Powered By Blogger

ہفتہ, نومبر 27, 2021

دل پسند باتیں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دل پسند باتیں 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 مولانا علی احمد قاسمی بن حضرت محمد یونس امین صاحب بانی ومہتمم جامعہ رشید العلوم امین نگر مہیش پور ڈاک خانہ تیلوا وایا مہشی ضلع سہرسا مدرسہ کے اہتمام اور دوسرے دینی وتعلیمی کاموں کے ساتھ تصنیف وتالیف کا ساف ستھرا ذوق رکھتے ہیں، ان کی کئی کتابیں مثلا آئینہ صالحین ، نادر کلام ، عربی محاورات، قیمتی اعمال کی نیکیاں، ملفوظات اولیائ، مواعظ تبلیغ، خطبات عالیہ، سفر عاقبت ، وقت کی اہمیت حدیث کی روشنی میں مطبوع، مقبول اور معروف ہیں۔
 ’’دل پسند باتیں‘‘ مولانا کی دسویں کتاب ہے ،ا س کا پہلا ایڈیشن ۲۰۱۸ء میں آیا تھا، دوسرا ایڈیشن بس آناہی چاہتا ہے، اس کتاب میں مولانا نے حکمت ودانائی کی باتوں کو ایک خاص انداز میں جمع کر دیا ہے ، یہ خیال ان کے دل میں ترمذی وابن ماجہ میں موجود اس حدیث کی وجہ سے پیدا ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ حکمت ودانائی کی بات صاحب حکمت اور دانا شخص کی گم شدہ چیز ہے، پس جہاں وہ پائے ، وہاں سے لینے کا وہ زیادہ حقدار ہے، بعض روایتوں میں الحکمۃ ضالۃ المؤمن کے الفاظ بھی آتے ہیں، جس سے ایمان والوں کی خصوصیت کا پتہ چلتا ہے ، مولانا نے اسے اپنی کتاب کا سرنامہ بنایا ہے ، کتاب کا انتساب والد مرحوم کے نام کیا ہے جو ان کی سعادت مندی پر دال ہے ، پیش لفظ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ، تقریظ مولانا مفتی محمد جمال الدین قاسمی صدر مفتی وصدر المدرسین جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدر آباد اور حرف چند ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی اسسٹنٹ پروفیسر وصدر شعبہ اردو گورمنٹ کالج سری پیٹ تلنگانہ کا ہے ، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ نے لکھا ہے : 
’’زیر نظر کتاب میں مصنف نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مختلف ادوار کے علماء ، صلحائ، صحابہ کرام اور تابعینعظام کے اقوال ونصائح کو نمبر وار ذکر کرنے کی کوشش کی ہے ، جو ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے مفید چیز ہے ، مصنف کی یہ کوشش قابل قدر ہے ، کیوں کہ مختلف کتابوں اوررسائل سے مضامین کو منتخب کرکے جمع کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے ‘‘(ص ۳۰)
 مولانا مفتی محمد جمال الدین نے لکھا ہے کہ ’’دل پسند باتیں خضرراہ کا کام دے گی ، مؤلف نے مطالعہ کے سمندر میں غواصی کرکے قیمتی موتیاں ڈھونڈھ نکالی ہیں، اور کتابوں کا جگر چاک کرکے جواہرات کو اکٹھا کیا ہے ، اور چمنستان علم وعرفان سے رنگا رنگ پھولوں کو جمع کرکے ایک حسین گلدستہ تیار کیا ہے ۔‘‘ (ص ۳۲)
 ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی نے لکھا ہے کہ ’’ان اقوال زریں سے شریعت کے بہت سے اسرار ورموز اور گتھیاں سلجھانے میں مدد ملے گی - مؤلف نے ان بکھرے اقوال کو یک جا کر کے اپنی علمی ذوق اور وسعت مطالعہ کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (ص ۳۵) خود مؤلف کا خیال ہے کہ ’’یہ جمع شدہ زریں کلمات وگراں قدر موتی وجواہرات ہیں جو بزرگان دین کی کتابوں کے صفحات کی سینوں میں مخفی تھے۔ یہ بیش بہا جواہرات دریا بہ کوزہ کے ساتھ خیر الکلام ماقل ودل کے مصداق ہیں۔ (ص ۳۶)
دوسو چودہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب نو ابواب اور ایک متفرقات پر مشتمل ہے، پہلے باب کے تحت ذیلی عناوین درج نہیں ہیں، ہر باب کے تحت اس کے نمبر کے اعتبار سے احادیث واقوال درج کیے گیے ہیں، یہ سلسلہ دس تک پہونچتا ہے، یعنی دوسرے باب میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ، تیسرے میں تین اور نویں میں دس باتوں کو نقل کیا گیا ہے ، ہر بات کے تحت بہت سارے اقوال نقل کیے گیے ہیں، کہنا چاہیے کہ یہ بکھرے موتی ہیں، جنہیں انتہائی سلیقہ سے اکابر کی کتابوں سے نکال کر اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے ، یہ ورق ورق روشن ہے، جس پر عمل کرکے انسانی اور ایمانی زندگی روشنی کے تمام مراحل طے کر سکتی ہے۔ اور آدمی ایسی زندگی گذارنے پر قادر ہو سکتا ہے جو اللہ ورسول کو محبوب اور پسندیدہ ہیں، مؤمن کی سوچ وفکر کا مرکز ومحور یہی ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرلے اور اسوۂنبی کو اپنا کر جنت کا مستحق ہوجائے۔
 کتاب کی کمپوزنگ سلیقے سے قبا گرافکس حیدر آباد نے کیا ہے ، طباعت ، کاغذ ، جلد اور بائینڈنگ بھی دل پسند ہے، ناشر امین لائبریری امین نگر ، مہیش پور سہرسا ہے، قیمت دو سو روپے کتاب کے تاجروں کے کمیشن کو سامنے رکھیں تو زائد نہیں ہے ، مطبع کا پتہ درج نہیں ہے، بعض جگہوں پر تعبیرات بدلنے کی ضرورت ہے ، مثلا پہلے باب کا آغاز اس جملہ سے ہوتا ہے کہ ’’اس باب میں وہ باتیں درج ہیں جو ایک ایک لفظ پر مشتمل ہیں‘‘ جو باتیں درج کی گئی ہیں، ان میں کئی کئی جملے ہیں، صحیح تعبیر یہ ہے کہ وہ باتیں درج ہیں، جن میں صرف ایک بات ، کام یا چیز کا ذکر کیا گیا ہے ۔
 کتاب میں جہاں سے جو بات لی گئی ہے اس کے حوالہ کا اہتمام کیا گیا ہے ، اگر ان کتابوں ، مصنفین اور جہاں سے وہ شائع ہوتی ہیں، اس کا ایک اشاریہ کتاب کے آخر میں دے دیا جاتا تو قارئین کو سہولت ہوتی اور حوالہ سے مکمل واقفیت ہوجاتی ، ابھی جو طرز اس کتاب میں موجود ہے ، اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حوالہ والی کتابیں کن کی ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے اڈیشن میں اس کا اہتمام کیا جائے گا۔
 میں اس اہم کتاب کی تالیف پر مولانا علی احمد قاسمی کو مبارکباد دیتا ہوں، اللہ نے ان سے ایک اچھا کام لے لیا، دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے امت مسلمہ کی اصلاح کا ذریعہ بنا دے اور اسے قبول عام وتام حاصل ہو ، کتاب مؤلف کے پتہ سے مل سکتی ہے ، جو آغاز میں ہی درج کردیا گیا ہے ۔

گروگروام میں گرو سنگھ سبھا نے مسلمانوں سے کی گرودوارے میں نماز پڑھنے کی اپیل ، پیش کی بھائی چارہ کی مثال

گروگروام میں گرو سنگھ سبھا نے مسلمانوں سے کی گرودوارے میں نماز پڑھنے کی اپیل ، پیش کی بھائی چارہ کی مثالگرو گرام: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر میں رکھنا... سائبر سٹی گروگرام میں ایک طرف کھلے میں نماز کی مخالفت ہو رہی ہے تو دوسری طرف بھائی چارے کو کیسے قائم رکھا جائے، اس کی کوشش بھی کی جارہی ہیں۔ گروگرام میں گرو سنگھ سبھا گروگرام نے سبھی مسلم بھائیوں سے گرودواروں میں نماز پڑھنے کی اپیل کرکے مثال پیش کی ہے۔ گرو سنگھ سبھا نے مہا پرو سے پہلے اپیل کرتے ہوئے کہا اگر مسلم بھائی چاہیں تو کووڈ ضوابط کے تحت ہمارے گرودواروں میں جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ گرو سنگھ سبھا کے پردھان شیرگل سدھو نے کہا کہ یہ ہماری پہل، پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی امرتسر کے ہرمندر صاحب میں نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے سیکٹر 12 کے رہنے والے اکشے یادو نے اس معاملے میں پہل کرتے ہوئے گزشتہ جمعہ کو اپنی دوکانوں میں نماز پڑھنے کی جگہ دی بلکہ کہا کہ اگر جگہ کم پڑے گی تو ان کے گھر میں موجود پارکنگ اور پارک میں نماز ادا کی جاسکے، ایسے انتظامات کے لئے بھی وہ تیار ہیں۔ وہیں اس معاملے میں شیر گل سدھو کی مانیں تو ہمارے اول رہنما پہلی پات شاہی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کیسے انسانیت کی خدمت ہی خدا کی عبادت ہے۔ اور ہماری قوم اسی میں اعتماد کرکے انسانیت کی خدمت میں لگی ہے۔

گرو سنگھ سبھا، گروگرام کے پردھان شیر گل سنگھ سدھو نے کہا کہ عبادت مندر میں ہو گرودوارے میں ہو یا مسجد میں، عبادت سے روکنا گناہ ہے۔

واضح رہے کہ ایک طرف سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی نے ضلع انتظامیہ کو کسی بھی صورت میں کھلے میں نماز نہ پڑھنے دینے کی وارننگ جاری کی ہوئی ہے۔ وہیں پہلے اکشے یادو اور اب گروسنگھ سبھا نے بھائی چارے کی مثال پیش کرکے نفرت کی سیاست کرنے والوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ قومی، بین الا اقوامی، جموں وکشمیر کی تازہ ترین خبروں کے علاوہ تعلیم و روزگار اور بزنس کی خبروں کے لئے نیوز18 اردو کو ٹوئٹر، فیس بک پر فالو کریں۔

اپنے والداوربھائی کوبے گناہ ثابت کرنے میں ہم اکیلے رہ گئے ، سب نے ساتھ چھوڑدیا ، ملی تنظیموں نے بھی کنارہ کشی اختیارکرلی : عمرگوتم کی بیٹی نئی دہلی ( ایجنسی )

اپنے والداوربھائی کوبے گناہ ثابت کرنے میں ہم اکیلے رہ گئے ، سب نے ساتھ چھوڑدیا ، ملی تنظیموں نے بھی کنارہ کشی اختیارکرلی : عمرگوتم کی بیٹی نئی دہلی ( ایجنسی )دھرم پریورتن کرانے کے الزام میں گرفتار معروف داعی اورمبلغ عمر گوتم کی بیٹی نے ایک انٹرویو کے دوران اپنے دل کے زخموں کو کریدتے ہوئے کہا کہ ہماری فیملی ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔ ہم تنہا ہیں، سب نے ہمارا ساتھ چھوڑدیا،اپنی لڑائی خود لڑ رہے ہیں ،زندگی کا زیادہ تر حصہ وکیلوں کے پیچھے دوڑنے میں گزرتا ہے ،کوئی تنظیم بھی ہمارے حق میں نہیں بولتی، سب نے ہونٹ سی لیے ہیں۔
ایک نیوز پورٹل سے گفتگو کرتے ہوئے عمر گوتم کی بیٹی نے کہا کہ کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،کوئی امید افزا بات نہیں ہوئی ۔انہوں نے بتایا کہ لکھنؤ پاپا سے ملنے جاتے رہتے ہیں ،ان کی صحت خراب ہورہی ہے اور مایو سی بڑھتی جارہی ہے ،میری ممی ٹوٹتی جارہی ہیں ،بھائی کی غیر قانونی گرفتاری نے ان کو اور مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے،پاپا اور بھائی بے گناہ ہیں اور یہ ثابت کرنا ہمارا ہدف ہے۔
ان پر عائد الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیبریکیٹڈ ہیں، پاپا تبدیلی مذہب کرنے والوں کی قانونی مدد کرتے تھے ،کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا نہ ترغیب دی اور نہ ہی کسی پر دباؤ ڈالا ۔دوسرے ان کا آفس دہلی میں ہے اور مقدمہ لکھنؤ میں رجسٹرڈ ہوا دفتر2010میں قایم کیا تھا۔
ان کی بیٹی نے ایک سوال پر کہا کہ ابھی تک کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ پاپا کو ٹارچر کیا گیا یا ان پر کوئی زیادتی ہوئی ہو مگر جیل تو جیل ہے بس ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ بے گناہ ثابت ہوں اور باعزت بری ہوکر سماج کے سامنے آئیں ،مین اسٹریم میڈیا کے رویے پر جواب دیتے ہوئے بیٹی نے کہا کہ اس نے ہماری فیملی کی امیج تباہ کردی ،زندگی بھر کی ساکھ کو ختم کردیا ۔وہ جج بن گیا فیصلے صادر کرتا رہا غیرملکی فنڈنگ کا الزام ہو یا دھرم پریورتن کرانے کا کسی کا کوئی ثبوت نہیں۔جو لیبل پیشانی پر لگادیا ہے باعزت بری ہونے کے بعد بھی اس کا دھلنا مشکل ہے ۔امید کی کرن یہ ہے کہ جنہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا وہ سامنے آئے اور پاپا کے حق میں گواہی دی شاید مقدمہ پر اس کا اثر پڑے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے والد پر چار جگہوں گجرات،فتح پور،دہلی اور لکھنؤ میں مقدمات ہیں اند ازہ لگائیں کہ کیا حالت ہوتی ہوگی ،گزشتہ دنوں گجرات لے جایا گیا تھا ان دنوں لکھنؤ جیل میں ہیں ۔کیا لوگ ساتھ دے رہے ہیں؟ بیٹی نے کہا کہ نہیں ددھیال ہو یا ننہال کوئی نہیں ہے ہمارا۔ ہم اکیلے ہیں میں اور میری ممی بھائی کا سہارا تھا،اس کو بھی لے گیے میری اور ممی کی صحت خراب ہورہی ہے ،میری میرے بھائی کی جاب،فیوچر،کیریر،عزت سب ختم سالگتاہے ہمارے سپورٹ میں کوئی نہیں ہے، تنظیمیں بھی خاموش ،گھر کی دیواروں میں قید ہوکر رہ گیے ہیں ،سب کی نگاہوں میں سوال ہے۔ مقدمہ اپنی جگہ رکا ہے ۔رتی بھر پیش رفت نہیں ہوئی خواہ کوئی کچھ کہہ رہا ہو مگر حقیقت یہی ہے ۔
کیا ہے کسی کے پاس عمرگوتم کی بیٹی کے ان سوالوں کا جواب؟

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...