Powered By Blogger

جمعہ, جون 09, 2023

"وفاق المدارس الاسلامیہ "قدم بہ قدم مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

"وفاق المدارس الاسلامیہ "قدم بہ قدم 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)

 وفاق المدارس کا قیام قاضی القضاة حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی تحریک پر مدارس دینیہ کانفرنس منعقدہ24/ تا 26/ مئی 1996ءکو مدرسہ ضیاءالعلوم رام پور رہوا ضلع سمستی پور میں عمل میں آیا تھا،مدارس کے صورت حال پر حضرت قاضی صاحب ؒ نے فرمایا تھا: یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیم وتربیت کے میدان میں جو عمومی انحطاط پیدا ہوا اور عصری تعلیم گاہوں کے معیار میں جو بگاڑ اور تنزل ہوا اس سے ہمارے دینی مدارس بھی متاثر ہوئے ہیں، مدارس کے درمیان باہم ربط وہم آہنگی کا فقدان، کسی مرکزیت سے ان کا وابستہ نہ ہونا، نصاب تعلیم کا اختلاف، امتحانات میں بے ضابطگی وغیرہ۔امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ؒ نے وفاق کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: مدارس کے موجودہ نظام تعلیم وتربیت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ محسوس کیا گیا کہ مدارس کو باہم مربوط کرنے، نظام تعلیم وتربیت میں یکسانیت لانے اور نصاب تعلیم کو موثر بنانے کے لئے وفاق المدارس الاسلامیہ کا قیام ضروری ہے، چنانچہ امارت شرعیہ کی سر پرستی میں وفاق قائم کیا گیا، اس وقت سے وفاق سر گرم عمل ہے، اور الحمد للہ اس وقت دو سو چھہتر مدارس اس سے ملحق ہوچکے ہیں، جن کا سالانہ امتحان وفاق کی نگرانی میں ہو رہا ہے، او ر وقتا فوقتا مدارس کا تعلیمی جائزہ بھی لیا جاتاہے، جس کی وجہ سے روز بروز مدارس منسلکہ کی تعلیمی وتربیتی حالت بہتر سے بہتر ہو رہی ہے، خوشی کی بات ہے کہ وفاق کی طرف سے ایک جامع نصاب تعلیم بھی مرتب کر دیا گیا ہے، جس میں جدید حالات اور وقت کے تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ 
امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب نے لکھا ہے:امارت شرعیہ بہار واڈیشہ کی نگرانی اور سرپرستی میں وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کا نظام کامیابی کے ساتھ چل رہاہے۔ جس کے ذریعہ آزاد مدارس اسلا میہ کو منظم کرنے، ان کے درمیان ربط وہم آہنگی پیدا کرنے اور مدارس کے نظام تعلیم وتربیت کو بہتر بنانے کی منصوبہ بند کو ششیں کی جا رہی ہیں، جس کے اچھے نتائج بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔اس سے منسلک مدارس کا سالانہ امتحان وفاق کی نگرانی میں ہوتا ہے۔
 اس کے پہلے صدر حضرت قاضی مجاہداسلام رح ا ور پہلے ناظم حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری رح تھے، قاضی صاحب کے انتقال کے بعد حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر مولانا عبد الحنان صاحب بانی جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ سیتامڑھی اور مولانا انیس الرحمن قاسمی یکے بعد دیگرے صدر منتخب ہوئے، تیسرے میقات میں حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری صدر اور مفتی نسیم احمدقاسمی ؒ ناظم مقرر ہوئے،مفتی نسیم احمد قاسمیؒ کے بعد مفتی سہیل احمد قاسمی سابق صدر مفتی ناظم بنائے گیے،راقم الحروف (محمد ثناءالہدیٰ قاسمی) کو دوسرے میقاتی اجلاس منعقدہ7/ اکتوبر 2000ءکو حضرت قاضی صاحب کی تحریک پر مجلس عاملہ میں شامل کیا گیا، میں ان دنوں بورڈ کے ایک مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، پہلی میقات میں ہی نصاب تعلیم کا خاکہ اور وفاق المدارس کا دستور مرتب ہوا، مدارس کے لیے ضابطہ اخلاق اور اساتذہ کی تربیت کا نظم کیا گیا۔میں ان مٹنگوں میں شریک کار رہا۔ 
پانچویں میقات کے لیے انتخاب کی کاروائی 21/ فروری 2008ءکو مکمل ہوئی، جس میں مولانا انیس الرحمن صاحب سابق ناظم امارت شرعیہ صدر اور ناظم راقم الحروف کو منتخب کیا گیا، چھٹے اور ساتویں میقات میں حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ صدر اور ناظم احقر ہی منتخب ہوا، اس طرح 2008 سے 2023تک مسلسل وفاق کی خدمت انجام دیتا رہا، میری پوری مدت کار میں مفتی سعید الرحمن صاحب قاسمی معاون ناظم اور نائب ناظم امتحان کی حیثیت سے وفاق کے کاموں میں معاونت کرتے رہے، مفتی سہیل احمد قاسمی کے آخری دور میں انہوں نے کار گذار ناظم کی حیثیت سے بھی کام کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ معاونت کا حق ادا کیا، اس طرح الحمد للہ وفاق کے ناظم کی حیثیت سے میری کار کردگی کم وبیش سولہ سال کو محیط ہے، اس پوری مدت میں معمول کے کام، امتحانات، نتائج کی ترسیل،جائزے،انعامات کی تقسیم، اساتذہ کے لیے تربیتی کیمپ کے علاوہ زونل میٹنگوں کا سلسلہ شروع کیا گیا، جو مدارس الگ ہو گیے تھے، ان میں سے کئی کو جوڑا گیا، ملحق مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا، دو آل بہار مسابقة القرآن کریم کا کامیاب انعقاد ہوا، مدارس ملحقہ کی ڈائرکٹری مرتب ہوئی اور اس کی طباعت کا انتظام وفاق المدارس کی طرف سے کیا گیا، رحمانی قاعدہ اور مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس اور طریقہ تدریس کی طباعت ہوئی، آخر الذکر کتاب ان محاضرات پر مشتمل ہے جو ملک کے نامور مدارس کے اساتذہ نے مختلف علوم وفنون کی تدریس پر دیے تھے، کتاب میں حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کی ”آداب المعلمین“ اور مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی کتاب ”درس نظامی کیسے پڑھائیں“ کو من وعن شامل کر لیا گیا تاکہ کتاب کی جامعیت اور افادیت میں اضافہ ہو، مولانا آزاد اور ہمدرد یونی ورسٹی سے وفاق کے اسناد کو منظور کروایا گیا، ہمدرد ایجوکیشنل سوسائٹی کے ذریعہ علی گڈھ میں عصری علوم کے اساتذہ کی تربیت کا نظم کیا گیا، جس سے کثیر تعداد میں مدارس نے فائدہ اٹھایا، وفاق کا سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرایا گیا، مختلف مواقع سے مدارس کے نام رہنما خطوط جاری کیے گیے، لاک ڈاؤن میں مدارس کے علاوہ گھروں پر تعلیم کا نظام بنایا گیا، کیوں کہ تعلیمی ادارے بند کیے گیے تھے، گھروں کے دروازے انہیں، ان کا موں کی وجہ سے وفاق المدارس کے کام میں بہتری اور مضبوطی آئی۔
ان تمام کاموں میں تنفیذی اقدام علی الترتیب جناب ضمان اللہ ندیم، مولانا واعظ الدین، مولانا مرغوب عالم، مولانا راشد العزیری ندوی، مولانا امداد اللہ ندوی، مولانا سعید کریمی وغیرہ کرتے رہے،ان کی توجہ سے وفاق کے کاموں کو وسعت نصیب ہوئی۔ 
 اب نیا انتخاب ہوگیا ہے حضرت امیرشریعت مفکر ملت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب صدر اور نائب امیرشریعت مولانا شمشاد رحمانی صاحب خازن راقم الحروف محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم چن لے گیے ہیں،اور اس موقع پر وفاق المدارس الاسلامیہ کے نائب صدور، نائب سیکریٹریز، ارکان عاملہ کا بھی انتخاب عمل میں آیا ، اللہ کرے یہ انتخاب وفاق کے کاموں کو آگے بڑھانے، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے مفید اور کارگر ثابت ہو۔ اور وفاق المدارس نے نصاب تعلیم، نظام امتحان اور معیاری تعلیم کے لیے جو منصوبے بنائے ہیں، وہ زمین پر اتر سکیں، موجودہ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے ذہن ودماغ میں بھی وفاق کو فعال بنانے کے لیے بعض منصوبے ہیں، نئے ذمہ داران اس کو زمین پر اتارنے کی کوشش کریں گے تو وفاق مضبوط ہوگا اور مستحکم بھی۔
اس اجلاس کے موقع سے مدارس اسلامیہ کو داخلی اور خارجی محاذ پر جن مشکلات کا سامنا ہے، اس پر بھی غور وفکر کیا گیا اہم تجاویز بھی سامنے آئے، داخلی طور پر ہم ہی میں سے کچھ دانشور حضرات مدارس اسلامیہ کی تعلیم پر سوالات کھڑے کرتے رہتے ہیں، مدرسہ کے مزاج کو بدل کر عصری علوم کی شمولیت پر زور دیتے ہیں اور اس کی افادیت کو مشکوک بنانے کی جدو و جہد میں لگے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے ان کی نیتیں درست ہوں، لیکن اس کے اثرات سماج پر اچھے نہیں پڑ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کی طرف طلبہ کا رجوع کم ہو تا جا رہا ہے، اور اچھے اساتذہ بھی مدارس کو نہیں مل پا رہے ہیں۔ ہمیں مدارس کی تعلیم کو پر کشش بنانے اور اسے دینی ضرورت سمجھ کر فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس سلسلہ کا ایک دوسرا پہلو وہ ہے جو ان دنوں بڑے علماءکی سر پرستی میں حفظ پلس کے نام سے چلایا جا رہا ہے، مدارس اسلامیہ والے جن بچوں کو نورانی قاعدہ سے پڑھاکر آگے بڑھاتے ہیں، اور حفظ کے بعد اعدادیہ میں داخلہ لے کر انہیں عالم فاضل بنانے کا کام کرتے رہے ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مدارس میں مسلمانوں کے پڑھنے والے بچوں کی تعداد چار فی صد سے زائد نہیں ہے۔ یہ عجیب وغریب بات ہے کہ ہمارا دانشور طبقہ مسلمانوں کے ان چھیانوے فی صد بچوں کی فکر میں دُبلا نہیں ہو رہا ہے، جو عصری علوم بہترین ملازمت اور آءیی ایس، آئی پی ایس بننے کے لیے ہی پڑھتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ مدارس کو کمزور کرنے اور اس کے پوسے پالے بچوں کے اغوا کی تحریک ہو؟ آج کے دور میں کچھ بھی ممکن ہے، اس لیے اس پر بھی ہم سب کو غور کرنا چاہیے، بعض اہل قلم کی مدلل تحریریں بھی اس موضوع پر آچکی ہیں، افادیت، نا فعیت اور ضرورت کو بھی غور وفکر میں سامنے رکھا جائے اور کسی نتیجہ پر پہونچنے کی کوشش کی جائے، یہ بھی ایک بڑا کام بایں معنی ہے کہ دینی تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر مدارس میں پڑھنے والے چار فی صد طلبہ ہماری دینی ضرورت کے کاموں میں لگے ہوتے ہیں، اگر طلبہ دوسرے کاموں کی طرف راغب ہوئے تو دینی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہمارے پاس افراد دستیاب نہیں ہوں گے، کسی ڈاکٹر، انجینئر، آئی ایس، آئی پی اس کو پنج وقتہ نماز با جماعت کی با قاعدہ امامت کرتے ہوئے آج تک میں نے نہیں دیکھا، یہ مدارس کے فضلاءہی ہیں جو ہماری ان ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں، ان کی معاشی پس ماندگی دور کرنے کا یہ حل نہیں ہے کہ انہیں آئی ایس، آئی پی اس بنا دیا جائے، حل یہ ہے کہ ملت ان کی کفالت کے لیے کلاس ون گریڈ کے افسران کی تنخواہ اور سہولتیں انہیں دی جائیں۔
دوسرا محاذ خارجی ہے، فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دینے کی روایت پرانی ہے، جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئیی ہے، اس مسئلہ نے زور پکڑ لیا ہے، مدارس کو بدنام کرنے کے نت نئے منصوبے اختیار کیے جا رہے ہیں، اور اس میں پڑھنے والے بچوں کو ہراساں کرنے، زدو کوب کرنے، اور پڑھانے کے لیے لے جانے والے اساتذہ کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں،ابھی حال ہی میں دانا پور میں سینتیس طلبہ کو بہبودیءاطفال کے محکمہ نے اتار لیا تھا، امارت شرعیہ کی مسلسل محنت سے ان بچوں کو پولیس تحویل سے آزاد کرایا گیا، اس موقع سے جب بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے علمائ، دانشور اور ارباب بصیرت جمع ہوں گے تو ہمیں ان مسئلوں کے حل کے لئے مضبوط، موثر اور قابل عمل، لائحہ عمل بنانا چاہئے، تاکہ ان کا تدارک ہو سکے۔
 اس وقت ملک کو جن حالات کا سامنا ہے اور تعلیمی نظام کے بھگوا کرن کی جو تحریک مرکزی حکومت کے تحت چلائی جا رہی ہے جس میں سوریہ نمسکار، یوگا، اور وندے ماترم کہنے پر زور دیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ امور سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی کا جز نہیں ہیں، مگر آر، ایس، ایس اور ان کی حلیف تنظیموں کے ذریعے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ عصری اسکولوں میں پڑھنے والے ہمارے بچے یا تو اسکول کے دوسرے بچوں سے الگ تھلگ ہو کر رہ جائیں یا انہیں مجبورا اس مشرکانہ عمل میں شریک ہو نا پڑے۔ یہ معاملہ وفاق سے بلا واستہ جڑا ہوا نہیں ہے، لیکن مسلم سماج کو ان حالات کی وجہ سے پریشانوں کا سامنا ہے، وفاق المدارس سے منسلک مدارس اور ان کے اساتذہ سماج کو ان حالات سے نکالنے کے لئے کیا جد وجہد کر سکتے ہیں؟ ان پربھی غور کرنا چاہیے۔ 
 اس سلسلے کی ایک اور کڑی ایسے مواد کی شمولیت ہے جو ہندو دیو مالا ئی کہانیوں پر مشتمل ہے اور جن کے ذریعہ ہند توا کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے،مسلم عہد حکومت کے واقعات کو نصاب سے نکالا جا چکا ہے؛ تاکہ مسلمانوں کے عہدزریں کا کوئی تصور بچوں کے ذہن میں نہ جائے،کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے کہ مسلم دور حکومت کو ظالمانہ اور عدل وانصاف سے خالی قرار دیا جائے۔ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور مجاہد آزادی مولانا ابو الکلام آزاد کی جگہ بھی نصاب میں باقی نہیں ہے۔
یہ معاملہ صرف تاریخ کا نہیں؛ بلکہ ہندوستان کے سیکڑوں سالہ تہذیب وثقافت اور ورثہ کے تحفظ کا ہے، اس کا تعلق ہماری اپنی حمیت وغیرت اور تاریخی تسلسل سے ہے جس کے بغیر ہندوستان کی سیکڑوں سال کی تاریخ اندھیروں میں چلی جائے گی اس پورے معاملہ پر بھی وسیع تناظر میں غور وفکر کرنا چاہیے۔

چھین کر کو ن لےگیاچہرہ میر ا ا پنا نہیں مرا چہرہ تہ بہ تہ گر د ہے عذ ا بوں کی میں بھی رکھتاتھاخوشنماچہرہ * انس مسرورانصاری

بک رہا ہوں جنوں میں۔۔۔۔۔(2) 
                      ( چندمعروضات) 
          اردودنیانیوز۷۲ 
         *انس مسرورانصاری
    
        بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
        کچھ نہ سمجھے خد ا کر ے کو ئی
                                         (غالب) 
      اگر لوگوں میں کچھ بھی سمجھ ہوتی تو شاید اس طرح کی تحریروں کی ضرورت نھیں پیش آتی۔ ہمارا کام سمجھاناہے،سو ہم سمجھاتےآئےہیں اورسمجھاتےرہیں گے۔لوگ سمجھ سمجھ کر بھی نہ سمجھیں تو ان کی سمجھ کوہم اپنی سمجھ سےخداکےحوالے کرتےہیں۔ 
       عرض یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اردو شعروادب کا سب سےبڑا المیہ یہ ہے کہ جس شخص کو ذراسی بھی اردو آجاتی ہے وہ شاعری کی لت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔کیا دیہات اورکیاشہر،ہرجگہ شاعر مخلوق کاایک جم غفیرموجودہےجواپنی   محبوباؤں کی زلف گرہ گیرکا  شکار,اوررگ گل سےبلبل کےپرباندھنے میں مصروف ہے۔ایسی حالت میں جب قوم خطرناک اور تباہ کن مسائل میں گھری ہوئی بےدست وپاہے،قوم کادانشورطبقہ شاعری اور تخیلاتی دنیاؤں میں فرارہوگیاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ۔۔۔ 
        دنیا پڑی ہوئی ہے ترقی کی راہ میں
        شاعرپڑےہوئے ہیں مگر واہ واہ میں
    ضروری معلوم ہوتاہے کہ برصغیرمیں اردو شاعروں اورمتاشاعروں کی مردم شماری کرائی جائےتاکہ ان کی صحیح اور اصل تعداد کا کچھ تو پتا چلے۔گمان غالب ہےکہ بھارت میں ان کی آبادی لاکھوں میں ہے۔طرفہ تماشہ یہ کہ مشاعرہ گاہ سے سوشل میڈیا اورکتابی دنیا تک۔ہرشاعرعظیم ہے اور ہر تخلیق شاہ کار۔۔۔۔! واٹس ایپ، فیس بک، ٹیوٹر، انسٹا گرام وغیرہ کوئی بھی ایپ کھولئے،اوردیکھئیےکہ سڑےسےسڑے شعر پر بھی لوگ اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کردادوتحسین کےنعرےبلندکرتےہیں کہ غالب واقبال کی روحیں کانپ کانپ جاتی ہوں گی۔ یہاں تک کہ سڑےاوربدبودارشعروں 
 اور غزلوں کو شاہکار کے درجہ تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ حالانکہ انھیں شاہ کار کے معنی تک نہیں معلوم۔اس طرح شاعروں کو۔۔عظیم الشان۔۔بتاکر انھیں گمراہ کرنے کی مہم بھی عام ہے۔ہرشاعرعظیم اوراس کی شاعری عظیم الشان ہوگئی ہے۔ہرشعرپرواہ۔۔واہ۔۔بہت خوب۔۔بہت عمدہ۔۔لاجواب۔۔۔بے مثال۔۔جیسے تبصرے سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر شاعرکےدماغ کا خراب ہوجانا بعیدازقیاس نہیں۔ جب کہ حقیقت  حال یہ ہےکہ گزشتہ بیس سالوں میں اردو زبان  میں کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی گئی جوعالمی ادب کو متاثر کرسکتی اوردوسری زبانوں میں ترجمہ کےلیے ناگزیر ہو جاتی۔ 
      المیہ یہ بھی ہے کہ اردو مشاعرے اب کوی سمیلن کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔۔سبحان الله۔۔ ماشاءاللہ۔۔ جزاک اللّہ کے بجائے اب دادو تحسین کے لیےتالیایاں بجائی اوربجوائی جاتی ہیں۔یہ اردو مشاعرہ کی تہذیب نہیں۔ یہ بدعت ہندی کوی سمیلن سے آئی ہے اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ ادب سازوں اور ادب نوازوں کو تالیوں جیسےغیراردو تہذیبی عمل پر کوئی اعتراض نہیں۔۔ مشاعرہ کی اپنی ایک روایت اور تہذیب ہےجس کی بنا ہمارے بزرگوں نے ڈالی تھی اورصدیوں سے اس تہذیب کی حفاظت کی جاتی رہی ہے۔ لیکن موجودہ زمانہ کےشاعراورسامعین،دونوں نے مل کراس اردو تہذیب کوموت کےگھاٹ اتاردیا۔ مشاعروں کے اسٹیج پر اردوشاعری کو طوائفوں کی طرح نچایا جاتاہے۔شعراءمضحکہ خیزاداکاریاں اور حرکتیں کرتے ہیں اور سامنے بیٹھے ہوئے تماشائی تالیاں بجاتے ہیں۔ 
            ،، اک تماشاہواگلہ نہ ہوا۔۔ 
     اس سچائی سے کون انکارکرسکتاہے۔پھر اس قبیح عمل کو اردو کی ترقی اورفروغ سےجوڑدیاجاتاہے۔کہاجاتا ہےکہ مشاعروں سے اردوزبان کو فروغ حاصل ہورہاہے۔۔کوئی بتائے کہ مشاعروں کو سن کر کتنےلوگوں نےاردو زبان کولکھناپڑھناسیکھا۔؟تماشا یہ بھی ہےکہ آج مشاعرےمحض ذہنی عیاشی کاایک ذریعہ بن گئے ہیں۔اردوکےنام پر محض تجارت۔صرف کاروبار۔! مشاعروں اور جلسوں کےشعراء اورنعت خوانوں کی کثیر تعداد ان لوگوں کی ہےجو اردولکھناپڑھنانہیں جانتے اورکلام ہندی میں لکھ کرلاتےہیں۔اردو کو اپنی رسوائی کا یہ تماشا بھی دیکھناتھا۔اردو زندہ بادکےنعرے لگانےوالوں میں اکثریت ان لوگوں کی بھی ہے جو سوشل میڈیا میں اپنا نام اردو زبان میں لکھنا تک پسند نہیں کرتے۔شاید اردومیں لکھنا اپنی توہین سمجھتےہیں۔اجدادکی بخشی ہوئی عظیم الشان وراثت نا خلف وارثوں سے سنبھالے نہیں سنبھلتی۔انھیں شاید یہ تاریخی مقولہ یادنھیں کہ جس قوم کو اپنا غلام بنانا ہو اس سےاس کی زبان چھین لو۔قوم اپنی موت آپ مرجائےگی۔یوں تواردو کومارنےاور مٹانے کاسلسلہ ہمارے ملک میں آزادی کے فوری بعدسے شروع ہوگیاتھا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ آج بھی مرکزی و صوبائی حکومتں اردو کی ترویج و ترقی کے نام پرسرکای ونیم سرکاری اداروں کوہرسال  کروڑوں روپئے کا بجٹ دیتی ہیں۔لیکن ان اداروں کاحال اوران کی کارکردگی کیاہے،،سب جانتے ہیں۔ 
     اردو اکادمیاں مشاعروں کے منتظمین سے کمیشن لےکر بڑی بڑی امدادی رقم منظور کرتی ہیں۔یعنی خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ۔منتظمین اپنا کمیشن کاٹ کر شاعروں کو نذرانے پیش کردیتے ہیں۔ یہ بھی خوش وہ بھی خوش۔ کس قدر نفع بخش دھندہ ہے۔      دوسری طرف امداد نہ ملنے کے سبب مسودات دھول چاٹتے رہتے ہیں۔ ایک سال۔ دوسال۔ تین سال۔ پھر دیمکوں میں جشن مسرت برپاہوتا ہے۔ طباعت کے منتظر مسودات کی تعداد بھی توکافی ہوتی ہے جن میں شعری مجموعات کو اکثریت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح دیمکوں کو وافر مقدار میں طعام کے لیے غذائی سامان فراہم ہوجاتاہے۔۔ہمارے ایک دوست کےمضامین  کا مسودہ۔۔ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی۔لکھنؤ،،، میں مالی امدادکی درخواست کےساتھ جمع ہوئے تین سال ہوگئے۔ جب بھی خط لکھئےتوجواب نہیں آتا۔ فون کیجئے توجواب ملتا ہے کہ ابھی ۔۔پروسیس،، میں ہے۔اس پروسس کا سلسلہ کتنادرازہوگا۔ یہ تو خدا ہی جانےالبتہ مزے کی بات یہ ہےکہ مذکورہ مسودہ کے بہت بعد میں جمع ہونے والے مسودات زیور طباعت سےآراستہ ہوکر کب کے منظرعام پرآچکےہیں۔خطاہمارےدوست کی ہے۔ مسودہ کےساتھ کسی سفارشی کو کیوں نہ بھجا۔بیچارے تین سال سے اسی دکھ میں گھلےجارہےہیں کہ جیتے جی ان کی کتاب چھپ جاتی تو اچھا ہوتا۔۔ہم سمجھاتے ہیں کہ اناللہ و انا الیہ راجعون،، پڑھئےاورصبرکیجئے  مگران کا منھ نہیں کھلتا۔ ایسےکتنےہی ادیب اورشاعر ہوں گے۔۔۔ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان۔دہلی،، کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔   مشاعروں اور سیمیناروں کےلیے بجٹ موجود ہیں مگر مالی امداد کی درخواست کےساتھ جمع شدہ مسودات کی عمریں دو، تین، اور شاید چار سالوں تک پہنچ گئی ہیں۔۔۔
         کوئی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔ 
    اردو سیمیناروں کے حالات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔۔ اس میں بھی کمیشن خوری کاطویل سلسلہ ہے۔۔اردوکےنام پرتجارت  خوب پھل پھول رہی ہے۔ فروغ پارہی ہے۔ سیاسی سفارش ہو تو اردو اکادمیاں ایک لاکھ سے پانچ اورچھ لاکھ روپئے تک کے ایوارڈبھی دیتی ہیں مگر کمیشن کی شرط لازم ہے۔ خواہ ادیب اورشاعر مستحق ہویانہ ہو۔۔چاہیں تو آپ بھی اس لوٹ مار میں شامل ہوکر منفعت بخش کاروبارکرسکتے ہیں۔ 
       صلائےعام ہےیاران نکتہ  داں کےلیے ۔
      المیہ یہ بھی ہےکہ موجودہ زمانہ میں اردوتنقید اپنےمعنوی معیارسےمنحرف ہوکر محض تعریفی و توصیفی تبصرہ نگاری تک آگئی ہے۔اردو شعروادب کی ترقی کےلیے یہ ایک منفی اور نقصان رساں رجحان اورعمل ہے۔ اردو مشاعروں کےپوسٹراور تشہیری تحریروں کاہندی میں رواج تیزی سے عام ہورہاہے۔اردو والوں کا حال اس ریوڑی والے جیسا ہوگیا ہےجس کاخوانچہ شریر بچے زمین پر گراکراس کی ریوڑیاں لوٹنے لگتےہیں۔ریوڑی والاحیران و پریشان کہ وہ کیا کرے۔ جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو وہ شریربچوں کے ساتھ خود اپنی ہی ریوڑیاں لوٹنےلگتاہے۔ 
       یاد رکھیے۔۔۔اردوزبان کا رسم الخط ہی اس کی جان ہے۔اب اس کی جان کی جان نکالنے کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔اگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب اردو کاصرف نام رہ جائےگااورکچھ عرصہ بعدنام بھی جاتا رہے گا۔یہ زبان ہندی کے ساگر میں ڈوب َجائے گی۔۔۔۔ کھوجائے گی۔۔۔ایک حصہ انگریزی اپنےاندرہضم کر لے گی اور باقی سارے حصے ہندی زبان نگل جائے گی۔۔۔پھر اردوکی موت پر انالللہ واناالیہ راجعون۔۔ پڑھنا بھی لوگ بھول جائیں گے۔۔اور ایک عظیم الشان اسلامی لٹریچر مدفون ہوجائےگا۔لوگ قرآن تو پڑھیں گے لیکن تلفظ ہندی ہوگا۔آیات کےمعنی و مفہوم بدل جائیں گے۔لوگ ثواب اور برکت کےلیے قرآن پڑھیں گے اور عذاب کو دعوت دیں گے۔۔زبانیں اسی طرح بتدریج ختم ہوتی ہیں۔کیااردوزباں بھی ختم ہوجائے گی۔؟بلاشبہ یہی ہوگا۔۔۔ 
اگراب بھی نہ جاگےہم توصرف صوراسرافیل     ہی ہمیں جگاسکے گا۔۔ 
  یاد رکھئے کہ اردوزبان اپنے اصل رسم الخط کےساتھ ہی زندہ رہ پائےگی۔اردو کی زندگی اس لیے ضروری ہے کہ اس سےاسلامی کلچر اورشاندارلٹریچرکا وافرذخیرہ وابستہ ہے۔ہم ایک عظیم الشان وراثت سے محروم ہوجائیں گے۔اس لیےاردو میں لکھنا پڑھنااب ثواب کے زمرے میں داخل ہوگیاہے۔اس زبان کا تحفظ اب صرف زبان کا تحفظ نہیں۔ اردوزبان کا مسئلہ اب صرف ایک معدوم ہوتی ہوئی زبان کامسئلہ نہیں۔بلکہ یہ مسئلہ قومی وملی تحفظات کےساتھ منسلک ہے۔اس لیے اردوزبان کی بقاء و تحفظ کےلیے نہایت سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔مشاعرےاورسیمیناراردوکےمسائل کا حل نہیں ہیں۔اپنوں کی خودغرضیوں کی شکار اردوزبان کوگہرےجذباتی تعلقات مطلوب ہیں۔ وہ محبت کا تقاضہ کرتی ہے۔بے چاری اردو۔!مسلمانوں کو اب تسلیم کرلینا چاہئے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔مردم شمارے کے وقت ز بان کے خانہ میں کوئی غیرمسلم کبھی۔۔ اردو۔۔ نہیں لکھتا۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔ اردوہمای جان ہے۔۔ ہماری شان ہے۔۔۔ ہماری شناخت اورپہچان ہے۔۔۔۔ اردو زندہ باد۔۔ اردوپائیندہ باد۔۔۔۔۔۔ 

                چھین  کر  کو ن لےگیاچہرہ 
                 میر ا ا پنا  نہیں  مرا چہرہ
               
                تہ بہ تہ گر د ہے عذ ا بوں کی
            میں بھی رکھتاتھاخوشنماچہرہ 
 
        * انس مسرورانصاری

      َ قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
                رابطہ/9453347784

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...