رکھ رہے ہیں ، مگر افسوس! کہ ہمیں بیعت کے عنوان سے ہی چڑ محسوس ہونے لگی ہے آج کہ جب ہم پر ایک خاص توحیدی منہج فکر کا غلبہ ہے تو ہمیں اپنے اکابر کے تصوف میں شرک کی آمیزش دکھائی دیتی ہے۔
آج ہمارے پاس بے شمار تاویلیں ہیں بہت سی علمی دلیلیں ہیں مگر کیا کیجئے کہ آج ہی کے دور میں گمرہی کے مگر مچھ اپنے جبڑے کھولے ہمارے جسد ملی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے نگل جانے کے درپے ہیں۔
آج کہ جب روحانیت ہمیں عجوبہ دکھائی دیتی ہے آج کہ جب ہمارا اعتماد کرامت کے نام سے ہی اٹھ چکا ہے (یاد رہے کرامت تصوف کا نہیں کلام کا مسئلہ ہے) آج کہ جب ہمارا ربط دل کی دنیا سے ٹوٹ چکا ہے آج کہ جب ہم چائے خانوں اور ادبی چوپالوں میں بیٹھنے کو معراج سمجھ بیٹھے ہیں اور خانقاہوں سے ہمیں چڑ محسوس ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ، ہے! کوئی غزالی کہ جو تہافت الفلاسفہ کے مباحث سے نکل کر کیمیائے سعادت کے عالم معرفت تک چلا آئے، کیا آج ہمیں مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ہمعات کی ضرورت نہیں۔
آج کہ جب تشکیک کے سیاہ بادل نا صرف جدید جامعات بلکہ قدیم مدارس کے اوپر بھی برسنے کو تیار ہیں تو کیا ہمیں کسی پیر طریقت کے دامن سے وابستہ ہو جانے کی ضرورت نہیں۔
ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہت سوں نے پیری مریدی کے نام پر اپنی اپنی دوکانیں کھول رکھی ہیں لیکن کیا دین کے ہر ہر شعبے میں ایسی دوکانیں موجود نہیں ؟ تو پھر خاص تصوف سے ہی بعد کیوں اور افسوس تو اس سانحے پر ہے کہ یہ بعد خالص مخالف و مغائرت کے درجے میں آ چکا ہے۔
تو آج کے نوجوان عالم دیوبند کو یہ بھولا ہو سبق یاد کرانا ہوگا۔
جس طرح ہماری علمی سند ہمارے اکابرین سے نبی کریم ﷺ تک بواسطہ سلف متصل ہے ایسے ہی ہماری روحانی سند ہمارے اکابرین سے نبی کریمﷺ تک بواسطہ مشائخ متصل ہے۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں 
ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس وتصفیۃ الاخلاق وتعمیر الظاہر والباطن۔
یعنی وہ علم جس سے تزکیہ نفوس اور تصفیہ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر کے احوال پہچانے جاتے ہیں۔
(سلوک کامل ص7)

ذیل میں اکابرین دیوبند کے سلسلہ روحانی کی ایک سند بواسطہ حضرت مدنیؒ پیش کررہا ہوں ملاحظہ کیجیے اور اپنے اکابرین کے منہج فکر کا ادراک کیجیے۔

حضرات اکابر دیوبند حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانارشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ سلوک و تصوف میں سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بیعت تھے اور ان حضرات کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ حضرت حاجی صاحب کا چشتی سلسلہ حسب ذیل ہے:

(۱)۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ۔
(۲)۔ الشیخ نور محمد جھنجھانوی رحمة اللہ علیہ۔
(۳)۔الشاہ عبد الرحیم شہید رحمة اللہ علیہ۔
(۴)۔الشیخ عبد الباری امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
(۵)۔الشیخ عبد الہادی امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
 (۶)۔الشیخ عضد الدین امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
(۷)۔الشیخ محمد مکی رحمة اللہ علیہ۔
(۸)۔الشیخ الشاہ محمدی رحمة اللہ علیہ۔
(۹)۔الشیخ محب اللہ الہ آبادی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۰)۔الشیخ ابو سعید گنگوہی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۱)۔الشیخ نظام الدین البلخی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۲)۔جلال الدین تھانیسری رحمة اللہ علیہ۔
(۱۳)۔الشیخ عبد القدوس گنگوہی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۴)۔الشیخ محمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۵)۔الشیخ احمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۶)۔الشیخ عبد الحق ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۷)۔الشیخ جلال الدین پانی پتی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۸)۔الشیخ شمس الدین الترک پانی پتی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۹)۔الشیخ علاء الدین صابر کلیری رحمة اللہ علیہ۔
(۲۰)۔الشیخ فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ۔
(۲۱)۔الشیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۲)۔شیخ المشائخ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۳)۔الشیخ عثمان الہارونی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۴)۔السید الشریف الزندانی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۵)۔الشیخ مودود الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۶)۔الشیخ ابو یوسف الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۷)۔الشیخ ابو محمد الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۸)۔الشیخ احمد الابدال الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۹)۔الشیخ ابو اسحاق الشامی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۰)۔الشیخ ممشاد علوی الدینوری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۱)۔الشیخ ابو ہبیرة البصری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۲)۔الشیخ حذیفہ المرعشی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۳)۔الشیخ ابراہیم بن ادہم البلخی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۴)۔الشیخ فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ۔
(۳۵)۔الشیخ عبد الواحد بن زید رحمة اللہ علیہ۔
(۳۶)۔الشیخ حسن البصری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۷)۔سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔
(۳۸)۔سیدنا و رسولنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

(سلاسل طیبہ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ)

حسیب احمد حسیب

رجب سے متعلق احادیثمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

رجب سے متعلق احادیث
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
رجب کا مہینہ آگیا ، شعبان اور پھر نیکیوں کا موسم بہار رمضان المبارک ، تین مہینے مسلسل ، رجب میں معراج ، شعبان میں شب برأت اور رمضان، ہر پل ہر لمحہ رحمت پرور دگار، کوئی اندازہ لگا سکتا ہے ا للہ کے جو دو عطا کا، اسی لیے بزرگوں سے منقول ہے کہ رجب سے ہی یہ دعا شروع کر دی جائے کہ اے اللہ ہمارے لیے رجب وشعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان المبارک تک ہمیں پہونچا دے؛ تاکہ ہم اس کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہو سکیں اور نیک اعمال کے ذریعہ بخشش کا سامان کر سکیں ، بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ رجب آتے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگنا شروع کر دیتے تھے، ایک زمانہ تک احقر بھی اسے حدیث ہی سمجھتا رہا اور اللہ معاف کرے مختلف موقعوںسے تقریروں وتحریروں میں نقل بھی کرتا رہا ، لیکن جب چند سال قبل رمضان میں قطر حکومت کی دعوت پر ’’احوال السلف فی رمضان ‘‘ پر خطاب کے لیے وہاں پہونچااس سلسلہ کا ایک پروگرام’’فنار‘‘ کے آڈیٹوریم میں تھا ، میں نے اپنی گفتگو کا آغازاسی حوالہ سے کیا اور پورے اعتماد سے کیا ، کیوں کہ بعض بڑوں کی تحریروں میں اس دعا کی نسبت آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا ، تقریر ختم ہوئی، افطار ونماز مغرب سے فراغت کے بعد باہر نکل رہا تھا کہ ایک شخص نے چلتے چلتے کان میں کہا کہ شیخ! یہ دعا بڑی پیاری ہے، لیکن نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح نہیں ہے، چونکا ضرور ، مگر حیرت اس لیے نہیں ہوئی کہ ایسی بہت سی روایتیں حدیث کے طور پر زبان زد ہیں، لیکن ان کی کوئی بنیاد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ہے ، میں نے فورا ہی مولانا رحمت اللہ ندوی جو بڑے عالم ہیں اور قطر ہی میں مقیم ہیں سے اس کا تذکرہ کیا، دس منٹ نہیں گذرے تھے کہ انہوں نے وھاٹس ایپ پر پوری تخریج بھیج دی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلے کی وعیدیں ذہن میں آئیں کہ جس نے میری طرف قصدا جھوٹی بات منسوب کی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، خوف طاری ہوا، پھر’’ متعمداً  ‘‘یعنی قصداًکی قید دیکھ کر اطمینان ہو اکہ میرا شمار ان میں نہیںہے، اس لیے کہ میرا یہ عمل قصداً نہیں تھا ، مولانا رحمت اللہ ندوی حفظہ اللہ نے جو بھیجا تھا وہ تو اب محفوظ نہیں ، لیکن مطالعہ سے جو بات واضح ہوئی ،ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت کے ایک روای زائدہ بن ابی الرقاد ہیں، جنہیں تہذیب التہذیب میں (۳۰۵،۳۰۴) حافظ نے اور التاریخ الکبیر (۳؍ ۳۳۳ حدیث ۱۳۳۵) میں منکر الحدیث لکھا ہے، اس حدیث کے ایک راوی زیاد النمیری کو میزان الاعتدال (۲؍ ۹۱) میں ضعیف قرار دیا ہے ، یہی قول مجمع الزوائد (۱۰؍ ۳۸۸) میں جمہور محدثین کا نقل کیا ہے ، علامہ نووی نے الاذکار( ص ۱۸۹) ابن رجب نے لطائف المعارف (ص ۱۲۱) اور علامہ البانی نے ضعیف الجامع (۴۳۹۵) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے، البتہ دعا کے الفاظ جو ہیں ان کے ذریعہ دعا مانگنے میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے،کیوں کہ دعا اللہ سے مانگی جا رہی ہے، اور برکت طلب کی جا رہی ہے، ان میں کچھ بھی ممنوع نہیں، بلکہ مطلوب ہے، فنی اعتبار سے حدیث میں ضعف راوی کی وجہ سے آیاہے ، میرے مطالعہ میں کسی نے اس روایت کو موضوع نہیں قرار دیا ہے ۔ رجب کے سلسلے میں دو اور احادیث کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، یہ روایتیں بھی مشہور ومعروف ہیں۔ایک روایت تو وہ ہے جس میں ان پانچ راتوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جن میں دعا رد نہیں ہوتی ، ان میں ایک رات رجب کی پہلی رات مذکور ہے ، یہ روایت ابن عساکر کی تاریخ دمشق (۱۰؍ ۴۰۸) میں موجود ہے ، اس روایت میں ایک راوی ابو سعید بندار بن عمر الرویانی ہیں، ابن عساکر نے عبد العزیز النخشبی کا قول نقل کیا ہے کہ بندار سے روایت نہ سنو، اس لیے کہ وہ کذاب ہے، اس روایت کے راوی ابو قعنب مجہول ہیں اور ایک راوی عبد القدوس کے حالات بھی پردہ خفا میں ہیں۔
 ایک دوسری روایت بیہقی نے شعب ا لایمان میں ذکر کیا ہے کہ ماہ رجب میں ایک دن اور ایک رات ایسی ہے، جس میں اگر کوئی روزہ رکھے اور رات کو عبادت کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے سو سال کے روزے رکھے اور سو سال قیام اللیل کیا ، یہ رجب کی ستائیس تاریخ ہے ، یہ روایت اس کے راوی بیاض اور اس کے بیٹا خالد کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے،اس سلسلے کی تفصیلات تہذیب الکمال (۷؍ ۳۳۷) تاریخ کبیر (۸؍۱۳۳) الجرح والتعدیل (۹؍ ۱۳۸) میزان الاعتدال (۳؍ ۲۴۰) لسان المیزان (۹؍ ۲۴۲) اور تقریب التہذیب (۲؍ ۳۳۱) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...