Powered By Blogger

پیر, ستمبر 06, 2021

سپریم کورٹ کا سنگھو بارڈر خالی کرنے کی درخواست سننے سے انکا

سپریم کورٹ کا سنگھو بارڈر خالی کرنے کی درخواست سننے سے انکار


 

judgment

نئی دہلی 6ستمبر:(اردودنیانیوز۷۲)سپریم کورٹ نے دہلی کو ہریانہ سے ملانے والی سنگھو سرحدکوخالی کرنے کی درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کر دیاجوکسانوں کے احتجاج کی وجہ سے بندہے۔ عدالت نے کہاہے کہ درخواست گزار کو پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ میں اپنی درخواست دائر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں سونی پت کے دو لوگوں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ سڑک کئی مہینوں سے بند ہے ، لہٰذا سپریم کورٹ حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ سڑک کھولے یا دوسری سڑک بنانے کا حکم جاری کرے ، تاکہ لوگ آ سکیں۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا ہے کہ ہمارے لیے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جب ہائی کورٹس موجود ہوں اور وہ مقامی حالات سے پوری طرح آگاہ ہوں کہ کیاہو رہا ہے۔ ہمیں ہائی کورٹ پر اعتماد کرنا چاہیے۔ اس مشاہدے کے ساتھ ، سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ان کی جانب سے درخواست واپس لے لی گئی۔

عدالت نے کہا ہے کہ درخواست گزار ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی آزادی رکھتا ہے۔ اعلیٰ عدالتیں نقل و حرکت کی آزادی اور بنیادی سہولیات تک لوگوں کی رسائی کے مسئلے سے بھی نمٹ سکتی ہیں۔

بنچ نے کہاہے کہ ہائی کورٹ نقل و حرکت کے حق اور دوسرے لوگوں کے حقوق کے درمیان توازن کے بارے میں بات کر سکتی ہے۔ دراصل ، درخواست گزار جئے بھگوان جو سونی پت کے رہائشی ہیں ، نے کہا تھا کہ اس تحریک کی وجہ سے شہر کے لوگوں کو مسائل کا سامنا ہے۔

دہلی کوملانے والی مرکزی سڑک بند ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ ابھیمنیو بھنڈاری نے کہاہے کہ سنگھو سرحد سونی پت کے لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے اہم ہے اور اس تحریک کی وجہ سے ان کے نقل و حرکت کے حق کو سلب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ ہم پرامن نقل و حرکت کے خلاف نہیں ہیں تاہم سڑکیں بند ہونے سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

مودی حکومت کسان تحریک کو کچلنے کی سازش بند کرو : کانگریس

مودی حکومت کسان تحریک کو کچلنے کی سازش بند کرو : کانگریسنئی دہلی: کانگریس نے کہاکہ ملک کا کسان زرعی قوانین کو ختم کرنے کی مانگ پر طویل عرصہ سے دھرنا دے رہا ہے لیکن مودی حکومت ملک کے کاشتکاروں کی بات سننے کی بجائے کسانوں پر حملہ کروا رہی ہے۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے یہاں جاری ایک بیان میں کہاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکز، ہریانہ اور اترپردیش کی حکومتیں کسانوں کو انصاف دینے کے بجائے کسان۔مزدوروں کی گاندھیائی تحریک کو دبانے اور کچلنے میں مصروف ہے۔تین زرعی سیاہ قوانین سے کسانوں کی روزی روٹی پرحملہ کرکے اور انصاف مانگ رہے کسانوں کو دہلی نہیں آنے دیا جارہا ہے اور ان پر حملہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسان گزشتہ نو مہینوں سے زیادہ وقت سے زراعت مخالف قوانین کو واپس لینے کی مانگ پر دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہیں اور دھرنا دے رہے ہیں۔ ان نو مہینوں کے دوران 800سے زیادہ کسان تحریک میں اپنی جان قربان کر چکے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کسانوں کی موت کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ کسانوں سے با ت چیت کے نام پر بی جے پی کے وزراء نے اینٹھ دکھائی، بات ماننے سے انکار کردیا اور تینوں سیاہ قوانین پر دوبارہ غور کرنے کرنے تک سے منع کردیا۔
کانگریس نے اسے بی جے پی حکومت کے تکبر کی انتہا قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت عوام مخالف ہے اور کسانوں کی دشمن ہے اس لئے کسانوں کی مانگ پر غور کرنے کی بجائے ان کے ساتھ ناانصافی کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہریانہ میں جن لوگوں نے کسانوں پر حملہ کروایا ہے ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔

علی گڑھ میں مسلم لڑکی نے ’ہندو دوست ‘ سے مندر میں شادی رچالی

علی گڑھ میں مسلم لڑکی نے ’ہندو دوست ‘ سے مندر میں شادی رچالی


 
aligarh-muslim-girl-ties-knot-with-hindu-boy

فتنۂ ارتداد کاظہور ، مسلم مفکران اب بھی خواب خرگوش میں

علی گڑھ، 6ستمبر:(اردودنیانیوز۷۲)اطلاع کے مطابق یوپی کے ضلع علی گڑھ میں فتنۂ ارتدادکی بھیانک تصویر سامنے آئی ہے ۔ جہاں آر ایس ایس کے چلائی گئی تحریک ’ گھر واپسی‘کا لرزہ خیزمنظر سامنے آیا ۔ یوں تو لوَ جہاد کے نام فسطائی طاقتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی ہنگامہ آرائی کرتی نظر آتی ہے ، لیکن ’گھر واپسی ‘پر میڈیا اپنے منھ میں دہی جمائے ہوا ہے ۔ ایسا ہی ایک معاملہ علی گڑھ میں دیکھنے کو ملا ۔تفصیلات کے مطابق یہاں ایک مسلم لڑکی (جو کاس گنج کی رہائشی بتائی جاتی ہے ) نے مندر میں ہندو رسومات کے مطابق اپنے ہندو دوست سے شادی کرلی۔

خیال رہے کہ ضلع علی گڑھ کے تھانہ پالی مقیم پور کے تحت گاؤں بیجولی کے رہنے والے امیت مہیشوری نے ضلع کاس گنج کی رہنے والی لڑکی نشا خان سے شادی کی ہے۔ نشاخان نے فتنۂ ارتداد کی پرواہ کئے بغیرنیزماقبل ہونے والی مسلم لڑکیوں کے ساتھ ہندو شوہر وں کی طرف سے ہونے والی بدسلوکیوں کی خوفناک خبروں کو نظر ا نداز کرکے اپنے عاشق امیت سے 7 چکر لگا کر شادی کرلی۔

اس سلسلے میں بجرنگ دل کے ضلعی عہدیدار شوبھم سنگھل نے کہا کہ جو شادی ہوئی وہ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے ہوئی، اس میں تمام ہندووادی افراد موجود تھے۔ ان کی شادی شیو مندر بجولی میں ہوئی، یہ شادی ان کی زندگی میں ایک نئی کرن ہے۔ابھی تک ا س شادی کے سلسلے میں نشاخان کی والدین کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا ہے۔

خیال رہے کہ صرف یوپی کے مختلف اضلاع ہی نہیں ؛بلکہ پورے ملک میں مختلف ہندوقوم پرست تنظیموں کی طرف سے مسلم لڑکیوں کو جھوٹے پیار کے چنگل میں پھنسا کراور سبز باغ دکھا کر شادی کے ذریعہ گھر واپسی کی مہم چلا جا رہی ہے ، لیکن بے حس ماں باپ تمام نتائج سے بے پرواہ ہیں۔ جبکہ مسلم تنظیمیں بھی اس سلسلے میں کسی طرح کی مثبت پیش رفت اور مؤثر مہم چلانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ علی گڑھ کا یہ حادثہ مسلم قوم ، مسلمان ماں باپ اور عالی مرتبت مفکرین کے لئے پھر ایک زیانہ ہے ۔

عرب امارات کاغیرملکیوں کیلئے نئے گرین، فری لانسر ویزوں کا اعلان

عرب امارات کاغیرملکیوں کیلئے نئے گرین، فری لانسر ویزوں کا اعلان

golden-visa-UAE

دبئی، 6ستمبر :(اردودنیانیوز۷۲)متحدہ عرب امارات نے غیرملکیوں کیلئے نئے گرین اور فری لانسر ویزوں کا اعلان کردیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اماراتی وزیر مملکت برائے غیر ملکی تجارت کے مطابق گرین ویزا ہولڈرز کو آجر کی ضمانت درکار نہیں ہوگی، گرین ویزا رکھنے والوں کی رہائش کا اجازت نامہ ان کے کام کے اجازت نامے سے علیحدہ ہوگا،ایسے افراد اپنے والدین اور 25 سال تک کے بچوں کو اسپانسر کر سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ویزے کی معیاد ختم ہونے کی صورت میں 90 سے 180 دن کا اضافی وقت دیا جائے گا،گرین ویزا باصلاحیت طلبہ، سرمایہ کار، تاجر اور کاروباری افراد کو دیا جائے گا جبکہ فری لانس ویزا اپنا کاروبار کرنے والے افراد کو دیا جائے گا۔

سیتا پور : گاؤں کے لوگ پراَسرار بخار سے خوفزدہ ، 50 اموات کا دعویٰ

سیتا پور : گاؤں کے لوگ پراَسرار بخار سے خوفزدہ ، 50 اموات کا دعویٰ


kids-fever-GettyImages

سیتا پور : (اردودنیانیوز۷۲)مغربی یوپی کے مختلف اضلاع فیروزآباد، علی گڑھ وغیرہ میں وائرل بخار کی تباہی مچانے کے بعد اب مشرقی یوپی کے سیتاپور ضلع میں بھی وائرل اور ڈینگوبخار پھیل رہا ہے۔ضلعی صدر مقام سے تقریباً 20 کلومیٹر دور بسیتی گاؤں کے مکین پراسرار بخار سے خوفزدہ ہیں۔ بسیتی گاؤں کے مکین اس وقت وائرل بخار سے پریشان ہیں۔ عالم یہ ہے کہ گاؤں کے اکثر لوگ خواہ وہ بچے ہوں، جوان ہوں یا ضعیف العمر ہر کوئی بخار کی زد میں ہے۔

لوگوں میں پراسرار بخار کے تئیںاس قدر گھبراہٹ ہے کہ اگر کسی کے جسم کا درجہ حرارت تھوڑابھی بڑھ جائے تو گھر والوں کے ماتھے پر پریشانی کی لکیر واضح طور پر نظر آنے لگتی ہے۔ دیہی باشندگان کے دعویٰ کے مطابق اب تک 50 سے زائد افراد فوت کر چکے ہیں۔اگرچہ دیہی باشندگان یہ اعداد و شمار گزشتہ ایک ماہ کے دوران بتا رہے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر یہ تعداد 15 سے 20 ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ڈاکٹر گاؤں میں بخار اور دوا چھڑکنے کے حوالے سے میڈیکل کیمپ لگانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

لیکن گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی ٹیم گاؤں میں صرف ایک بار ہی آئی ہے۔ گاؤں میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس کا کوئی فرد بخار میں مبتلا نہ ہو۔وہیں ڈسٹرکٹ ہسپتال میں درجنوں مریض داخل ہیں۔گاؤں والوں کے مطابق یہ بخار کے آنے کے بعد پہلے سردی محسوس ہوتی ہے ، پھر بخار تیزی سے بڑھتا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی دیہاتی فوت کرچکے ہیں۔

گاؤں والے بتا تے ہیں کہ وائرل بخار کی وجہ سے کئی اموات ہو چکی ہیں، جبکہ گاؤں میں ہر جگہ گندگی بھی دیکھی جا رہی ہے ۔جبکہ CHC سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر منیش گپتا نے بتایا کہ گاؤں میں کیمپ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ گاؤں میں ادویات بھی تقسیم کی گئی ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ گاؤں میں اب تک صرف 15 سے 20 لوگ وائرل بخار کی گرفت میں ہیں۔

کسانوں نے گودی میڈیا کو اوقات دکھائی: آج تک کی اینکر چترا ترپاٹھی "گودی میڈیا ہائے ہائے” کے نعروں کے درمیان موقع سے فرار : دیکھئے ویڈیو

آج تک ٹی وی اینکر چترا ترپاٹھی کو احتجاج کرنے والے کسانوں کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ، جس کے باعث وہ مظفر نگر میں کسانوں کے احتجاج کے مقام سے بھاگنے پر مجبور ہوئیں۔ ٹی وی اینکر کو جلدی باہر نکلتے دیکھا گیا جب مشتعل کسانوں نے ‘گودی میڈیا ہاے ہاے’ کے نعرے لگائے۔

آج تک کے ٹی وی اینکر ترپاٹھی اتوار کی مہا پنچایت کی رپورٹنگ کے لیے مظفر نگر میں تھے جنہیں کسانوں نے متنازعہ فارم قوانین کے خلاف بلایا۔ اسے بہت کم احساس ہوا کہ اسے بی جے پی کے حق میں اپنے اور اس کے آجر انڈین ٹوڈے گروپ کے مبینہ تعصبات کے لیے کافی غصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جیسا کہ توقع کی گئی تھی ، ترپاٹھی شدید سوشل میڈیا گفتگو کا موضوع بن گئے۔ کچھ ایسے تھے ، جنہوں نے انڈیا ٹوڈے گروپ کے اس طرح کے پروگرام کی کوریج کے لیے ایک خاتون اینکر بھیجنے کے فیصلے پر سوال اٹھایا۔
ایک صحافی نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح ترپاٹھی نے احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا۔

آج تک اور دیگر ٹی وی چینلز کو بی جے پی کے حق میں مبینہ جانبدارانہ کوریج کی وجہ سے گوڈی میڈیا ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کسان رہنما راکیش ٹکیت نے ٹی وی مباحثے میں سمبٹ پترا کو ‘بہوڈا’ کہا ، بی جے پی کے مشتعل ترجمان کا رد عمل
کچھ عرصہ پہلے ، کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے حالیہ ٹی وی مباحثے کے دوران بی جے پی کے ترجمان سمبٹ پترا کو ‘بہودہ’ کہا تھا ، جسے ترپاٹھی نے ماڈریٹ کیا تھا۔

آج کی مہا پنچایت میں کسانوں نے اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف مہم چلانے کا عزم کیا ہے۔ دونوں ریاستوں میں فی الحال بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔

رابعہ سیفی: بربریت کی گواہ ایک اور نربھیا

اعظم شہاب

سال قبل 16؍ دسمبر 2012 کو دہلی میں اپنے مرد دوست کے ساتھ رات میں تفریح کی غرض سے نکلنے والی اونچے طبقے کی ایک لڑکی کے ساتھ کچھ درندوں نے عصمت دری کے بعد اسے اور اس کے دوست کو چلتی بس سے پھینک دیا تھا۔ اسے بغرض علاج سنگاپور لے جایا گیا لیکن 29 دسمبر کو وہ جان کی بازی ہار گئی۔ اس واقعے کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا تھا۔ دہلی سے لے کر ممبئی تک لکھنؤ سے لے کر بنگلور تک ہر جگہ مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ متاثرہ لڑکی کو انصاف دلانے کی مہم کچھ اس شدت سے شروع ہوئی تھی کہ اس واقعے کے محض 2 دن بعد ہی پولیس نے 6 لوگوں کو گرفتار کرلیا تھا۔ ان میں سے ایک نے جیل میں ہی خودکشی کرلی تھی، ایک کو نابالغ ہونے کی بناء پر تین سال بعد رہائی مل گئی تھی جبکہ بقیہ 4 لوگوں کو پھانسی دیدی گئی تھی۔ اس لڑکی کا نام یوں تو کچھ اور تھا لیکن اسے ’نربھیا‘ کا نام دیا گیا، جس کے بعد سے ’نربھیا‘ ملک بھر میں جنسی بربریت کا ایک علامتی نام بن گیا۔

تازہ ترین واقعہ دہلی کے سنگم وہار کی رہنے والی رابعہ سیفی کا ہے جس کے ساتھ بھی حیوانیت و درندگی کا نربھیا کی ہی مانند مظاہرہ ہوا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ ظلم وناانصافی اسی وقت ظلم وناانصافی قرار پاتی ہے جب وہ اپنے جیسوں کے ساتھ ہو۔ چونکہ نربھیا اعلیٰ تعلیم یافتہ، ماڈرن اور اونچے طبقے سے تعلق رکھتی تھی اس لئے پہلے میڈیا، پھر طبقۂ اشرافیہ اور پھر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے فریضے کے طور پر پورے ملک نے اس کو انصاف دلانے کی مہم میں حصہ لیا۔ مگر کشمیر، ہاتھرس، جھارکھنڈ و دہلی کی متاثرہ لڑکیوں کا تعلق چونکہ اونچے طبقے سے نہیں تھا، اس لئے اول تو ان کے خلاف آواز نہیں اٹھی، اور اگر اٹھی بھی تو حکومت وانتظامیہ کے ذریعے اسے دبا دیا گیا اور پھر بھی نہیں دبی تو پولیس کے ذریعے اس طرح کے واقعات سے ہی انکار کر دیا گیا۔ یہ صورت حال اس ملک کی ہے جہاں عورتوں کو دیوی کا درجہ دیا جاتا ہے اور جہاں بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کی مہم چلائی جاتی ہے۔

رابعہ سیفی کے معاملے میں حکومت و انتظامیہ کی سرد مہری کا سب سے بڑا سبب اس کے علاوہ کیا کچھ اور ہوسکتا ہے کہ وہ ایک غریب خاندان کی اقلیتی طبقہ کی لڑکی ہے؟ اگر یہی رابعہ کوئی ریکھا یا سریتا ہوتی، کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کسی اونچے عہدے پرفائز ہوتی تو کیا حکومت وانتظامیہ کا یہی رویہ ہوتا؟ خبروں کے مطابق اس معاملے میں کوئی مہرا نامی آفیسر بھی ملوث ہے، لیکن اسے شوہر کی انتقامی کارروائی بتاکر پیش کیا جا رہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مقتولہ کا شوہر بھی عین موقع پر سامنے آگیا۔ جبکہ رابعہ کے والدین اس بات سے ہی انکار کر رہے ہیں کہ ان کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شوہر نامدار جن کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ بھی ڈیفنس میں ہی کام کرتے ہیں، اس وقت سامنے آئے جب رابعہ کے ساتھ ہوئی بربریت نے لوگوں کو جنجھوڑنا شروع کر دیا تھا۔

پولیس کے ذریعے اس معاملے میں جو کہانی سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ نظام الدین نے رابعہ سے شادی کرلی تھی، لیکن رابعہ نے اس کی ساتھ بیوفائی کی جس سے دلبرداشتہ ہوکر ملزم نے اس کو قتل کر دیا اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ اگر اس کہانی پر یقین بھی کرلیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملزم کو خود کو پولیس کے حوالے ہی کرنا تھا تو اس کے لیے اسے دہلی سے باہر سورج کنڈ تک جانے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ اس طرح کے جرم اضطراری کیفیت میں انجام پاتے ہیں نہ کہ منصوبہ بند طریقے سے۔ اور ایسی صورت میں اس کا امکان مزید کم ہو جاتا ہے جب ملزم خود کو قانون کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس کے علاوہ اس معاملے میں پولیس اس آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں بھی ابھی تک کوئی خاطرخواہ جواب نہیں دے سکی ہے جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ رابعہ کے ساتھ کام کرنے والی کسی خاتون دوست کا ہے اور جس نے اپنے سینئر روندر مہرا کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کیا یہ سب باتیں اس درندگی وقتل کو منصوبہ بند قرار دینے کی چغلی نہیں کھا رہے ہیں؟

یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ رابعہ سیفی نے شادی کرلی تھی اور شوہر نے اس کی بیوفائی کی وجہ سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سوال ہماری حکومتوں، انتظامیہ اورخاص طور سے سماج کی بے حسی کا ہے۔ کیا اس طرح کے جرائم پر اسی وقت انصاف کی گہار لگائی جائے گی جب جرم کی شکار ہونے والی لڑکی اونچے طبقے سے تعلق رکھتی ہو؟ کیا رابعہ کے ساتھ ہوئی دردنگی اور قتل کو یہ کہہ کر ہم جواز فراہم نہیں کر رہے ہیں کہ قاتل نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے؟ اگرایسا ہے تو پھر معاف کیجئے نربھیا اور حیدرآباد کے وٹرنری ڈاکٹر کے انصاف کے لیے ہم نے جو گہار لگائی تھی وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ رابعہ کے والدین بار بار اس کی آزادانہ تفتیش کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر تفتیش کرانا تو دور اس واقعے کو دہلی تک میں منتقل نہیں کیا جا رہا ہے۔

نربھیا کے گنہگاروں کو انصاف دلانے کی مہم کی شدت کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب دوبارہ اس طرح کی درندگی کی ہمت کوئی نہیں کرسکے گا، کیونکہ اسی دوران پارلیمنٹ میں اس طرح کے واقعات کے خلاف سخت ترین قانون بھی بنایا گیا تھا جسے نربھیا قانون کہا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے ان احتجاجات اور قوانین کے باوجود بھی اس طرح کے واقعات نہیں رکے اور کبھی حیدرآباد تو کبھی کشمیر، کبھی بہار تو کبھی اترپردیش سے اس طرح کی درندگی کی خبریں آتی رہیں اور آج بھی آرہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان احتجاجات کے پسِ پشت اسی طرح کے سیاسی مقصد کا حصول کارفرما تھا جس طرح اناہزارے کی بدعنوانی مخالف مہم میں کار فرما رہا۔ شاید اسی لئے جو حشر بدعنوانی مخالف مہم کا ہوا وہی نربھیا مہم کا بھی ہوا یعنی کہ نہ بدعنوانی رکی اور نہ ہی نربھیا جیسی درندگی۔ البتہ ان کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اس وقت کی مرکزی حکومت کے خلاف ایک ایسا ماحول تیا ر ہوگیا جس نے 2014 میں حکومت کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔

چوتھاٹیسٹ فیصلہ کن مرحلے میں

چوتھاٹیسٹ فیصلہ کن مرحلے میں

چوتھا ٹیسٹ
چوتھا ٹیسٹ

لیڈز: ہندوستان اور انگلینڈ کے درمیان پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا چوتھا میچ اوول کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا جا رہا ہے۔ چوتھے دن بھارت نے اپنی دوسری اننگز میں 466 رنز بنائے۔ اس طرح انگلینڈ کو میچ جیتنے کے لیے 368 رنز کا ہدف ملا۔ انگلینڈ نے بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 77 رنز بنائے ہیں۔ اس میچ میں تمام نتائج ممکن ہیں۔ انگلینڈ کی ٹیم فاتحانہ انداز میں ہے۔ ہندوستان کے لیے بھی امکانات موجود ہیں۔ میچ ڈرا بھی ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے پانچویں دن کا کھیل بہت دلچسپ ہونے کی توقع ہے۔

شاردول نے شاندار بیٹنگ کی۔ دوشی نے کہا کہ ویرات کوہلی کے آؤٹ ہونے کے بعد ب ٹیم مشکلات میں نظر آئی ، لیکن یہاں سے شردول ٹھاکر اور رشبھ پنت نے نصف سنچریاں بناکر ہندوستان کو ایک بڑے اسکور پر لے گئے۔ شاردول نے خاص طور پر اچھی بیٹنگ کی۔ وہ واضح ذہنیت کے ساتھ کریز پر آتا ہے اور بے خوف کھیلتا ہے۔ ان کی بیٹنگ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ زیادہ تر V میں شاٹس کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انگلینڈ کے اوپنرز مشکل وقت میں ہیں۔ ابتدائی شراکت داری بہت اہم ہو جاتی ہے جب 368 رنز کا بڑا ہدف پورا ہو جاتا ہے۔ روری برنس اور حسیب حمید نے اس محاذ پر اچھا کام کیا ہے۔ ان دونوں نے انگلینڈ کو چوتھے دن کے آخری گھنٹوں میں کسی بھی جھٹکے کا شکار نہیں ہونے دیا۔ اب انگلینڈ کو صرف 291 رنز کی ضرورت ہے ، تب ان کے بلے بازوں کو اعتماد ہو گا کہ وہ اس پچ پر رنز بنا سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر میچ انتہائی دلچسپ پوزیشن میں ہے اور اس سیریز کی سمت کا فیصلہ بھی پانچویں دن کے کھیل سے کیا جا سکتا ہے۔


مظفرنگر میں کسان مہاپنچایت لاکھوں کسانوں کی شرکت

(مظفرنگر میں کسان مہاپنچایت لاکھوں کسانوں کی شرکت )زرعی قوانین کے خلاف احتجاج'مرکز اور یوپی حکومت پر تنقید
راکیش ٹکیت نے اسٹیج سے 'اللہ اکبر' اور 'ہر ہر مہادیو' کے نعرے لگائے

مظفرنگر: مغربی اتر پردیش کے مظفر نگر میں اتوار کے روز زرعی قوانین کے خلاف تاریخی کسان مہاپنچایت کا انعقاد عمل میں لایاگیا۔ اس پنچایت سے خطاب کرتے ہوئے کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے مرکز اور اتر پردیش کی یوگی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹکیت نے کہا کہ اب تک گنّے کا ایک روپیہ بھی نہیں بڑھایا گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا یوگی حکومت کمزور ہے، ایک روپیہ بھی بڑھانے سے قاصر ہے۔ راکیش ٹکیت نے کہا کہ ان کا مقصد صرف یوپی کو بچانا نہیں ہے بلکہ وہ پورے ملک کو بچانا چاہتے ہیں۔ کسانوں کی کھیتی بکنے کے دھانے پر ہے۔ ہماری زمینیں گنّے کی پٹی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم گنّے کے دام 450 روپے فی کنٹل دیں گے۔ راکیش ٹکیت نے کہا کہ جب پہلے کی حکومتوں نے داموں میں اضافہ کیا تھا تو یوگی حکومت نے ایک روپیہ بھی اضافہ کیوں نہیں کیا!ٹکیت نے کہا کہ یہ لوگ ریلوے بیچ رہے ہیں۔ اگر ریلوے فروخت ہو جائے گی تو ساڑھے چار لاکھ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ ملازمین کی پنشن ختم کی جا رہی ہے لیکن ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کو پنشن دی جا رہی ہے۔ٹکیت نے کہا کہ کسان 9 ماہ سے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، لیکن چند مراحل کے بعد حکومت نے مذاکرات کو روک دیا۔ اس موقع پر راکیش ٹکیت نے مہاپنچایت سے قومی یکجہتی کا پیغام دیا اور بیک وقت اللہ اکبر اور ہر ہر مہادیو کے نعرے لگائے۔ انہوں نے کہا یہ لوگ باٹنے کا کام کر رہے ہیں، ہمیں انہیں روکنا ہوگا۔ پہلے اس ملک میں اللہ اکبر اور ہرہر مہادیو کے نعرے ایک ساتھ لگائے جاتے تھے، آگے بھی لگائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یوپی کی سرزمین فساد کرانے والوں کے سپرد نہیں کریں گے۔راکیش ٹکیت نے مزیدکہا کہ گزشتہ 9 مہینے سے تحریک چل رہے ہے لیکن حکومت نے بات چیت کرنا بند کر دیا۔ سینکڑوں کسانوں نے جان گنوا دی لیکن ان کے لئے ایک منٹ بھی خاموشی اختیار نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد محض یوپی کو بچانا نہیں بلکہ پورے ملک کو بچانا ہوگا۔ ہر عوامی چیز کو جس طرح بیچا جا رہا ہے اس کی اجازت کس نے دی۔ اس تحریک میں سینکڑوں کسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن حکومت نے ان کے لیے ایک منٹ کی خاموشی بھی نہیں منائی۔ٹکیت نے حکومت سے پوچھا کہ جس طرح حکومت چیزیں بیچ رہی ہے اس کی اجازت کس نے دی

سانپ کو دودھ کب تک پلایا جاسکتا ہے؟

نواب علی اختر

نام نہاد ہندو سنت یتی نرسمہا نند سرسوتی نے پچھلے دنوں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں انتہائی قابل اعتراض باتیں کہیں جس کو لے کر اقلیتی فرقہ میں زبردست غم و غصہ دیکھا گیا جب کہ اکثریتی طبقے کے کچھ انتہا پسند سرسوتی کے دفاع میں آگئے اور اسے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ تک کا خطاب دے دیا، مگر اب اسی سمراٹ نے اکثریتی فرقے کی بہن بیٹیوں کے ساتھ ساتھ حکمراں بی جے پی کی خواتین وزراء اور کارکنان کے خلاف قابل اعتراض باتیں کہہ کر بھگوا چولے کو داغدار کیا ہے، اس مہنت نے خواتین کے خلاف ایسی گھٹیا زبان کا استعمال کیا ہے جو سڑک پر گھومنے والے شہدوں کی بھی نہیں ہوتی۔ مگر بی جے پی کی خواتین وزراء گالی کھاکر بھی خاموش ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اگر خود ساختہ سنت کے خلاف زبان کھولی تو ہندو سماج ناراض ہوجائے گا جو بی جے پی کی سیاست کے لیے خطرناک ہوگا۔ ایسے میں گالی کھاکر بھی خاموش رہنا معزز شخصیات کی مجبوری بن گئی ہے۔

 

یتی نرسمہا نند سرسوتی نے جب سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبد الکلام کو ’جہادی‘ کہا تھا تب ہندو سماج کے ایک طبقے نے خوب چٹخارے لے کر اسے سنت کہا، مندر میں پانی پینے پر اقلیتی طبقے کے بچے کو پیٹا گیا پھر بھی سماج کے ایک طبقے نے اسے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کہہ دیا، لیکن سانپ کو دودھ کب تک پلایا جاسکتا ہے؟ سانپ تو سانپ ہے، اس کی فطرت ڈسنا ہے، اور وہ ضرور ڈسے گا۔ اس بار ہمارے ملک کے عوام کے ذریعہ منتخب کی گئیں عزتمآب خواتین وزراء اور خواتین لیڈران کو اس سنت نے کھلے عام گالی دی ہے اور ایسی ویسی گالی نہیں بلکہ بابا کی گھنونی زبان نے ایک زبان میں بی جے پی کی بڑی خواتین وزراء اور لیڈران کو ان کے ساتھ مرد سیاستدانوں کے بستر تک پہنچا دیا۔ سرسوتی کے مطابق سیاست میں اور خاص طور پر بی جے پی میں خواتین جب تک ایک لیڈر کے پاس سے دوسرے لیڈر اور دوسرے لیڈر سے تیسرے لیڈر کے پاس نہیں جاتیں، وہ آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں۔

 

سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہے ویڈیومیں یتی نرسمہا نند نے خواتین کے لئے اور ان کے خدوخال کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کی ہے، اس زبان کو ایک سڑک چھاپ بھی استعمال کرنے میں ہچکچائے گا۔ تازہ ویڈیو کے بعد یتی کو دودھ پلانے والے بی جے پی لیڈر ضرور پچھتا رہے ہوں گے کہ انہوں نے یتی جیسے شخص کو بابا سمجھ کر دودھ پلایا۔ جس کی زبان اور نظریات، خواتین کے لئے اتنی گھٹیا سوچ کو دیکھ اور سن کر سڑک چھاپ شہدے بھی اسے اپنا مہا گرو ماننے لگے ہیں۔ ان سب کے باوجود بی جے پی کی خواتین لیڈران اپنا ’مون برت‘ توڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ یعنی بھگوا پہن کر انہیں کوئی کچھ بھی کہہ کر چلا جائے، ملک میں کہیں بھی ان کی ساتھی خواتین کی ساڑی کھینچ لی جائے،ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ فرق بھی پڑتا ہوگا تو اقتدار کی لالچ میں عزت اور وقار کو گروی رکھ دیا ہوگا۔

 

یوپی میں ایم پی، ایم یل اے اور وزراء کے طور سے مجموعی طور پر 60 خواتین اقتدار کے مزے لے رہی ہیں لیکن ان میں سے ایک نے بھی نرسمہا کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا، کسی خاتون نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے کردار اور وقار کی توہین کرنے والے بابا حد میں رہیں۔ خواتین لیڈران کو حکومت کا ڈر سمجھ میں آتا ہے، مگر حکومت اور انتظامیہ کو کس کا ڈر ہے جو ایسے بد زبانوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہے۔ کیا مہذب سماج میں ایسے ہی لوگوں کو پروان چڑھایا جائے گا جو ایک دوسرے کو گالی دیں اور برا بھلا کہیں۔ پچھلے دنوں نئی دہلی کے پریس کلب میں جس وقت یتی نرسمہا نند سرسوتی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کر رہا تھا، اسی وقت اس کے خَلاف کارروائی کی جاتی تو آج نام نہاد باباؤں کو اس طرح کی گندی زبان استعمال کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ان سب کے لئے بی جے پی اور اس کی حکومت ذمہ دار کہی جا سکتی ہے جو یتی نرسمہا نند جیسے لوگ آج بھی کھلے سانڈ کی طرح گھوم گھوم کرسماج کو پراگندہ کر رہے ہیں۔

 

حیرت تو تب زیادہ ہوتی ہے جب ’انقلاب زندہ باد‘ نعرے لگانے والوں کو غدار ثابت کرنے کے لئے ہمارے میڈیا کا ایک طبقہ دن رات ایک کر دیتا ہے مگر یتی کے بیان پرمشتمل اس قابل اعتراض ویڈیو پر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ہے۔ ہمارے میڈیا میں اتنی بڑی تبدیلی جمہوریت کو تباہ کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ حالیہ چند برسوں میں ہندوستان میں کسی اور شعبہ میں کوئی تبدیلی آئی ہو یا نہ آئی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ میڈیا میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ میڈیا کے نقطہ نظر کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ میڈیا اب غیر جانبدار نہیں رہا بلکہ ایک فریق بن گیا ہے اور ملک کے مذہبی ماحول کو پراگندہ کرنے میں سب سے زیادہ سرگرم رول ادا کر رہا ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ملک کو انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس نوعیت کے مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن میڈیا کی اس پر کوئی توجہ نہیں ہوتی بلکہ عوام کو درپیش سنگین مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ہندو۔ مسلم پروپگنڈہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔

حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے اور حکومت سے سوال کرنے کی بجائے میڈیا نے خود کو ایک مخصوص رنگ میں رنگ لیا ہے اور وہ حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے میں زیادہ مصروف ہے۔ حکومت کا دفاع خود حکومت کے ذمہ داران اتنا نہیں کرپاتے جتنا میڈیا نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ حد یہ ہوگئی ہے کہ حکومت سے سوال کرنے کی بجائے اپوزیشن کے وجود پر ہی سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی اہمیت کو افادیت پر سوال پوچھا جا رہا ہے جبکہ میڈیا کا یہ اولین اور بنیادی فریضہ ہے کہ عوام کو پیش آنے والی مشکلات اور مسائل پر حکومت وقت سے سوال کریں۔ اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ اس کی پالیسی ور فیصلوں کو جانچیں اور پرکھیں، لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے۔ بلکہ حکومت سے سوال پوچھنے والوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیتے ہوئے ان کی شبیہہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ویسے تو ابتداء سے فکرمند شہریوں کے گوشوں کی جانب سے اور دانشوروں کی جانب سے ملک کے موجودہ حالات اور میڈیا کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور جانبدارانہ رول پر تنقیدیں کی جا تی رہی ہیں اور ساتھ ہی حکومت کے فیصلوں کی بھی مخالفت کی جاتی رہی ہے، لیکن حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔ سپریم کورٹ اور اس کے ججز نے حالیہ وقتوں میں کچھ مواقع پر ناقدانہ رائے کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا اور حکومت کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ کم از کم عدالتوں کا احترام کریں اور ان کی رائے کو محترم سمجھتے ہوئے اپنی روش میں تبدیلی کریں۔ موجودہ حالات جو ملک بھر میں پائے جاتے ہیں وہ میڈیا کی مرہون منت ہی کہے جاسکتے ہیں کیونکہ میڈیا نے ہر معاملے کو ہندو۔ مسلم کی عینک سے دیکھنا اور اسی نظریہ سے عوام کو دکھانا شروع کر دیا ہے۔

بی جے پی اور سنگھ پریوار کی منافقت

 سہیل انجم

بات چیف جسٹس آف انڈیا کے تبصرے سے شروع کرتے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں تبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کے الزام کے حوالے سے کہا کہ میڈیا خبروں کو بہت زیادہ فرقہ وارانہ رنگ دے کر پیش کرتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ہندوستان کا نام بدنام ہوتا ہے۔ انھوں نے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے رویے پر بہت سخت تنقید کی اور کہا کہ خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے والو ں کے خلاف حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے۔

 

تبلیغی جماعت کے حوالے سے میڈیا رپورٹنگ پر ملک کی مختلف عدالتیں انتہائی سخت تبصرے کر چکی ہیں۔ سپریم کورٹ سے لے کر نچلی عدالتوں تک نے تبلیغی جماعت پر عاید کیے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور ان کے رضا کاروں کے خلاف درج ایف آئی آر خارج کی ہیں۔ انھوں نے میڈیا کو بارہا لتاڑا اور اسے ملک کا ماحول خراب نہ کرنے کی نصیحت کی ہے۔ لیکن میڈیا کے رویے میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے۔ اگر چہ اس نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے اپنی خطرناک اور بدترین رپورٹنگ کا سلسلہ بند کر دیا ہے لیکن اس کی مسلم مخالف مہم ابھی بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے تعلق سے جو فرقہ وارانہ رپورٹنگ ہوئی اس سے دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ لیکن صرف اسی وجہ سے ہندوستان کی بدنامی نہیں ہو رہی ہے اور بھی چیزیں ہیں جو ہندوستان کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں۔ میڈیا کو اب ایک نیا ہتھیار مل گیا ہے۔ یعنی طالبان نامی ہتھیار۔ وہ اب طالبان کی آڑ میں ملک کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کہیں کسی مسلمان کی جانب سے کوئی ایسا بیان سامنے آگیا جس سے طالبان کی حمایت کا ہلکا سا بھی پہلو نکلتا ہو تو اس کا ہوا کھڑا کر دیا جاتا ہے اور تل کا تاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ تمام مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔

 

حالانکہ عام مسلمانوں کی جانب سے طالبان کی قطعاً حمایت نہیں کی گئی ہے۔ اگر چند ایک لوگوں نے کوئی ایسا بیان دیا ہے کہ اس سے طالبان کی حمایت کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پورے ملک کے مسلمان ویسا ہی سوچتے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی امن پسندی اور حب الوطنی پر شک کرنے والے خود محب وطن نہیں ہیں۔ خواہ وہ بی جے پی کے لوگ ہوں یا آر ایس ایس کے یا پھر حکومت میں شامل لوگ۔ ان لوگوں کی جانب سے یہ مطالبہ کرنا کہ مسلمان طالبان کی مذمت کرنے والا بیان دیں سراسر غلط اور ناپسندیدہ موقف ہے۔

 

یہاں یہ ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف مسلمانوں سے ایسی توقع رکھی جا رہی ہے کہ وہ طالبان کی مذمت کرنے والا بیان جاری کریں اور دوسری طرف خود حکومت ہند طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے۔ دوحہ میں ہندوستان کے سفیر دیپک متل کی طالبان کی سیاسی قیادت کے سربراہ شیر محمد عباس استانکزئی سے ملاقات کو آخر کیا نام دیا جائے گا۔ ایک طرف حکومت ان سے رابطہ کر رہی ہے اور ٹھیک ہی کر رہی ہے۔ کیونکہ یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہندوستان طالبان کے ساتھ روابط قائم کرے تاکہ افغانستان میں ہندوستان کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔

 

دوسری طرف آر ایس ایس اور بی جے پی کی جانب سے طالبان کی آڑ میں فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صرف خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنے سے ہندوستان کی بدنامی نہیں ہو رہی ہے بلکہ طالبان کی آڑ میں ملکی ماحول کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے سے بھی ہو رہی ہے۔ لیکن یہ حکومت، آر ایس ایس اور بی جے پی کی منافقت ہے کہ ایک طرف حکومت طالبان سے رابطہ قائم کر رہی ہے اور دوسری طرف مذکورہ عناصر طالبان کے نام پر مسلم دشمن ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دراصل یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت جب سے آئی ہے وہ اپنا ہر قدم انتخابی فائدے کو ذہن میں رکھ کر اٹھا رہی ہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد گجرات کے سومناتھ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک پروگرام میں بولتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی بنیاد پر کوئی حکومت قائم تو کی جا سکتی ہے لیکن وہ تادیر نہیں چل سکتی۔ ان کا براہ راست اشارہ طالبان کی طرف تھا اور اس کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا۔ ایسا بیان دینے کی وجہ اترپردیش سمیت ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں۔ ظاہر ہے جب اس قسم کے بیانات دیئے جائیں گے تو ان کا اثر عوام پر پڑے گا اور وہ ایک خاص ذہن بنانے کی کوشش کریں گے۔

آسام پولیس کی کارروائی کو اسی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نے چودہ مسلمانوں کے خلاف یو اے پی اے لگا دیا اور انھیں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ ان مسلمانوں نے طالبان کی حمایت کی تھی۔ اور چونکہ پولیس کی نگاہ میں طالبان دہشت گرد ہیں اس لیے ان مسلمانوں نے دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔ اگر کسی مسلمان نے دہشت گردی کی حمایت کی ہے تو اس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ لیکن سوال یہ ضرور اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کے بیانات اتنے خطرناک تھے کہ ان پر یو اے پی اے جیسا سنگین قانون لگا دیا جائے۔

 

ایک طرف نریند رمودی کی قیادت میں بی جے پی نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر غیر اہم بنا دیا ہے اور دوسری طرف بی جے پی اور آر ایس ایس والے مسلمانوں کے نام پر ملک میں فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب مسلمانوں کے ووٹوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے تو پھر ان کے نام پر ہندووں کے ایک بڑے طبقے کے ذہن کو خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 2014 اور پھر 2019 میں مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر بھی بی جے پی کو زبردست اکثریت حاصل ہوئی۔ اس نے سیکولر ووٹوں کو بھی غیر اہم بنا دیا تو پھر اس منافقت کی کیا ضرورت ہے۔

اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ سنگھ پریوار کو ایک دشمن چاہیے جس کا ہوا کھڑا کرکے ہندووں کے ایک طبقے کو ڈرایا جائے، ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جائے اور پھر ان کے ووٹوں پر قبضہ کیا جائے۔ سنگھ پریوار کیوں نہیں مسلمانوں کو چھوڑ دیتا کہ وہ اپنے طور پر جو کرنا چاہیں کریں۔ اس نے ان کی سیاسی حیثیت بھی ختم کر دی اور ان کو انتخابی میدان میں زندہ بھی رکھا ہے۔ سنگھ پریوار اور خاص طور پر بی جے پی اور اس کے حامیوں کو یہ منافقت چھوڑنی ہو گی۔ لیکن کیا وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ ہرگز نہیں۔ کیونکہ یہ منافقت ہی اس کو سیاسی طور پر مضبوط بنا رہی ہے۔ آج طالبان کا ایشو ہے کل کوئی اور ایشو آجائے گا۔ اگر آئے گا نہیں تو پیدا کیا جائے گا۔ تاکہ ایک نام نہاد دشمن کھڑا کرکے ہندووں کے بڑے طبقے کو ورغلایا جائے اور ووٹوں کی فصل کاٹی جائے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...