Powered By Blogger

جمعرات, اکتوبر 20, 2022

نمونۂ عمل ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نمونۂ عمل ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اس قدرکامل اورمکمل ہے کہ انسانی زندگی کے ہر موقع کے لئے اس میں نمونۂ عمل موجود ہے، آقاصلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیداہوئے  ماں بھی صغرسنی میں چلی گئیں ،د ادانے بھی رخت سفرباندھ لیا، ایسے میں یتیموں کیلئے بڑاسبق یہ ہے کہ جب اللہ ظاہری سہارے چھین لیتاہے تو حفاظت وتربیت سب کاسامان غیبی طور پر فراہم کردیتاہے، آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے بکریاں چرانے، باغوں کی سینچائی کرنے اورتجارت کے لئے باہر کاسفر ہمیں بتاتاہے کہ رزق حلال کی طلب میں کسی کام کوچھوٹااورحقیر سمجھنے کاکوئی جواز نہیں ہے، کوہ صفاپر چڑ ھ کرقولوالاالہ اللہ تفلحوا کااعلان بتلاتاہے کہ پیغام رسانی کی جوشکلیں رائج ہوں ان کااستعمال کیاجاسکتاہے، چالیس سال کی عورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانکاح کرنا،بیوہ سے شادی کرنے اورعمر کے تفاوت سے فرق نہ پر نے کاخیال ہمارے دل میں ڈالتاہے، غارحراء کاقیام ذکراللہ کے لئے وقت کوفارغ کرنے کی اہمیت کوبتاتاہے مشرکین کی طرف سے راستے میں کانٹابچھانے، جسم اطہر پر اوجھ ڈالنے ، گلے میں پھندالگانے اورطائف کی گلیوں میں اوباشوں کے پتھر کھاکھاکر لہولوہان ہونے کے باوجود دعوت حق کے لئے صبروتحمل سے کام لیناامت کومسائل ومشکلات کے وقت صبر وتحمل کاپیغام سناتاہے،سفر معراج عروج آدم خاکی کی داستاں اورمعجزات آپ کی حقانیت کی دلیل روشن ہے، ہجرت کی رات دشمنوں کے نرغے سے صحیح سلامت نکل جانا، بتاتا ہے کہ تدبیر اللہ کی کار گر ہوتی ہے اور وہ اچھی تدبیر کرنے والا ہے، راہ خدا میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اور محبوب زمین کو چھوڑ کر مدینہ چلے جانا اللہ کے حکم پر جان ومال قربان کرنے کے جذبہ کی عملی تصویر ہے۔ حلف الفضول میثاق مدینہ اورصلح حدیبیہ مختلف اوقات کے اعتبار سے بقاء باہم کی حکمت عملی ہے، غزوات وسرایاحق کی سربلندی کے لئے سب کچھ قربان کردینے کے شوق فراواں کامظہر اتم ہے، انتم الطلقاء کااعلان دشمنوں کے ساتھ حس سلوک کی میثال اور فتح مکہ کے بعد اسلامی حکومت کاقیام، اقامت دین کی واضح اور اصولی شکل وصورت ہے، خلفاء راشدین، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، ازواج مطہرات ، اہل بیت وغیرہ کی زندگیاں رجال سازی کاپیغام سناتی ہیں اور آپ کادنیاسے چلے جانابتاتاہے کہ ہر نفس کوموت کامزہ چکھناہے، چاہے وہ محبوب رب العالمین ہی کیوں نہ ہوں،انسان جس حالت میں بھی ہو اس کے لئے آپ کی زندگی میں نمونۂ عمل ہے، مسلمان اس بات کوسمجھ کر عمل کی راہ میں آگے بڑھنا شروع کرے گا تو وہ ذلت وپستی کے موجودہ دور سے نکل جائے گا۔

اللّٰہ کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ __

اللّٰہ کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ __
اردو دنیا نیوز ٧٢
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت کے نزدیک جو بندے پسندیدہ ہیں ان کے اوصاف پر قرآن کریم کی روشنی میں باتیں کی جاچکی ہیں اب اس کا ایک دوسرا پہلو پیش کیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون کون سے کام اللہ کے نزدیک بندے کو ناپسند بنادیتے ہیں۔ سارے منفی اور سلبی اوصاف کا یہاں ذکر مقصود نہیں ہے بلکہ ان اوصاف کا ذکر کرنا ہے جن کے بارے میں اللہ نے اپنی کتاب میں’’ إنَّ اللّٰہَ لاَ  یُحِبُّ‘‘، ’’وَاللّٰہِ لاَ یُحِبُّ‘‘ اور  ’’لاَِ یُحِبُّ اللّٰہُ‘‘ (اللہ ناپسند کرتا ہے )  کے ذریعہ اپنی نا پسندیدگی کا اعلان کیا ہے ۔
ان اوصاف میں ایک یہ ہے کہ انسان کسی بھی معاملہ میں حد سے تجاوز نہ کرے اس لئے کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے اور آگے بڑھ جانے والے کو بالکل پسند نہیں کرتے ، ارشاد ربانی ہے’’ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (سورۃ البقرۃ:19 ) یہ حد سے گزرنا کسی بھی موقع اور کسی بھی معاملہ میں ہوسکتا ہے ،ایک تو میدان جنگ ہے جہاں آدمی اپنے دشمنوں کے ساتھ نفرت و دشمنی کی وجہ سے حد سے تجاوز کرتاہے اور ان حدود کو پار کر جاتا ہے جو شریعت نے ایسے موقعوں کے لئے مقرر کیا ہے ، مثلاً جنگ کے میدان میں مرنے والوں کی اہانت، ان کا مُثلہ یعنی ناک کان کاٹ کر ان کی صورت بگاڑ دینا، یہ شریعت کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتے ۔
بعض لوگ دعاؤں میں بھی حد سے گزر جاتے ہیں،اللہ رب العزت کا حکم ہے کہ ’’اپنے رب کو پکارو، گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ،یقیناً اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(الاعراف:55 )دعا میں لفظی تکلفات، قافیہ بندی، غیر ضروری شروط، اپنے علاوہ دوسروں کے لئے بد دعائ، بلا ضرورت چلّاکر دعا کرنا یہ سب حد سے تجاوز کرنے کے ذیل میں آتے ہیں (معارف القرآن:ج3ص57 )حد سے گزرنے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ بندہ ان چیزوں کو حلال سمجھنے لگے جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔’’اے ایمان والو! اللہ نے تمہارے لئے جو پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں ان کو حرام قرار نہ دو اور حد سے آگے نہ نکلو، یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ حد سے آگے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(المائدۃ:87 )
اللہ رب العزت نے اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ لوگ اپنے طور پر حلال و حرام کی تعیین کرنے لگیں،اللہ رب العزت نے اسے  اپنی ذات پر بہتان اور گناہ قرار دیا ہے (النحل:116 )حد سے تجاوز کرنے کی ایک شکل چیخ چلِّاکر باتیں کرنا بھی ہے ،اللہ رب العزت کو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ مظلوم کے علاوہ کوئی زور سے چلا کر بات کرے ، مظلوم کا آہ و بکا اور چیخ و پکار کرنا فطری ہے ، اس لئے اللہ رب العزت نے اس کا استثناء کردیا اور فرمایا: ’’اللہ رب العزت زور سے ایک دوسرے کو پکارنے کو پسند نہیں کرتے الا یہ کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو(سورۃ النسائ:148)
اللہ کے ناپسندیدہ بندوں میں اللہ پر ایمان نہ لانے والے ، اس کے معبود ہونے کا انکار کرنے والے اور اس کو کائنات کا خالق و مالک نہ ماننے والے بھی ہیں، جنہیں کافر کہا جاتا ہے ، ایسے لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی بیان کی کہ وہ اللہ کی نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں اور نبیوں اور عدل و انصاف کی بات کرنے والوں سے لڑتے ہیں ، ایسے لوگوں کے بارے میں دردناک عذاب کی وعید دی گئی ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور ناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل و انصاف کی بات کہیں انہیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں تو اے نبی! انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے ، اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہے ۔‘‘(آل عمران:21-22)
 اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور اچھے کام کرنے والوں کوخوش خبری سنائی ہے ۔ ’’کفر کرنے والوں پر ان کے کفر کا وبال ہوگا اور نیک کام کرنے والے اپنی ہی آرام گاہ سنوار رہے ہیں،تاکہ اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل سے بدلہ دے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ،بے شک وہ ناشکروں کو پسند نہیں کرتا ہے ۔(الروم:45)
کفر اور شرک دونوں نتائج کے اعتبار سے ایک ہیں، کفر انکار کو کہتے ہیں اور شرک اللہ رب العزت کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرلینے کو، چوں کہ اللہ کا کوئی ہم سر نہیں ہے اس لئے اس کے ساتھ کسی کو کسی بھی طرح شریک کرنا بڑا ظلم ہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ’’شرک بڑا ظلم ہے۔‘‘ (سورۃ لقمان:13 )
اتنا بڑا ظلم کہ اللہ سارے گناہ کو معاف کر سکتا ہے ،لیکن شرک معافی والی فہرست سے باہر ہے ؛کیوں کہ اللہ کے ساتھ جو شریک ٹھہراتے ہیں، اللہ ان کی مغفرت نہیں فرماتا، اس لئے کہ جس نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس نے اللہ پر بہتان باندھا۔(سورۃ النسائ:48) اللہ کو یہ افترا اور بہتان پسند نہیں ہے ، یہ ظلم کا کامل درجہ ہے ، اس میں دوسرے ادنیٰ درجہ کے ظالمین بھی شامل ہیں، اللہ کا اعلان ہے کہ اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ’’واللّٰہ لا یُحِبُّ الظّٰلمین۔‘‘(آل عمران:57) اللہ رب العزت نے مومنین کو تسلی دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ’’ہم لوگوں کے درمیان حالات کی ادلا بدلی کرتے رہتے ہیں، اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘(آل عمران:140)
 اس سلسلے میں اللہ رب العزت نے بندوں کے لئے یہ اصول بھی بیان فرمایا کہ’’ بُرائی کا بدلہ اسی قدر برائی سے دیا جاسکتاہے، تو جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلیا تو اس کا بدلہ اللہ رب العزت کے ذمہ ہے کیوں کہ اللہ ظالمین کو پسند نہیں فرماتا (الشوری:40)
اس قسم کے تمام لوگ جو حد سے گزرنے والے ہیں، وہ ظلم کرنے والے ہیں اور اللہ کی زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں،حالانکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اصلاح کا کام کر رہے ہیں لیکن در حقیقت وہ لوگ فسادی ہیں۔ ان کا عمل تو یہ ہے کہ ’’وہ زمین میں فساد ڈالتے پھرتے ہیں، کھیتی اور جانوں کو تباہ کرتے ہیں، اللہ ایسے مفسدین کو پسند نہیں کرتا(البقرہ:205) اسی طرح آپس کی دشمنی اور لڑائی جھگڑے کو بھی اللہ تعالیٰ سخت ناپسند کرتا ہے ۔ یہود کے عمل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ قیامت تک کے لیے ان کے برے اعمال اور کفر و سرکشی کی وجہ سے ان کے اندر آپسی دشمنی اور عداوت ڈال دی گئی۔’’ اور ہم نے ان کے درمیان قیامت تک عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے ، جب کبھی لڑائی کے لیے آگ سلگاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے ، اوریہ زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(المائدہ:64 )اللہ رب العزت کا یہ بھی فرمان ہے کہ’’ جو مال تمہیں دیا گیا ہے، اسے آخرت کی تیاری کے لئے خرچ کرو، دنیاوی ضرورتوں کو بھی نہ بھولو، احسان کیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘(القصص:77)
اللہ رب العزت نے بے جا خرچ کرنے کو منع کیا اور اللہ کے نیک بندوں کی صفت اعتدال سے خرچ کرنے کو قرار دیا،فرمایا کہ’’اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی(بلکہ ) ان کا خرچ کرنا ان (دونوں) کے درمیان (حد اعتدال پر) ہوتا ہے ۔‘‘(الفرقان:67 )
اللہ کا حکم ہے کہ بے جا خرچ نہ کرو، اس لئے کہ ’’بے جا خرچ کرنے والے اللہ کو پسند نہیں ہیں ۔‘‘(الانعام:14 ) اللہ چاہتے ہیں کہ کھاؤ، پیو اور حد سے نہ بڑھو(یعنی فضول خرچی نہ کرو)، اس لئے کہ ’’حد سے بڑھنے والے اللہ کے محبوب نہیں ہوسکتے ۔‘‘(الاعراف:31)
اللہ کے نزدیک مبغوض اور ناپسندیدہ بنانے والی ایک صفت خیانت ہے یہ خیانت مال میں بھی ہوتی ہے ، امانت میں بھی اور رازدارانہ گفتگو کے افشاء کے ذریعہ بھی، یہ منافق کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ، بھلا جس میں منافق کی علامت ہو اسے اللہ کس طرح پسند کرسکتے ہیں، اللہ نے اعلان فرمادیا کہ’’ اللہ خائنین کو پسند نہیں کرتا(الانفال:58)اسی طرح اللہ رب العزت کو تکبر بھی پسند نہیں ہے ، اس لیے کہ کبر اللہ کی چادر ہے جو اس میں داخل ہوگا، ذلیل ہوجائے گا، ا یک حدیث قدسی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”عزت میری ازار اور کبریائی (بڑائی) میری چادر ہے چنانچہ جو شخص ان دونوں میں سے کوئی شے مجھ سے کھینچے گا میں اسے عذاب دوںگا‘‘(صحیح مسلم)
اس کا حکم ہے کہ’’اللہ رب العزت نے جو تمہیں ہدایت کی دولت سے مالا مال کیا ہے اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو۔‘‘(سورۃ البقرۃ:185) 
اذان، اقامت، تکبیر تشریق، جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر کہنا، نماز میں اٹھتے بیٹھتے اللہ اکبر کہلانے کی مصلحت یہی ہے کہ اللہ کی بڑائی بیان کی جائے ، ولادت کے وقت دائیں کان میں اذان کے الفاظ اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہنے کا بھی یہی مقصد ہے کہ پہلے دن سے اللہ اکبر بچے کے ذہن میں محفوظ ہوجائے ۔ اللہ کے علم میں ہے جو بندہ کرتاہے چاہے وہ چھپا کر کرے یا اعلانیہ، تکبر اور غرور کرنے والے اللہ کے نزدیک مبغوض ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان طریقوں کو بھی پسند نہیں کیا جو کبر کی علامت ہیں، فرمایا’’زمین پر اکڑ کر نہ چلو، کیوں کہ تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے اور پہاڑ کی اونچائیوں تک پہونچ نہیں سکتے ۔‘‘(الاسرائ:37)اِترانا بھی تکبر کی ہی ایک قسم ہے ، مال و دولت، جاہ و حشمت، پاکر اترانا مؤمن کی شان نہیں ہے اس لیے کہ’’ اللہ شیخی بگھارنے اور تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے (سورہ لقمان:31)
 بندہ کی شان یہ ہے کہ وہ مال و دولت، جاہ و حشمت کو، خدا کی عطا اور پھر اس عطا پر شکریہ ادا کرے ، اس سے نعمت خداوندی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اور اگر شکرگزاری کے بجائے تکبر کیا تو اللہ رب العزت کا عذاب انتہائی سخت ہے ، مومن کو کامل مومن بننے کے’’ ایجابی‘‘ یعنی اللہ کے محبوب بننے کے جو اوصاف ہیں اور’’سلبی‘‘ یعنی جو اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں، دونوں کا خیال رکھنا چاہیے ، یوں تو اللہ غفور رحیم ہے ، اعمال میں کوتاہی نہ ہو اور اللہ سے اچھی امید رکھی جائے ، یہی ایمان و اسلام کا خلاصہ ہے ، ’’الاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَ الْرِّجَائِ۔‘‘ کہا گیا ہے یعنی ایمان خوف اور امید کے درمیان کی چیز ہے ۔

*خاک کے پتلے میں آگ* ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

*خاک کے پتلے میں آگ* 
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز ٧٢

شہر ارریہ سے قریب ہی بیلوا گاؤں کا رہنے والاایک نوجوان اپنی بیوی کوگھر میں موجود نہیں پاکر مشتعل ہوجاتا ہے، اپنے ہاتھوں اپنے ہی نوزائیدہ بچے کا گلا گھونٹ کر قتل کردیا ہے۔
 ایک خبرمذکورہ ضلع کے ہی ایک گاؤں سے ملی ہے کہ ایک ماں نے غصہ کی انتہا میں آکراپنے ڈھائی ماہ کے شیر خوار بچے کو پٹک پٹک کرہلاک کردیا ہے، یہ دونوں خبریں اتنی درد ناک ہیں کہ سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کوئی جانور بھی اپنے بچوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتاہے ،مگرایک  انسان نے درندگی کی حد کو بھی غصہ میں آکر پار کر لیا ہےاور اپنی نسل کی تباہی کا سامان کرلیا ہے۔
اکثر وبیشتر طلاق کے واقعات غصہ کی وجہ کر رونما ہوتے ہیں،چھوٹی چھوٹی باتوں سے جھگڑا شروع ہوتا ہے اور خاندان کی بربادی پر جا کر تمام ہوتا ہے، شوہر نے بیوی سے کھانا مانگا، اور وہ کہ رہی ہے کہ؛میں ابھی آرہی ہوں، ذرا سی دیر ہوئی،میاں جی غضبناک ہوگئے، اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکے،  فائرنگ شروع کردی،طلاق، طلاق، طلاق، بیچاری اب کبھی بھی اپنے شوہر کے پاس آنے کےلائق نہیں رہی ہے،ادھر میاں جی بھی نادم ہیں، مگر معاملہ اب توہاتھ سے نکل چکا ہے۔
آج سماج میں جو شخص سمجھدار سمجھا جاتا ہے وہ بھی بات بات پر غصہ میں آجاتا ہے۔بازار، سڑک، گاؤں،گلی، مسجد، مکتب، مدرسہ کوئی جگہ اس سے پاک نہیں ہے، ہر جگہ غصہ کی کھیتی ہورہی ہے، بروقت اس پر روک نہیں لگائی گئی تو اس کی فصل جب کٹتی ہے تو نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ ایک مسلم سماج میں اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے،یہ ڈوب مرنے کی بات ہے،اس سےاسلام کی غلط تصویر ملک میں جارہی ہے، اور ہم اسلام کی تبلیغ میں رکاوٹ کا سامان بنتے جارہے ہیں، افسوس اس بات پر بھی ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہے۔  
حدیث شریف میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ غصہ شیطان سے ہےاور شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے،جب ایک انسان میں غصہ داخل ہوجاتا ہے تواس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس خاک کے پتلے میں شیطانی آگ داخل ہوگئی ہے،یہی وجہ ہےکہ جب غصہ تیز ہوتا ہے تو ایک انسان کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اور چہرہ لال ہوجاتا ہے، اور کہتے بھی ہیں کہ وہ آگ بگولا ہوگیاہے،جہاں کہیں آگ نظر آتی ہے آج کے اس گئے گزرے زمانے میں بھی پورا گاؤں اس جانب دوڑ آتا ہے،اور اس کو بجھانے کی فکر کرتا ہے، اوراس وقت تک چین سے کوئی نہیں بیٹھتا جب تک کہ آگ پر قابو نہ پالیا جائے، یہی عمل غصہ کی آگ پر قابو پانے کے لیےاس وقت عمل میں لانے کی ضرورت ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دولوگوں میں کچھ باتیں ہورہی تھیں، انمیں ایک صاحب کو اتنا غصہ آیا کہ چہرہ لال ہوگیا اور رگیں پھول گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار ان کی طرف دیکھا اور یہ کہا کہ؛مجھےایک ایسا کلمہ معلوم ہے،اگر وہ اس کو کہ لے تو یہ غصہ جاتا رہے،اور وہ یہ ہے،اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم۔(بخاری )
مذکورہ حدیث سے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب کبھی یہ موقع آئے اور کسی کواس آگ میں جلتامحسوس کرے تو اس کو بجھانے کی فکر کرناسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا ہے،موجودہ وقت میں یہ سنت ہماری زندگی میں نہیں ہے،اسے زندہ کرنا سو شہیدوں کے اجر کا حامل ہوناہے،اور یہ بات بھی اس حدیث سے معلوم ہوئی کہ اس آگ پرقابو پانے کے لیے سب سے پہلے اللہ کی پناہ ضروری ہے۔
 بغیر قرآن وحدیث کی رہنمائی لیےاسے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا ہے، یہ کوئی عام آگ نہیں ہے ،یہ انسان کے اندر لگی ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو طاقتور کہا ہے جو اپنے غصہ پر قابو پالیتا ہے،اس کا مطلب واضح ہے کہ غصہ پر قابو پانے والا درحقیقت شیطان کے مقابلے میں فتح پانے والا ہے۔
غصہ سے بچنے کی دوسری تدبیر وضو ہے، غصہ شیطان سے ہے،اور وہ آگ سے پیدا ہوا ہے،شیطان انسان کی رگوں میں گھس جاتا ہے،اوراندر اندر ہی آگ لگاتا ہے،آگ کو پانی بجھادیتا ہے،اس لیے حدیث شریف میں اس موقع پر وضو کی تعلیم دی گئی ہے۔یہ اس کا علاج ہے،وضو انسانی مزاج میں برودت اور ٹھنڈک پیدا کردیتا ہے، اور اس سے غصہ کافور ہوجاتا ہے۔
تیسری تدبیر ہیئت کی تبدیلی ہے،غصہ ور انسان کھڑا ہے تواسے بیٹھ جانا چاہئے، اور اگربیٹھا ہے تو لیٹ جانا چاہیے، ایک روایت میں زمین سے لگ جانے کا بھی حکم ہے۔یہ ایک انسان کو عملی طور پر اپنی پیدائشی چیز مٹی سے قریب کردینا یے۔
آج اس شیطانی آگ میں جلتے ہوئے انسان کو بچانے کی تحریک شدید ترین ضرورت ہے، ایک مسلمان کی ذمہ داری  اس تعلیم پر عمل کرنے کی اور اس کو عام کرنے کی بھی ہے،ایک آدمی نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ؛مجھے کوئی نصیحت فرمائیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ؛غصہ مت کرو، اس کو یہ نصیحت معمولی لگی تو دوبارہ اس نے یہ عرض کیا کہ نصیحت کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا کہ غصہ مت کرو، سہ بارہ گزارش کی تو تیسری بار بھی آپ صلی علیہ وسلم کا یہی جواب رہا کہ غصہ مت کرو (بخاری )
حدیث شریف کی دوسری کتابوں میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ان صاحب نے اپنی زندگی میں غور کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ساری برائیوں کی جڑغصہ ہی ہے، 
آج سماج اور معاشرہ کا یہی حال ہے، اور اس سے بڑی نصیحت موجودہ وقت کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے کہ؛غصہ مت کیجئے۔
   ع۰۰خون کا شربت پی کے پیاس بجھاتا ہے
             غصہ علم ودانش کو کھا جاتا ہے 
              طاقت ور ہے وہ انسان زمانے میں 
               اپنے غصہ پر جو قابو پاتا ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۲۳/ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...