*نوجوان علماء دیوبند کی تصوف سے دوری*
تصوف ہمارے اکابرین کا منہج و مشرب رہا ہے اکابرین دیوبند فقیہ ہوں محدث ہوں مفسر ہوں یا مورخ ہوں یا پھر کسی تحریکی و حربی تنظیم سے وابستہ رہے ہوں یا انکا کام دعوتی و سیاسی میدان میں ہو، کلام کے ماہرین سے مناظرے و مکالمے کے اساتذہ تک، میدان عمل سے علم کے دائروں تک، صحافتی حلقوں سے حکومتی مسانید تک ہر ہر دائرے سے تعلق رکھنے حضرات کا تعلق کسی نہ کسی درجے میں تصوف کے میدان سے رہا ہے، آپ کسی بھی عالم دیوبند کی سوانح دیکھیے چاہے وہ ندوی (ندوی سلفیہ کے علاوہ) ہو یا سہارنپوری ہو خالص دیوبند مدرسے کا فارغ ہو یا حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتا ہو یا پھر پاکستان میں لب ساحل دار العلوم کراچی سے پہاڑوں کے سائے میں بنے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تک ہر ہر جگہ آپ کو قادری ، چشتی ، ، سہروردی ، نقشبندی سلسلے کے انوارات دکھائی دیں گے۔
مگر افسوس کہ آج کا نوجوان عالم دیوبند معرفت کے ان راستوں سے بیگانہ دکھائی دیتا ہے، اس کے ذہن میں تصوف کے حوالے سے بے شمار اشکالات پیدا ہو چکے ہیں اور وہ قلبی اعتبار سے کسی نہ کسی درجے میں دور جدید کی مادی فکر کے مذہبی رخ سے متاثر ہے یعنی اس کے اندر تحریکیت کا اس درجہ غلبہ ہو چکا ہے کہ اس کی نگاہ قلبی دائروں سے ہٹ گئی ہے۔
آج کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مدارس کے نوجوان فاضل کہیں پر کسی ڈسکورس سے متاثر ہیں تو کہیں ان پر ادیب و صحافی بننے کا غلبہ ہے اور وہ اپنے پاک و صاف اموال میں سے اس کے نام پر ہونے والے کورسز میں بیت سا پیسہ جھونک چکے ہیں اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا نوجوان عالم کرپٹو کی وادیوں میں سرگرداں ہے مگر نفی اثبات کی ضربیں اسے بوجھ لگتی ہیں، آج کہ جب ہم ووٹ کی جمہوری غلام گردشوں میں چکراتے ہوئے اسلامی فیمینزم کی بنیاد رکھ رہے ہیں ، مگر افسوس! کہ ہمیں بیعت کے عنوان سے ہی چڑ محسوس ہونے لگی ہے آج کہ جب ہم پر ایک خاص توحیدی منہج فکر کا غلبہ ہے تو ہمیں اپنے اکابر کے تصوف میں شرک کی آمیزش دکھائی دیتی ہے۔
آج ہمارے پاس بے شمار تاویلیں ہیں بہت سی علمی دلیلیں ہیں مگر کیا کیجئے کہ آج ہی کے دور میں گمرہی کے مگر مچھ اپنے جبڑے کھولے ہمارے جسد ملی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے نگل جانے کے درپے ہیں۔
آج کہ جب روحانیت ہمیں عجوبہ دکھائی دیتی ہے آج کہ جب ہمارا اعتماد کرامت کے نام سے ہی اٹھ چکا ہے (یاد رہے کرامت تصوف کا نہیں کلام کا مسئلہ ہے) آج کہ جب ہمارا ربط دل کی دنیا سے ٹوٹ چکا ہے آج کہ جب ہم چائے خانوں اور ادبی چوپالوں میں بیٹھنے کو معراج سمجھ بیٹھے ہیں اور خانقاہوں سے ہمیں چڑ محسوس ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ، ہے! کوئی غزالی کہ جو تہافت الفلاسفہ کے مباحث سے نکل کر کیمیائے سعادت کے عالم معرفت تک چلا آئے، کیا آج ہمیں مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ہمعات کی ضرورت نہیں۔
آج کہ جب تشکیک کے سیاہ بادل نا صرف جدید جامعات بلکہ قدیم مدارس کے اوپر بھی برسنے کو تیار ہیں تو کیا ہمیں کسی پیر طریقت کے دامن سے وابستہ ہو جانے کی ضرورت نہیں۔
ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہت سوں نے پیری مریدی کے نام پر اپنی اپنی دوکانیں کھول رکھی ہیں لیکن کیا دین کے ہر ہر شعبے میں ایسی دوکانیں موجود نہیں ؟ تو پھر خاص تصوف سے ہی بعد کیوں اور افسوس تو اس سانحے پر ہے کہ یہ بعد خالص مخالف و مغائرت کے درجے میں آ چکا ہے۔
تو آج کے نوجوان عالم دیوبند کو یہ بھولا ہو سبق یاد کرانا ہوگا۔
جس طرح ہماری علمی سند ہمارے اکابرین سے نبی کریم ﷺ تک بواسطہ سلف متصل ہے ایسے ہی ہماری روحانی سند ہمارے اکابرین سے نبی کریمﷺ تک بواسطہ مشائخ متصل ہے۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں
ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس وتصفیۃ الاخلاق وتعمیر الظاہر والباطن۔
یعنی وہ علم جس سے تزکیہ نفوس اور تصفیہ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر کے احوال پہچانے جاتے ہیں۔
(سلوک کامل ص7)
ذیل میں اکابرین دیوبند کے سلسلہ روحانی کی ایک سند بواسطہ حضرت مدنیؒ پیش کررہا ہوں ملاحظہ کیجیے اور اپنے اکابرین کے منہج فکر کا ادراک کیجیے۔
حضرات اکابر دیوبند حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانارشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ سلوک و تصوف میں سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بیعت تھے اور ان حضرات کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ حضرت حاجی صاحب کا چشتی سلسلہ حسب ذیل ہے:
(۱)۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ۔
(۲)۔ الشیخ نور محمد جھنجھانوی رحمة اللہ علیہ۔
(۳)۔الشاہ عبد الرحیم شہید رحمة اللہ علیہ۔
(۴)۔الشیخ عبد الباری امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
(۵)۔الشیخ عبد الہادی امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
(۶)۔الشیخ عضد الدین امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
(۷)۔الشیخ محمد مکی رحمة اللہ علیہ۔
(۸)۔الشیخ الشاہ محمدی رحمة اللہ علیہ۔
(۹)۔الشیخ محب اللہ الہ آبادی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۰)۔الشیخ ابو سعید گنگوہی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۱)۔الشیخ نظام الدین البلخی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۲)۔جلال الدین تھانیسری رحمة اللہ علیہ۔
(۱۳)۔الشیخ عبد القدوس گنگوہی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۴)۔الشیخ محمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۵)۔الشیخ احمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۶)۔الشیخ عبد الحق ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۷)۔الشیخ جلال الدین پانی پتی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۸)۔الشیخ شمس الدین الترک پانی پتی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۹)۔الشیخ علاء الدین صابر کلیری رحمة اللہ علیہ۔
(۲۰)۔الشیخ فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ۔
(۲۱)۔الشیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۲)۔شیخ المشائخ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۳)۔الشیخ عثمان الہارونی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۴)۔السید الشریف الزندانی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۵)۔الشیخ مودود الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۶)۔الشیخ ابو یوسف الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۷)۔الشیخ ابو محمد الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۸)۔الشیخ احمد الابدال الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۹)۔الشیخ ابو اسحاق الشامی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۰)۔الشیخ ممشاد علوی الدینوری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۱)۔الشیخ ابو ہبیرة البصری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۲)۔الشیخ حذیفہ المرعشی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۳)۔الشیخ ابراہیم بن ادہم البلخی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۴)۔الشیخ فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ۔
(۳۵)۔الشیخ عبد الواحد بن زید رحمة اللہ علیہ۔
(۳۶)۔الشیخ حسن البصری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۷)۔سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔
(۳۸)۔سیدنا و رسولنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
(سلاسل طیبہ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ)
حسیب احمد حسیب