Powered By Blogger

پیر, مئی 22, 2023

حج وعمرہ کے فضائل و اصلاحات

حج وعمرہ کے فضائل و اصلاحات 
اردودنیانیوز۷۲
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

حج اسلام کا چوتھا رکن ہے اور ہر صاحب استطاعت پر حج فرض ہے یہ کوئی ایسی اختیاری عبادت نہیں ہے کہ جو چاہے  کرلے اور جو چاہے نہ کرے بلکہ جو شخص سفر اور رہائش وغیرہ کے اخراجات برداشت کر سکتا ہو اس پر حج کرنا لازم ہے اسلام کی تکمیل کا اعلان حجۃ الوداع کے موقع پر ہوا اور حج ہی سے ارکان اسلام کی تکمیل ہوتی ہے احادیثِ مبارکہ میں حج وعمرہ کے فضائل بہت کثرت سے ارشاد فرمائے گئے ہیں 
جب خانۂ خدا وند ی جلیل القدر پیغمبر ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے ہاتھوں بن کر تیار ہوگیا تو خلیل خدا کو حکم ہوا (  اذن فی الناس بالحج )  لوگوں میں حج کی منادی کردو آپ نے عرض کی کہ خدایا یہاں ہے کون میں کسے پکاروں کون میری آواز سنے گا جناب باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تم پکارو میں تمہاری آواز زمین و آسمان تک پہنچا دوں گا چنانچہ آپ نے مقام ابراہیم پر چڑھ کر آواز دی ۔ لوگو تمہارے رب نے ایک گھر بنایا اور تم پر اس کا حج فرض کیا تم اپنے رب کی دعوت قبول کرو ۔ تمام درخت اور پتھر نزدیک دور کی کل چیزیں اور جن جن کی قسمت میں حج لکھا ہوا تھا وہ سب اور تمام تر و خشک چیز یں جو اب میں پکار اٹھیں ( لبیک اللہم لبیک )
فضائل حج کے متعلق نبی کریم ﷺ کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں ۔
(1)  جس شخص نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا پھر اس میں نہ کوئی فحش بات کی اور نہ نافرمانی کی وہ ایسا پاک صاف ہو کر آتا ہے جیسا ولادت کے دن تھا
(2) نبی کریم ﷺ  سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔ عرض کیا گیا اس کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔  عرض کیا گیا اس کے بعد فرمایا حج مبرور
(3) ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیانی عرصے کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتی
(4) پے در پے حج و عمرے کیا کرو کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں سے اس طرح صاف کر دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کو صاف 
کر دیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب صرف جنت ہے ۔
حج عشقِ الہی کا مظہر ہے اور بیت اللہ شریف مرکز تجلیاتِ الہی ہے اس لیے بیت اللہ شریف کی زیارت اور حضور ﷺ  کی بارگاہِ عالی میں حاضری ہر مومن کی جان تمنا ہے اگر کسی کے دل میں یہ آرزو چٹکیاں نہیں لیتی تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے ایمان کی جڑیں خشک ہیں 
(5) جو شخص بیت اللہ تک پہنچنے کے لئے زاد و راحلہ رکھتا تھا اس کے باوجود اس نے حج نہیں کیا تو اس کے حق میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مرے ۔ 

حج و عمرہ کی اصلاحات
استلام  :  حجر اسود کو بوسہ دینا اور ہاتھ سے چھونا یا حجر اسود اور رکن یمانی کو صرف ہاتھ لگانا ۔
اضطباع  : احرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا ۔ 
آفاقی  : وہ شخص جو میقات کی حدود سے باہر رہتا ہو جیسے ہندوستانی، پاکستانی، مصری، شامی،  عراقی، اور ایرانی وغیرہ ۔ 
ایام تشریق  : ذوالحجہ کی گیارہویں،  بارہویں،  اور تیرہویں تاریخیں ایام تشریق کہلاتی ہیں کیوں کہ ان میں بھی ( نویں اور دسویں ذوالحجہ کی طرح )  ہر نماز فرض کے بعد تکبیر تشریق پڑھی جاتی ہے ۔ یعنی : اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد ۔
ایام نحر  : دس ذی الحجہ سے بارہویں تک ۔
افرا  : صرف حج کا احرام باندھنا اور صرف حج کے افعال کرنا ۔
تسبیح  : سبحان اللہ کہنا ۔
تمتع  : حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کرنا پھر اسی سال میں حج کا احرام باندھ کر حج کرنا ۔
تلبیہ  :  لبیک اللہم لبیک ، لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک پڑھنا ۔
تہلیل  : لا الہ الااللہ پڑھنا ۔
جمرات یا جمار  : منی میں تین مقام ہیں جن پر قدآدم ستون بنے ہوئے ہیں یہاں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں ان میں سے جو مسجدِ خفیف کے قریب مشرق کی طرف ہے اس کو ( جمرۃ الاولی)  کہتے ہیں اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف بیچ والے کو ( جمرۃ الوسطی)  اور اس کے بعد والے کو (  جمرۃ الکبریٰ ،  اور جمرۃ العقبہ،  اور جمرۃ الاخری )  کہتے ہیں
رمل  : طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے قریب قریب قدم رکھ کر ذرا تیزی سے چلنا  ۔
رمی  : کنکریاں پھینکنا ۔
زم زم  : مسجد حرام میں بیت اللہ کے قریب ایک مشہور چشمہ ہے جو اب کنویں کی شکل میں ہے جس کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اپنے نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کے لیے جاری کیا تھا ۔
سعی  : صفا اور مروہ کے درمیان مخصوص طریق سے سات چکر لگانا ۔
شوط  : ایک چکر بیت اللہ کے چاروں طرف لگانا ۔
صفا  : بیت اللہ کے قریب جنوبی طرف ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس سے سعی شروع کی جاتی ہے ۔
طواف  : بیت اللہ کے چاروں طرف سات چکر مخصوص طریق سے لگانا ۔
عمرہ  : حل یا میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنا ۔
عرفات یا عرفہ  : مکہ مکرمہ سے تقریباً 9 میل مشرق کی طرف ایک میدان ہے جہاں پر حاجی لوگ نویں ذی الحجہ کو ٹھہرتے ہیں ۔
قران  : حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھ کر پہلے عمرہ کرنا پھر حج کرنا ۔
قارن  : قران کرنے والا ۔
قرن  : مکہ مکرمہ سے تقریبا 42 میل پر ایک پہاڑ ہے نجد،  یمن اور نجد حجاز اور نجد تہامہ سے آنے والوں کی میقات ہے ۔
قصر  :  بال کتروانا ۔
محرم  : احرام باندھنے والا ۔
مفرد  : حج کرنے والا جس نے میقات سے اکیلے حج کا احرام باندھا ہو ۔
میقات  : وہ مقام جہاں سے مکہ مکرمہ جانے والے کے لئے احرام باندھنا واجب ہے ۔
جحفہ  : را بغ کے قریب مکہ مکرمہ سے تین منزل پر ایک مقام ہے شام سے آنے والوں کی میقات ہے ۔
جنت المعلیٰ  : مکہ مکرمہ کا قبرستان ۔
جبل رحمت  : عرفات میں ایک پہاڑ ہے ۔
حجر اسود  : سیاہ پتھر ، یہ جنت کا پتھر ہے جنت سے آنے کے وقت دودھ کی مانند سفید تھا لیکن بنی آدم کے گناہوں نے اس کو سیاہ کردیا یہ بیت اللہ کے مشرقی جنوبی گوشے میں قد آدم کے قریب اونچائی پر بیت اللہ کی دیوار میں گڑا ہوا ہے اور اس کے چاروں طرف چاندی کا حلقہ چڑھا ہوا ہے ۔
حرم  : مکہ مکرمہ کے چاروں طرف کچھ دور تک زمین ( حرم)  کہلاتی ہے اس کی حدود پر نشانات لگے ہوئے ہیں اس میں شکار کھیلنا درخت کاٹنا گھاس جانور کو چرانا حرام ہے ۔
حل  : حرم کے چاروں طرف میقات تک جو زمین ہے اس کو ( حل)  کہتے ہیں کیونکہ اس میں وہ چیزیں حلال ہیں جو حرم کے اندر حرام تھیں ۔
حلق  : سر کے بال منڈوانا ۔
حطیم  : بیت اللہ کی شمالی جانب بیت اللہ سے متصل قد آدم دیوار سے کچھ حصہ زمین کا گھرا ہوا ہے اس کو ( حطیم) اور ( حظیرہ) بھی کہتے ہیں
دم  : احرام کی حالت میں بعضے ممنوع ا فعال کرنے سے بکری وغیرہ ذبح کرنی واجب ہوتی ہے اس کو ( دم) کہتے ہیں ۔
ذوالحلیفہ  : یہ ایک جگہ کا نام ہے مدینہ منورہ سے تقریبا 6 میل پر واقع ہے مدینہ منورہ کی طرف سے مکہ مکرمہ آنے والوں کے لیے میقات ہے اسے آج کل (بیر علی) کہتے ہیں ۔
ذات عرق  :  ایک مقام کا نام ہے جو آجکل ویران ہوگیا مکہ مکرمہ سے تقریبا تین روز کی مسافت پر ہے عراق سے مکہ مکرمہ آنے والوں کی میقات ہے۔
رکنِ یمانی  : بیت اللہ کے جنوب مغربی گوشے کو کہتے ہیں چونکہ یہ یمن کی جانب ہے۔
مطاف  : طواف کرنے کی جگہ جو بیت اللہ کے چاروں طرف ہے اور اس میں سنگ مر مر لگا ہوا ہے ۔
مقام ابراہیم  : جتنی پتھر ہے،  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہو کر بیت اللہ کو بنایا تھا مطاف کے مشرقی کنارے پر منبر اور زمزم کے درمیان ایک جالی دار قبے بنا ہوا ہے ۔
ملتزم  : حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان کی دیوار جس پر لپٹ کر دعا مانگنا مسنون ہے ۔
مسجدِ خفیف  : منی کی بڑی مسجد کا نام ہے جو منی کی شمالی جانب میں پہاڑ سے متصل ہے ۔
مسجدِ نمرہ  : عرفات کے کنارے پر ایک مسجد ہے ۔
مدعی  : دعا مانگنے کی جگہ مراد اس سے مسجد حرام اور مکہ مکرمہ کے قبرستان کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں دعا مانگنی مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے وقت مستحب ہے ۔
مزدلفہ  : منی اور عرفات کے درمیان ایک میدان ہے جو منی سے تین میل مشرق کی طرف ہے ۔
محسر  : مزدلفہ سے ملا ہوا ایک میدان ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دوڑ کر نکلتے ہیں اس جگہ اصحاب فیل پر جنہوں نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تھی عذاب نازل ہوا تھا ۔
مروہ  : بیت اللہ کے شرقی شمالی گوشے کے قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس پر سعی ختم ہوتی ہے ۔
میلین اخضرین  : صفا اور مروہ کے درمیان مسجد حرام کی دیوار میں دو سبز میل میں لگے ہوئے ہیں جن کے درمیان سعی کرنے والے دوڑ کر چلتے ہیں ۔
موقف  : ٹھہرنے کی جگہ حج کے افعال میں اس سے مراد میدان عرفات یا مزدلفہ میں ٹھہرنے کی جگہ ہوتی ہے۔
میقاتی  : میقات کا رہنے والا ۔
وقوف  : کے معنی ٹھرنا اور احکام حج میں اس سے مراد میدان عرفات یا مزدلفہ میں خاص وقت میں ٹھہرنا ۔
ہدی  : جو جانور حاجی حرم میں قربانی کرنے کو ساتھ لے جاتا ہے ۔
یوم عرفہ  : نویں ذی الحجہ جس روز حج ہوتا ہے اور حاجی لوگ عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔
یلملم  : مکہ مکرمہ سے جنوب کی طرف دو منزل پر ایک پہاڑ ہے اس کو آجکل ( سعدیہ) بھی کہتے ہیں یہ یمن،  ہندوستان،  اور پاکستان سے آنے والوں کی میقات ہے

تصوف عہد بعہد ایک مطالعہ مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی پٹنہ

تصوف عہد بعہد ایک مطالعہ 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی پٹنہ 
موبائل نمبر 7909098319 
اردودنیانیوز۷۲ 
نام کتاب             تصوف عہد بعد
مؤلف /مصنف        ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد
سن اشاعت            فروری 2021
بہ اہتمام               نظیر احمد خان ارزاں شاہی
کمپوزنگ                یونائٹیڈ ڈی ٹی پی ہاؤس ١/٤٧،سر سید احمد روڈ کلکتہ ۔١٤
کمپوزر.                  فضیل احمد
قیمت                 20/روپے
ناشر.                  دارالاشاعت درگاہ حضرت دیوان شاہ ارزانی، پٹنہ

"تصوف عہد بعہد" یہ ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد صاحب کے ایک اہم اور نایاب خطبہ پر مشتمل تصنیف ہے، جسے آپ نے عالی جناب ڈاکٹر عابد رضا بیدار صاحب کی فرمائش پر اورینٹل لائبریرین شپ ورکشاپ کے تحت "تحریک تصوف" کے موضوع پر توسیعی خطبات کے سلسلے میں 18/جنوری 1990 کو مدعو سامعین کے رو برو خدا بخش لائبریری پٹنہ میں دیا تھا، اس خطبہ پر علماء، ادباء، صوفیا اور دانشوروں نے بہت سے اعتراضات و سوالات بھی اٹھائے تھے جس کا موصوف محترم نے مکمل، مدلل، اور مفصل و تشفی بخش جواب دیا تھا ۔
اس کتاب کی شروعات میں مصنف محترم نے عرض ناشر میں اس خطبہ کی مکمل تاریخ و وجہ تالیف بیان کردی ہے ۔

اللہ رب العزت نے انسانوں کی تخلیقات اپنی عبادت وریاضت اور بندگی کے لئے فرمائ ہے، اور انسانوں کے مزاج اور اس کی ضروریات کے مطابق اس دنیا کو پیدا فرمایا ہے، تاکہ انسانوں کی تمام تر ضروریات پوری ہوسکے، عبادت وریاضت اور بندگی نام ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا، اللہ رب العزت نے ایمان وکفر کے راستے پر چلنے کا اختیار انسانوں کو عطا فرمایا ہے، لیکن ساتھ ساتھ ایمان کی حلاوت وچاشنی، انعامات واکرامات کی مکمل وضاحت کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا کہ,,اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتۡ لَہُمۡ جَنّٰتُ الۡفِرۡدَوۡسِ نُزُلًا ﴿۱۰۷﴾ۙ،،جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے تو یقیناً ان کے لئے فردوس کے باغات کی مہمانی ہے ۔(سورہ کہف آیت نمبر ١٠٧)
اسی طرح کفر وشرک کی مذمت کرتے ہوئے کافرین کے لئے دردناک عذاب اور ابدی جہنم کا وعید سنائی ہے۔ ارشاد باری ہے۔ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَاۡ وَ اَغْلٰلًا وَّ سَعِیْرًا
ترجمہ:-  
بے شک ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ 
(سورہ دہر آیت ٤)

اللہ رب العزت نے یقیناً انسانوں کو ایمان وکفر کے راستے کے انتخاب کا اختیار دے رکھا ہے، لیکن ہم دلائل کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کفر کے راستے پر چلنے میں صرف ناکامی وتباہی اور بربادی ہے، جبکہ ایمان کی راہ میں قلبی سکون کے ساتھ ساتھ ابدی عیش وعشرت کی زندگی ہے ۔
اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہماری دنیا وآخرت دونوں کامیاب ہو جائے، آخرت کی کامیابی کا دارومدار دنیا کی کامیابی پر ہے، اللہ رب العزت نے انسانوں کو دعائیں مانگنے کا حکم دیا ہے کہ تم دنیا میں بھی بھلائی طلب کرو اور آخرت کی بھلائی کا بھی تمہیں خوب خوب خیال رہے کیوں کہ مومن کے لیے اصل زندگی وہی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے، 

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
ترجمہ  اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 202)

ان باتوں کو سمجھنے اور نتیجہ اخذ کرنے کا تصوف  ایک اہم وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔
کیونکہ تصوف نام ہے قرب الہی کا، انسانوں کا جب اللہ سے تعلق پیدا ہوگا تو لا محالہ ہرعمل میں اخلاص پیدا ہوگا،  خشیت الٰہی سے دل معمور ہوگا، اخلاق رذیلہ کے بجائے اخلاق حسنہ والی صفت آئے گی ، اپنی عبادات کو، اخلاقیات اور معاملات کو شریعت کے مطابق کرنے کی سعی کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں گے۔ یہی دراصل تصوف کا تقاضہ ہے، یہی شریعت مطہرہ ہے ۔ تصوف کا دوسرا نام طریقت ہے۔
اس مختصر سی تحریرو خطبات میں مصنف محترم نے انہیں باتوں کو قرآن وأحاديث کے روشنی میں، اکابرین ملت کے واقعات کے ذریعہ مدلل ومفصل سمجھانے کی سعی کی ہے ۔
تصوف کیا ہے ؟
تصوف کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کیوں ہے؟
صوفیائے کرام کسے کہتے ہیں ؟ صوفیوں کے اوصاف کیا ہیں؟مشہور ومعروف صوفیائے کرام کون ہیں؟ ان کا عہد کیا تھا؟ ان کی تحریکات نے دنیا پر کیا اثر چھوڑا؟ ان کے پیغامات کن کے لئے ہیں؟ احکامات و پیغامات شرعیہ کو سمجھنے میں اور اس پر عمل پیرا ہونے میں اس سے کیا معاونت حاصل ہے؟ چند واقعات کے ذریعہ ان باتوں کو مصنف محترم نے واضح کیا ہے۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی نتائج اخذ ہورہے ہیں کہ احکام شرعیہ وادلۂ شرعیہ کو سمجھنے اور رب العزت سے روحانی رشتہ قائم کرنے رکھنے کے لئے تصوف جزو لازم کا درجہ رکھتا ہے ۔
کتاب میں بہت سہل الفاظ وعبارات کا استعمال ہے جسے ایک عام قاری بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے، مصنف محترم نے جن اسالیب کا استعمال کیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان پیغامات کو ہر خاص وعام تک پہنچانا چاہتے ہیں اور وہ اپنے مقصد میں بھر پور کامیاب وکامران نظر آتے ہیں ۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم تصوف کامطالعہ کریں، اسے سمجھنے کی کوشش کریں، ان اوصاف کو اپنے اندر لاکر قرب الہی وخشئیت الہی پیدا کرکے اپنی دنیا وآخرت دونوں کامیاب وکامران بنائیں،آپ اس کتاب سے استفادہ کریں، مصنف موصوف سے براہ راست ملاقات کر کے ان سے دعائیں لے سکتے ہیں، 
اللہ مصنف محترم کو اپنی شایان شان جزا وبدلہ عطا فرمائے آمین ۔

راقم الحروف ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

ارریہ جامع مسجد میں دعائیہ نشست 
اردودنیانیوز۷۲ 
مایہ ناز وکیل اور ماہر قانون جناب ظفر یاب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے مرکزی جامع مسجد ارریہ میں آج ایک دعائیہ نشست منعقد کی گئی، جناب مولانا آفتاب صاحب مظاہری امام وخطیب جامع مسجد ارریہ نے اسچموقع پراپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ؛ یوں تو مرحوم کے ہم پر بڑے احسانات ہیں،آپ نےملت اسلامیہ ہند کی بڑی خدمت اور نمائندگی کی ہے،میری نظر میں سب سے بڑی خدمت بابری مسجد مقدمہ ہے،جو قیامت تک کے لئےیاد رکھی جائے گی، مرحوم موصوف کا یہ وہ مخلصانہ کام ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے، انہوں نےاپنی پوری زندگی مسجد کےنام  وقف کردی،اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، جس انہماک اورجس استقلال سے اس کیس میں اخیر تک لگے رہے،تگ ودو کرتے رہےاوراپنا قیمتی وقت کی قربان کرتے رہے،اس کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتا ہے، بابری مسجد کے حقیقی خادم اور نگراں ہونے کا مرحوم نے عملی ثبوت پیش کیا ہے،یہی وجہ ہےکہ جب اس مقدمہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا  تو سب سے زیادہ صدمہ بھی موصوف کو ہوا،اس کے بعد تو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اندر سے ٹوٹ سے گئے ہیں، جبھی سے صحت بھی متاثر رہنےلگی،ابھی تقریبا دوسال پہلے ۲۰۲۱ء میں  مئی کا ہی  مہینہ تھا، جسمیں موصوف اسلامیہ اںٹر کالج کی سیڑھی سے گرگئے تھے، یادداشت بھی متاثر ہوگئی ،اور صحت پہلے جیسی نہیں رہی،پھر یہ دیکھئے کہ یہ مئی کا ہی مہینہ ہے،جسمیں اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں ، آج افسوس کہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، جبکہ ملک وملت کو آپ کی شدید ضرورت ہے، باری تعالٰی جنت الفردوس نصیب کرے اور درجات بلند فرمائے، آمین
جناب مولانا مصور عالم صاحب ندوی نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے اہم ذمہ دار اور خادم کی حیثیت سے مرحوم کی خدمات سے سامعین کو رو برو کرایا، اور مرحوم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سٹی سے قانون کی ڈگری ہی نہیں بلکہ گولڈ میڈل بھی حاصل کیا ہے، دراصل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی سےہی آپ ملی کاموں  میں حصہ لینے لگے۔ ۱۹۶۵ء میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو نشانہ بنایا گیا تو زبردست تحریک شروع ہوئی، مرحوم اس میں شانہ بشانہ ہی نہیں بلکہ پیش پیش رہے، بالآخر اندرا گاندھی حکومت کی حکومت نے ایکٹ میں ترمیم کرکے اس کی اقلیتی حیثیت بحال کردی،آج پھر مسلم یونیورسٹی پر بری نظر ہے،اخبارات کی خبریں تشویش میں مبتلا کررہی ہیں، دوسری طرف گیان واپی مسجد کا معاملہ کھڑا کیا گیا ہے، افسوس کہ ہمارے درمیان ایڈووکیٹ جناب ظفر یاب جیلانی نہیں ہیں، ہمیں اس وقت ان کی شدید ضرورت ہے، باری تعالٰی نعم البدل نصیب فرمائے، آمین 
جمعیت علماء ارریہ کے صدر جناب ڈاکٹر عابد صاحب نے بھی مجمع کے سامنے اپنے احساسات کو پیش کیا ،اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے مرحوم کی وفات کو بڑا خسارہ بتلایا ہے،اس نشست کی صدارت جناب الحاج سیدشمیم انور صاحب، صدر جامع مسجد ارریہ نے کی، اور دعا امام وخطیب جامع مسجد جناب مولانا آفتاب عالم صاحب مظاہری نے کرائی، باری تعالٰی شرف قبولیت سے نواز دے، اور دعائیہ مجلس میں شریک ہونے والے جملہ حاضرین کو بہترین صلہ نصیب فرمائے، آمین 

راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
۲۱/مئی ۲۰۲۳ء بروز یکشنبہ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...