Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 30, 2022

نئے ہجری سال کا پیغام ہجری کلنڈر کو رواج دیجئے

نئے ہجری سال کا پیغام ہجری کلنڈر کو رواج دیجئے 
اردو دنیا نیوز ۷۲
        ایم رحمانی
مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم چمپارن 

        آج ہجری تقویم کے اعتبار سے سال کا آخری دن ہے اور آخری تاریخ  ہے ، آج کا سورج جیسے ہی غروب ہوگا نئے اسلامی ہجری سال کا آغاز ہوجائے گا ۔ اور ہم سب نئے اسلامی سال میں داخل ہو جائیں گے یعنی ۱۴۴۳ھج ختم ہوکر۱۴۴۴ھج کی شروعات ہوجائے گی ۔ ایمان والوں کے لئے ہجری اسلامی سال اور تاریخ کی بڑی اہمیت ہے ۔ واقعہ ہجرت سے اسلامی سال اور تاریخ کی شروعات بہت ہی معنی خیز ہے ۔ اس لئے کہ ہجرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا وہ مبارک واقعہ ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کی ایثار اور جانثاری و فداکاری کا اوج کمال ہے ، بلکہ یہ اسلام کے ظہور و غلبہ کا نقطئہ آغاز بھی ہے ،اسی بنا پر حضرات صحابہ کرام نے اسلامی کلینڈر کے لئے اسی واقعہ کو بنیاد و اساس بنایا اور یہ ہجری کلینڈر ھجری تقویم سے موسوم ہوا ۔ علماء اور حضرات اہل علم نےلکھتے ہیں،،کہ مسلم معاشرہ میں ھجری تقویم کے رواج کو باقی رکھنا فرض کفایہ کی حیثیت اور درجہ رکھتا ہے اس لئے کہ اس سے متعدد عبادتیں متعلق ہیں ،،۔ 
مگر افسوس افرنگیوں کی تقلید میں ہم ایسے اندھے ہو گئے ہیں اور مغربی تہذیب کے سیل رواں میں ایسے بہہ گئے ہیں اور مسلمانون کی مرعوبیت اور اس طوفان کے مقابلے سپر اندازی نے نوبت یہاں تک پہچا دی ہے کہ آج زیادہ تر مسلمان نوجوان بلکہ بوڑھے اور ادھیڑ ھجری مہینوں کے نام سے بھی واقف نہیں اور یہ جاننے والے تو اور کم ہیں کہ اسلامی تقویم کی بنیاد کیا ہے ؟ یہ کیوں کر وجود پذیر ہوئی اور واقعئہ ہجرت ہی سے اس کلینڈر کی ابتداء کرنے میں کیا حکمت اور پیغام ہے ؟ 
اس بے توجھی بے التفاتی اور نا آگہی کا نتیجہ ہے کہ جتنے کلینڈر جنتریاں اور ڈائریاں چھپتی ہیں وہ سب بھی مسیحی عیسوی تقویم کا لحاظ کرتے ہوئے ۔ 
ضرورت ہے کہ ہم مسلمان ھجری تاریخ کی اہمیت کو جانیں اور سمجھیں اور بلا ضرورت شدیدہ اس تقویم اور سنہ کو چھوڑ کر دوسرے سنہ کو فوقیت اور ترجیح نہ دیں، الا یہ کہ جہاں ہم مجبور ہیں غیروں کے ماتحت اور پابند ہیں،یا جہاں دفتری نظام شمسی کلنڈر کے مطابق انجام دینا مجبوری ہو۔
ہم کو یہ یاد رکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ ھجری تاریخ سے سنہ کی ابتداء اور آغاز کا فیصلہ ۱۷ ھج میں ہوا اس وقت سے اب تک صحابئہ کرام اور ہمارے اسلاف قمری مہینوں اور سنہ ہجری کا اہتمام کرتے رہے ہیں اور مسلمانون کو بھی اس کے التزام کی تعلیم دیتے رہے ہیں کیونہ من جملہ شعائر اسلام سے ہے ۔ قمری مہینوں کے نام زبان وحی و نبوت سے ادا ہوئے ہیں اور سنہ ہجری کے بارے میں معلوم ہو کہ ایک مہتم بالشان واقعہ کی یاد گار ہے ۔

حج عشق الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت

حج عشق الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیانیوز۷۲)
حضرت مولانا نور الحق رحمانی استاذ المعہد العالی امارت شرعیہ کو اللہ رب العزت نے علم وعمل کی دولت سے مالا مال کیا ہے، فقہ، حدیث اور عربی زبان وادب پر ان کی گہری نظر ہے ، عرصہ دراز سے فقہی کتابوں کا درس ان کے ذمہ رہاہے ان دنوں وہ تدریب افتاوقضاء کے طلبہ کو مختلف علوم وفنون کا درس دیا کرتے ہیں، وہ استاذ الاساتذہ ہیں اللہ رب العزت نے ان کے وقت میں بڑی برکت عطا فرمائی ہے ، لغویات سے دو راور فضولیات سے نفور کی وجہ سے ان کا سارا وقت مطالعہ، تدریس، اصلاح معاشرہ کے خطابات وغیرہ میں گذرتا ہے، وقت میں برکت کی وجہ سے ہی، ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں انکی طبع ہو چکی ہیں، جن میں موسوعۃ فقہیہ کا اردو ترجمہ، اسلامی عدالت کا عربی ترجمہ ، نظام قضاء الاسلامی بھی شامل ہے، خواتین پر ان کی تین کتابیں سیرت عائشہ ، عورت اسلامی شریعت میں، نیز تعدد ازدواج حقائق کے آئینے میں طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔
 مولانا کی تازہ ترین تالیف’’ حج عشقِ الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت‘‘ ہے، نام تھوڑا طویل ہو گیا ہے ، لیکن اس طوالت کی وجہ سے نام سے کتاب کے مندرجات تک اجمالی رسائی ہو جاتی ہے ،’’ عشق ‘‘کا لفظ اتنا سو قیانہ ہو گیا ہے کہ اللہ، رسول اور متعلقہ عبادت کے ساتھ جوڑنے میں مجھے انشراح نہیںہوتا ، عشق کے سوقیانہ لفظ ہونے کی وجہ سے ہی ، اس حقیر کے ناقص مطالعہ میں قرآن واحادیث میں یہ لفظ استعمال میں نہیں آیا، حالاں کہ صحابہ کرام سے زیادہ جاں سپاری اور محبت میں وارفتگی کس کے پاس ہو سکتی ہے ۔
 کتاب کے شروع میں کلمات تبریک امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم ، حرف چند نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی اور مقدمہ مولانا مفتی سعید الرحمن قاسمی مفتی امارت شرعیہ اور مولانا محمد ایوب نظامی ناظم مدرسہ صورت القرآن دانا پور کا ہے ، ان حضرات کی تحریروں میں مولانا کی علمی خصوصیات اور اس کتاب کی اہمیت کا ذکر ملتا ہے ، جس سے کتاب پڑھنے سے پہلے قاری کے ذہن میں اس کتاب کی اہمیت اور قدر ومنزلت بیٹھ جاتی ہے۔
کتاب در اصل پانچ مضامین کا مجموعہ ہے ، پہلا مضمون حج عشق الٰہی کا مظہر ، دوسرا حج ایک جامع عبادت، تیسرا سفر حج کا توشہ اور چوتھا عمرہ کا عملی طریقہ ہے، ان میں کے دو مضامین سفر حج کا توشہ اور حج ایک جامع عبادت نقیب میں طبع ہو چکا ہے ۔اور اس کے قاری کے لیے گاہے گاہے باز خواں کی طرح ہے۔
 اس کتاب میں حج کے فضائل ومسائل پر تفصیلی مواد موجود ہے، اس سے عازمین حج کو حج کی ادائیگی میں سہولت ہوگی اور بہت سارے اعمال میں وہ غلطیوں سے بچ جائیں گے ، اس کتاب میں ایک چھٹا مضمون مدینہ منورہ کی زیارت کے حوالہ سے ہے جو مولانا کے صاحب زادہ مولانا فیض الحق قاسمی استاذ مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ ، راجا بازار پٹنہ کے قلم سے ہے اور قیمتی ہے، کاش مولانا مکہ میں جن مقامات کی زیارت کی خواہش ہوتی ہے، اس پر بھی روشنی ڈال دیتے تو تشنگی باقی نہیں رہتی ، یقینا شرعی طور پر وہ حج کا حصہ نہیں ہیں، لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے جُڑے سارے مقامات ہمارے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور خواہش ہوتی ہے کہ سر کے آنکھو ں سے ان کی بھی زیارت ہوجاتی۔
 مولانا نور الحق رحمانی صاحب چوں کہ زمانہ دراز سے عازمیں حج کی تربیت بھی کرتے رہے ہیں، اس لیے اس کتاب میںمولانا کی گفتگو کا بڑا محور وہ تجربات ہیںجو انہوں نے خود حج کے سفر سے حاصل کیے اور لوگوں کو مسائل سمجھانے کے درمیان جس کی ضرورت انہوں نے محسوس کی ، اس طرح یہ کتاب مختصر اور جامع ہے اور اس کی اہمیت وافادیت مسلم ہے، یہ عازمین کے لیے توشۂ حج اور مولانا کے لیے توشۂ آخرت ہے۔
 کتاب کی اس اہمیت وافادیت کی وجہ سے کتاب کی ترتیب، پروف ریڈنگ اور سیٹنگ پر خصوصی توجہ کی ضرورت تھی، عموما کتاب میں مؤلف کا پیش لفظ پہلے اور تقریظ وتاثرات پر مشتمل مضامین بعد میں ہوتے ہیں، اس کتاب میں پیش لفظ درمیان میں آگیا ہے، شروع میں حضرت امیر شریعت اور نائب امیر شریعت کے کلمات تبریک اور حرف چند ہیں، پھر پیش لفظ کے بعد مولانا محمد ایوب نظامی کی تقریظ ہے، نائب امیر شریعت کے حرف چند میں ان کا نام مضمون کے آخر میں درج ہونے سے رہ گیا ہے ، سیٹنگ کے نقص کی وجہ سے کتاب کا حوض اور حاشیہ کا تراش وخراش بھی کم وبیش ہو گیا ہے ، پروف ریڈنگ میں اغلاط کثرت سے رہ گیے ہیں، اس کا آغاز صفحہ ۲؍ سے ہوتا ہے ، جہاں صفحات کی تعداد حروف میں ایک سو بتیس اور عدد میں ایک سو چھتیس درج ہے، مفتی سعید الرحمن صاحب کے مقدمہ اور کتاب کے دوسرے مندرجات میں بھی اغلاط کی کثرت ہے ،بعض جگہوں پر مولانا اس طرح کھوجاتے ہیں کہ انہیں اپنا سفر حج یاد آجاتا ہے اور وہ ایک جملہ لکھ کر دوسری بات شروع کر دیتے ہیں۔ اس عبارت کو دیکھیے۔
’’ ہر حاجی بسوں کا کرایہ پہلے ادا کرچکا ہوتا ہے پھر منی سے طواف زیارت کے لیے مکہ آمد ورفت بھی سرنگ ہی کے ذریعہ ہوئی اور آسانی سے دس ذی الحجہ کو چاروں عمل رات باہ بجے تک انجام پا گیے، پھر دس ذی الحجہ کا دن ‘‘۔( صفحہ ۶۵) اس طرح کی عبارتیں اس کتاب میں کئی ہیں، مولانا لکھتے لکھتے کھو جاتے ہیں، اپنے سفر حج کا تذکرہ کرنے لگتے ہیں، پھر معا خیال آتا ہے تو آگے بات شروع کر دیتے ہیں، یہ معاملہ جذب وکیف کا ہے، اس طرح کی عبارتوں کو اسی پس منظرمیں دیکھنا چاہیے، اس کا ایک دوسرا رخ اپنے تجربہ کا ذکر بھی ہے، پچاس روپے دے کر مکتبہ القاضی پھلواری شریف قاضی نگر سے اس کتاب کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یو پی سے 5گنا زیادہ انکاؤنٹر کریں گے

یو پی سے 5گنا زیادہ انکاؤنٹر کریں گے


(اردو دنیا نیوز ۷۲)

حکومت کرناٹک کا انتباہ ' اترپردیش مثالی ریاست۔ چیف منسٹر بومئی کے بعد ریاستی وزیر تعلیم نرائن کا غیر ذمہ دارانہ بیان

بنگلورو : چیف منسٹر کرناٹک بسواراج بومئی جنھیں ایک بی جے پی ورکر کی ہلاکت پر فرقہ پرست قوتوں کے خلاف یوگی (آدتیہ ناتھ) ماڈل کو استعمال کرنے کی دھمکی دینے پر مختلف گوشوں سے برہمی کا سامنا ہونے کے آج ایک روز بعد، ریاستی وزیر اشوت نرائن نے اعلان کیاکہ ریاستی حکومت ملزمین کو نشانہ بناتے ہوئے انکاؤنٹرس کرسکتی ہے اور اِس معاملہ میں وہ اترپردیش سے پانچ قدم آگے جائیں گے۔ ریاستی وزیر تعلیم نرائن نے کہاکہ ملزمین کو گرفتار کیا جائے گا لیکن ہمارے ورکرس اور عوام کی خواہش ہے کہ اِس طرح کے واقعات کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔ اُن کی خواہش کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے گی اور خاطیوں کو پکڑا جائے گا، اُنھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ یہ عمل چاہے انکاؤنٹر کی شکل میں پورا ہو یا کچھ دیگر کارروائی کرنی پڑے، ہم اترپردیش سے پانچ قدم آگے جائیں گے۔ ہم یوپی کے مقابل بہتر ماڈل پیش کریں گے۔ نرائن کا دعویٰ ہے کہ کرناٹک ترقی پسند ریاست ہے اور دوسروں کے لئے نمونہ ہے۔ ہمیں کسی کی بھی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ روز بی جے پی کے نوجوان لیڈر پراوین نیتارو کے قتل پر اپنے پارٹی والوں کے غم و غصہ کا سامنا کرنے کے بعد چیف منسٹر بومئی نے جوش میں یا جذبات میں کہہ دیا تھا کہ وہ فرقہ پرست قوتوں کے خلاف یوگی ماڈل کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ صورتحال اِس کی متقاضی ہو۔ چند گھنٹوں بعد چیف منسٹر نے اپنا تبصرہ بدل دیا اور کہاکہ ایسے معاملوں میں یوگی ماڈل یا کرناٹک ماڈل اختیار کیا جاسکتا ہے۔ پراوین کو نامعلوم حملہ آوروں نے ضلع دکشنا کرناٹک میں منگل کو قتل کیا تھا جبکہ وہ اپنی پولٹری شاپ بند کرکے واپس ہورہا تھا۔ اِس کیس میں 2 افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں جن کے پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے روابط بتائے گئے، جو کٹر مسلم تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ چیف منسٹر نے یہ کیس ملک کے اعلیٰ انسدادی دہشت گردی ادارہ این آئی اے کے حوالہ کردیا ہے۔ بی جے پی اور دائیں بازو کے کئی گروپوں نے ایک سال پرانی بومئی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ وہ ہندو ورکرس کی جانوں کی حفاظت میں ناکام ہوئی ہے۔ خود اپنی پارٹی کی طرف سے بڑھتے دباؤ نے آخرکار چیف منسٹر کو مجبور کیا اور اُنھوں نے گزشتہ روز اپنے اترپردیش کے ہم منصب کے طریقہ کار کا حوالہ دیا۔ چیف منسٹر کے بیان کے اندرون 24 گھنٹے ریاست کے وزیر تعلیم نرائن کا کھلے طور پر انکاؤنٹرس کا ذکر کرنا نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ یہ کرناٹک کے عوام کے لئے ہرگز ٹھیک نہیں ہوسکتا۔

تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوک ہات ارریہ محرم الحرام کا سلسلہ وار پروگرام جاری ہے

تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوک ہات ارریہ محرم الحرام کا سلسلہ وار پروگرام جاری ہے
(اُردو دنیا نیوز۷۲)
ماشاءاللہ سلسلہ وار پروگرام کا آج رحیمی جامع مسجد سنگورا میں منعقد ہوئی زیر صدارت حضرت قاری محمد الیاس صاحب مہتمم مدرسہ محمودیہ ہاٹ گاؤں مقرر خصوصی حضرت مولانا محمد کونین صاحب مظاہری ، و مفتی محمد نعیم صاحب قاسمی ، و مفتی محمد مبشر صاحب مظاہری ، اور مفتی محمد صدام حسین صاحب ماہ محرم الحرام کے متعلق فضائل ،  بدعت وخرافات پر مدلل بیان فرمایا اس پروگرام میں شریک رہے ، مولانا محمد ذوالفقار ، مولانا محمد تنزیل الرحمان ، قاری عبدالقدوس ،قاری محمد شاہد صاحب ،حافظ انوار الحق ،مولانا محمد وثیق ،قاری اسامہ ،حافظ شہباز ، وغیرہ موجود رہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...