Powered By Blogger

منگل, جنوری 04, 2022

ہندوستان میں اس ہفتے لانچ ہوسکتی ہے کووڈ کی سب سے سستی دوا ، 35 روپئے گولی ہے قیمت

ہندوستان میں اس ہفتے لانچ ہوسکتی ہے کووڈ کی سب سے سستی دوا ، 35 روپئے گولی ہے قیمتنئی دہلی: مینکائنڈ فارما (Mankind Pharma) اس ہفتے سب سے سستی 35 روپئے فی کیپسول کی کووڈ-19 اینٹی وائرل دو مولنپرویر (Covid-19 Antiviral Drug Molnupiravir) لانچ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ یہ جانکاری کمپنی کے چیئرمین نے دی ہے۔ انگریزی ویب سائٹ دی اکنامک ٹائمس کی ایک رپورٹ کے مطابق، مینکائنڈ فارما کے چیئرمین آر سی جونیجا (RC Juneja, chairman of Mankind Pharma) نے بتایا کہ مولولائف کے پورے علاج پر 1,400 روپئے خرچ ہونے کی امید ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ہفتے بازار میں برانڈ کے آنے کی امید ہے۔ ایک مریض کے لئے مولنوپرویر پانچ دن تک ہر دن میں دو بار 800 ملی گرام ریکمینڈ کی گئی ہے۔ ایسے میں ایک مریض کو 200 ملی گرام خوراک کے طور پر 40 کیپسول لینے کی ضرورت ہے۔ اورل پل کی مینوفیکچرنگ 13 ہندوستانی دوا کمپنیوں کے ذریعہ کیا جائے گا، جن میں ٹورنٹ، سپلا، سن فارما، ڈاکٹر ریڈیز، نیٹکو، مائیلان اور ہیٹیرو شامل ہو۔ واضح رہے کہ مینکائنڈ فارما ملک مین کووڈ -19 کی دوا مولو لائف (مالنوپریور) کی پیشکش کے لئے بی ڈی آر فارمااسیوٹکلس کے ساتھ شراکت کی ہے۔ گزشتہ دنوں کمپنی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس شراکت کے تحت بی ڈی آر فارما کے ذریعہ پیداوار کیا جائے گا، جبکہ وپنن، فروخت، تشہیر، تقسیم مینکائنڈ فارما کرے گی۔ ڈی سی جی آئی نے ملک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری مینکائنڈ فارما کے سینئر صدر (فروخت اور مارکیٹنگ) سنجے کول نے کہا تھا کہ کمپنی کووڈ-19 کے خلاف لڑائی کو مضبوط کرنے کے لئے ہرممکن قدم اٹھائے گی اور اس ضمن میں مولو لائف کو ہرجگہ دستیاب کرایا جائے گا۔ انڈین ڈرگ کنٹرولر جنرل (ڈی سی جی آئی) نے کووڈ-19 کے علاج میں ملک میں مفید اینٹی وائرل دوا مولنوپرویر کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی گئی۔ واضح رہے کہ مولنوپرویر کی سیکورٹی کا اندازہ کرنے کے لئے 1,000 مریضوں پر اس کا ٹرائل کیا جائے گا۔ ہندوستان کے ڈرگ ریگولیٹر کی طرف سے جاری دوا کی تعمیر اور مارکیٹنگ کی اجازت والے خط میں کہا گیا کہ تین ماہ کے اندر کلینیکل ٹرائل کی اپڈیٹ ڈیٹیل دینی ہوگی۔

تعلیمی نصاب کا بھگوا کرن مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تعلیمی نصاب کا بھگوا کرن 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مرکزی حکومت کی جانب سے  تعلیمی نصاب کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے، یہ ایک خطرناک منصوبہ ہے، جس کو بروئے کار لانے کے لیے پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا سہارا لیا گیا ہے، اس کمیٹی نے جو تجاویز پیش کی ہیں، اس کا حاصل یہ ہے کہ رگ وید ،یجر وید، اتھر وید، شام وید اور گیتا کی تعلیم نصاب کا حصہ بنے گی ، تاریخ کی کتابوں میں تبدیلی لا کر ہندتوا سے متعلق واقعات اور شخصیات کو مرکزی حیثیت دی جائے گی، مسلمانوں کو چھوڑ کرسکھ، مرہٹہ ، گوجر، جاٹ اور قبائلیوں سمیت، مہابھارت اور امامن کی نصاب میںشمولیت بھی اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے، مسلمانوں کی مذہبی کتابوں اور تاریخ کو نظر انداز کرنا اس منصوبہ کا اصل ہدف اور نشانہ ہے، پارلیمانی کمیٹی کی ان سفارشات کی انڈین ہسٹری کانگریس نے شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ تاریخ کی کتابوں کا جائزہ لینا اگر ضروری ہی ہے تو ملک بھر سے ایسے اسکالرز کو جمع کرنا چاہیے جو مختلف ادوار کا غیر جانبدارانہ معروضی مطالعہ کرکے  حاصل مطالعہ پیش کر سکیں۔
 اسٹینڈنگ کمیٹی کی ان سفارشات کی مخالفت ہرسطح پر ہو رہی ہے، ماہرین کی رائے ہے کہ یہ ملک مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ہے، اور یہی گلہائے رنگا رنگ زینت چمن کا سبب ہیں، اسی لیے نصاب میں تمام مذاہب کی اخلاقی، اصلاحی اور ملک وسماج میں اتحاد وہم آہنگی پیدا کرنے والے مواد کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے اور ان میں کوئی تفریق نہیں کی جانی چاہیے، صرف ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کی شمولیت سے نفرت کے اس ماحول میں مزید اضافہ ہوگا، جو اس ملک کی شناخت بنتی جا رہی ہے، ہندوستانی کو نسل برائے تاریخی ریسرچ(ICHR)۲۰۱۴ء سے آر اس اس اور فرقہ پرستوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن گئی ہے، اور تاریخ کو نئے سرے سے مرتب کرنے کے بعد جعلی اور جھوٹی تاریخ کو رواج دینا چاہتی ہے، اس کی خواہش ہے کہ مسلم مجاہدین آزادی کو نظر انداز کیا جا ئے، جنگ آزادی میں ٹیپو سلطان کے کردار کو حذف کر دیا جائے اور گاندھی جی کی جگہ ویر ساورکر اور گوڈسے کو اہمیت دی جائے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاسکے، ظاہر ہے یہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب، دیرینہ روایات واقدار اور مل جل کر رہنے کے جذبہ کے خلاف ہے، ایسی سوچ ملک کے لیے انتہائی مضر ہے اس لیے ضرورت ایک ایسے نصاب کی تیاری کی ہے، جو ملک کی مشترکہ تہذیب وثقافت کی آئینہ دار ہو، یہی اس ملک میں محبت کے ماحول کو واپس لائے گا اور نئی نسل کی ذہنی آبیاری اس طرح کرے گا، کہ وہ ملک کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ مستقبل میں آگے بڑھا سکیں گے۔

بھارت میں مسلم خواتین کی توہین کرنا ایک کلچر بنتا جا رہا ہے : آر جے صائمہ

بھارت میں مسلم خواتین کی توہین کرنا ایک کلچر بنتا جا رہا ہے : آر جے صائمہ

بھارت میں نئے سال کا آغازمسلم خواتین کے لیے ایک مشکل کے ساتھ ہوا۔ سوشل میڈیا پر 'بُلّی بائی' نامی ایک ایپ پر 100سے زائد مسلم خواتین کی تصویریں ڈال دی گئیں اور اس پر لکھا گیا کہ یہ برائے فروخت ہیں۔ گزشتہ عید کے موقع پر بھی 'سُلّی ڈیلز' نامی ایپ کے ذریعہ مسلم خواتین کی بولی لگائی گئی تھی۔

جن خواتین کی تصویریں 'بُلّی بائی' پر ڈالی گئی ہیں ان میں معروف اداکارہ شبانہ اعظمی سمیت دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کی اہلیہ، متعدد صحافی، سماجی کارکن اور سیاست دان شامل ہیں۔ صحافی عصمت آرا ان خواتین میں شامل ہیں جن کی تصویریں 'بُلّی بائی' پر ڈالی گئی ہیں۔ انہوں نے اس کے خلاف دہلی پولیس کے سائبر سیل میں شکایت درج کرایا ہے۔

حق کی آواز دبانے کی کوشش

عصمت آرا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے شرپسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،"ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا۔ پہلے بھی سمجھدار لوگوں نے اس کی نکتہ چینی کی تھی۔ ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی۔ خواتین کمیشن نے بیان دیا تھا۔ پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی گئی تھی لیکن کوئی نتیجہ نکلنا تو دور کی بات ابتدائی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔''

عصمت آرا نے بتایا کہ دہلی اور ممبئی میں دو مقامات پر کیس درج کرائے گئے ہیں اور امید کی جانی چاہیے کہ قصورواروں کے خلاف اس مرتبہ کارروائی ضرور ہوگی کیونکہ''ایسی حرکتیں کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ حق کی آواز بلند کرنے والوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا جاسکے۔ عصمت آرا کا کہنا تھا،''ہمارے والدین بھی گھبرائے ہوئے ہیں، بہنیں بھی پریشان ہیں کہ سوشل میڈیا پر یہ تضحیک آمیز رویہ کہیں حقیقی خطرہ بن کر سامنے نہ آجائے اور ہم پر براہ راست حملے کردیے جائیں۔" عصمت آراکا کہنا تھا،" حکومت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے لیکن ابھی تک ہمیں ایسی کوئی بھی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔''

یہ بہت تکلیف دہ ہے

گزشتہ برس جون میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ عید کے موقع پرسوشل میڈیا پر "سلّی ڈیلز" نامی ایپ پر 80سے زائد مسلم خواتین کی تصاویر کے ساتھ انہیں"برائے فروخت " کہا گیا تھا۔ اس کے خلاف دہلی اور نوئیڈا میں الگ الگ کیس درج کرائے گئے تھے تاہم اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

معرو ف ریڈیو جاکی (آر جے) صائمہ کا نام بھی 'بُلّی بائی' کی فہرست میں شامل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔"میرے لیے سب سے بڑی حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت میں کچھ حیران کن رہ ہی نہیں گیا۔" انہوں نے کہا،" بھارت میں گالی دینا اور بالخصوص مسلم خواتین کے خلاف توہین آمیز باتیں کرنا ایک کلچر بنتا جارہا ہے۔ اب کھلے عام حیوانیت کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ اور اس لیے بھی تکلیف دہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملک کا قانون مرچکا ہے۔ قصور وار آخر گرفتار کیوں نہیں کیے جاتے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔''

صائمہ کا کہنا تھا،"ایسے مجرموں کے خلاف ہر ایک کو آواز بلند کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی ان کی زد میں آسکتا ہے۔ نفرت کرنے والے کسی کو نہیں چھوڑتے۔''

اصل ذمہ داری حکومت کی

متاثرین اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ عورتوں اور بالخصوص مسلم خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات اس لیے بڑھ رہے ہیں کیونکہ انہیں روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے جاتے۔ صائمہ کا کہنا تھا،"سب سے بڑی ذمہ داری حکومت اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر ہوتی ہے۔ اگر وہ اس امرکو یقینی بنائیں کہ غلط کا ساتھ نہیں دینا تو یہ سنگین مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوسکتا ہے۔''

انہوں نے کہا اصل سوال قانون کی حکمرانی کا ہے۔ ہم کس طرح کا سماج بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر ہم تو جنگل کے دور میں چلے جائیں گے۔

سماج پر بھی ذمہ داریاں ہیں

مختلف سماجی امور پر اپنے ریڈیو پروگرام سے لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرنے والی صائمہ کہتی ہے کہ سماج پر بھی بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔"ہمارے سماج میں اکثر متاثرہ لڑکیوں یا خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف والدین بلکہ پڑوسیوں اور دوست احباب کو بھی متاثرہ خواتین کی مدد کرنی چاہیے، ان کا حوصلہ بڑھانا چاہیے اور یہ یقین دلانا چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔''

اس سوال کے جواب میں کہ آخر مسلم خواتین کو اس طرح ٹارگٹ کیوں کیا جاتا ہے؟ صائمہ کا کہنا تھا کہ 'بُلّی بائی' اور 'سلّی ڈیلز' جیسی حرکت کرنے والے سوچتے ہیں کہ ایک مسلم لڑکی آخر حق کے لیے آواز بلند کرنے کی جرأت کیسے کرسکتی ہے۔ وہ کامیاب کیسے ہوسکتی ہے؟وہ آزاد خیال کیسے ہوسکتی ہے؟''

کارروائی کا مطالبہ

متعدد سماجی اور سیاسی رہنماوں نے بھی 'بُلّی بائی' معاملے کی مذمت کی ہے اور حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کہا،" خواتین کی توہین اور فرقہ وارانہ منافرت صرف اسی وقت رک سکتی ہے جب آپ اس کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہوجائیں۔ سال بدل گیا ہے اس لیے آپ اپنی قسمت بھی بدلیں اور یہ آواز بلند کرنے کا وقت ہے۔''

مہاراشٹر میں حکمراں شیو سینا پارٹی کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے لکھا،" میں نے بارہا آئی ٹی وزیر ایشونی ویشنو سے کہا ہے کہ سلی ڈیلز جیسے پلیٹ فارم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جہاں عورتوں سے نفرت اور انہیں فرقہ وارانہ طور پر شکار بنانے کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ اسے اب تک نظر انداز کیا جا رہا ہے۔'' قومی خواتین کمیشن کی چیئرمین ریکھا شرما نے ٹویٹ کرکے بتایا،"معاملے کو نوٹ کرلیا گیا ''ہے۔

حکومت کیا کررہی ہے؟

اس معاملے کی زبردست مذمت اور نکتہ چینی کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشوینی ویشنو نے ایک ٹویٹ کرکے اطلاع دی کہ " گٹ ہب، جس پر ایپ اپ لوڈ کیا گیا تھا، نے " بلّی بائی" ایپ کو بلاک کردیا ہے اور مزید کارروائی کے لیے ہم رابطے میں ہیں۔'' ادھر ممبئی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ معاملے کا نوٹس لیا گیا ہے اور متعلقہ حکام سے مزید کارروائی کے لیے کہا گیا ہے۔

پہلے'سلی ڈیلز' اور اب 'بُلّی بائی' کو بھارت میں اسلاموفوبیا کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ پیشے سے کمپیوٹر انجینئر آفتاب احمد نے ڈی ڈبلیو اردوسے بات کرتے ہوئے کہا،''بلی بائی نے مسلم خواتین کی توہین نہیں کی ہے بلکہ اس ذلیل، جاہل اور عصمت دری کے کلچر کی حقیقت دنیا کو بتادی ہے جس میں خواتین کو صرف استعمال کی چیز سمجھا جاتا ہے۔''

بہت سے ہندو افراد نے تاہم سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلم خواتین سے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ ایک ہندو کے طور پر وہ شرمندہ ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...