Powered By Blogger

ہفتہ, جنوری 18, 2025

سہ ماہی نقیب الخلیج کا "رباعی نمبر" (جنوری تا مارچ 2025) ایک مطالعہ

سہ ماہی نقیب الخلیج کا "رباعی نمبر" (جنوری تا مارچ 2025) ایک مطالعہ 
مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی، معلم چک غلام الدین ہائی اسکول،ویشالی بہار 
موبائل نمبر :7909098319 

Urduduniyanews72 
 سہ ماہی نقیب الخلیج ادبی، تاریخی، ثقافتی، اصلاحی، اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ایک اہم اور نایاب رسالہ ہے، جسے گلف اردو کونسل کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے- یہ رسالہ گذشتہ دو سالوں سے مسلسل اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور اس کی اشاعت کے لئے مکمل کوشاں ہے- سہ ماہی نقیب الخلیج کا تازہ شمارہ " رباعی نمبر "(جنوری تا مارچ 2025) 72/صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت، اور اس کا پس منظر مکمل، مدلل، اور مفصل پیش کرنے کی بھر پور سعی کی گئی ہے، جو ایک قابل تعریف اور مستحسن عمل ہے - رسالہ میں رباعیات اور اس سے متعلق اہم اور لائق مطالعہ مضامین،معلومات عامہ، اور قارئین ادب کے خطوط شامل ہیں- 
رسالے کی شروعات اداریہ سے ہوتی ہے، جسے مدیر محترم قاضی منصور قاسمی نے قلم بند کیا ہے، اس میں رسالے کے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت کو کئی زاویے سے پیش کیا گیا ہے۔فن رباعی کو مشکل فن گرداننے والوں کی مدیر نے گرفت بھی کی ہے۔ اس رسالے میں رباعیات پر جن قلمکاروں کے مضامین شامل ہیں۔ اُن میں "احساس و ادراک: ایک فکر انگیز اد بی سوغات"(رفیق جعفر، مہاراشٹر)، "امجد حیدر آبادی در باب رباعی" (ڈاکٹر امیر حمزہ، جھارکھنڈ)، "اُردو میں رباعی کی روایت: ایک تعارف"(پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال)، "اردور باعیات: علامہ اقبال کے خصوصی مطالعہ کے ساتھ" (ڈاکٹر صالحہ صدیقی، الہ آباد)،" رباعی" (ڈاکٹر رحمت عزیز خان، چترالی)، "عبدالحق امام کی رباعیات پر ایک نظر" (سلیم انصاری، جبل پور )، "ر باعی کا شیدا: ڈاکٹر عبدالحق امام" (مصباح انصاری، گورکھپور)، وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔
اِن مضامین کے ساتھ ساتھ تاریخ ادبیات فارسی اور دیگر حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رباعی، دیگر اصناف شعری کی طرح ایک قدیم اور عظیم صنف شاعری ہے، جو فارسی شعر وادب کے عین آغاز کے ساتھ ساتھ وجود میں آئی ۔۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے انہیں بے پناہ نعمتیں دے کر ان پر بہت سے احسانات کئے ہیں ،ان احسانات کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ہرگز انہیں شمار نہیں کرسکتے ہیں، ان احسانات اور نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت گویائی بھی ہے، انسان اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا لیتا ہے، اور ان الفاظ کو جب خوبصورتی کے ساتھ سجا کر فنی اصول وضوابط پر کار بند رہتے ہوئے اپنے جذبات وخیالات اور احسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے، اور شاعری میں جب رباعی کا تذکرہ آتا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ رباعی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں، رباعی کی جمع رباعیات ہے۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جائے ۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے، رباعی کو دوبیتی بھی کہتے ہیں-فارسی میں رباعیات کے حوالے سے عمر خیام ، ابوسعید ابوالخیر، اور سرمد کے ناموں کو دنیائے ادب جانتی اور پہچانتی ہے۔ اردو میں حالی ، اکبر، انیس ، امجد، جوش، فراق اور دیگر شعرا کی شاعرانہ عظمت و شہرت کو اس مخصوص صنف نے چار چاند لگایا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رباعی نے زندگی کے آفاقی اور عالمگیر حقائق کی عکاسی کا حق بعض کے نزدیک نہ ادا کیا ہو، لیکن تاریخ ادب شاہد ہے کہ اس نے رکاکت، ابتذال ، فحاشی ، بیہودہ گوئی ، مبالغہ اور ہجو سے اپنے دامن کو کبھی آلودہ نہیں کیا ۔ حالی نے اردو شعر و قصائد کے جس دفتر کو تعفن زدہ بتایا ہے اس میں رباعی کو شامل کرنا امر محال نظر آتا ہے ۔ اور رباعی کی یہی ایک معنوی خصوصیت اسے دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں ممتاز و موقر بنانے کے لئے کافی ہے ۔
یہ بھی سچ ہے کہ اردو اور فارسی کے ناقدین و محققین نے رباعی کی جانب بہت کم توجہ دی- رسائل کے ذمہ داران اور مدیران نے بھی اس پر کم ہی گوشے شائع کیے تاہم سہ ماہی "نقیب الخلیج" نے خصوصی رباعی نمبر شائع کرکے اس طرف توجہ مبذول کرانے کی بھر پور سعی کی ہے کہ اردو رباعی کو اردو زبان وادب میں اب بھی وہی مقام مرتبہ حاصل ہے جو ماضی میں تھا ،اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ رسالہ میں اردو رباعی سے متعلق جتنے بھی مضامین ہیں انہیں ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہے، البتہ رسالے میں شامل ایک مضمون جس پر میری نگاہ پڑی تو حیرت اور تجسس میں اضافہ ہوا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ رباعیات کے مضمون میں غزلوں کے اشعار شامل ہو گئے ہیں، ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے لمبے عرصے سے تحقیقی مضامین کے ساتھ ساتھ تخلیقی میدان میں بھی خامہ فرسائی کی ہے ،ان کے مضمون کی ترتیب دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوا کہ مضمون نظر ثانی کے بغیر یا عجلت کا شکار ہو کر شائع ہوگیا ہے ، مدیر محترم اور مصنفہ سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ رسالے میں مضمون شامل کرنے کے لیے الفاظ کی قید مقرر ہے اور مضمون چونکہ رسالے میں شمولیت کے اعتبار سے خاصا طویل اور مخلتف اصناف پر مبنی تھا لہٰذا مضمون کو رسالے کے لحاظ سے سیٹنگ کرنے میں ترتیب اور مثال کی الٹ پھیر ہوئی ہے۔ مدیر محترم اور مصنفہ نے اس کا اعتراف کیا۔ نیز انھوں نے اس بات پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ اس رسالے کا اتنی دلچسپی سے قارئین ادب مطالعہ کرتے ہیں،ادارہ آئندہ شمارہ میں پوری وضاحت کے ساتھ اس مضمون کو صحیح ترتیب دے کر شامل اشاعت کرے گا۔
ادب کے قارئین کے لیے اس رسالے کا مطالعہ موضوع سے متعلق واقفیت کے لحاظ سے بے حد مفید ثابت ہوگا۔ 
میں خصوصی طور پر قاضی منصور قاسمی صاحب کو اور عمومی طور پر پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ عربستان میں رہ کر بھی اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور آبیاری کے لئے مکمل اور مسلسل کوشاں ہیں، رب کریم سے دعا ہے کہ آپ سبھوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور مزید زبان وادب کی خدمت کرنے کی توفیق وتوثيق عطاء فرمائے آمین۔

عنوان: آتش امریکہ: ایک عذاب الہی کی نشانی؟قدرتی آفات، جیسے کہ آگ، سیلاب، زلزلے، اور طوفان، انسان کی زندگی میں بار بار آتی ہیں۔

عنوان: آتش امریکہ: ایک عذاب الہی کی نشانی؟
Urduduniyanews72 
قدرتی آفات، جیسے کہ آگ، سیلاب، زلزلے، اور طوفان، انسان کی زندگی میں بار بار آتی ہیں۔ یہ آفات نہ صرف انسانی زندگی اور وسائل کو متاثر کرتی ہیں بلکہ انسان کو اپنے اعمال اور رویوں پر غور کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں امریکہ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں آتشزدگی کے واقعات نے لوگوں کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا یہ قدرتی آفات واقعی عذاب الہی کی نشانیاں ہو سکتی ہیں؟ اس مضمون میں ہم اس سوال پر غور کریں گے کہ آیا آتش امریکہ کو عذاب الہی کی نشانی سمجھا جا سکتا ہے، اور اس کے پیچھے کیا فلسفیانہ اور مذہبی تناظر ہو سکتا ہے۔
قدرتی آفات وہ واقعات ہیں جو قدرتی عوامل سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، جیسے زمین کی سرکشی، موسم کی تبدیلی، یا آگ لگنا۔ ان آفات کا انسان کی زندگی پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ امریکہ میں آنے والی جنگلات کی آگ، طوفان، اور دیگر قدرتی آفات نے نہ صرف ہزاروں افراد کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ ان کی معیشت اور ماحولیاتی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، دنیا میں ہونے والی تمام آفات اللہ کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: "اور تمہیں جو کچھ بھی آفت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے" (الشوریٰ 30:41)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی عمل، جیسے کہ بے جا جنگلات کی کٹائی، فضائی آلودگی، اور قدرتی وسائل کا استحصال، قدرتی آفات کو بڑھا سکتا ہے۔
اسلام میں عذاب الہی ایک خاص معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جب قومیں یا افراد اپنے گناہوں کی حد تک پہنچ جاتے ہیں، تو اللہ ان پر عذاب بھیج سکتا ہے تاکہ وہ توبہ کریں اور اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ لیکن عذاب صرف سزا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد انسانوں کو اپنی اصلاح کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: "اگر وہ توبہ کر کے اپنے رب کے سامنے جھک جاتے، اور نماز قائم کرتے اور زکات دیتے تو ہم ان سے ان کی برائیاں دور کر دیتے" (القرآن، 9:103)۔
ایسی حالت میں اگر کسی قوم یا علاقے میں قدرتی آفات آتی ہیں، تو ان آفات کو عذاب الہی کی نشانی سمجھنا ایک ممکنہ اندازہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عذاب الہی کی کوئی مخصوص علامت یا وقت نہیں ہوتا، اور ہر آفات کا مقصد خدا کی طرف سے انسانوں کو اپنی اصلاح کی طرف بلانا ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں مختلف جنگلاتی آگوں کے واقعات نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ ان آگوں کی شدت اور پھیلاؤ نے نہ صرف انسانوں کی زندگی کو متاثر کیا بلکہ ماحولیات اور جنگلات کے نظام کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ ان آگوں کے پیچھے مختلف عوامل ہو سکتے ہیں، جیسے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، انسانی غفلت، یا قدرتی عوامل۔
اس تناظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آگیں عذاب الہی کی نشانی ہیں؟ بعض لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ جب کسی قوم یا علاقے میں بار بار قدرتی آفات آتی ہیں، تو یہ ایک انتباہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے اخلاقی، سماجی، یا ماحولیاتی رویوں کو درست کریں۔ یہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک امتحان ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں، توبہ کریں اور اللہ کے راستے کی طرف واپس آئیں۔
اسلام میں قدرتی آفات کو صرف عذاب کے طور پر نہیں بلکہ ایک امتحان اور امتحان کی صورت میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: "ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک، مال کی کمی، جانوں کی کمی، اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے، اور بشارت دے دو صبر کرنے والوں کو" (البقرہ: 155)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آفات کا سامنا انسان کی قوتِ ارادی اور ایمان کا امتحان ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنی ایمان کی پختگی، صبر اور تقویٰ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
اگرچہ آفات اور آتشزدگیاں بعض اوقات عذاب کی صورت اختیار کر سکتی ہیں، لیکن اسلام میں یہ بھی ہے کہ ان آفات کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مقصد انسانوں کی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہے، تاکہ وہ اپنی زندگی میں بہتر تبدیلیاں لائیں۔
آتش امریکہ اور دیگر قدرتی آفات کو عذاب الہی کی نشانی سمجھنا ایک قابل غور موضوع ہے، لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ یہ آفات عذاب ہیں یا محض قدرتی عوامل کا نتیجہ، ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، ہر آفات کو عذاب الہی کا حصہ قرار دینا مناسب نہیں، کیونکہ اللہ کی حکمت اور مرضی سے ہر آفت کا مقصد انسانوں کو بیدار کرنا، توبہ کرنا اور اپنی زندگیوں میں اصلاح لانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، قدرتی آفات کا تعلق انسان کی اپنی سرگرمیوں سے بھی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ماحول کی تباہی اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال۔
لہذا، آتش امریکہ یا کسی بھی قدرتی آفات کو ایک عذاب الہی کی نشانی سمجھنے سے پہلے، ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بہتر تبدیلی لائیں تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور ہم اپنی قوم اور زمین کی فلاح کے لیے کام کر سکیں۔
خلاصہ مضمون:
آخر میں، اس مضمون کا مقصد یہ نہیں کہ ہم کسی مخصوص آفات کو عذاب سمجھیں، بلکہ یہ سوچنے کی دعوت دینا ہے کہ قدرتی آفات کے پیچھے اللہ کی حکمت چھپی ہوئی ہو سکتی ہے۔ یہ انسانوں کو اپنے اعمال اور رویوں پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف مائل کرتی ہیں۔
از قلم : احمد علی ندوی ارریاوی
استاد: خنساء اسلامك انگلش اسكول بہیڑہ،دربھنگہ ،بہار

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...