Powered By Blogger

پیر, مئی 02, 2022

مولانا حشمت اللہ ندویؒ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا حشمت اللہ ندویؒ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یہ دردناک اورالم ناک خبر بڑے افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ ۵/رمضان المبارک ۳۴۴۱ھ مطابق ۷/اپریل ۲۲۰۲ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مایہئ ناز سپوت،عربی زبان وادب کے ماہر ورمزشناس،سنہری یادوں کے مصنف،ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سابق استاذ،حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے کے معتمد خاص،قطر میں ندوۃ العلماء کے ترجمان سمجھے جانے والے مولانا حشمت اللہ ندوی کاایک سٹرک حادثہ میں انتقال ہوگیا،انا للہ واناالیہ راجعون،حکومتی اوراسپتال کی کارروائیوں کے بعد۳۱/رمضان المبارک ۳۴۴۱ھ مطابق ۵۱/اپریل ۲۲۰۲ء روز جمعہ بعد نماز عشا ء و تراویح مقبرہ ابو ہامور میں ان کے جنازہ کی نماز ادا کی گئی،ان کے انتقال سے علمی دنیا میں جوخلا پیداہواہے اس کو سب نے محسوس کیا،خصوصاًندوۃ العلماء میں اس مایہ ناز سپوت کے دنیا سے رخصت ہونے پر ماتم پسرگیا۔پسماندگا ن میں اہلیہ،دولڑکے عمیر حشمت،علی حشمت اورتین لڑکیاں اسماء،فاطمہ،مریم کو چھوڑا۔
مولانا دھموارہ بلاک علی نگی ضلع دربھنگہ بہار کے رہنے والے تھے،ان کے والد الحاج ماسٹر محمد عیسیٰ صدیقی تھے،جو پہلے ہی فوت ہوچکے تھے، مولانا کی والدہ کا نام آرا م بانوتھا اورسنہ پیدائش ۱۶۹۱ء۔ابتدائی تعلیم اورحفظ قرآن کی تکمیل مولانا نے اپنے گاؤں دھموارہ میں کیا،اس زمانہ میں گاؤں اوردیہات میں قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے کا رواج ذرا کم تھا،حفظ کے طلبہ تجوید کی تعلیم حاصل کرتے تھے،تب قرآن کریم پورے اصول وآداب کے ساتھ پڑھنا ممکن ہوسکتا تھا،مولانا کی تلاوت میں بھی تجوید کے اعتبار سے خامیاں تھیں،چنانچہ سلسلہ تھا نوی کے مشہور بزرگ مولانا سراج احمد امرہوی کے مشورہ سے مولانا کے والد نے انہیں مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی روانہ کیا،اشرف المدارس حضرت مولانا ابرارالحق حقی ؒ کاقائم کردہ تھااورتصحیح قرآن کاخاص اہتمام وہاں کل بھی تھا اورآج بھی ہے،۳۷۹۱ء میں مولانا وہاں داخل ہوئے،نورانی قاعدہ سے تعلیم شروع ہوئی،ایک ہفتہ میں یہ مرحلہ طے ہوگیا،پھر قرآن کریم حفظ کادور شروع ہوا،اس کی بھی تکمیل ہوگئی اورمولانا انتہائی خوش الحانی اورتجوید کی رعایت کے ساتھ تلاوت قرآن پرقادر ہوگئے،جن لوگوں نے ان کی تلاوت سنی ہے وہ بتاتے ہیں کہ ان کی تلاوت سن کر آدمی مسحور ہوجاتاتھا، پھر عربی کے ابتدائی درجہ میں داخلہ ہوگیا،یہاں مولانا مرحوم نے خصوصی طور پر حضرت مولانا قاری امیر حسن ؒ سے تربیت پائی،اسی لیے وہ انہیں اپنا محسن اورمربی کہاکرتے تھے،عربی وفارسی کی ابتدائی کتابیں انہوں نے قاری امیر حسن صاحب سے ہی پڑھیں،اور تین سال کی مدت میں کافیہ اورقدوری تک کی تعلیم حاصل کی،یہاں کے فیوض وبرکات سے دامن بھرنے کے بعد انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا،سال ۶۷۹۱ء کاتھا،داخلہ امتحان مولانا شفیق الرحمٰن ندویؒ اورمولانا شمس الحق ندوی صاحب نے لیااورثانویہ خامسہ شریعہ میں داخلہ ہوا، یہاں آپ کے رفیق درس جن سے خاص انس تھا،مولانا خالد کان پوری اورمولانا نجم الحسین تھے،داخلہ کی کاروائی مکمل ہونے کے بعدرواق شبلی میں رہنے کوجگہ ملی،کمرہ نمبر چھ تھا،حضرت مولانا مفتی ظہورصاحب ندوی نگراں تھے جوفجر کی نماز کے لیے خصوصیت سے لڑکوں کو جگایاکرتے تھے،کمرے کے جورفقاء تھے وہ خان برادران بھوپال کے تھے،ان حضرات سے مولانا کی اس قدر گاڑھی چھنتی تھی کہ کئی لوگ ان کو بھی بھوپال کا ہی سمجھتے تھے،عا  لمیت کے سال مولانا مرحوم نے ہدایہ اورسراجی مفتی صاحب سے ہی پڑھی اوران کے طریقہ تدریس سے مستفیض ہوئے،۲۸۹۱ء میں فراغت کے بعد تخصص فی الادب میں داخلہ لیا،آپ کی علمی قابلیت وصلاحیت کودیکھ کر تدریس کے لیے ندوہ میں ہی آپ کی تقرری عمل میں آئی،آپ غیر معمولی محنت وصلاحیت کی وجہ سے جلدہی حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ،مولانا واضح رشید ندوی ؒ اورمولاناسید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے قریب ہوگئے،حضرت مولانا کے بعض مضامین کاعربی میں ترجمہ کیاجوحضرت مولانا نے بعینہ ان کے نام کے ذکر کے ساتھ اپنی کتاب میں شامل کیا،مولانا مرحوم نے الرائد میں بھی رفیق کی حیثیت سے کچھ دن کام کیا،فروری ۲۸۹۱ء میں جب درالمصنفین نے اسلام اورمستشرقین پرسمینار کرایااورموقع عرب فضلاء کے لیے اردو مقالوں کے عربی خلاصے اورعرب مقالہ نگاروں کی اردوتلخیص کاتھاتواس فن میں آپ کی مہارت تامہ کاپتہ چلا،اس موقع سے ہرطبقہ نے آپ کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا اورلوگ ان کے مداح نظر آئے۔
۷۸۹۱ء کے آخرتک ندوہ میں استاذ رہنے کے بعد آپ قطر چلے گئے،وہاں ان کی صلاحیت کے مطابق ملازمت نہیں ملی،اس لیے مایوسی کا شکار رہنے لگے،مولانا مرحوم کے اندرعلمی کبر نہیں تھا،کم گو تھے،لیکن حق گو تھے،فضول باتوں کا ان کے یہاں گذر نہیں تھا،ندوہ اوراکابرین ندوہ سے ان کی محبت مثالی تھی،یہ محبت ان کے خون کے ساتھ جسم وجان میں گردش کرتی تھی،ان کا حافظہ قوی تھا،وہ اردو،عربی،انگلش تینوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے،علی طنطاوی کے اسلوب سے متأثر تھے،ان کی کتابوں کے بہت سی عبارتیں ان کے حافظہ کی گرفت میں تھیں اوروہ انہیں بروقت اوربرجستہ استعمال کیاکرتے تھے،اس موقع پر مرشدالامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی یہ شہادت بھی نقل کرنے کو جی چاہتا ہے جو انہوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں دیاہے۔
”مولوی حشمت اللہ ندوی عربی ادب کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم میں بھی فائق تھے،طالب علمی ہی سے ان کا یہ معاملہ تھا کہ جو بھی کام ان کے سپرد کیاجاتاوقت سے پہلے کرکے لے آتے،عربی کی صلاحیت ان کی بہت اچھی تھی،وہ بہت اچھاترجمہ کرتے تھے،حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کے کئی مضامین کے ترجمے انہوں نے کئے،جو مختلف مجموعوں میں شائع بھی ہوئے،مجھے اپنے علمی کاموں میں ان سے مدد اورتقویت ملتی رہی،ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے امید تھی کہ وہ ان مقاصد کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوں گے جو ندوۃ العلماء کے زیر نظر ہیں،لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا“ایسی بافیض شخصیت کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا انتہائی صدمہ کاسبب ہے،اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم۔

*عید کی نماز عیدگاہ میں*

*عید کی نماز عیدگاہ میں*
 چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں بھی پچھلے دوسالوں میں عید کی نماز پڑھی گئی ہے،اس کی وجہ ہم سبھوں کو معلوم ہے، افسوس تو اس بات پر ہے کہ آج بھی کچھ بھائیوں کواس پر اصرار ہے کہ جب اس مسجد میں عید کی نماز ہوچکی ہے،تو اب کیوں نہیں ہوسکتی ہے؟یہ سوال ایک بڑامسئلہ بن کر آج ہمارے درمیان کھڑا ہوگیا ہے۔
اس تعلق سے یہ عرض ہے کہ عید کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں ہی پڑھی ہے، بلاعذر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں عید کی نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے،
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بخاری شریف کی یہ حدیث ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحٰی کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے جاتے ،سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کی طرف رخ کرکے خطبہ کے لئے کھڑے ہوجاتے، اور لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے "۔
اس حدیث سے عیدین کی نماز کی ادائیگی عیدگاہ پر مسنون قرار دی گئی ہے، عام حالات میں شرعی حکم یہی ہے، البتہ ابوداؤد شریف کی ایک حدیث میں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ایک مرتبہ عید کے دن بارش ہورہی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مسجد نبوی میں نماز پڑھائی ہے۔
اس بنیاد پر یہ مسئلہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ عذر کی بنیاد پر ہی عید کی نماز مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے، اللہ کے رسول نے بھی اپنے اصحاب کو پڑھائی ہے،اپنے یہاں وبائی بیماری کی شدت اور حکومت وقت کی پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے پچھلےدو سالوں میں چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں نماز عید پڑھی گئی ہے، بحمداللہ اب وہ معاملہ نہیں رہا ہے ، موجودہ وقت میں اس پر اصرار سنت وشریعت کی صریح خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے۔بالخصوص سیمانچل کے علاقہ میں جہاں ہر گاؤں سے نکلتے ہی عید گاہ پر نظر جاتی ہے۔
حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:عید کی نمازکی اصل یہ تھی کہ مسلمان جس طرح ہفتہ میں ایک بار جمعہ کے لئے جمع ہوتے ہیں، اسی طرح سال میں دوبار ایک کھلے اور وسیع میدان میں جمع ہوں لیکن اس میں بھی مسلمانوں نے جمعہ کی طرح غفلت اور سہل انگاری سے کام لیا اور ہر چھوٹی بڑی مسجد میں عید کی نماز پڑھی جانے لگی،اس کی وجہ سے اس نماز کا بھی وہ اثر جاتا رہا، اور بہت سے وہ مقاصد فوت ہوگئے، جو شریعت کے پیش نظر تھے"(بحوالہ ارکان اربعہ،ص:88) 
مذکورہ بالا تحریر میں علی میاں رحمۃ اللہ نے جن مقاصد کے فوت ہونے کی بات کہی ہےوہ کیا ہیں؟
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف حجتہ البالغہ میں انہیں ہمارے سامنے کھول کھول کررکھ دیا یے،فرماتے ہیں:"ہر ملت کے لئے ایک ایسا مظاہرہ اور اجتماع ضروری ہوتا ہے جس میں اس کے سب ماننے والے جمع ہوں تاکہ ان کی شان وشوکت وکثرت تعداد ظاہر ہو،اور اسی لئے عیدین میں تمام لوگ حتی کے عورتوں اور بچوں کا نکلنا بھی مستحب قرار دیا گیا ہے، ان کو عیدگاہ سے علیحدہ ایک جگہ بیٹھنے اور مسلمانوں کی دعوت واجتماع میں شریک ہونے کا حکم ہے،اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانے میں دوسرا اور آنے میں دوسرا راستہ اختیار فرماتے تھے، تاکہ مسلمانوں کی شان وشوکت کا نقشہ دونوں طرف کے لوگوں کے سامنے آجائے"(بحوالہ سابق،ص:90)
شاہ صاحب کی یہ تحریرسنت وشریعت کی روشنی میں نماز عیدکی جامع تشریح ہے،اس مختصر تحریر کے ذریعہ نماز عید کا مکمل خلاصہ  حضرت نے کردیا ہے، باوجود اس کے اگر کوئی بغیر کسی عذر کےاس کے خلاف جاتا ہے تو وہ سنت وشریعت کےخلاف عمل پیرا ہےاور مقاصد شریعت سے روگردانی کررہا ہے،ہمارے واقعی افسوس صد افسوس کی بات ہے۔
آج غیروں نے ہمارا طریقہ اپنا لیا ہے اور اپنی شان وشوکت کے اظہار کے لئے اپنے رسمی تہواروں کو اس کا ذریعہ بنالیا ہے، اور ہم مسلمان اپنے شرعی عید کو رسمی طور پر منانے لگے ہیں، جبکہ موجودہ وقت میں اسے شرعی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے، بلکہ جس طرح اہل مکہ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو مدینہ کی آب وہوا نے کمزور کردیا ہے ،وبائی بخاروامراض کےیہ سبھی شکار ہوگئے ہیں، اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد ادائے عمرہ کے موقع پر یہ حکم دیا کہ طواف کرتے وقت پہلے تین پھیروں میں شانے ہلاکر بہادر کی چال چلیں،اور اہل مکہ کے اس خیال کو غلط ثابت کردیں کہ ہم کمزور ہوئے ہیں، عربی زبان میں اسی چال کو رمل کہتے ہیں، یہ سنت آج بھی باقی ہے اور زندہ ہے،طواف کے موقع پر اسے عمل میں لایا جاتا ہے، 
اپنے ملک میں بھی کرونا وائرس اور نفرتی وائرس کی وبائی بیماری آنے کے بعد یہ خیال پیدا ہوگیا ہے کہ مسلمان کمزور ہوئےہیں اور بزدل ہوگئے ہیں،ساتھ ہی حجروں میں معتکف ہوگئے ہیں، اعتکاف ختم ہوگیا ہے، یہ بتلانے کے لئے بھی مسجد سے نکلنا ناگزیر ہے۔اور عید کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مومن قوی کی طرح ایک راستے سے جانا ہےتو دوسرے راستے سے آنا ہے،اور اپنی اجتماعیت کا ثبوت پیش کردیناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۳۰/رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...