Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 12, 2022

قابل مذمت بیان مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

قابل مذمت بیان 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
حکومت بہار میں بی جے پی کوٹے سے نیرج کمار ببلو اور جے بیش مشرا وزیر ہیں، انہیں سرخیوں میں بنے رہنے کا شوق ہے، یہ شوق بُرا نہیں ہے، لیکن اس کا استعمال ریاست کی تعمیر وترقی کے لیے کریں تو فائدہ پہونچے گا، انہیں ریاست کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں ہے ، ان کے نزدیک فائدہ ایسے بیانوں میں ہے جس سے ہندتوا مضبوط ہواور ریاست کے رائے دہندگان کا ووٹ ان کی طرف ہوجائے، اس کام کے لیے انہیں مسلمان ، مسلمانوں کے ادارے ان کی کھان پان ان کی وضع قطع ، حجاب وپردہ اور تہذیب وثقافت کے خلاف آتش فشانی کر نی ہوتی ہے، یہ رائے دہندگان کو اپنی طرف لانے کے لیے ان کی تگ ودو کا ایک حصہ ہے، ان دونوں وزراء کے مدارس کے خلاف حالیہ بیان کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، واقعہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ طلبہ کو اچھا شہری اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مزین کرنے کا کام کرتی ہے، اس کے پہلے بھی مرلی منوہر جوشی جب وزیر تعلیم تھے یہ سوال مرکز سے اٹھا تھا، اور حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ناموس مدارس اسلامیہ کنونشن مونگیر میں منعقد کرکے اس غلط بیانی کی ہوا نکال دی تھی، اور تب سے یہ معاملہ ٹھنڈا پڑگیا تھا۔
اب پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں اور بہار میں بھی لوکل باڈیز سے ام ال سی کے لیے نام وحلقوں کی تعیین کی جاری ہے، اس لیے اس بیان کو اچھال دیا گیا، ان دونوں وزراء کے ذہن میں آسام ماڈل گشت کر رہا ہے، آسام ہویا ہندوستان کی کوئی ریاست یہ مدارس اسلامیہ آئین کی دفعہ ۲۹، ۳۰ اور ۳۰؍ اے کے تحت قائم ہیں اور ان کو کسی بھی درجہ میں غیر دستوری نہیں کہا جا سکتا ۔
اس بیان پر وزیر اعلیٰ کی طرف سے کوئی تبصرہ تو نہیں آیا، لیکن وزیر تعلیم وجے کمار چودھری اور وزیر اقلیتی فلاح زماں خان، وقف بورڈ کے چیرمین محمد ارشاد اللہ اور جد یو کے کئی لیڈران نے اس کا نوٹس لیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔البتہ ان دونوں وزیروں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مدارس اسلامیہ کی تاریخ سے نا واقف ہیں، صحیح نہیں ہے ، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مدارس اسلامیہ مسلمانوں کے لیے مذہبی تعلیم وتہذیب وثقافت کے لیے پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس کے کردار کو مجروح کرکے ان اداروں کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں، پھر اس کا میڈیا ٹرائل کیا جائے اور اگر یہ ادارے بند نہ کیے جائیں توبھی ان کے کام کرنے کے طریقے کو بدل کر دکھ دیا جائے۔
 واقعہ یہ ہے کہ دستور میں ہندوستان کی مختلف اقلیتوں کو جو حقوق دیے گیے ہیں، اس کی روشنی میں صرف مذہبی تعلیم سے بھی کسی کو نہیں روکا جا سکتا ، جب رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون آیا تھا تو مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے مکاتب، پاٹھ شالے، گروکل وغیرہ کو بھی سرکاری طور پر تعلیمی ادارے کے طور پر منظور کر وایا تھا اور اس میں پڑھنے والے بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے والا قرار دیا گیا تھا۔
 اگر ڈبل انجن کی سرکار بہار میں نہیں ہوتی او ر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے لیے بی جے پی کو لے کر چلنا مجبوری نہیں ہوتی تو ہمارا مطالبہ ہوتا کہ ایسے وزراء کو بر طرف کر دینا چاہیے، کیونکہ ان کے بیانات وزیر اعلیٰ کی پالیسی کے خلاف ہیں اور ایسے لوگوں کو وزارت میں بنے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔موجودہ حالات میں بھی ان وزراء کی سخت تنبیہ ضرور کی جانی چاہیے تاکہ یہ سلسلہ دراز نہ ہو۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...