Powered By Blogger

پیر, مارچ 14, 2022

پے ٹی ایم کے بانی وجۓ شرما کی گرفتاری اور رہائی

پے ٹی ایم کے بانی وجۓ شرما کی گرفتاری اور رہائینئی دہلی: دہلی پولیس کے ایک افسر کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے الزام میں گرفتار کئے گئے پے ٹی ایم کے بانی وجئے شیکھر شرما ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں ۔دہلی پولیس نے اتوار کے روز بتایا کہ 22 فروری کو مالویہ نگر پولیس تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق مسٹر شرما نے اپنی کار سے دہلی پولیس کے ایک افسر کی کار کو پیچھے سے ٹکر مار دی تھی ۔ اس واقعہ کے بعد میں مسٹر شرما موقع سے فرار ہو گئے تھے ۔ بعد میں انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا ۔مبینہ طور پر یہ حادثہ اروبندو مارگ پر واقع مدر انٹرنیشنل اسکول کے باہر پیش آیا۔ اس وقت جنوبی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) کے دفتر میں تعینات کانسٹیبل دیپک کمار پولیس افسران کی گاڑی چلا رہے تھے ۔ پولیس نے مسٹر کمار کی شکایت کی بنیاد پر مسٹر شرما کے خلاف لاپرواہی سے گاڑی چلانے کا معاملہ درج کیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ دوران جانچ پولیس افسر کی گاڑی کو ٹکرمانے والی کار کی شناخت کی گئی اور اس کے ڈرائیور مسٹر شرما کی شناخت کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ بعد میں اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ۔

سڑک حادثہ میں موت پر مشتعل لوگوں نے کیا آمد ورفت ٹھپ

سڑک حادثہ میں موت پر مشتعل لوگوں نے کیا آمد ورفت ٹھپ

بیگوسرائے میں مسلسل سڑک حادثات کے باوجود گاڑیوں کی رفتار پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے اور لوگوں کی بے وقت موت ہورہی ہے۔ پیر کے روز بھی صبح صبح بیگوسرائے۔ گڑھ پورہ ۔ حسن پور مین سڑک پر حادثے میں بچے کی موت ہوگئی ۔ واقعہ گڑھ پورہ تھانہ علاقہ کے سکڑا گاؤں کے قریب ہے۔ متوفی کی شناخت مقامی باشندہ رام وجے یادو کے بیٹے وکی کمار کے طور پر کیا گیا ہے ۔ حادثے موت سے ناراض لوگوں نے سکڑا گاؤں اور ہرسائن پل کے قریب سڑک جام کرآمدورفت ٹھپ کر دیا۔ اطلاع ملتے ہی پہنچے گڑھ پورہ تھانہ انچارج اور انتظامیہ نے لوگوں کو سمجھا بجھا کر کافی کوشش کے بعد سڑک جام ختم کرایا اور گاڑی ڈرائیور کو گرفتار کرکے کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔

واقعے کے سلسلے میں بتایا جا رہا ہے کہ وکی سڑک پار کر رہا تھا کہ اس دوران تیز رفتار سے آ رہی نامعلوم اسکارپیو گاڑی نے اسے روند دیا ، جس سے موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی ۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی بڑی تعداد میں لوگ پہنچ گئے اور گڑھ پورہ بیگوسرائے سڑک کو دو مقامات پر جام کر کے آمدورت ٹھپ کر دئے ۔ سڑک جام کرنے والے مشتعل لوگوں کا کہنا تھا کہ ایک بڑی بس کمپنی کے مالک کی اسکارپیو روزانہ انتہائی بے قابو رفتار سے گزرتی ہے۔ دونوں طرف گھنی آبادی کی وجہ سے کئی بار لوگوں نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ لیکن رفتار پر قابو نہ پایا جاسکا جس کی وجہ سے آج حادثہ پیش آیا۔

درگاہ پر چڑھایا گیا بھگوا رنگ،مقدمہ درج

درگاہ  پر چڑھایا گیا بھگوا رنگ،مقدمہ درج

ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سےمتصل نرمداپورم(ہوشنگ آباد) کی ایک درگاہ کو شر پسندوں نے توڑ پھوڑ کے بعد اس کو بھگوا رنگ سے رنگ دیا دیا۔

شرپسندوں نے ایک بار پھر ریاست میں فرقہ وارانہ اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں سمیری ہرچند روڈ پر واقع درگاہ کو شرپسندوں نے رات کے اندھیرے میں نہ صرف درگاہ میں توڑا بلکہ بھگوا رنگ سے رنگ دیا۔ جس کی وجہ سے علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پولیس نے مقامی مسلمانوں کی شکایت پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ کشیدگی کے پیش نظر پولیس نے موقع پر پہنچ کر جائے وقوعہ کا جائزہ لیا اور تفتیش شروع کردی۔

خیال رہے کہ حضرت مخدوم کی درگاہ نرمداپورم کے سمیری ہرچند روڈ پر درگاہ بڑا پیر کے قریب واقع ہے۔ یہاں تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں اور اپنی عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہرروز شام کو مجاور درگاہ میں چراغاں کرتے ہیں۔ صبح جب عقیت مند درگاہ پر حاضری کے لیے پہنچے تو دیکھا کہ اسے بھگوا رنگ سے رنگا ہوا دیکھا۔

درگاہ کے مجاور محمد خالد کا کہنا ہے کہ درگاہ کو بھگوا رنگ سے رنگنے والے شرپسندوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے پولیس انتظامیہ سے معاملے کی تحقیقات کرنے اور شرپسندوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے میں سخت کارروائی کی جائے۔

پولیس اسٹیشن انچارج ہیمنت سری واستو نے بتایا کہ سمیری ہرچند روڈ پر واقع درگاہ میں توڑ پھوڑ کےساتھ اندراورباہربھگوا رنگ پایا گیا۔ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔

بچوں کو اردو ضرور پڑھائیں:ڈاکٹر اطہر فاروقی

بچوں کو اردو ضرور پڑھائیں:ڈاکٹر اطہر فاروقی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار اختتام پذیر نئی دہلی،12مارچ:غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار اختتام کو پہنچا۔ "معاصر اردو ادب میں نئے تخلیقی روپے" کے عنوان سے منعقدہ غالب سمینار کے آخری روز کے پہلے سیشن کی صدارت ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کی۔

پروفیسر شافع قدوائی نے"تعزیری نظام کے خلاف مزاحمت کا استعارہ: اللہ میاں کا کارخانہ"،لندن سے تشریف لائے جاوید کاکرو نے"Contemporary Relevance Challenges And Prospects For Promotion Urdu Language"ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی نے"اردو افسانے کے رجحانات" کے عنوان پر اپنے مقالات پیش کیے۔

اختتام پر صدر اجلاس ڈاکٹر اطہر فاروقی نے اردو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 75برسوں سے اردو کی فکر کی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں بھی کی جاتی رہے گی۔ اردو کی بہتری اسی بات میں ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں، اگر ایسا نہیں کرتے ہیں تو لاکھ تقریریں کر لی جائیں کوئی فرق نہیں پڑتاہے۔

آپ تقریریں کریں اور دوسروں کے بچے اردو پڑھیں یہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شہزاد انجم نے کی۔ جب کہ پروفیسر خالد اشرف نے"اردو زبان کا بدلتا ہوا منظر نامہ اور چند اہم ناول"،پروفیسر ابن کنول نے"اردو افسانہ عہد حاضر میں"پروفیسر ثروت خان نے"ماضی کی بازیافت:اردو کے چند نئے ناولوں کے آئینے میں" کے عنوان پر اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے اپنے صدارتی خطبے میں فرداً فرداً سبھی مقالات پر سیر حاصل گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ 21ویں صدی ناول کا عہد ہے، اس زمانے میں کئی اہم ناول لکھے گئے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہماری تہذیب و ثقافت کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان تمام باتوں کو بھی معاصر ادب میں شامل کیا جانا چاہئے۔تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کی جب کہ پروفیسر غضنفرنے"اردو ناول کی تجدید اور پیغام آفاقی"پروفیسر صغیر افراہیم نے"اردو ناولون میں تہذیبی بازیافت"،اور ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے"اردو افسانہ اور نئی حقیقت نگاری"کے عنوان پر مقالات پیش کیے۔

سمینار کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کی اورپروفیسر علی احمد فاطمی کا مقالہ ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے پیش کیا۔ ڈاکٹر عرفان عارف نے"اردو افسانے کے نئے تخلیقی روپے اور رجحانات"، ڈاکٹر الطاف انجم نے"فائرنگ رینج کا بیانیاتی جائزہ" کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کہا کہ سمینار کا موضوع متاثر کن اور بحث انگیز ہے، مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس موضوع کو مرکز میں لاکر اس سمینار کا انعقاد کیا۔

سبھی پیپر اہمیت کے حامل تھے۔ اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی، اس موقع پر انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے سمیناروں کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کرے جو محض روایتی نہ ہوں بلکہ اس کے ذریعے نئے مباحث پر خاطر خواہ روشنی ڈالی جاسکے۔ یہ موضوع بھی اسی نوعیت کا تھا، مجھے خوشی ہے کہ تمام شرکاء نے بڑی محنت سے مقالے لکھے۔

پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اہم سوال ہے کہ معاصر کی تاریخ کا تعین کیسے ہو، کس قسم کے ادب کو معاصر کہا جا سکتا ہے۔ کیا وہ ادب معاصر کہلائے گا جو عصری،سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کی نمائندگی کر رہا ہے یا وہ جس کی پہچان ادبی پیمانون سے کی جاسکتی ہے۔

ایسے ہی بہت سے سوال اس سیمنار میں ابھرے ہیں اور ان کا سب نے اپنے اپنے طور پر جواب تلاشنے کی کوشش کی۔ مجھے امید ہے کہ جب ہم سبھی مقالوں کو یکجا دیکھیں گے تو کسی نتیجے پر پہچنے میں آسانی ہوگی۔پروفیسر انیس اشفاق نے کہا کہ میں عرصے سے اس سمینار میں شریک ہوتا رہا ہوں اور مجھے یہاں ہونے والے سمینار متاثر کرتے ہیں۔ ایوان غالب کا سمینار تخلیقی بصریتوں کا خیال افروز محاکمہ ہے، یہاں خیالات کی یکسانیت کے بجائے خیالات کے تصادم کی صورتیں بھی ہوتی ہیں۔ جس سے ہم ایسے نتیجے پر پہنچتے ہیں جو پہلے سے ہمارے ذہن میں نہیں ہوتا۔

پروگرام کے اختتام پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے بڑی خوشی ہورہی ہے کہ اس سمینار کے بنیادی موضوع 'معاصر ارو ادب کے تخلیقی رویے' پریہا ں جو مقالات پیش کیے گئے، ان سے ہمارے عہد کے ادبی میلانات اور صورت حال کاایک عمدہ خاکہ مرتب ہوتاہے۔ سمینار میں جو مقالات پیش کیے گئے ان میں اکثر کو سنتے ہوئے یہ محسوس ہواکہ یہ موضوع ایک سمینار میں سامنے والا نہیں ہے۔ زیادہ تر مقالہ نگارنے بڑی محنت اور ذمہ داری سے مقالے لکھے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ سمینار ایک فضاکی تشکیل کرتاہے وہ مباحب یاوہ گوشے جن کی طرف ہماری توجہ کسی وجہ سے نہیں ہوپاتی انہیں مرکز میں لے آتاہے۔ ہمارے یہاں کلاسیکی ادب پر بہت گفتگو ہوئی، جدید ادب پر بھی خاصا لکھا گیالیکن جدید ادب جس سے میری مراد معاصر ادب ہے ایک دھند کی سی کیفیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ یعنی وہ کون سے میلان ہیں جو پیش رو میلانات سے مختلف ہیں جن کی بنیاد پر ہمارا معاصر ادب اپنا وجود ثابت کررہاہے اور ہماری فہم کی بھی آزمائش کررہاہے۔ لیکن سمینارکی ایک خامی یہ بھی ہے کہ یہ بہت دنوں تک ہمارے ذہنو ں میں تازہ نہیں رہتا۔ یہ فریضہ کتاب ادا کرتی ہے اور جیسا کہ ہمارا روایت رہی ہے ہم بہت جلد ان مقالات کو کتابی شکل میں بھی شائع کریں گے۔

مجھے پورا یقین ہے کہ جب یہ کتاب منظرعام پر آئے گی تو اس موضوع پر اس کی حیثیت حوالے کی ہوگی۔ میں اعتراف کرتاہوں کہ اس کی علمی حیثیت آپ کی کاوشوں اور ذکاوتوں کے نتیجے میں ہوگی۔ لہٰذا آپ دوتین مہینے میں اپنے مقالے اور متعلقہ موضوع سے متعلق جتنا اضافہ کرنا چاہیں وہ اس کتاب کے حق میں مفید ہوگا۔

میں فرداً فرداً سب کا نام لوں تو ممکن ہے کہ کسی کا نام چھوٹ جائے میں تمام مقالہ نگار، صدور اور شرکاکادل کی گہرائیوں سے سے شکریہ ادا کرتاہوں اور آئندہ بھی آپ کے تعاون کی امید رکھتا ہوں۔ ایک ضروری بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ تمام شرکا کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، اس کے باوجود اگر ہماری طرف سے کچھ کمی رہ گئی ہوتو اسے در گزر فرمائیں۔ہاں ذاتی طور پرہمیں مطلع فرمائیں تاکہ ہم اس کا آئندہ خیال رکھیں۔اس موقع پر یونیورسٹیز کے ریسرچ اسکالرز کوسرٹیفکیٹ اور کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔ شام میں اردو ڈرامہ"مشاعرہئ رفتگاں" پیش کیا گیا، تحریر و ہدایت کار ڈاکٹر محمد سعید عالم کی نگرانی۔جب کہ پیش کش تھی 'ہم سب ڈرامہ گروپ(غالب انسٹی

وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں

*وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں
یہ مہینہ شعبان المعظم کا ہے۔دوچار دن بعد ہی شب برأت کی وہ قیمتی رات آنے والی ہےجسکی فضیلت صحاح ستہ سے ثابت ہے۔اس موقع سے منبر ومحراب اور اجلاس کے اسٹیج سے اس مغفرت والی رات پر خوب خوب بات کی جاتی ہے۔بالخصوص اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وہ روایت جسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہے کہ:رب العزت نصف شعبان کی شب کو آسمان دنیا میں نزول فرماتے ہیں، بنوکلب کی بکریوں کے بال برابر لوگوں کی بخشش اور مغفرت کا سامان کرتے ہیں،یہ روایت اس عنوان پر پیش کی جاتی ہے۔ساتھ ہی ابن ماجہ کی روایت جو حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مشرک اور کینہ پرور شخص کی مغفرت نہیں ہوتی ہے، لگے ہاتھ اسے بھی بیان کر دیتے ہیں۔
یہ تقریر سنکر ایک صاحب ایمان نے اپنی بات رکھی ہے ۔موصوف کہتے ہیں کہ: میرے سگے بھائی ہیں،سالوں سے گفت وشنید نہیں ہے۔میں نے یہ سن رکھا ہے کہ صاحب ایمان کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ اپنے ایمان والے بھائی سے تین دن سے زائد گفت وشنید چھوڑ دے۔پھر ایسے کینہ پرور اور قطع رحمی کرنے والے کی بخشش نہیں ہوتی ہے۔
یہ تو میرے ایمانی بھائی ہی نہیں بلکہ سگے بھی ہیں، میں تعلق بحال کرنا چاہتا ہوں، جب بھی وہ نظر آتے ہیں، سلام کرتا ہوں ،مگر وہ اپنا چہرہ پھیر لیتے ہیں،سلام کا جواب تک نہیں دیتے ہیں،ایسا کئی سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔بقول عاجز؛
وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں 
محبت ہے ادا کاری نہیں ہے۔

یہ واقعی بہت ہی اذیت ناک اور ایک صاحب کے لیے کربناک بھی ہے۔یہ واقعہ شاذ نہیں ہے بلکہ ہم سبھی ملک کے جس خطہ میں آباد ہیں، اسے سیمانچل کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، ڈھیروں واقعات اس نوعیت کے دیکھنے میں آتے ہیں۔افسوس تو اس بات پر ہے کہ حدیث شریف میں ہے منھ پھیرنے کی بات بھی لکھی ہوئی ہےاور اس کا حل بھی پیش کیا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ؛
 کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ تین دن سے زائد ترک کلام کرے، جب دونوں ملے تو وہ ادھر چہرہ پھیر لے اور یہ ادھر،ان دونوں میں بہتر وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے (مسلم)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سلام سے قبل منھ پھیرنے کا موقع ہوسکتاہے، مگر سلام کے بعد اس عمل کاکوئی محل نہیں ہے۔ مذکورہ واقعہ میں یہ آخری درجہ کی ایمان والے سگے بھائی سے نفرت اور دوری معلوم ہوتی ہے، اس کے لیے مذہب اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اس مغفرت والے مہینہ میں بالخصوص شب برأت کی فضلیت حاصل کرنے کے لیے اس عنوان پر زمینی کوشش کی آج ضرورت ہے۔
سلام کرنے والے کو بظاہر یہاں یہ خوف ہورہا ہے کہ میری گفتگو بند ہے، اس کا گناہ گار میں بھی ہوں گا،شرعی اعتبار سے یہ خیال درست نہیں ہے۔وہ اس لیے بھی کہ انہوں نے شرعی طریقہ پر رہنمائی کی گئی باتوں پر عمل کرلیا ہے۔اب یہ تارک کلام کا گناہ گار نہیں ہے۔البتہ ہاں! منھ پھیر کر اس کے بھائی نے پھر غیر شرعی عمل کا ارتکاب کرلیا ہے بلکہ صاف زبان میں یہ کہا جائے کہ اس کی شامت آگئی ہے۔اعاذنا الله من ذالك. 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...